Urdu Ghazal Ka Shehsawar - Ikram Ul Haq Sarshar - Article No. 2511
اردو غزل کا شہسوار۔اکرام الحق سر شار - تحریر نمبر 2511
اکرام الحق سرشار کا پہلا شعری مجموعہ ''غنچہ سحر'' 1969ء کو ان کے عہد شباب ہی میں منظر عام پر آیا کہ گویا ''جب آتش جواں تھا ''۔
لقمان اسد جمعرات 8 اپریل 2021
یہ رسم وراثت میں ملی ہے مجھے سر شار
میں جھک کے نہیں ملتا ہوں اربابِ اثر سے
(جاری ہے)
شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کانوں میں بلبل نغمہ سرا ہے یا کسی باغ میں چہچہاتی کوئل کی سریلی آواز سماعتوں میں اتر کر رس گھول رہی ہے۔
جہاں ان کے اشعار میں محبت اور حساسیت کا رنگ نمایاں انداز میں ملتا ہے وہاں ان کے سخن میں فکری مزاحمت کو بھی مرکزیت حاصل ہے۔ وہ شعوری فکر کو اپنے منفرد اور مخصوص لب و لہجے کے ساتھ شعری پیرائے میں ڈھال کر ایسے قرینے سے ایک پیغام کی صورت میں قاری تک پہنچاتے ہیں کہ جس سے وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔تب کہیں جا کر اندھیرا جائے گا
صبح ہونے دو کِرن کے ساز پر
نغمہ ء سرشار چھیڑا جائے گا
اکرام الحق سرشار کی زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ عمر کے اس حصے میں بھی وہ فروغِ ادب کے لیے اتنے ہی سرگرم ِ عمل رہتے ہیں جتنا کہ ایامِ جوانی میں متحرک ہوا کرتے تھے۔ ان کے اندر کا انقلابی شاعر انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ انھیں معاصر حالات کا بخوبی ادراک ہے۔اجتماعی سطح پر پائی جانے والی معاشرتی ناہمواریوں، سماجی ناانصافیوں اور حالات کی چیرہ دستیوں پر ان کا دل کڑھتا ہے تو وہ اپنے احساسات و جذبات کو پوری سچائی اور بے باکی کے ساتھ شعری اظہاریہ میں بیان کرتے ہیں۔ اسی تناظر میں کہے گئے ان کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں۔
اِک حبسِ مسلسل میں ہوا ڈھونڈ رہے ہیں
کانٹوں سے توقع ہے بنیں زخم کا مرہم
ہم آک کے پتوں میں حنا ڈھونڈ رہے ہیں
اس شہرِ ستم گر میں عجب لوگ ہیں ہم بھی
عریانی کے عالم میں قبا ڈھونڈ رہے ہیں
گل بنو! وادیِ پُر خار کہاں تک دیکھوں
تیری زلفوں کی گھٹاؤں سے بھی ساغر برسیں
ساقیا! ابرِ گہر بار کہاں تک دیکھوں
حسنِ یوسف کاکبھی جلوہ نظر آجائے
ہم دمو! مصر کابازار کہاں تک دیکھوں
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے
بلاشبہ ''شہر''باکردار ، معتبر اور معروف لوگوں سے پہچانے جاتے ہیں کہ ان کا چہرہ یہی شخصیات ہوا کرتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ چیچا وطنی کی علمی اور ادبی پہچان اس زمانے میں اکرام الحق سرشار ہیں تو یہ بے جا ہر گز نہ ہوگا ۔ ان کے ان خوب صورت نعتیہ اشعار کے ساتھ اس مختصر مضمون کا اختتام کیا جاتا ہے
مرے نبی کی نبوت کا تخت ایسا ہے
نظر میں روضہِ اطہر زباں پہ اسمِ رسول
مسافرت میں مِرے پاس رخت ایسا ہے
ملائکہ بھی یہاں سجدہ ریز ہیں سرشار
یہ آستانہ ہے ایسا یہ تخت ایسا ہے
Browse More Urdu Literature Articles
داستان عزم
Dastaan E Azm
محمد فاروق عزمی کا پرعزم اور پر تاثیر قلمی سفر
Mohammad Farooq Azmi Ka PurAzam Aur PurTaseer Qalmi Safar
حلیمہ خان کا تقسیم 1947 کے شہداء کو سلام
'Walking The Divide: A Tale Of A Journey Home'
ذہن اجالا
Zehen Ujala
”نگر نگر اِک نظر“ پر ایک طائرانہ نظر
Nagar Nagar Ik Nazar Per Aik Tairana Nazar
بیش قیمت تحقیقی مقالات پر مبنی کتاب’کم وبیش‘: (ایک جائزہ)
Besh Qeemat Tehqeeqi Muqalat Per Mabni Kitab Kam O Besh
ڈاکٹر زاہد عامر اور سقراط کا دیس
Dr Zahid Aamir Aur Suqrat Ka Dees
”ادب اطفال کا اُبھرتا ہوا ستارہ۔ راج محمد آفریدی“
Adab Ittefal Ka Ubharta Hua Sitara - Raj Mohammad Afridi
تہذیبِ سخن ( شعری مجموعہ)
Tehzeeb E Sukhan
ڈاکٹر فرید پراچہ کی " عمر رواں"
Dr Farid Paracha Ki Umer E Rawaan
'خاک ہو جانے تک' – ایک تبصرہ
Khaak Hoo Jane Tak - Aik Tabsara
شعورِ حیات کا شاعر ۔ ۔۔۔حیات عبداللہ
Shaoor Hayat Ka Shair - Hayat Abdullah