Sitara Or Safar - Article No. 884

Sitara Or Safar

ستارہ اور سفر - تحریر نمبر 884

عوامی ایکسپریس اپنی پوری رفتار سے بھاگتے ہوئے چھوٹے چھوٹے اسٹیشن چھوڑ رہی تھی۔میرے سامنے کی سیٹ پر ایک لڑکا کھڑکی پر سر رکھے سو رہا تھا ۔ اس کا نیلے رنگ کا بیگ اس کے پاس ہی رکھا تھا۔ریل کا دروازہ کھلا تھا جس میں اابو ایک آدمی کے ساتھ کھڑے تھے

جمعرات 2 اپریل 2015

ثریا بابر
عوامی ایکسپریس اپنی پوری رفتار سے بھاگتے ہوئے چھوٹے چھوٹے اسٹیشن چھوڑ رہی تھی۔میرے سامنے کی سیٹ پر ایک لڑکا کھڑکی پر سر رکھے سو رہا تھا ۔ اس کا نیلے رنگ کا بیگ اس کے پاس ہی رکھا تھا۔ریل کا دروازہ کھلا تھا جس میں اابو ایک آدمی کے ساتھ کھڑے تھے۔تیز ہوا شائیں شائیں کرتی باہر سے گزر رہی تھی۔اور میرے ذہن پیش آمدہ حالات فلم کی طرح چل رہے تھے۔
مجھے ایک آدمی نے اپنی نشست دے دی تھی اور امی فرش پر بیٹھی تھیں ۔ہمیں اچانک ایک ضروری کام سے بہاولپور سے لاہور جانا پڑا تھا اور ہم سیٹ ریزرو نہیں کرا سکے تھے ۔ہمیں سفر کوتے ہوئے آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا مگر میرے ذہن پر ابھی تک سوار ہوتے وقت کی مشکلوں کی کوفت چھائی ہوئی تھی۔ڈبے کے پجھلی طرف سے ملی جلی آوازیں آ رہی تھیں ۔

(جاری ہے)

میں نے پیچھے جھانک کر دیکھا ۔

بچے شاید کسی جیز پر لڑ رہے تھے اور اب ان کی لڑائی میں بڑے بھی شامل ہو گئے تھے۔میں کھڑکی کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئی اور اندھیرے کو تکنے لگی ،، زندگی کتنی خود غرض ہے ،،میں نے سوچا،، یہ لوگ ذرا ذرا سی باتوں پر اتنا زیادہ کیوں لڑتے ہیں ؟؟؟؟کیا معاملات نرمی سے نہیں سلجھائے جا سکتے ؟؟؟ لیکن مرے سوچنے سے کیا ہوتا ہے، کرنا تو انہوں نے وہی ہے جو ان کی مرضی ہو گی۔
میری سوچ تلخ ہو گئی ، میرا نخلا ہونٹ خود بخود میرے دانتوں کے نیچے آٓ گیا میں گہرے اندھیرے کو اور زیادہ گہری نظروں سے تکنے لگی ۔کھڑکی سے باہر اب ،،ذخیرہ ،،کے درخت نظر آرہے تھے ۔(یہ ذخیرہ بہاولپور کے قریب ہی واقع ہے)ان کے سیا ہ ہیولے ایسے معلوم دیتے تھے جیسے پر خلوص انسان گلے مل رہے ہوں،باتیں کر رہے ہوں ، پیار اور محبت کی باتیں، خلوص کی باتیں، اسی لمحے وہ درخت پیچھے رہ گئے اب سامنے ہموار زمین تھی ، ارے یہ کیا ہے ؟؟؟؟
میری نظر ایک تارے پر پڑی وہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے آسمان کی وسعتوں سے اتر کر میرے سامنے آگیااور کھلکھلا کر ہنسنے لگا ، ،،تم کیوں ہنس رہے ہو ؟؟؟ میں نے سوال کیا تو وہ اور زور سے کھلکھلا دیا۔
میں نے اپنا سوال دہرایا تو اس نے پلکیں جھپکا کر مجھے ایسے دیکھا جیسے میں نے سخت بے وقوفی کی بات کی ہو ۔میں خجل سی ہو گئی ۔میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ بول پڑا،، مجھے تمہاری حالت پر ہنسی آ رہی ہے، کیوں خود غرض لوگوں کے بارے میں سوچ کر خود کو ضائع کر رہی ہو ، میری طرف دیکھو میرے بارے میں سوچو ، میں حلوص اور محبت کی علامت ہوں ،میں خود غرض بھی نہیں ، اندھیرے میں رہتا ہوں مگر پھر بھی چمکتا رہتا ہوں ، حالانکہ میرے دل میں لاکھوں زخم ہیں ۔
وہ اچانک اداس ہو گیا ، اس کی چمک بھی کچھ ماند پڑ گئی جیسے غموں کی تا ریکی نے اس پر حملہ کر دیا ہو ،لیکن دوسرے ہی لمحے وہ سنبھل گیا۔،،میں ہمت نہیں ہارتا کوشش کرتا رہتا ہوں کہ چمکوں اور رات کی تا ریکی دور کروں ،، پھر وہ چپ ہو گیا ۔ ،،ہاں کہو !!!! میں اس کی باتوں میں دلچسپی لینے لگی تھی ۔ ”کیا کہوں “اس کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلنے لگی تھی ۔
پھر وہ بولا ”اچھا یہ بتاؤ تمہارا یہ سفر کب تک جاری رہے گا؟؟؟ شاید صبح تک یا اس کے بعد تک ،،میں نے سوچ کر کہا ۔
ٹھیک ہے پھر تو ہم تم خوب باتیں کریں گے،، وہ ایک دم خوش ہو کر بولا اور میں نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔ وہ یھی مسکرانے لگا ، مسکراتا رہا ، مسکراتا رہا ، کافی دیر یوں ہی ہوتا رہا۔کچھ بولو ناا!! میں اس کی خاموشی سے اکتا گئی۔
تو وہ پھر کھلکھلا کر ہنس دیا ”بہت بے صبری ہو تم ، اچھا کیا بولوں ؟؟؟ اس نے نہایت معصومیت سے پلکیں جھپکا کر پوچھااور میں کوئی سوال تلاش کرنے لگی ۔
”اپنے بارے میں بتاؤ “ میں نے کہا ” کیا بتاؤں “ اس کے چہرے پر شرارت تھی ” تم کیسے وجود میں آئے“ میں نے کہا ․․․․․․․ ” جیسے کائنات وجود میں آئی “ وہ مسکراتے ہوئے بولا ” ہم بہت سارے تارے تھے اس کائنات کے دھویں میں اڑتے پھرتے تھے اور خوش رہتے تھے ۔
پھر ہم سب کو زمین سے نظر آنے کا حکم ملا بس جب سے ہمارا دل بہت دکھی ہے۔بات کرتے کرتے اس کی مسکراہٹ ختم ہو گئی تھی۔
تمہارا دل کیوں دکھی ہے ؟؟؟ میں اس کی بات سمجھ نہ سکی اور اس نے ایک گہری سانس لے کر نظریں چرا لیں۔
جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے اور ہو چکا ہے کیا اس کے بعد کوئی خوش رہ سکتا ہے ؟؟؟ اب شرمندہ ہونے کی باری میری تھی ۔ میں جماعت نہم کی طالبہ تھی اس کی باتیں سمجھ سکتی تھی۔
میں نے سر جھکا لیا اسی لمحے اس کی مترنم ہنسی میرے کانوں میں رس گھول گئی ۔میں ستارے کی طرف دیکھنا چاہتی تھی مگر سنگل سیٹ پر بیٹھے ہوئے لڑکے نے سر اٹھا لیا شاید ستارے کی ہنسی سے اس کی بھی آنکھ کھل گئی تھی ۔ اسی وقت اس کے دو دوست اور آ گئے ۔وہ دونوں لڑکے کی طرف رخ کر کے اس سے باتیں کرنے لگے۔تارہ ان کے سروں کے پیچھے چھپ گیا۔مجھے کوفت ہونے لگی ، میرے اور میرے رفیق سفر کے درمیان یہ تینوں حائل ہو گئے تھے، میں دوسرے دروازے کے سامنے جا کر فرش پر بیٹھ گئی ۔
نشست میں نے امی کو دے دی۔اب ناہموار زمین میرے سامنے تھی ۔کرخت اور سخت کھردری زمین۔۔۔ کیا یہ زمین مجھے وہ احساس دے سکتی ہے جو ستارے کی جھلملاہٹ میں ہے ۔؟؟؟؟؟ میں نے اس پر نظریں جماتے ہوئے سوچا ۔ محبت کی مہک تو زمین میں سے بھی آ رہی تھی مگر اس وقت وہ مجھ سے باتیں نہیں کر رہی تھی ۔شاید ریل کی پٹریاں بھی زمین کے مزاج کی برہمی کو محسوس کر رہی تھیں۔
اس لیے وہ بار بار پناہ کی تلاش میں گاڑی کی گود میں آجاتیں مگر گاڑی انہیں محبت سے دیکھتے ہوئے واپس رمین کے سخت ہاتھوں میں دھکیل دیتی۔۔میں نہ جانے کتنی دیر تک یہ تماشا دیکھتی رہی اور پھر مجھے نیند آ گئی۔
ایک جھٹکے سے میری آنکھ کھلی ۔ گاڑی شاید کسی اسٹیشن پر کھڑی تھی امی نے مجھے واپس نشست پر بٹھا دیا مجھے افسوس ہونے لگا ،، ننھا تارہ،، کیا وہ مجھے دوبارہ مل سکے گا؟؟؟؟ ۔
گاڑی کافی دیر بعد چلی ۔تب تک میں یہ ہی سوچتی رہی کہ میں تارے سے باتیں کرنے کے بچائے سو گئی ۔ کہیں وہ اس بات پر مجھ سے ناراض تو نہیں ہو جائے گاکہ محبت کرنے والوں کے دل تو ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ جاتے ہیں۔
وہ بہت اعلی ظرف ہے!!!! میرے دل نے میری ڈھارس بندھائی ،، مخبت کرنے والے بہت بڑے دل کے مالک ہوتے ہیں ۔وہ بڑی بڑی خطائیں معاف کرنے میں ایک پل نہیں لگاتے ۔
اور یہ تو کوئی ایسی خطا نہیں جسے معاف نہ کیا جاسکے۔“ مگر مجھے تسلی نہ تھی۔کافی دیر بعد جب شہر کی روشنیاں ختم ہوئیں تو وہ تارہ بھی آسمان کی وسعتوں سے جھانکنے لگا۔پھر وہ اتر کر میرے سامنے آگیا اس کی آنکھوں میں شکوہ تھا ۔وہ کچھ چپ چپ سا بھی تھا ۔ میں نے نظریں جھکا لیں ۔تھوڑی دیر بعد میں چور نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو وہ بے تحاشا ہنسنے لگا ” ڈررہی ہو نا۔
۔۔ کہ میں ناراض ہوں “ اس نے پوچھا۔میں نے بمشکل اثبات میں سر ہلایا ۔۔”ارے نادان لڑکی “ وہ پھر ہنس دیا”محبت کرنے والے کسی سے ناراض نہیں ہوتے اور ہم تم تو اچھے دوست ہیں“میں بھی مسکرا دی ۔وہ بھی مسکراتی نظروں سے مجھے تکنے لگا اور پھر آنکھوں آنکھوں میں ہماری باتوں کا سلسلہ جو شروع ہوا تو پھر رکا ہی نہیں۔۔یوں ہی ہنستے یولتے رات کٹ گئی ،خورشید صبح مشرق سے اپنی جھلک دکھلانے لگا ۔
تارہ کچھ بجھ سا گیا ، اداس ہو گیا یکا یک اس نے میری طرف دیکھا۔مجھے جیسے کسی ان دیکھی زنجیر نے جکڑ لیا۔میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا وہ آہستہ سے بولا
”تم مجھے اب نہیں دیکھو گی ۔۔ شہر اور زندگی کی گہما گہمی میں تم مجھے بھول جاؤ گی ۔۔۔ اس کے لہجے میں مایوسی شامل ہو گئی تھی ۔۔ مگر میری ایک بات یاد رکھنا ۔۔ کسی سے دھوکا نہ کرنا ۔
۔۔ ہر کسی سے خلوص اور سچائی سے ملنا۔۔دنیا میں محبت اور امن پھیلانا۔۔۔ مگر میں اٹک کر بولی ۔۔۔ دنیا کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔۔
تقاضے ؟؟؟؟ ۔۔۔ وہ ہنسا ۔۔۔۔ دنیا ؟؟؟ ۔۔۔۔ وہ خاموش ہو گیا لیکن پھر بولا ” کوشش کرنا شاید کامیاب ہو جاؤ ۔۔۔۔۔ میری باتیں یاد رکھنا ۔۔ ضرور یاد رکھنا ۔۔یاد رکھنا ۔۔ سورج کی کرن طلوع ہونے والی تھی ۔۔ زیادہ روشنی کم روشنی کو نگل رہی تھی ۔
۔یاد رکھنا یادرکھنا۔۔۔وہ روشنی کی دھند میں گم ہونے لگا تھا ۔۔۔پھر وہ ٹمٹمانے لگا ۔۔۔ میرے ساتھ وعدہ کرو ۔ اس کا انداز یہت التجا آمیز تھا۔
کوشش کروں گی ۔۔ میں نے آہستہ سے کہا تو اس کے چہرے پر ایک آسودہ سی مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ روشنی کی دھند میں گم ہو گیا۔۔۔۔ میں نے کھڑکی سے یاہر دیکھا ۔ہرے ہرے درخت دعوت نظارہ دے رہے تھے ۔کھیتوں کا سبزہ زار دور تک پھیلا ہو تھا۔
۔۔۔ ”کوشش کروں گی میں نے اپنا عہد زیر لب دہرایا ۔۔کسی کو تو پہلا قدم اٹھانا ہے۔۔۔۔۔ میں نے ٹھنذی نم ہو ا کو اپنے اندر سموتے ہوئے سوچا۔۔۔ حرص وہوس کی اس اندھیر دنیا میں کسی کو تو خلوص ،سچائی امن اور محبتوں کی شمع روشن کرنا ہو گی ۔ ننھے تارے تم نے مجھے جو پیغام دیا ہے شاید میں اس پر عمل کرنے اور آگے بڑھانے میں کامیاب ہو جاؤں ۔۔۔۔ میرے پروردگار مجھے ہمت دے۔ آمین
منجانب !!!ثریا بابر ۔۔۔۔واضح وہے کہ یہ کہانی لکھتے ہوئے میری عمر پندرہ سال تھی ۔

Browse More Urdu Literature Articles