Ujlat - Article No. 2256

Ujlat

عجلت۔۔تحریر: محسن علی - تحریر نمبر 2256

ٓٓاپنی تمام جدوجہد کا ثمرپانے کے لیے اس نے اپنے جھریوں بھرے بوڑھے ہاتھ اس کی طرف بڑھادیے۔ شدت پیاس، حدت موسم پر اس کا غالب بڑھاپا۔۔۔جونہی اس نے کپکپاتے ہاتھ گلاس کی جانب بڑھائے، ایک برق رفتار، تیز طرار جوان ہاتھ بزرگ کے ہاتھ اور گلاس کے درمیان حائل ہوگیا

جمعہ 7 فروری 2020

سخت گرمی کا موسم تھا۔ گرم ہوا ، چلچلاتی دھوپ، دہکتا آ سمان، تنورزمین، ماحول کو مزید گرم بنارہے تھے۔صحراکی مانند آگ اگلتی پکی سڑک پر سست وتیز، بے ترتیب و بے ہنگم، دھواں اڑاتی ، غل مچاتی ٹریفک،رواں دواں تھی۔ سڑک کے کنارے پر لگے ٹھیلوں والے چیخ و پکارکر کہ اپنے برائے فروخت مال کی دعوت دے رہے تھے۔انہی ٹھیلوں کی پشت پر دکانوں میں مالکان بے چین اور منتظر نگاہوں سے گاہکوں کی راہ تک رہے تھے۔
اسی بھیڑ میں وہ ساٹھ سال کی عمر میں اپنے ہم عمر لوگوں سے نسبتاً تیز رفتارمیں ایک سمت کوجارہاتھا۔ سفید دیہاتی کرتے، دھوتی میں ملبوس، سرپررومال لپیٹے، مونڈھے پرکپڑارکھے وہ تیزی سے آگے بڑ ھ رہاتھا۔چال ڈھال سے جوانی کی طرح پرجوش اور بھرپورلگتامگرجھریوں بھرا چہرہ اوراندرکودھنسی ہوئی آنکھیں اس کے ضعفِ پیری کاپتہ دیتی تھیں۔

(جاری ہے)

گردونواح میں اس کے لیے سب سے متاثرکن گرمی تھی۔

شاید اس کی ا س برق رفتاری کے پیچھے بھی یہی راز تھا ۔ ماسوائے گرمی کے، ہرشے سے بے خبر،ہرتیسرے قدم پرکندھے پرر کھے رومال سے اپنا پسینہ صاف کرتا مسلسل آگے بڑھ رہاتھا۔ پہلے چوراہے پرسے اس نے اپنا رخ بائیں جانب موڑ لیااور اسی رفتارسے لمبے لمبے قدم بڑھاتا چلتارہا۔چندقدم آگے جاکر اس کی رفتار میں یک دم کمی واقع ہوئی۔ جواگلے لمحے بالکل کم ہوگئی اور بالآخر وہ ایک دکان کے آگے رک گیا۔
اس کی سانس اکھڑ چکی تھی حلق خشک اور دو قدم چلنا بھی محال تھا۔ تیز رفتار قدموں سے یوں اچانک رک جانا ، گمان ہوتاتھا کہ وہ اپنی اصل منزل بھول گیا ہے اور اب کسی اور جستجومیں ہے۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ کولہوں پررکھ کر چہرے پرٹکی ہوئی ، موٹے موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے نحیف آنکھوں کوچاروں طرف گھما کر جائزہ لینے لگا۔ جیسے کسی چیزکا شدت سے متلاشی ہو۔
شاید اس کو مطلوبہ شے نا ملی ہو۔ چند قدم اوربڑھااور ایک اور دکان کے سامنے رک کر یہی عمل دہرایا۔اب کی بار چاروں طرف نظردوڑاتے ہوئے ا سکی نگاہ ایک سمت رک گئی ۔اس نے غور سے دوبا رہ ا س سمت دیکھا ۔ اس کے بدن میں توانائی سی ابھرتی دکھائی دی۔ اپنے دائیں ہاتھ کو ماتھے پہ رکھ کر ا س کے سائے میں دونوں آنکھوں کودوبارا س سمت مرکوزکیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھیں چمک اٹھیں اورچہرے پرموہوم سی مسکراہٹ پھیل گئی ۔
گویا یہی اس کی منزل تھی جس کی طر ف وہ گامزن تھا۔ اندھادھند ٹریفک کے بیچوں بیچ ،وسیع سڑک پرایک ہاتھ سے مونڈھے پر رکھے رومال کوقابو میں کرتے ہو ئے ا ور دوسرے سے ٹریفک کو کررفتار کم کرنے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ آخرکار سڑک کے پارپہنچ گیا۔اس پار پہنچ کر اس کی پرامید آنکھوں میں خوشی چھاگئی۔ اپنے شک کو صحیح پاکروہ جھوم اٹھا۔ کیونکہ دورسے خالی،بوسیدہ نظرآ نے والاڈرم واقعی پانی سے بھراہواتھا۔
اس میں صاف شفاف ، ٹھنڈا اور میٹھا پانی تشنگی او ربڑھارہاتھا۔ اب اس کی اگلی منزل ڈرم کے ایک طرف چھوٹی سی زنجیرکے ساتھ بندھا ہوا گلاس تھا۔ ٓٓاپنی تمام جدوجہد کا ثمرپانے کے لیے اس نے اپنے جھریوں بھرے بوڑھے ہاتھ اس کی طرف بڑھادیے۔ شدت پیاس، حدت موسم پر اس کا غالب بڑھاپا۔۔۔جونہی اس نے کپکپاتے ہاتھ گلاس کی جانب بڑھائے، ایک برق رفتار، تیز طرار جوان ہاتھ بزرگ کے ہاتھ اور گلاس کے درمیان حائل ہوگیا۔
ا س ایک سیکنڈ سے بھی کم کے دورانیے میں بوڑھے کاپارہ کئی کلومیٹر بلند چڑھ گیا۔اس کونوجوان کا تازہ لہوسے بھرپور،جھریوں سے پاک ہاتھ ایک بھیانک اور مکروہ چہرے سے کم نالگا۔ اس کے انہی جذبات کو اشتعال ملا جب وہ نوجوان اپنے مضبوط ہاتھ میں گلا س جکڑ کر ڈرم سے پانی نکالنے لگا۔ تھکاوٹ، تقاضائے عمر، حدت موسم ، طویل سفر کے باعث گوکہ وہ بوڑھانڈھال تھا اور کچھ کرنے سکت نہیں تھی۔
لیکن اب نوجوان کے ا س فعل کے باعث ا س کاغضب غصہ اور نفرت ا س کے لیے بڑی طاقت بن چکے تھے۔ غصہ تیز لہو کی طرح اس کی رگوں میں دورڑ رہاتھا آنکھیں قہر ا ٓلود تھیں۔نوجوان کی اس صریح گستاخی اور زیادتی پر ا س سے کیسے نپٹے۔ تلخ اور کسی حد تک واحیات جملے جو ا س وقت ا س کے بوڑھے دماغ میں مچل رہے تھے ، ان کی بوچھاڑ کر دے یا اس کے لاغر ہاتھ جوکہ ا ب کسی فولاد سے کم ناتھے، کا ایک بھرپور وارکردے۔ نوجوان ،جو پہلے ہی ا س بوڑھی جان کو ا س قدرر سخت فیصلے لینے پرمجبور کرچکاتھا ،نے اگلے ہی لمحے ا س کو مزید حیرت میں ڈال دیا جب اس نے پانی سے لبالب گلا س اس کی طرف بڑھایا اور بولا " ٰٰلیجیے باباجی ،پی لیں، میں آپ کے لیے ہی بھر رہاتھا ،خدا ٓپ کو سلامت رکھے۔ گرمی بہت ہے۔ اف۔۔۔۔۔شدید گرمی۔

Browse More Urdu Literature Articles