Reerh Ki Haddi - Article No. 2179

Reerh Ki Haddi

ریڑھ کی ہڈی - تحریر نمبر 2179

وہ اب بھی صبح سے صحن میں بیٹھے بے چینی کا شکار تھا کہ اچانک موبائل کی ٹیون بجی اس نے جیسے ہی دیکھا ساری کی ساری بے چینی کافور ہوگئی اس کے خیالات کے سہمے پنچھی پھر سے اٹکھیلیاں کرنے لگے

حامد المجید جمعہ 1 نومبر 2019

باد سحر کے ٹھنڈے جھونکے اس کے دل میں مرجھائے سکون کے گلوں کو تازہ دم کرنے کی سعی میں تھے۔۔۔مگر حیدر کے دل پہ چھائی بے چینی بڑھتی ہی جارہی تھی۔۔ ''کیا! میری بات اثر کرے گی یا وہ ویسا ہی رہے گا۔۔۔اگر وہ نہ سمجھا تو'' پریشانی و اداسی نے اس کے وجود پہ مکمل طور پہ قبضہ جما لیا تھا۔۔چند دن پہلے سوچ کے جو پنچھی خیالات کی شاخوں پہ اٹکھیلیاں کررہے تھے اب سہمے بیٹھے تھے۔
''خیال'' اسے اپنے ساتھ پھر اسی جگہ لے گیا جہاں سے بے چینی کا آغاز ہوا تھا۔۔۔۔ صفوان سے حیدر کی ملاقات کل یونیورسٹی سے واپس آتے ہوئے بس میں ہوئی تھی۔حیدر کے ساتھ بیٹھتے ہی اس نے ایسے سلام کیا جیسے وہ بہت عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔حیدر نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے ایک سرسری سی نظر اس کے چہرے پہ ڈالی جہاں اطمینان کے بادل سایہ فگن تھے وہ اپنی توجہ ہٹانا چاہتا تھا پر نظریں اس کے چہرے پہ رک گئیں۔

(جاری ہے)

۔صفوان بیگ جھولی میں رکھ کہ اب موبائل پہ مشغول ہوگیا تھا۔اس کی انگلیاں بڑی تیزی سے موبائل کی پیڈ پہ رقص کناں تھیں اور چہرے پہ ہلکی ہلکی مسکراہٹ پھیل رہی تھی۔''کیا کرتے ہیں آپ!'' صفوان نے ایک نظر حیدر پہ ڈالتے ہوئے پوچھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔''میں ماسٹرز کررہا ہوں'' واااہ پھر تو ہم دونوں کی ایک ہی منزل ہے صفوان نے کہا اور پھر موبائل کی طرف متوجہ ہوگیا۔
۔۔ کافی دیر دیکھنے کے بعد حیدر نے حیرت سے اسے پوچھا ''کیا لکھ رہے ہیں آپ؟''''میں تحریر لکھ رہا ہوں'' صفوان نے جواب دیا۔۔اچھا تو آپ ماشاء اللہ لکھاری ہیں۔۔جی میں سوشل میڈیا کی دنیا کا ایک اچھا لکھاری ہوں۔۔''واااااہ کیا ہم آپ کی تحریر سے مستفید ہوسکتے ہیں'' ''جی کیوں نہیں!“ صفوان نے اپنا موبائل حیدر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔ ''آپ واقعی ہی اچھے قلمکار ہیں اور خوب لکھتے ہیں پر مجھے آپکی یہ تحریر پسند نہیں آئی'' حیدر نے کچھ دیر پڑھنے کے بعد کہا۔
۔صفوان کے چہرے سے اطمینان اچانک سے غائب ہوگیا۔۔اچھا تو اپ کو اس میں کیا کمی لگی۔ ''چلیں بتائیں تو میری تحریر کی کون سی بات آپکو پسند نہیں آئی''۔۔صفوان نے بڑے تحمل سے پوچھا۔۔بھائی اصل میں بات یہ ہے کہ جو ہمارے محافظ ہیں ہمیں ان کا پشت بان بننا چاہیے نا کہ کسی کی باتوں میں آکہ ان کی پشت میں چھرا گھوپنا چاہیے۔۔ حیدر نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
۔''میں آپ کی بات سمجھا نہیں آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں''۔۔آپ کی تحریر میں بجائے دشمن عناصر کو نشانہ بنانے کے محافظوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔۔صفوان نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا تو پھر اس میں کوئی جھوٹ تو نہیں ہے اور تخلیق کار سچ ہی لکھتا ہے اور اسے لکھنے میں بالکل نہیں گھبراتا۔۔تو آپ سچ لکھیں نا لوگوں کی باتوں میں آ کہ اپنے قلم و قرطاس کو بے مقصد نہ بنائیں۔
حیدر کی باتوں سے اس کے ماتھے پہ سلوٹیں ابھر آئی تھیں'' تو آپ کہنا کیا چاہتے ہیں''''گرمیوں کی تپتی دوپہر اور سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں سرحد پہ کھڑا محافظ ہمہ تن ہماری حفاظت پہ مامور ہے اور ہم انہی کے ہی دشمن بنے ہوئے ہیں آپ ایک اچھے تخلیق کار ہیں اور تب تک ہی اچھے ہیں جب آپ اچھائی اور بُرائی کی تمیز کرتے ہوئے لکھیں گے''حیدر کی باتیں اس کے دل میں کچھ روشنی پھیلا رہی تھی۔
۔ ''آپ اپنے قلم کا سہی استعمال کریں'' حیدر نے چہرے پہ مسکان سجائے اسے بڑے پیار سے کہا۔صفوان ابھی کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ موبائل کی رنگ ٹون بجنے لگی اس نے فون کان کے ساتھ لگایا اور حیدر کو کچھ اشارہ کرنے لگا حیدر نے اسے اپنا موبائل تھمایا جس پہ اس نے نمبر لکھا اور حیدر کو واپس پکڑا دیا۔صفوان اب اترنے کی تیاری کر رہا تھا شاید اس کا سٹاپ آگیا تھا حیدر کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے اس نے سلام کیا اور آگے بڑھ گیا۔
۔ حیدر کی نظریں اسی کے پیچھے تھی اور دیکھتے دیکھتے وہ منظر سے غائب ہوگیا۔حیدر نے موبائل پہ لکھا ہوا نمبر سیو کیا اور اسے میسج کردیا ''آپ کے جواب کا انتظار رہے گا''۔گھر پہنچنے کے بعد بھی وہ اس کے رپلائی کا انتظار کرتا رہا پر کوئی پیغام موصول نہیں ہوا۔۔وہ اب بھی صبح سے صحن میں بیٹھے بے چینی کا شکار تھا کہ اچانک موبائل کی ٹیون بجی اس نے جیسے ہی دیکھا ساری کی ساری بے چینی کافور ہوگئی اس کے خیالات کے سہمے پنچھی پھر سے اٹکھیلیاں کرنے لگے۔۔اسے پڑھ کہ خوشی ہوئی کہ ایک قلمکار کی اصلاح ہوئی۔''میں ریڑھ کی ہڈی بنوں گا نہ کہ کسی کے ہاتھوں کا کھلونا''

Browse More Urdu Literature Articles