Sanata - Article No. 2301

Sanata

سناٹا - تحریر نمبر 2301

سنسان سڑک پر دو مہین سے سائے چلتے ہوئے اچانک رک گئے اور سپاٹ لہجے میں کسی قدر کرخت سی مدہم سرگوشی بلند ہوئی "کیا واقعی تمھیں نیند آجاتی ہے؟" میں نے رُکتے ہوئے کسی قدر تاَسف سے اُس سے سوال کیا

Ahmad khan lound احمد خان لنڈ ہفتہ 4 اپریل 2020

سنسان سڑک پر دو مہین سے سائے چلتے ہوئے اچانک رک گئے اور سپاٹ لہجے میں کسی قدر کرخت سی مدہم سرگوشی بلند ہوئی "کیا واقعی تمھیں نیند آجاتی ہے؟" میں نے رُکتے ہوئے کسی قدر تاَسف سے اُس سے سوال کیا۔اُس نے بے ثباتی سے صرف اثبات میں سر کو جنبش دی ۔میں اس موضوع پر اُس سے بالکل بھی بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔میں جانتا تھا کہ وہ پہلے ہی مجھ سے اس واویلا پر خفا ہے،میں اس سے قبل بھی اُس کے ساتھ سینکڑوں مرتبہ اس ویران علاقے میں مٹر گشت کر چکا تھا اور اُس کی عادتوں سے بھی بھرپور واقف تھا ،وہ ہمیشہ بات بات پر چٹکلے چھوڑتی اور کبھی کسی معمولی بات پر خواہ مخواہ غصہ ہونے کے بعد اچانک ہی رو آنسو بہانا شروع کردیتی اور پھر اگلے ہی لمحے اس کا چہرہ پھر سے مسکراہٹوں سے لبریز ہوجاتا۔

(جاری ہے)

پچھلے کچھ ماہ سے مجھے اس کا رویہ مکمل طور پر بدلا ہوا محسوس ہو رہا تھا اس کی آنکھوں کے گرد حلقے بھی روز بروز مسلسل گہرے تر ہوتے جا رہے تھے۔اب وہ اکثر اس مٹر گشت کے دوران بھی خاموش ،خاموش رہتی تھی ۔میں اُس کی اس خاموشی کی وجہ بھی بخوبی جانتا تھا ۔اس کی یہ مسلسل خاموشی اب میرے لیے زہر بنتی جا رہی تھی،اُس کے سرخ آنکھوں سے مسلسل شب بیداری اور اُس کے گالوں پر آنسو بہنے کے نشانات بھی واضع نظر آ رہے تھے۔

"آج تمھیں مجھے بتانا ہوگا؟" میں نے ایک مرتبہ پھر التجا کرتے ہوئے استفسار کیا۔اُس نے میری بات کا پھر کوئی جواب نہیں دیا ۔" سچ سچ بتاو مجھے تم آخر کار اب اس سے اب کیا چاہتی ہو؟ " میرے اس سوال سے اپنا اثر دکھایا اور وہ یکلخت یوں تڑپ سی گئی جیسے کسی نے ماہی کو جل سے بے آب کر دیا ہو ،اُس کی سانس تیز ہونے لگی اور اُس نے تیز تیز قدم اٹھانا شروع کردیے ۔
اُس نے اپنے چہرے کو جھکا لیا اور اس کی آنکھیں پھر سے ڈبڈبانے لگی۔ایک ٹیلے پر پہنچ کر وہ دھڑام سے زمین پر بیٹھ گئی ،اس نے اپنی آنکھیں کو موند لیا اور ایک زوردار چیخ ماری ، اس زوردار نے چاروجانب پھیلے ہوئے سناٹے کو لرزا کر رکھ دیا ،اچانک ہی وہ ٹیلے پر کھڑی ہوئی اور آسمان پر چاند کو بادلوں کے پیچھے چھپتا دیکھ کر قہقہ لگاتے ہوئے دوڑی اور پھر زور سے چلائی " لو اب تمھیں بھی نیند نہیں آئے گی " دوڑتے ،دوڑتے وہ اچانک ہی ٹیلے سے اتری اور ریت کے وسیع صحرا میں نظروں سے اوجھل ہو گئی اور آسمان پر اب چاند بھی مکمل طور پر چھپ گیا۔

Browse More Urdu Literature Articles