Shabooo - Article No. 1528

Shabooo

شبو - تحریر نمبر 1528

ایک بہت بڑی عمارت بن رہی تھی وہاں روڑی کوٹتے ہوئے کبھی سیمنٹ کا گاڑا اٹھاتے ہوئے نظر آتی ساتھ اس کے ایک ساتھ آٹھ سال کے لگ بھگ بچہ تھا

جمعرات 5 اکتوبر 2017

شبو
مسرت واحد خان:
میں جب اپنے گھر کا گیٹ کھولتی تو وہ مجھے سامنے جہاں ایک بہت بڑی عمارت بن رہی تھی وہاں روڑی کوٹتے ہوئے کبھی سیمنٹ کا گاڑا اٹھاتے ہوئے نظر آتی ساتھ اس کے ایک ساتھ آٹھ سال کے لگ بھگ بچہ تھا۔ جو اس کے ساتھ چمٹارہتا وہ اپنے کام میں اتنی مگن ہوتی کہ اسے آس پاس کا کوئی ہوش نہ ہوتا تب میں سوچتی کہ کون کہتا ہے کہ ہمارے ہاں کی عورتیں محنت کش نہیں ہوتی۔
یوں اسے کام میں مگن دیکھ کر میرے دل میں اس کے لئے احترام کا جذبہ ابھرتا تو کبھی ہمدردی کا بھی جذبہ ابھرتا کہ پتہ نہیں بے چاری کونسے دکھوں کی ماری ہے جو اتنے مشقت کا کام کرتی ہے۔ سانولے رنگ کے چہرے پر پسینے کے قطرے چاندی کی طرح چمکتے تھے۔ جنہیں وہ اپنی میلی چادر کے پلوسے پونچھ کر ایک نئے عزم سے اینٹیں اٹھاتی ۔

(جاری ہے)

میرے روزانہ اس طرح دیکھنے پر وہ بھی کبھی چند لمحوں کے لئے میری طرف دیکھتی لیکن اپنے کام میں جت جاتی۔

ایک روز شدت سے گرمی پڑرہی تھی میں اپنے کمرے میں لیٹی رسالہ پڑھ رہی تھی کی بیل ہوئی اس قیامت کی گرمی میں باہر جاتے ہوئے مجھے اکتا ہٹ سی محسوس ہونے لگی اس لئے میں بڑبڑاتی ہوئی باہر گئی گیٹ کھولا تو سامنے وہی کھڑی تھی اس کا بچہ بھی تھا۔ بی بی جی تھوڑا سا ٹھنڈا پانی چاہئے منے کو پلانا ہے۔ بڑی پیاس لگ رہی ہے۔ اسے اسب نے کہا تو میں اندر لے آئی اسے بٹھا کر پانی پلایا اتنے چھوٹے بچے کو تم گرمی میں نہ لایا کر میں نے اسے کہا تو کہنے لگی اسے کس کے پاس چھوڑوں؟ کیا اس کا باپ بھی تمہارے ساتھ کام کرتا ہے؟ میں نے یہ سوچ کر پوچھا کہ شاید وہ بھی اس کے ساتھ محنت مزدوری کرتا ہوگا۔
نہیں جی اس کے اپنے بہت کام ہیں اس کو اتنی فرصت کہاں ۔ وہ کہتے ہوئی ایسے ہنسی کہ جیسے طنزیہ ہنسی ہنس رہی ہو اچھا میں چلتی ہوں۔ وہ جانے لگی میں نے جاتے جاتے اس کا نام پوچھا تو اس نے اپنا نام شبو بتایا۔ چند روز بعد شبودوبارہ آئی اس کے بچے کو بخار تھا اسے میرے پاس لٹا کر چلی گئی میں نے بچے کو بخار کی دوائی دی اور اسے سلادیا شام کو کام ختم کرکے جب وہ اپنے بچے کو لینے آئی بچے کی حالت ٹھیک دیکھ کر وہ میری بہت ممنون ہوئی اس قدر گرمی میں بچے کو ساتھ نہ لایا کرو بلکہ گھر چھوڑ آیا کرو میں نے اسے کہا۔
جی گھر میں چھوڑوں تو اس کا باپ ناراض ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ اسے ساتھ لے کر اس سے بھی مزدوری کروایا کرو تاکہ کچھ پیسے یہ بھی کمائے وہ کہنے لگی تم اتنی محنت کرتی ہو ظاہر ہے تمہارا گھر والا بھی کچھ کاروبار کرتا ہوگا۔ کیا اس سے تمہاری پوری نہیں پڑتی جو اس معصوم بچے جس کے ابھی کھانے پینے کے دن ہیں اس سے بھی مشقت لینا چاہتا ہے۔ میں نے پوچھا تو وہ کہنے لگی محنت مزدوری تو جی میں کرتی ہوں وہ تو جواء کھیلتا ہے۔
دارو پیتا ہے یا آوارہ گردی کرتا ہے اور یوں میری ساری دن کی کمائی کو پل بھر میں اڑا دیتا ہے ۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے انجانے میں میں نے اس کی دکھتی رگ کو چھیڑ دیا تھا جس سے میں شرمندہ سی ہوگئی تم یوں کرو اس کو میرے پاس چھوڑ جایا کرو میں اس کو پڑھاؤں گی۔ میری بات سن کر ایک لمحے کو اس کی آنکھوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی سچ بی بی میرا بڑا دل چاہتا ہے کہ میرا بیٹا پڑھے او ر اچھا آدمی بنے۔
پر اس کا باپ نہیں مانتا یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جو خوشی کی چمک دوڑی تھی وہ مانند پڑگئی۔ دیکھو شبوتم کو شش کرو تو تمہارا بیٹا پڑھ سکتا ہے تم اپنے گھر والے کو قائل کرنے کی کوشش کرو امید ہے ضرور وہ تمہیں اس بات کی اجازت دے دے گا۔ میرے کہنے پر کچھ دیر اس نے سوچا پھر کہا ٹھیک ہے کل سے میں اسے بھی بی بی روزانہ آپ کے پاس چھوڑ جایا کروں گی اور شام کو جاتے ہوئے لے جایا کروں گی۔
گھر والوے کوخود سمجھادوں گی پھر دوسرے روز منے کو میرے پاس چھوڑ گئی چند دنوں میں اس نے بہت کچھ سیکھ لیا وہ کافی ذہین تھا ایک ماہ میں اس نے حروف تہجی کا قاعدہ ختم کرلیا۔ قاعدے ختم ہونے پر شبو بہت خوش ہوئی بار بار بیٹے کا منہ چومتی اور میرا شکریہ ادا کرتی اس کے دوسرے روز وہ کام پر نہ آئی تو میں نے سمجھا کہ کوئی ہوگیا ہوگا لیکن جب پورا ہفتہ مسلسل کام پر نہ آئی تو مجھے تشویش لاحق ہوئی میں نے اس کے ساتھ والی مزدور عورتوں سے پوچھا ان میں ایک جو شاید اس کے گھر کے نزدیک رہتی تھی مجھے گھورتے ہوئی بولی بی بی جی آپ نے اس کی ہڈیاں پسلیاں تڑوادی وہ بے چاری ایک ہفتہ سے چار پائی پر پڑی ہے وہ کیوں؟ میں نے سوال کیا وہ س لئے جی آپ نے اس کے بیٹے کو پڑھانا شروع کیا تو اس کے گھر والے کو اس کا پتہ چل گیا تو اس نے شبو کو اس سے بعض رکھنے کی کوشش کی تو جی شبو ضد میں آگئی وہ اس کے آگے بول پڑی۔
تب اس کے گھر والے کو بے تحاشا غصہ آگیا کہ بے چاری کی ہڈیاں توڑ کر ہی دم لیا آپ نے اس کے ساتھ بڑا ظلم کیا نہ اس کے بچے کو پڑھاتی نہ وہ مار کھاتی میں نے تو اس کیلئے اس کے بچے کیلئے بھلے کا سوچا تھا ۔ اس کا آدمی تو بالکل پاگل ہے وہ نہیں چاہتا کہ اس کا بیٹا بڑا ہوکر اچھا شہری بنے میں نے کہا۔ بی بی جی ہم غریبوں کے پاس نہ اتنا پیسہ ہوتا ہے نہ ہی اتنا ٹائم اور نہ ہی عقل کہ ہم اپنے بچوں کر پڑھا سکے۔
ہم اپنے بھوکے پیٹ کو بھریں نکھٹو خاوندوں کو سنبھالیں جن کو بھی کمائی کے حصے میں سے جواء اور دارو کیلئے رقم دینا ہوتی ہے۔ ہم ایسے جونچلے نہیں پال سکتے وہ دکھ سے بولی۔ وہ تو ٹھیک ہے آج شام کو میں تمہارے شبو کے گھر جاؤں گی اس کے گھر والے کو سمجھانے کی کوشش کروں گی میں یہ کہہ کر چلی آئی شام کو میرے شوہر جب دفتر سے گھر آئے تو میں نے انہیں شبو کا سارا حال گوش گزار کیا انہیں بھی سن کر افسوس ہوا لیکن جب میں نے انہیں بتایا کہ شبو کے گھر جا کر اس کے خاوند سے بات کرتی ہوں کہ وہ شبوبے چاری پر ظلم نہ کرے۔
اس نے تو میرے کہنے پر اپنے بچے کو پڑھانا شروع کیا تھا۔ اگر وہ پڑھ بھی جائے تو اس میں اس کا کیا حرج ہے۔ امید ہے ہوسکتا ہے میری بات اس کی موٹی عقل میں آجائے یہ سن کر میرے شوہر کو ایک دم غصہ آگیا تم کہیں نہیں جاؤگی۔ میری اجازت کے بغیر یہ ان کا مسئلہ ہے وہ جانیں یہ کہہ کر وہ تیزی سے کمرے سے نکل گئے اور تب میں اپنے آپ کو شبو کے مقابل کھڑا محسوس کرنے لگی۔

Browse More Urdu Literature Articles