Digest Writers Ki Duniya - Article No. 2339

Digest Writers Ki Duniya

ڈائجسٹ رائٹرز کی کہانی - تحریر نمبر 2339

ڈاکٹر کرن اپنے مقالے میں اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ ڈائجسٹ رائٹرز کو اس معاشرے میں ہم وہ مقام نہیں دے سکے جو انکا حق بنتا ہے۔ وہ صرف یہ گلہ ہی نہیں کرتیں بلکہ اس رویے کی کچھ وجوہات بھی بیان کرتی ہیں کہ جن کی بنا پر یہ رویہ اختیار کیا گیا ہے

Ammar Masood عمار مسعود ہفتہ 16 مئی 2020

ہر کہانی کی اپنی ایک داستان ہوتی ہے۔ ہر داستان کا ایک پس منظر ہوتا ہے اور اس پس منظر میں ایک اہم کردار ہوتا ہے جو اس کہانی کے جنم کا باعث ہوتا ہے۔
پاکستان میں بالعموم ڈائجسٹ رائٹرز کے ساتھ متعصبانہ رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ نہ انکو ادبی سطح پر شناخت ملتی ہے نہ ادبی رسالے انکی تخلیقات کو چھاپنے کی زحمت کرتے ہیں نہ انکی سرکاری سطح پر کوئی پذیرائی ہوتی ہے نہ انکو معاشرے میں ایک مصنف کی اہمیت ملتی ہے۔
ڈائجسٹ رائٹرز کے حوالے سے نہ کوئی تحقیقی مواد ہمیں ملتا ہے نہ ان کہانی کاروں پر کبھی کسی نے سنجیدہ کام کیا ہے۔ ڈاکٹر کرن نذیر احمد
نے پہلی بار اس اہم موضوع پر اپنے پی ایح ڈی کے مقالے میں بات کی ہے۔ ان کا پی ایچ ڈی کا یہ مقالہ امریکہ کی
University of Texas at Austin
کے تعاون سے مکمل ہوا ہے۔

(جاری ہے)

اس سے پہلے کہ انکے مقالے پر بات کی جائے کچھ تعارف کرن نذیر احمد کا ہو جائے۔

اس وقت وہ قائد اعظم یو نیورسٹی میں جینڈر سٹیڈیز کے شعبے میں اسٹنٹ پروفیسر کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دے رہی ہیں۔ اس سے پہلے وہ اینتھروپولوجی, فلاسفی اور بین القوامی تعلقات عامہ میں پاکستان ، کینڈا اور امریکہ سے ماسٹرز کے ڈگریاں حاصل کر چکی ہیں۔ انکے زیر بحث مقالے کا عنوان ہے
Stories with oil stains
جسکا اردو ترجمہ یہ ہو سکتا ہے کہ "میلے ہاتھوں سے لکھی روشن کہانیاں"
س پنج سالہ تحقیقی پراجیکٹ میں ڈاکٹر کرن نذیر احمد نے پاکستان کے دو صوبوں کے کئی شہروں اور گاوں میں جا کر ان کہانی کاروں سے ملاقات کی، کچھ کے گھر قیام کیا ، کچھ سے گھنٹوں فون پر بات کی، پبلشرز سے ملاقات کی، اس نوع کی کہانیوں کے قارئین سے گفتگو کی اور پھر اس مقالے کوتحریر کیا۔
انکی تحقیق میں کچھ انوکھی باتیں دریافت ہوئیں جن پر بات کرنا ضروری ہے۔
ڈاکٹر کرن اپنے مقالے میں اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ ڈائجسٹ رائٹرز کو اس معاشرے میں ہم وہ مقام نہیں دے سکے جو انکا حق بنتا ہے۔ وہ صرف یہ گلہ ہی نہیں کرتیں بلکہ اس رویے کی کچھ وجوہات بھی بیان کرتی ہیں کہ جن کی بنا پر یہ رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ انہوں نے بہت محنت سے ان ڈائجسٹوں میں لکھی کہانیوں کی نوع اور موضوع پر بھی گفتگو کی ہے۔
انکے مطابق ابتداء میں ان کہانیوں کے موضوعات بالی عمر کے رومان کے گرد ہی گھومتے رہے ۔ رفتہ رفتہ ان موضوعات میں تنوع آتا گیا ہے۔ محبت کے موضوع کے علاوہ اب ان کہانیوں میں عورت کے حوالے سے معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں کو بھی ذکر ملتا ہے۔ خواتین کے حقوق پر بھی بات ہوتی ہے۔ بیٹی کے پیدائش کو باعث شرمندگی سمجھنے والے رویئے کو بھی موضوع بنایا گیا۔
ڈائجسٹ رائٹرز نے مذہب کو بھی موضوع بنایا اور معاشرت کو بھی مگر سیاست کے حوالے سے ان کی تحریرں بے توجہی کا شکار رہیں۔ ان رائٹرز نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے تو بات کی ہے مگر سیاسی شعور پیدار کرنے کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ عام خیال یہی ہے کہ چونکہ خواتین کی زندگی کا زیادہ تر حصہ گھر کی چار دیواری میں گذرتا ہے اس لیئے یہ کہانیاں گھروں کی کہانیاں ہوتی ہے۔
اسی اسلوب میں لکھی جاتی ہیں ۔ اسی سوچ کو فروغ دیتی ہیں۔
ان کہانیوں کا ہیرو بھی بدلتا رہا ہے۔ لمبا تڑنگے جاگیردار یا یونیفارم آفیسر کی جگہ اب ملٹی نشنل کمپنی میں کام کرنے والے ہیرو نے لے لی .
ڈاکٹر کرن ںذیر کی تحقیق کے مطابق یہ کہانیاں بے پناہ اثر آفرینی رکھتی ہیں۔ لاکھوں خواتین یہ کہانیاں ذوق و شوق سے پڑھتی ہیں۔ ڈائجسٹ میں لکھنے والی خواتین کا حلقہ اثر بے حد وسیع ہوتا ہے۔
ان کہانیوں پر ردعمل ملک بھر سے مدیران کو موصول ہوتا ہے۔ کشمیر کی خواتین ، گلگت کی عورت ، کراچی کی ورکنگ ویمن ، لاہور کی استانی اور اسلام آباد میں این جی او میں کام کرنے والی خواتین ان ڈائجسٹوں کی کہانیوں سے متاثر ہوتی ہیں۔ مڈل کلاس گھرانے کی خواتین بھی یہ کہانیاں بڑے ذوق شوق سے پڑھتی ہیں اور ارب پتی خواتین بھی انہی کرداروں میں کھوئی رہتی ہیں
سندھ کی ایک ایسی فیملی کا بھی اس ریسرچ میں تذکرہ ہے کہ جن کی چار نسلیں اس تخلیقی کام سے وابستہ ہیں مگر ان کو وہ قبولیت عام نصیب نہیں ہوئی جو ایک ادیب کے حصے میں آتی ہے۔
خواتین کے اس پراسرار نیٹ ورک کے بارے میں بات کرتی ڈاکٹر کرن نذیر کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کی آمد ورفت چونکہ اتنی سہل نہیں ہے اس لیئے یہ بھی ہوا ہے کہ رائٹر اور قاری کے درمیان فون پر گذشتہ پچیس برس سے رابطہ ہے مگر ملاقات کی نوبت نہیں آئی۔ ڈائجسٹ کی کہانیوں خواتین کے خوابوں کا جزیرہ ہوتی ہیں جہاں وہ اپنے اپنے خواب رقم کرتی ہیں۔

ڈاکٹر کرن نے اس مقالے میں متعصبانہ رویے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ درست ہے کہ سب کہانیاں ادبی معیار کی نہیں ہوتیں مگر بیشتر ایسی ہوتی ہیں جو ادبی کہانی کے معیار پر پورا اترتی ہیں
ٹی وی ڈارمے میں ڈائجسٹ رائٹرز کے آنے سے صورت حال میں بتدریج تبدیلی ہوئی۔ معاشی طور پر ڈائجسٹ رائٹرز مستحکم ہوئیں۔ ان کو شہرت بھی ملی اور انکی کہانیاں ٹی وی ڈرامے کے تمام تر تقاضوں کو پورا بھی کرتی ہیں۔
لیکن اسے باوجود اس ڈرامے کو ادبی ڈرامہ تسلیم کرنے سے کچھ حلقے قاصر ہیں۔ لوگوں کو شائد یہ تسلیم کرنے میں دقت ہو رہی ہے کہ اب نئے دور میں خواتین کے نئے مسائل کے ادراک کا نام ڈرامہ ہے۔ اسے ادبی کہیں یا غیر ادبی لیکن موجودہ ڈارمہ انہی ڈائجسٹ رائٹرز کی مرہون منت ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی پرائیوٹ چینل پاکستان میں آئے تو ان ڈائجسٹ رائٹرز نے ڈرامے کی کہانی پر اپنا قبضہ جما لیا جو انکا حق بھی بنتا تھا۔

ہر تحقیق کرنے والے کی تحقیق میں خواد اسکی ذات بھی عیاں ہوتی ہے۔ ڈاکٹر کرن نذیر احمد چونکہ خواتین کے حقوق کی بڑی عمبردار ہیں اس لیئے انکی تحقیق کا نتیجہ یہی ہے کہ ہر کہانی کی اپنی ایک داستان ہوتی ہے۔ ہر داستان کا ایک پس منظر ہوتا ہے اور اس پس منظر میں ایک پر اسرار اور مرکزی کردار ہوتا ہے جو اس کہانی کے جنم کا باعث ہوتا ہے عموما یہ پراسرار کردار خود کہانی کار ہوتا ہے۔ بقول ڈاکٹر کرن نذیر احمد کے ہم بھلے ان تحریروں کو ادبی شاہکار کی منزلت نہ دیں لیکن کم از کم ایک تخلیق کار کی عزت اور احترام ان ڈائجسٹ رائٹرز کا استحقاق ضرور ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles