Khaak Hoo Jane Tak - Aik Tabsara - Article No. 2535

Khaak Hoo Jane Tak - Aik Tabsara

'خاک ہو جانے تک' – ایک تبصرہ - تحریر نمبر 2535

یہ ناول ہمیں تقسیم ہندوپاک کے بعد کے دور میں لےجاتا ہے جہان لوگ ابھی بھی تقسیم کی تباہ کاریوں کے اثرات سے باہر نہیں آسکے۔

ہفتہ 8 مئی 2021

حماد انور
ذاتی طور پر جب بھی کسی کتاب کا ترجمہ پڑھنے لگوں تو ذہن میں پہلا خیال یہ ہی آتا ہے کہ کیا مترجم اصل کتاب سے انصاف کر پائے گا؟ کیا ان الفاظ ، خیالات اور احساسات کی صیح طور پر ترجمانی ہو سکے گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس نے شاید آج بھی ادبی برادری اور قارئین کو تقسیم کررکھا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا بہت مشکل ہے مگر نا ممکن نہیں اور دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ ایک تو کسی اور خیالات کو مکمل طور پر سمجھنا اور پھر خودایک دوسری زبان میں ڈھالتے وقت کہیں نہ کہیں مترجم کی پسند ناپسند سے اس مواو کا اصلی پن متاثر ہونا لازم ہے۔

کچھ ان خیالات کے ساتھ ہی میں نے حال ہی میں شائع ہونےوالی کتاب 'خاک ہوجانے تک' شروع کی جو کہ مشرف علی فاروقی کے انگریزی ناول Between Clay and Dustکا اردو ترجمہ ہے جو کہ سنہ ۲۰۱۲ میں شائع ہوا تھا۔

(جاری ہے)

مشرف علی فاروقی ایک ناول نویس، داستان شناس اور ترجمہ نگار ہیں، اور لوک روایات اور کلاسیکی متون میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ فاروقی نے اردو کلاسیکی متون داستانِ امیر حمزہ اور طلسم ہوش ربا کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔

فاروقی آن لائن اردو تھیسارس اور اسٹوری کِٹ پروگرام کے بانی ہیں۔
زیر نظر کتاب کا ترجمہ افضال احمد سیدکی کاشوں کا ثمر ہے۔ افضال احمد سید کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ ۱۹۴۶ میں غازی پور، اترپردیش، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ شاعری کی ابتدا ۱۹۷۶ کی اور اپنی نثری نظموں اور غزلوں کی بدولت اپنا منفرد مقام حاصل کیا۔ ان کی کلیات مٹی کی کان ۲۰۰۹ میں شائع ہوئی۔
افضال احمد سید نے میر تقی میر کےفارسی کلام کو اردو میں منتقل کیا ہے۔ وہ مختلف زبانوں سے شاعری، فکشن اور ڈراموں کا ترجمہ بھی کرتے رہے ہیں۔
یہ ناول ہمیں تقسیم ہندوپاک کے بعد کے دور میں لےجاتا ہے جہاں لوگ ابھی بھی تقسیم کی تباہ کاریوں کے اثرات سے باہر نہیں آسکے۔ اندرون شہر وہ رونقیں جن کا پورے شہرمیں شہرہ تھا، وہ ماند پڑتی جا رہی ہیں۔
ان حالات کے اثرات سے طوائفوں کے کوٹھوں اور پہلوانوں کے اکھاڑے بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ آزمائش کی اس گھڑی میں دو کاملینِ فن کی اپنی اقدار کی پاس‌داری ایسے تکلیف‌دہ فیصلے کرواتی ہے جن کا مداوا اور تلافی اُن کے اختیار میں نہیں رہتا۔
تاریخی طور پر برصغیر میں ان دونوں پیشوں کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے کیوں یہ ایسے اداروں کا کردار ادا کرتے تھے جہاں پر سخت اصولوں کے تحت رسم رواج، تہذیب و تمدان او ر تر بیت کا اہتمام کیا جاتاتھا۔
ایک جانب نوجوانوں کی جسمانی تربیت اور نظم و ضبط پر زور تھا تو دوسری جانب شرفا ان کوٹھوں کو شرف بخشتے جہاں پر ان کی روح کی تازگی کا اہتمام ہوتا۔ مگر بدلتے وقتوں کے ساتھ استاد رمزی اور گوہر جان جیسے کاملین فن کے لیے رسم ورواج کی جدید دور میں پاسداری ایک امتحان سے کم نہیں۔
استاد رمزی ایک ایسے پہلوان ہیں جن کی طاقت اور مہارت کا ایک زمانہ گرویدہ ہے۔
15 سال پہلے انہوں نے رستم زماں کا خطاب جیت کر اپنے دف کا نام اونچا کیا تھا۔ اس اعزاز کا بار بار دفاع کر کے انہوں نے اپنا نام دف کے عظیم ترین سپوتوں میں درج کروا لیا ہے۔ ریاستی سرپرستی تقریبا ختم ہونے کے بعد اب اکھاڑے مشکلات کا شکار ہیں۔ مگر ان حالات میں بھی استار رمزی اپنی زندگی اور پیشے کےسخت اصولوں پر قائم ہے جس سے اس کے خیرخواہوں کی تعداد میں کمی ہی ہو رہی ہے۔

استاد رمزی کا چھوٹا بھائی تمامی اس کا قدرتی وارث سمجھا جاتا ہے مگر اس کی سہل پسندی اور روایات سے روگردانی کی وجہ سے استاد رمزی اس سے مایوس ہے۔ دونوں بھایئوں کی یہ کشمکش صرف دو لوگوں تک محدود نہیں بلکہ یہ دو طرز فکر کا تصادم ہے جو ہمیں ناول میں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ ایک جانب روایت کی جدیدت سے جنگ ہے تو کہیں عزت کا شہرت سے مقابلہ ہے۔
اختتام تک قاری اس کشمکش کا شکار رہتا ہے کہ کہیں استاد رمزی کی بات ٹھیک تھی تو کچھ جگہ تمامی کی بات میں بھی دم تھا۔ یہ اس کہانی کی جوبصورتی ہے کہ یہ قاری کو اپنے ساتھ ان کرداروں کے سفر میں شامل کر لیتی ہے کہ ہر پڑھنے والا کسی نہ کسی کردار کی سوچ سے اپنے آپ کو متفق پاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کی مصنف نے یہ کتاب لکھنے سے پہلے کبھی اکھاڑا دیکھا بھی نہیں تھا مگر کتاب پڑھتے وقت ایک عام قاری بھی کشتی کے ان مقابلوں میں اپنے آپ کو یوں مگن پاتا ہے جیسے برسوں سے ان کا شیدائی ہو۔
یہ بلاشبہ مصنف کی محنت اور عمدہ تحقیق کی نشانی ہے۔
گوہر جان کا شمار اپنے وقت کی حسین ترین عورتوں میں ہوتا ہے۔ اس کا کوٹھا اندورن شہردہلی میں سب سے بڑا اور سب سے زیادہ مشہو ر تھا۔ اس کے کوٹھے پر لڑکیاں رقص و نغمے کے فن کا درس لیا کرتی تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کی رنقیں بھی ماند پڑتی جا رہی تھیں۔ ایک ایسی دنیا جس کا گزروبسر ہی لوگوں کی قدر شناسی اور دولت پر تھا اس پر زندگی کی ٖغیر یقینی نے بڑا گہرا اثر ڈالا تھا۔
مالی معاملات میں تنگی کی وجہ سے اب نوبت زیورات بیچنے پر آگئی تھی مگر گوہر جان کے کوٹھے نے اپنی روایات کا بھرم رکھا ہوا ہے۔
افضال احمد سید خود بھی ایک عمدہ پائے کے لکھاری ہیں اوراس ناول میں انہوں نے نہ صرف کہانی کی روح سے انصاف کیا ہے بلکہ ان کا انداز بیان اس قدر خوبصورت ہے کہ میرے نزدیک یہ ایک ترجمے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اٖفضال احمد نے اس میں اپنا رنگ بھر کچھ یوں بھرا ہے کہ کہانی رہی تو مشر ف علی فاروقی کی مگر اور نکھر گئی ہے۔
کہانی پڑھتے وقت آپ کئی ایسے الفاظ سے متعارف ہوتے ہیں جن کا ذکر روز مرہ کی گفتگو میں نہیں ملتا۔ مصنف کے اسلوب کو برقرار ر کھتے ہوئے مترجم نے کچھ اس عمدگی سے اس کو لکھا ہے کی گر آپ نے اس کا انگریزی ناول نہیں بھی پڑھا تو بھی آپ اس اس کتاب کو ایک مکمل اور دلچسپ کتاب کے طور پر پائیں گے۔
یہ کچھ انسانی کرداروں کی محبت، عزت، بے دفائی، اصولوں اور یقین کی کہانی ہے جن کے اردگرد کی دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے مگر وہ اپنے اصولول اور ماضی پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر اس بدلتی دنیا کا حصہ بننے کی کوشش کر رہے ہیں یہاںتک وہ خود خاک نہیں ہو جاتے۔

ناول: خاک ہو جانے تک
مصنف: مشرف علی فاروی
مترجم: افضال احمد سید
ناشر: کتاب پبلیکشینز
قیمت: 500 روپے
آرڈر:
0300-111-4144

Browse More Urdu Literature Articles