Saahil - Article No. 1437

Saahil

ساحل - تحریر نمبر 1437

پُتر امریکہ ہم سے سو سال آگے نہیں بلکہ چودہ سو سال پیچھے ہے۔ اور یاد رکھو! اگرچہ سمندر میں بے شمار فوائد ہیں مگر سلامتی صرف ساحل ہی پر ہے

Tariq Baloch Sehrai طارق بلوچ صحرائی بدھ 16 اگست 2017

رب کو اپنے معجزات سے بہت پیار ہے، جو اس کے معجزات سے پیار کرتا ہے وہ اس کو اپنا قرب عطا فرماتا ہے۔ معجزات دوام کی کشتی پر سوار ہوتے ہیں جو آب حیات کے دریا میں سفر کرتی ہے۔ معجزے کا ایک اعجاز یہ بھی ہے کہ اس میں تقسیم نہیں ہوتی صرف ضرب ہوتی ہے۔ معجزہ راہ حق سے ڈرانے والے سب سانپوں کو نابود کر دیتا ہے اور خدائی کے دعویدار فرعونوں کو نشانِ عبرت بنا دیتا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا بھی ایک معجزہ تھا اور پاکستان کا قیام بھی ایک معجزہ ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک اپنے اور اغیار سب اس کو لوٹ رہے ہیں۔ مگر تقسیم ضرب میں بدل گئی ہے، لوٹنے والوں کی دنیا بھی لٹ گئی اور آخرت بھی مگر یہ معجزہ روز بروز ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے، اس کو نقصان پہنچانے والے سانپ اس عصا سے خوفزدہ بیٹھے ہیں اور فرعون وقت دریائے نیل کی تاریخ کو مدنظر رکھ کر دور بیٹھا صرف غرانے پر اکتفا کئے ہوئے ہے۔

(جاری ہے)

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں 23 مارچ 1940ء کو قوم کے اندر وہ کیا جوش، عزم اور ولولہ تھا کہ جس کے آگے دشمن غبار اور تاریخ کے ایوان سرنگوں ہوگئے ہیں، میں سمجھتا ہوں یہ دیس کسی اور کے لئے تو کچھ اور ہوسکتا ہے مگر میرے لئے تو یہ میرا ایمان ہے۔ میرے دوست ہجرت تو یثرب کو مدینہ بنانے اور مخلوقِ خدا کو استحصال سے نجات دلانے کے لئے کی جاتی ہے اور تم دنیا کمانے کے لئے ہجرت کرنا چاہتے ہو، پیٹ سے سوچتے رہنے سے تو ترتیب غلط ہو جایا کرتی ہے، معاش پہلے نمبر پر اور محبت آخری نمبر پر چلے جایا کرتی ہے اور پھر انسان منزل کا پتہ راہزن سے پوچھنے لگتا ہے اور اقتدار کے ایوانوں میں قارون براجمان ہو جایا کرتے ہیں۔
خالد مسعود پھر بھی امریکا چلا گیا حالانکہ ایئرپورٹ پر رخصت کرتے ہوئے میں نے اس سے یہ بھی کہا تھا کہ اس ملک کو تمہاری ضرورت ہے، اتنا پڑھ لکھ کر بھی تم وہاں لیبر کلاس والی نوکریاں کرو گے، میرے دوست کچے مکان کو بارشوں میں فروخت نہیں کیا کرتے کچھ دام نہیں ملتے، دولت اگر اتنی اہم چیز ہوتی تو جس کے ایک اشارے پر اُحد کا پہاڑ سونے کا بن سکتا ہو وہ یہ دعا نہ فرماتے کہ اے میرے رب روزِ قیامت مجھے مساکین میں سے اٹھانا۔
نفس منہ زور ہو جائے تو آدمی خواہشات کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان مال و زر اور مزید کی خواہش نے پہنچایا ہے۔ یاد رکھو قناعت سے بڑی کوئی دولت نہیں۔ وہ جب رخصت ہونے لگا تو اس کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں، میں نے کہا خالد مسعود تم مجھے اور اپنی ماں کو دکھی کر کے جا رہے ہو، فطرت کا قانون ہے دکھ دینے والے کو کبھی سکھ نہیں ملتا، انسان آرزوؤں کو پورا کرنے کے چکر میں پڑ جائے تو یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے جس کی کوئی انتہا نہیں، میرے دوست انسان کی زندگی ایک کشتی کی مانند ہے، اس کے لئے اتنا ہی پانی چاہئے جس میں یہ کشتی بآسانی تیر سکے، کشتی تو ندی میں بھی چل سکتی ہے پھر سمندروں کی گہرائی میں جانے کا کیا فائدہ۔
آگ اور پانی کے کھیل میں دھواں ضرور ہوتا ہے۔ سفر کرنا ہے تو اندر کا کرو کیونکہ یکتائی کے ہجر میں بھی وصل کا مزہ ہوتا ہے۔ میرے بھائی پردیس اس سوتیلی ماں کی طرح ہوتا ہے جس کو راضی کرتے کرتے حقیقی ماں بھی ناراض ہو جاتی ہے مگر وہ راضی نہیں ہوتی۔ پردیس میں ایک انجانا، ان دیکھا خوف ہر انسان کے پیچھے ایک سائے کی طرح لگا رہتا ہے۔ شناخت کی خواہش پالو گے تو حسرت کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
چھن جانے کا آسیب تمہارے اندر بسیرا کرلے گا۔ اور پھر تم بازارمیں آویزاں اس مجسمے کی طرح بن جاؤ گے جو دھوپ، گرد اور بارش کی وجہ سے اپنی اصل شکل بھی کھو دیتا ہے اور پھر تمہارا فخر صرف اتنا ہی رہ جائے گا کہ میرے بچے بہت اچھی انگریزی بولتے ہیں، کیا میرے دیس میں سب گونگے بستے ہیں، کیا چین نے انگریزی کی وجہ سے ترقی کی ہے؟ میری ایک نصیحت ہمیشہ یاد رکھنا۔
اپنے اندر غارِ حرا کو زندہ ضرور رکھنا۔ اسے مجھ سے جدا ہوئے ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر میں نے اس کی یاد سے کبھی ہجرت نہیں کی۔ اس کی یاد کی پائل میرے کانوں میں مسلسل چھنچھناتی ہے، اس کے ساتھ گزرا ماضی میرے اندر رقص کرتا ہے۔ وہ پردیس جا کر مجھے بھول گیا تھا، اس نے مشرق کی بادِ صبا کو چھوڑ کر مغرب کے ہوا کے بگولے کا انتخاب کیا تھا، شاید تیزی اور دولت کا اژدھا اسے بھی نگل گیا تھا۔
مجھے نہیں معلوم لوگ دولت سے کیا خریدنا چاہتے ہیں؟جو چیز خریدی جاسکتی ہو کبھی ارفع و اعلیٰ ہوسکتی ہے؟ اعلیٰ و ارفع تو صرف انمول ہوتا ہے، جس کو خریدا نہ جاسکے وہی قائداعظم ہوتا ہے، امریکہ کے باسیوں کے اندر برموڈا تکون ہے جس میں ان کے وقت کے جہاز ہر لمحہ غرق ہوتے رہتے ہیں، ان کی یادداشت بہت تیز ہے، یہ خیبر کی شکست کو ابھی تک نہیں بھولے۔
برموڈا تکون تو میرے اندر بھی ہے جہاں اس کی یاد کی کشتیاں میرے وجود کو لئے ہر لمحہ غرق ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی کبھی وہ مجھے اس دیومالائی کہانی کی طرح لگتا ہے جس کا جھوٹ سچ کو مات کر دیتا ہے، وہ مجھے کیوں یاد کرتا؟ امریکہ میں تو یاد کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا مگر اس کی یاد میرے وجود میں اس طرح سرایت کرتی ہے جیسے جاڑے کے موسم میں تاریک جنگلات میں اترتی ہوئی یخ بستہ دھند۔
دریا کے پانیوں میں مچلتی ہوا میرے دل میں اس کی یاد کو محو ہونے نہیں دیتی اور دسمبر کی بھیگتی تنہائی میں اس کی یاد کے کنکر میرے اندر جھیل جیسی گہری خاموشی میں ہلچل مچا دیتے ہیں۔ میری ہر رات اس کی یاد کے خیمے میں بسر ہوتی ہے۔ میرا چھوٹا سا گاؤں دریائے جہلم کے کنارے واقع ہے جس کی سرسبز زمین پر لہراتے سبز اشجار گاتے پرندوں کے بغیر اداس ہو جاتے ہیں، یہ پودے ان پرندوں سے اولاد کی طرح پیار کرتے ہیں۔
پرندوں کی غیر موجودگی میں پودے ان کی باتیں تتلیوں کو سناتے رہتے ہیں اور جب شام کو پرندوں کے قافلے درختوں پر اپنے اپنے گھونسلوں کو لوٹتے ہیں تو یہ ان کو گود میں لے کر خوشی سے جھومنے لگتے ہیں۔ پھر رات کو یہ درخت نانی، دادی بن جاتے ہیں اور پرندوں کو چندا ماموں کی کہانیاں سناتے ہیں جس کو سننے جگنو بھی پہنچ جاتے ہیں۔ درخت ہمیشہ مسکراتے رہتے ہیں، شاید اس لئے کہ یہ ہجرت کے دکھ سے ناآشنا ہوتے ہیں۔
میں اور خالد مسعود پہلی کلاس سے یونیورسٹی تک اکٹھے پڑھے تھے، ہم ایک دوسرے کے بغیر ادھورے تھے، مجھے اس سے مل کر اتنی خوشی ہوتی تھی جتنی ایک ننھے سے بچے کو اپنے ننھے ننھے پاؤں میں اپنے باپ کا بڑا جوتا پہن کر ہوتی ہے۔ ایم اے کرنے کے بعد اس کا استقبال بے روزگاری نے کیا۔ پھر اچانک اس پر امریکہ جانے اور دولت کمانے کا جنون سوار ہوگیا، میرے بار بار سمجھانے کے باوجود بھی یہ بھوت اس کے سر سے نہ اترا، کہنے لگا تم بھی میرے ساتھ چلو، وہاں پیسہ بھی ہے اور مرضی کی زندگی بھی، وہاں ہر آدمی اپنی زندگی خود گزارتا ہے، کوئی دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرتا، وہاں آزادی ہی آزادی ہے۔
میں نے مسکرا کر کہا خالد مسعود آزادی اور محبت دو سوکنیں ہیں جو بیک وقت خوش نہیں رہ سکتیں۔ آزادی میں محبت اور محبت میں آزادی نہیں ملتی۔ اور میرے دوست ساحل کو کبھی نہیں چھوڑتے اور یاد رکھو۔ ”انسان اسی روز مر جاتا ہے جس دن سے وہ اپنی ذات کے لئے جینا شروع کر دیتا ہے۔“ مجھے یقین تھا وہ ایک دن ضرور آئے گا کیونکہ میں جانتا تھا وہ ان لوگوں میں سے تھا جن کا ہاتھ بجھے چراغ سے بھی جل جاتا ہے۔
کسی کام کے سلسلے میں مجھے لاہور جانا پڑا، ایک ہفتے کے بعد جب میں گاؤں پہنچا تو گھر جانے کی بجائے دریا کے کنارے آ بیٹھا اور رقص کرتی ہوئی لہروں سے محظوظ ہونے لگا، جو لہروں کے رقص نہ سمجھ سکے وہ اپاہج روح لئے پھرتا ہے، دریا کی لہروں میں جنت رقص کرتی ہے، میں سمجھتا ہوں انسان کو ہفتہ میں کم از کم ایک روز ضرور دریا کی سیر کرنا چاہئے، ایسا کرنے سے دل کو سکون، دماغ کو تازگی اور روح کو بالیدگی ملتی ہے۔
شاید یہی وجہ تھی کہ سکون اور محبت کی دولت بانٹنے والے فقیروں، درویشوں اور سادھوؤں نے دریا کے کنارے ہی اپنا مسکن بنایا، جس طرح شادی کے دن دلہن سے زیادہ خوبصورت کوئی نہیں ہوتا اسی طرح دسمبر کی رم جھم میں دریا سے زیادہ خوبصورت منظر کوئی نہیں ہوتا۔ ابھی میں دریا کے سحر میں ڈوبا خواب و خیال کی کشتی میں رواں ہی تھا کہ فتح محمد دوڑتا ہوا آیا۔
رانا صاحب آپ کب آئے لاہور سے، آپ کو پتہ ہے خالد مسعود امریکہ سے واپس آگیا ہے، مستقل، کبھی نہ جانے کے لئے، بہت خوش ہے، آپ ہی کا بار بار پوچھتا ہے، کہتا ہے مجھے نہیں معلوم میں واپس کیوں آیا، سب سے یہی سوال کرتا ہے میں واپس کیوں آیا؟ اب بھی ماں کی قبر سے لپٹ کر رو رہا ہے، فتح محمد نے ایک ہی سانس میں سب کچھ بتا ڈالا۔ اپنے اندر غارِ حرا رکھنے والے لوگ واپس ضرور آیا کرتے ہیں فتح محمد، مجھے یاد آگیا جس روز خالد مسعود کی ماں سفر آخرت پر جا رہی تھی مجھے غور سے دیکھتے ہوئے کہنے لگی پتر اللہ تجھے کبھی جدائی کا دکھ نہ دے، اللہ کسی کو بھی کسی سے جدا نہ کرے، روزِ قیامت اللہ کے حضور گواہی دینا میں اپنے بیٹے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک خالد مسعود کو معاف کر کے جا رہی ہوں، اے 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والے رب! تو بھی اس کو معاف فرما دینا، پھر انہوں نے کلمہ پڑھا اور ہم سے جدا ہو گئیں، جب میں نے ان کی آنکھیں بند کیں تو وہ رو رہی تھیں مگر بنا آنسوؤں کے، مجھے اس دن گیان ہوا جو لوگ خشک اور ویران آنکھیں لئے پھرتے ہیں وہ اندر سے مر چکے ہوتے ہیں۔
یہ مشرق کی مٹی کا خمیر بھی نہ جانے کہاں سے لیا گیا ہے۔ جب میں نے ان کی آنکھیں بند کیں تو ان آنکھوں میں ایک بھی شکوہ شکایت نہ تھا، ان آنکھوں کے صحرا میں صرف اور صرف انتظار ہی کی ریت تھی۔ خالد مسعود مجھ سے مل کر بہت رویا، ہم رات بھر دریا کے کنارے بیٹھے باتیں کرتے رہے، وہ امریکہ میں گزرے گیارہ سال کا احوال سناتا رہا۔ مگر میں اس سے اپنی جاگی ہوئی راتوں کا حساب نہ مانگ سکا۔
ماں وقت کو بھی بچوں کے حوالے سے یاد رکھتی ہے اور میں وقت کو خالد مسعود کے حوالے سے یاد رکھتا ہوں، خالد کو واپس آئے دو ساون گزر چکے ہیں، اس نے کاشت کاری شروع کر دی ہے، کہتا ہے یہ شعبہ فطرت کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ ایک دن کہنے لگا میرے لئے دعا کرو میں نیک ہو جاؤں، میں مسکرایا، کہنے لگا کیا میں نے غلط کہا ہے؟ میں نے کہا خالد مسعود ہمیشہ دعا مانگو اللہ ہمیں پسند کر لے۔
نیک تو پھر بد ہوسکتا ہے مگر جس کو وہ پسند کرلیتا ہے اس کو کبھی ناپسندیدہ نہیں ہونے دیتا، ایک دن کہنے لگا یار وہاں لوگوں کی عمریں بڑی لمبی ہوتی ہیں، شاید اس لئے کہ وہاں میڈیکل کا شعبہ بہت ایڈوانس ہے مگر کچھ بیماریوں کا علاج ان کے پاس بھی نہیں ہے، میری بیماری کا علاج بھی ان کے پاس نہیں تھا مگر میں یہاں آکر ٹھیک ہو گیا ہوں، میں نے اپنے عزیز و اقارب اور فیملی سے معافی مانگ لی ہے، انہوں نے مجھے معاف بھی کر دیا ہے۔
میں نے امریکہ سے کمایا سارا پیسہ ان میں بانٹ دیا ہے، وہ سارے اب بہت خوش ہیں۔ میں نے کہا خالد مسعود عمریں لوگوں کی نہیں قبروں کی ہوتی ہیں، انسان کی اصل عمر اس کے مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ یقین نہیں آتا تو حضرت عثمان علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش، حضرت بابا فرید، حضرت میاں میر، حضرت بہاؤ الدین زکریا، حضرت شہباز قلندر، حضرت علامہ اقبال اور حضرت قائداعظم رحمتہ علیہ کی قبروں کو دیکھو، صدیوں بعد اب بھی زندہ ہیں، باقی رہی مغرب کی زندگی تو معاف کرنا مغرب بھنور کا مسافر ہے۔
بھنور کو زندگی نہیں کہتے، زندگی سکون کا نام ہے۔ طوفان اور باد صبا کا فرق تو تم جانتے ہی ہو، یہی فرق مغرب اور مشرق کا ہے۔ سوال شور پیدا کرتا ہے اور جواب سکوت، مغرب سوال ہے اور مشرق اس کا جواب، کیا آبشار اور آتش فشاں ایک ہوسکتے ہیں؟ امریکہ اور یورپ میڈیکل کے شعبہ میں بہت ایڈوانس سہی مگر بدقسمتی سے ان کے پاس ایک طریقہ علاج نہیں، اس طریقہ علاج میں مریض سو فیصد تندرست ہو جاتا ہے۔
اس طریقہ علاج میں مرض الموت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کا مکمل علاج موجود ہے۔ یہ طریقہ علاج صرف اور صرف مشرق کے پاس ہے۔ وہ کیا؟؟ صلہ رحمی اس نے حیرانی سے میری طرف دیکھا، میں نے کہا: ہاں میرے دوست یہ ایسا طریقہ علاج ہے جو لوگ اب بھولے ہوئے ہیں، اس طریقہ علاج میں کامیابی کا تناسب سو فیصد ہے۔ تم صحیح کہتے ہو، میں بھی اسی طریقہ علاج سے صحت یاب ہوا ہوں مگر لاشعوری طور پر، اب میرے صرف ایک سوال کا جواب دے دو۔
کیا؟ تم امریکہ کیوں نہیں گئے اور میں واپس کیوں آیا؟ یہ ایک نہیں دو سوال ہیں۔ میں نے کہا سنو، میں اس لئے امریکہ نہیں گیا کیونکہ میں زندگی کا فلسفہ سمجھ گیا تھا جو تم نہیں سمجھے تھے، یہ بات جو میں اب کرنے لگا ہوں میں اس وقت کرتا جب تم امریکہ جا رہے تھے تو تم کبھی نہ سمجھ پاتے مگر مجھے یقین تھا کہ تم ایک دن ضرور لوٹو گے۔ میرے دوست روایت ہے اللہ نے اپنے نور سے ایک نور پیدا کیا جسے روحانیت میں نور المروارید کہتے ہیں، اس نور سے رحمت اللعالمین کی تخلیق کی، پھر اس نور المروارید کے قلبی حصے سے ایک اور نور پیدا کیا جسے نور الہدیٰ کہتے ہیں۔
جب نور المروارید سے نور الہدیٰ کو پیدا کیا تو نور المروارید شرم و حیا کے پردے میں چلا گیا، جس کے نتیجے میں محبت پیدا ہوئی۔ اس محبت نے پھر تمام چیزوں کو جنم دیا، اس لئے کہا جاتا ہے کہ کائنات آپ کی محبت کے نتیجے میں پیدا ہوئی، اسی لئے آپ کو وجہ تخلیق کائنات کہتے ہیں۔ پروردگار عالم کی رحمت دیکھیں اس نے سرکارِ دوعالم کی محبت تمام مخلوق میں ڈال دی ہے چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، اسی لئے ہمیں چاہئے جو سرکار سے محبت کرتا ہے ہم بھی اسی سے محبت کریں۔
میرے دوست یہ جو انسانی وجود ہے وہ محبت کی توانائی سے چلتا ہے۔ جتنا اس وجود سے کام لینا چاہتے ہیں اس میں اتنی ہی مقدار محبت کی ڈالتے جائیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محبت کو کہاں سے لائیں، تو میرے دوست محبت شرم و حیا کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے، تو جتنا شرم و حیا کو بڑھاتے جائیں گے محبت کی مقداربڑھتی چلے جائے گی۔ اب امریکہ کو دیکھیں، وہاں آپ کو محبت نہیں ملے گی کیونکہ محبت شرم و حیا کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے اور وہاں شرم و حیا نہ ہونے کے برابر ہے، اس لئے وہاں محبت کی مقدار بھی کم ہے، محبت کے بغیر انسان اس مریض کی طرح ہے جس کے سانسوں کا تسلسل Ventilator کا مرہون منت ہوتا ہے، محبت کے بغیر دل صحرا میں واقع اس قبرستان کی مانند ہے جہاں جون کی گرمی میں دن کو صرف تنہائی کی لو چلتی ہے اور رات کو خاموشی اور سناٹے کی دھول قبروں کے نشان مٹانے کو کوشاں رہتی ہے۔
اور اب رہا تمہارے دوسرے سوال کا جواب، تو سنو بچپن میں سنی باتیں اور واقعات ہمارے لاشعور کا حصہ بن جاتے ہیں، انہی سے ہمارے رویے اور کردار تشکیل پاتا ہے، اکثر اوقات وہ الفاظ و واقعات بھول جاتے ہیں مگر ان کا مفہوم ہمارے لاشعور میں موجود رہ کر ہماری پسند و ناپسند پر اثرانداز ہوتا رہتا ہے۔ ہم بہت چھوٹے تھے تو تمہارے دادا نے ایک بات کہی تھی جو تم یقیناً بھول چکے ہو مگر مجھے وہ بات اب بھی یاد ہے، شاید اس لئے بھی کہ میں تم سے ایک سال بڑا ہوں۔
اسی لئے مجھے اس بات کا مکمل یقین تھا کہ تم ضرور واپس لوٹو گے۔ کیا؟؟ وہ بات کیا تھی میرے دوست! خالد مسعود نے اضطراب اور بے چینی سے پوچھا۔ مجھے اب بھی حرف حرف یاد ہے جب تمہارا باپ تمہارے دادا سے امریکہ جانے کے لئے اجازت مانگنے اور قائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہہ رہا تھا امریکہ تو ہم سے سو سال آگے ہے، پاکستان تو ایک جھیل کی مانند ہے اور اس کے مقابلے میں امریکہ ایک سمندر ہے، دنیا جہاں کی دولت اور ترقی کی موجیں اسی سمندر میں رواں ہیں۔
پیسے اور کامیابی کے خزانے اسی سمندر میں دفن ہیں۔ وقت کے ساتھ چلنے والے اسی سمندر میں غوطہ زن ہیں۔ اس وقت تمہارا دادا رو رہا تھا، اس نے حسرت بھری نگاہ اپنے اکلوتے بیٹے پر ڈالی اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا: پُتر امریکہ ہم سے سو سال آگے نہیں بلکہ چودہ سو سال پیچھے ہے۔ اور یاد رکھو! اگرچہ سمندر میں بے شمار فوائد ہیں مگر سلامتی صرف ساحل ہی پر ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles