Bikhre Mooti Or Engineer Rizwan - Article No. 2439

Bikhre Mooti Or Engineer Rizwan

بکھرے موتی اور انجینئر رضوان - تحریر نمبر 2439

کہنے کو تو انہوں نے اپنی کتاب بکھرے موتی تخلیق کی لیکن واقفان حال جانتے ہیں کہ اصل میں بکھرے ہوئے موتیوں کو اپنی پلکوں سے چن چن کر ایک خوبصورت لڑی میں پرویا ہے

پیر 28 ستمبر 2020

راشد محمود
خالق کائنات نے حضرت انسان کو جہاں بہت سی خوبیوں سے نوازا وہیں اپنی صفات میں سے کچھ صفات زمین پر اپنے خلیفہ کو ودیعت کیں جن میں سے ایک صفت ، صفت تخلیق ہے، تخلیق جس شکل میں بھی ہو کوئی آسان کام نہیں اور یہ کام اس وقت اور بھی دقت طلب ہوتا ہے جب کوئی تخلیق کار اپنے قلم کی نوک سے شہکار ترتیب دینے کا فیصلہ کرے، قلمکار کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس دیدہ بینا کا حامل ہو کہ اپنی نگاہ دوربین سے معاشرتی ناہمواریوں، عمومی رویوں ، مختلف حالات و واقعات اور انسانی کیفتیوں کو دیکھ لے جو عام انسان کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتی ہیں، اور جناب رضوان احمدایک ایسی ہی شخصیت ہیں جن کی وسعت نظر تاریخ، مذہب ، سیاست ، معیشت اور انسانی رویوں تک پھیلی ہوئی ہے۔

کہنے کو تو انہوں نے اپنی کتاب بکھرے موتی تخلیق کی لیکن واقفان حال جانتے ہیں کہ اصل میں بکھرے ہوئے موتیوں کو اپنی پلکوں سے چن چن کر ایک خوبصورت لڑی میں پرویا ہے جوآج ایک کتاب کی صورت ہمارے سامنے ہے۔

(جاری ہے)

اس کتاب کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رضوان احمد کے جذبات، احساسات، علم پروری اور مشاہدات پر داخلیت سے زیادہ خارجیت کا غلبہ ہے اور وہ اپنے گردوپیش سے کسی طور بے نیاز نہیں اور طرز تحریرکوئی عمومی افسانہ نگاری نہیں بلکہ حقائق کا پردہ چاک کرتی نظر آتی ہے، جہاں بطور مصنف قلم پر مضبوط گرفت ہے وہیں وہ اپنی بات کو مدلل اور اعدادوشمار کے ساتھ پیش کرتے نظر آتے ہیں گویا مصنف کے روپ میں بھی وہ اپنے ایک ماہر انجینئر ہونے سے غافل نہیں ۔


مضامین میں جہاں موضوعات کی دقیق سنجیدگی ہے وہیں ان کے اسلوب میں وہ خوبصورتی ہے جس کا دھیما پن ہر ہر جملے اور لفظ کی صورت روح کی گہرائی میں اتر کر احساس و جذبات سے گدگدی کرنے لگتا ہے اور قاری ایک لطیف احساس تلے کبھی سوچنے، کبھی مسکرانے اور کبھی قہقہہ لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے، جب اپنے دوستوں قرابت داروں اور بچھڑ جانے والوں کا ذکر کرتے ہیں تو قرطاس پر قلم کی روشنائی کی بجائے ان کے جذبات بکھرتے نظر آتے ہیں اور صاف محسوس ہوتا ہے کہ دم تحریر پلکوں کے اس پار یادوں کی وادی میں کہیں محبت کی برف پگھل رہی ہے۔

یوں تو ان کی اس کتاب میں پیش کردہ اک اک مضمون اس بات کا متقاضی ہے کہ اس پر بات ہو اور لفظ لفظ گہرائی اور گیرائی کا جائزہ لیا جائے لیکن وقت کی قید کا تقاضا ہے کہ بات مختصر ٹھہرے ، تحریر میں یہ چاشنی ہے اپنے پہلے مضمون میں ہی وہ قاری کو تاریخ کے جھروکوں کے پار ریاست مدینہ کے کچھ مناظر دکھاتے ہیں اور پھر تاریخ کا سفر قیام پاکستان پر آ کر اک لمحے کے لئے ٹھہرتا ہے اور دبے دبے لفظوں میں بحیثیت قوم ہماری سیاسی ، سماجی اور انتظامی غلطیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والے المیے پر نوحہ کناں ہوتے ہیں، لیکن امید کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور قاری کو علامہ اقبال کی محفلوں میں لے جاتے ہیں جہاں ملی حمیت اور سیاسی شعور کی آبیاری کی بات ہوتی ہےاور اقبال کا پیام دیتے ہیں کہ:
اٹھ کے خورشید کا سامان سفر تازہ کریں
نفس سوختہ شام و سحر تازہ کریں
پیام اقبال کے بعد وہ یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستا ن کا مطلب کیا ہے، اور سمجھاتے سمجھاتے جب قیادت کے فقدان کی طرف نظر جاتی ہے تو سینہ فگار ملتے ہیں اور قلم کی نوک الفاظ کی صورت پگھلتی ہے اور کہتے ہیں کہ:
یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا
ہم محو نالہ جرس کارواں رہے
قیادت کا گہرا تعلق سیاست سے ہے اور جب سیاست کی بات کرتے ہیں تو کہیں قیادت کی خوبیاں بیان تو کہیں لطیف پیرائے میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے طنز کے نشتر کی چبھن محسوس نہیں ہونے دیتے بلکہ یوں لگتا ہے کہ گلاب کی پتیوں سے مسائل کی جراحت کا سامان کر رہے ہیں۔
پھر قائدین کے دعوں کی قلعی کھولتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں کہ ’’ آخر کیوں‘‘
جہاں مطالعے کا شوق ہے وہیں بین السطور پیغام کو سمجھ لینے اور معنی اخذ کرنے کی صلاحیت سے بھی مالا مال ہیں ، دھند کے سفر میں محو پرواز سقراط کے فلسفے اور غالب کی بات کرتے ہیں تو ان کی سوچ اور وسعت نظری کا احساس یوں ہوتا ہے کہ:
بکھری ہوئی ہے یوں میری وحشت کی داستاں
دامن کدھر کدھر ہے گریباں کہاں کہاں
اگرچہ ان کی کتاب اپنے دامن میں سنجیدگی لئے ہوئے ہے لیکن اس کے باوجود اپنے دل میں موجزن محبت کا ذکر کرنا نہیں بھولتے اور بہت لطیف انداز میں اپنی مادر علمی کے پڑوس کے ایک میڈیکل کالج میں برپا ہونے والی اپنی پہلی اور آخری محبت کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ عین عالم شباب میں جب وہ قلبی واردات کا شکار ہوئے تو دشمن جاں کو دیکھ کر دل و جاں سے نعرہ لگایا کہ زوجیت ہی بہترین انتقام ہے اور یوں پھر اس کی جفاگری کو اپنی دلبری سے وفا گری پر آمادہ کیا اور دل کے ساتھ ساتھ اپنا پہلو اور گھر آباد کرلئے، لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ:
حالت زار کیا کہیں اپنی
گھر بھی اپنا بیمار خانہ ہے
اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے میں یہی کہوں گا کہ جناب رضوان احمد کی تخلیقات اور شخصیت کے مطالعے سے یہ بات نکھر کر سامنے آتی ہے کہ انہوں نے کہیں پر بھی اپنی نفسیاتی، ذہنی اور عملی بالادستی کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ انکے کا م اور رویئے سے عجز و انکسار جھلکتا ہے، دوسری بات عصر حاضر کے بیشتر مضمون نگاروں کے برعکس ان کے مزاج میں شائستگی اور تہذیب کا عنصر نمایاں ہے،
’’آپکی سماعتوں کا بہت بہت شکریہ‘‘

Browse More Urdu Literature Articles