Tarar Sahab Aloo Bakharay - Article No. 905

Tarar Sahab Aloo Bakharay

تارڑ صاحب آلو بخارے - تحریر نمبر 905

تارڑ صاحب آلو بخارے کسی راہگیر نے آواز کسا۔

جمعرات 11 جون 2015

مستنصر حسین تارڑ:
تارڑ صاحب آلو بخارے کسی راہگیر نے آواز کسا۔
میں نے پیچھے مڑکر دیکھنا مناسب نہ سمجھا کہ پتہ نہیں کون ناہنجارہے جو دن دہاڑ مجھے آلو بخارے کے لقب سے نواز رہا ہے ۔زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا تھا کہ موٹرسائیکل روکتا اور فٹ پاتھ پر چلتے لوگوں سے دریافت کرتا کہ صاحبو آپ میں سے وہ کون بدتمیز شخص ہے جس نے راہ چلتے مجھے آلو بخارہ کہا ہے اول تو سب لوگ مسکراتے اور ان میں وہ شخص بھی شامل ہوتا جس نے مجھے اس القاب سے نوازا تھا اور ظاہر ہے مسکراتے ہی چلے جاتے اور اگر بفرض محال وہ شخص اپنے جرم کا اقرار کر بھی لیتا تو میں اس کا کیا بگاڑ سکتا تھا،یہی کہہ سکتا تھا کہ بھئی آپ کو شرم نہیں آتی ایک شریف آدمی کو آلو بخارہ کہتے ہوئے اور آپ خود آلو بخارے ہوں گے۔

(جاری ہے)

چنانچہ میں پیچھے مڑے بغیر اپنے کان لپیٹ کرمائل سفر رہا۔
اصل مسئلہ گوالمنڈی سے گورنمنٹ ہاؤس تک پہنچا تھا کیونکہ راستے میں ٹریفک کی بھر مارتھا۔ البتہ گورنمنٹ ہاؤس کے بعد راستہ نسبتا صاف ہوگیا اور میں اپنے موٹرسائیکل کے پھٹے ہوئے سائلنسر اور شاٹ پلگ سے بے نیاز مزے سے مال روڈکی ہریاول کی باس محسوس کرتا ہوا چلتا گیا۔ایچیسن کالج کے قریب پیپل کا ایک سالخوردہ درخت مال روڈ کے عین درمیان میں بکھرا پڑا تھا پولیس کی کاریں ٹریفک سارجنٹ اور دوسرا عملہ بے حدمستعددکھائی دے رہا تھا اور درخت کوسڑک سے ہٹانے کی کوشش جاری تھیں۔
ایک وین اور سکوٹر کے سوار جودرخت گرنے سے شدید زخمی ہوگئے تھے ہسپتال پہنچائے جارہے تھے۔حسب عادت لاہور کے جرات مند شہری کاریں اور موٹرسائیکل روک کر اس حادثے سے لطف اندوز ہورہے تھے اور وہاں ایک میلے کا ساسماں تھا۔میں اس میلے میں سے گزررہا تھا کہ کار میں سوار دو بچوں نے نعرہ لگایا تارڑ آلو بخارے وہ میری طرف اشارے کرتے ہوئے باربار اپنے والدین سے بہ آواز بلند تارڑآلوبخارے کہہ رہے تھے۔
آپ یقینا میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ یہ بچے اخلاقی حدود پھلانگ کربدتمیزی کی حد تک آگئے تھے۔میں ان کے والدکی عمر کا تھا اور اس لحاظ سے ان کا بزرگ ٹھرتا تھا انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا بہرحال میں جو ہمیشہ بچوں کی طرف دیکھتے ہوئے مسکراتا ہوں اور انہیں ہیلوکڈز وغیرہ کہتا ہوں بے حد سنجیدہ ہوگیا اور اپنے چہرے پر رعوت اور خشونت راس لفظ کو میں اب بھی خوش ونت پڑھ جاتا ہوں ۔
وغیرہ سجا کر آگے بڑھ گیا مال روڈ سے نہر کی طرف مڑتے ہوئے میں نے اطمینان کا ایک طویل سانس اپنے پھیپھڑوں میں کھینچا کیو نکہ ٹریفک کا ہجوم اب ختم ہوچکا تھا اور میرے دونوں طرف صرف درخت تھے۔درخت یہ گر بھی سکتے ہیں جیسے کہ مال روڈ پر پیپل کا ایک درخت گر گیا تھا اور میرے جیسے کسی گھر جاتے ہوئے شخص کو ہسپتال بھیج دیا تھا چنانچہ میں اپنے تیئں ان گرنے والے درختوں سے بچاؤ کی خاطر رفتار اتنی تیز کردی کہ میرا شارٹ پلگ پھٹ پھٹ آآپھٹ ،،کرنے لگا بہرحال درختوں سے بچنے کے لئے میں یہ صدائے احتجاج برداشت کرتا رہا۔

نہر کے نکارے سے جب میں ایف سی کالج کی جانب مڑا تو پٹرول پمپ کے نزدیک کھڑے ایک باریش اور مدبرّ بزرگ نے جو اچکن اور جناح کیپ میں ملبوس تھے مجھے دیکھ کر ہاتھ اٹھایا اور نعرہ لگانے کے انداز میں کہا تارڑ آلوبخارے اب آپ ہی انصاف فرمائیے کہ بچے تو خیربچے ہوتے ہیں ۔ لیکن ایک نستعلیق قسم کے بزرگ جو میرے والد صاحب کے ہم عمر ہوں گے یوں سڑک پر کھڑے ہو کر اگر آلوبخارے کی نعرہ بازی کرنے لگیں تو انہیں کون سمجھائے بہت جی چاہا کر موٹرسائیکل وہیں روک دوں اور اسی طرح ہاتھ ہلاتا ہوا ان کے قریب جاکر کہوں کہ جناب قبلہ بزرگوارآپ آلوبخارے آپ کے والد آلوبخارے بس خون کے گھونٹ پی کر ر ہ گیا۔
اور غصے سے کھو لتا ہو اپنے گھر کی جانب سفر کرتا رہا۔
بالآخر جب گھر سامنے آیا تو میں نے اپنے ایکسیلڑ کو زور زور سے گھمایا تا کہ انجن کی گھوں گھوں کی آواز سن کر بچوں میں سے کوئی باہر آئے اور گیٹ کھولے ہارن اس لئے نہ بجایا کہ وہ بجتا نہ تھا بیٹری بے حدکمزور ہوچکی تھی خاصی دیر بعد میری بیٹی قرةالعین باہر آئی اور مجھے دیکھتے ہی کہنے لگی ابو آلوبخارے چنانچہ میں نے جلدی سے موٹرسائیکل سٹینڈ پر کھڑاکیا اور عینی پر برس پڑا اگر ابو صبح کے گئے ہوئے شام کو خیر سے آجائیں تو انہیں آلو بخارہ کہتے ہیں ؟کتنی بری بات ہے بس آجسے پاری بند ،ٹافیاں بند اور خبردار جو میرے ساتھ بات کی تو میں بے حد ناراض ہوں اور غصے میں ہوں اور اتنی دیر میں میری بیگم باہر آگئیں اور چڑھی ہوئی تیوڑی کو مزید چڑھا کر بولیں خواہ مخواہ کیوں ڈانٹ رہے عینی کو ؟
”کیوں عینی ؟اس نے حیرت سے بچی کی طرف دیکھا عینی نے اس قسم کی شکل بنا رکھی تھی جس قسم کی شکل پکار پکار کہہ رہی ہوتی ہے کہ مجھے ڈانتے ہو شرم نہیں آتی چھوٹی سی بچی کو ڈانتے ہوئے اور میں ابھی رونے والی ہوں۔

عینی آپ نے کیا کہا تھا ابوکو میری بیگم نے پھر پوچھا۔
امیّ عینی منہ بسورتے ہوئے بولی میں نے آج صبح جب ابو جارہے تھے تو ان سے کہا تھا کہ واپسی پر میرے لئے آلوبخارا لے کرآنا․․․اب آئے ہیں تو میں نے صرف یہ کہا ہے کہ ابو آلوبخارے بس امیّ یہی کہا تھا۔
اوہو “میں جہاں تھا وہیں بیٹھ گیا ۔عینی درست کہ رہی تھی اس نے آج صبح مجھ سے آلو بخارے لانے کی فرمائش کی تھی․․ اور میں نے بطور خاص گوالمنڈی سے ایک کلو آلوبخارا خرید کر لفافے میں ڈال کر کیرئرکے پیچھے بڑے اہتمام سے باندھا تھا۔

بالکل آلو بخارے عینی ابھی دیتا ہوں میں نے کیریر کی طرف دیکھا تو وہاں ایک پھٹا ہوا لفافہ میرا منہ چڑا رہا تھا۔ہوا یہ کہ آلوبخاروں کے پچکنے سے لفافہ راستے میں پھٹ گیا اور وہ ایک ایک کرکے مال روڈ اور نہر کے کنارے گرتے چلے گئے۔کوئی یہاں گراکوئی وہاں گرا۔اور وہ تمام حضرات جو تارڑ صاحب آلوبخارے کے نعرے لگارہے تھے دراصل مجھے خبردار کررہے تھے کہ تمہارے آلوبخارے گررہے ہیں اور میں ان کی آوازوں پر کان دھرے بغیر سفر کرتا رہا۔
اور اب اپنی بیٹی کے سامنے شرمندہ کھڑا تھا۔میں نے اپنے آپ کو سچ مچ ہی ایک آلوبخارا محسوس کیا ۔میں ایک ایسی قوم کی طرح تھا جو اپنا درخت سفر باندھتی ہے۔سفر کا آغاز کرتی ہے اور اس کی تہذیب اخلاقی اودار نظریات ایک ایک کر کے گرتے چلے جاتے ہیں ۔کچھ لوگ آواز دیتے ہیں کہ دیکھو تم بہت کچھ کھورہے ہو لیکن وہ ان آوازوں پر کان نہیں دھرتی اور بالآخر جب منزل پر پہنچتی ہے تو اس کے ہاتھ خالی ہوتے ہیں ․․بالکل میری طرح۔

Browse More Urdu Literature Articles