ATTaisveeN Raat - Article No. 1677

ATTaisveeN Raat

اٹھائیسویں رات - تحریر نمبر 1677

خلیفہ نے نوکروں کو حکم دیا کہ یہ صندوق میرے پاس لاﺅ۔ ان میں سے ایک صندوق میں میں تھا، اب مجھے موت کا یقین بلا کسی شک کے آ گیا اور مجھے دنیا و مافیہا کی خبر نہ رہی

منگل 13 مارچ 2018

جب اٹھائیسویں رات ہوئی تواس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ۔۔۔۔ جب جوان نے اشھد ان لا الہ الا اللہ پڑھا تو اس نے کہا کہ میں نے لڑکی کو کہتے سنا کہ ان صندوقوں میں کچھ پرانے کپڑے ہیں اور میں چاہتی ہوں کہ ان کا حال کسی پر ظاہر نہ ہو۔ خلیفہ نے کہا کہ تجھے کھولنا پڑے گا تاکہ میں دیکھوں کہ ان میں کیا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے نوکروں کو آواز دی اور کہا کہ یہ صندوق میرے پاس لاؤ۔

اب مجھے موت کا یقین بلا کسی شک کے آ گیا اور مجھے دنیا و مافیہا کی خبر نہ رہی۔ نوکر ایک ایک کرکے صندوق لاتے اور خلیفہ دیکھتا کہ ان میں عطر اور کپڑے اور عمدہ پوشاکیں ہیں۔ وہ برابر صندوق لاتے اور خلیفہ دیکھتا جاتا تھا کہ ان میں کپڑے وغیرہ ہیں یہاں تک کہ اب اس صندوق کی باری آئی جس میں‘ میں تھا۔ لوگوں نے اسے کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ لڑکی نے جھٹ سے آگے بڑھ کر خلیفہ سے کہاکہ یہ صندوق جو اب تیرے آگے ہے‘ اسے زبیدہ بیگم کے آگے کھولیو کیونکہ اس میں اس کی راز کی چیزیں ہیں۔

(جاری ہے)

جب خلیفہ نے اسے یہ کہتے سنا تو صندوق کو اندر لے جانے کا حکم دے دیا اور نوکروں نے میرے صندوق کو اٹھا کر دوسرے صندوقوں کے درمیان آنگن میں رکھ دیا اور میرا لعاب خشک ہو گیا تھا، اب میری دوست نے مجھے نکالا اور کہا کہ اب تجھے ڈرنے اور خوف کھانے کی کوئی وجہ نہیں بلکہ خوش اور دل شاد ہو کر زبیدہ بیگم کے آنے تک بیٹھا رہ، خدا نے چاہا تو تیری مراد میرے متعلق پوری ہو جائے گی۔
میں تھوڑی دیر بیٹھا ہوں گا کہ دس کنیزیں آئیں جو باکرہ اور چاند سی خوبصورت تھیں اور آکر پانچ پانچ آمنے سامنے بیٹھ گئیں۔ اس کے بعد بیس کنیزیں اور آئیں جو باکرہ تھیں اور جن کے سینے ابھرے ہوئے تھے اور ان کے درمیان میں زبیدہ بیگم تھی جو اتنے زیور پوشاکوں سے لدی ہوئی تھی کہ چل نہ سکتی تھی۔
جب وہ سامنے آئی تو کنیزیں ادھر ادھرچلتی ہوئیں۔
اب میں اس کے سامنے آیا اور زمین کو بوسہ دیا۔ اس نے اشارے سے کہا کہ بیٹھ جا اور میں اس کے سامنے بیٹھ گیا اور اس نے مجھ سے سوالات کرنے شروع کئے اور میرا حسب نسب پوچھا۔ میں نے اس کے سارے سوالوں کا جواب دیا اور وہ خوش ہوگئی اور کہنے لگی کہ لڑکی میری تربیت بیکار نہیں گئی۔ پھر وہ مجھ سے کہنے لگی کہ یہ لڑکی میری بیٹی کی جگہ ہے اور تیرے پاس خدا کی امانت ہے، میں نے اس کے آگے زمین چومی اور وہ رضامند ہوگئی کہ میں لڑکی سے شادی کر لوں۔

اب اس نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے یہاں دس دن تک ٹھہروں اور میں ٹھہر گیا مگر اس مدت میں لڑکی کو میں نے کبھی نہیں دیکھا اور ایک لونڈی دن اور رات کا کھانا لاکر مجھے دے جاتی تھی۔ دس دن گزرنے کے بعد زبیدہ بیگم نے اپنی لڑکی کی شادی کے متعلق خلیفہ سے مشورہ کیا۔ خلیفہ نے اجازت دے دی اور اسے دس ہزار دینار دینے کا حکم دے دیا، اب زبیدہ بیگم نے گواہوں اور قاضی کو بلوایا اور انہوں نے میرا نکاح نامہ اس لڑکی کے ساتھ لکھ دیا۔
پھر انہوں نے شیرینی اور عمدہ کھانے پکوا کر گھر گھر تقسیم کرائے اور یہ حال دس دن تک رہا۔ یہ کل بیس دن ہوئے اور اس کے بعد لڑکی حمام گئی اور ایک خوانچہ لایا گیا‘ جس میں کھانے تھے اور منجملہ ان کے پاس ایک پیالہ زیرہ گوشت کا‘ جس میں شکر بھری ہوئی تھی اور اوپر سے مشک آمیز گلاب پڑا ہوا تھا اور اندر مرغی کے سینے سرخ اور رنگ برنگ تھے جن سے عقل دنگ رہ جاتی تھی۔
خدا کی قسم میں زیرہ گوشت کے پاس بیٹھ تو گیا اور خوب سیر ہو کر کھایا اور اس کے بعد میں نے اپنے ہاتھ پونچھے‘ مگر ان کو دھونے کا خیال نہ رہا اور بیٹھا رہا یہا ں تک کہ اندھیرا ہو گیا اور موم بتیاں جلیں اور ڈومنیاں ڈپھلیاں لے کر پہنچیں اور دلہن کی منہ دکھائی اور اشرفیاں وصول کرنے لگیں۔ یہاں تک کہ وہ سارے محل کا چکر لگا آئیں۔ اب وہ اسے میرے سامنے لائیں اور اس کے کپڑے اتارے۔
جب اس کے ساتھ پلنگ پر اکیلا ہوا اور اسے گلے لگایا اور مجھے اس کے وصال کا یقین نہیں آتا تھا‘ تو اسے میرے ہاتھوں زیرہ گوشت کی بو آئی اور وہ شور مچانے لگی، اب ہر طرف سے کنیزیں دوڑ پڑیں اور مجھے معلوم نہ تھا کہ کیا واقعہ ہے اور وہ کہنے لگی کہ اے بہن تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا کہ اس پاگل کو یہاں سے نکال دو‘ میں تو سمجھی تھی کہ یہ سمجھدار ہے۔
میں نے کہا کہ میرے پاگل پن کی کون سی بات ظاہر ہوئی؟ اس نے جواب دیا کہ اے پاگل تو نے زیرہ گوشت کھا کر ہاتھ کیوں نہیں دھوئے؟ خدا کی قسم میں تجھے اس فعل پر سزا دوں گی۔ کیا تجھ جیسا مجھ جیسی سے مباشرت کرے گا!
یہ کہہ کر اس نے ایک طرف بٹا ہوا کوڑا نکالا اور میری پیٹھ اور چوتڑوں پر مارنا شروع کیا یہاں تک کہ مجھے دنیا و مافیہا کی خبر نہ رہی اتنی مار اس نے مجھے ماری۔
پھر اس نے کنیزوں سے کہا کہ اسے پکڑ کر شہر کے حاکم کے پاس لے جاؤ تاکہ وہ اس کا ہاتھ کاٹ ڈالے جس سے اس نے زیرہ گوشت کھایا اور دھویا نہیں۔ جب میں نے یہ سنا تو میں نے کہا کہ لا حول ولا قوة الا باللہ تو میرا ہاتھ اس جرم پر کاٹتی ہے کہ میں نے زیرہ گوشت کھا کر اسے دھویا نہیں۔ اب کنیزیں اس کے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ بہن اس بار اس کا جرم معاف کر دے۔
اس نے جواب دیا کہ میں اس کی چند انگلیاں کاٹے بغیر نہ رہوں گی۔ یہ کہہ کر وہ چل دی اور دس دن تک غائب رہی اور میرے سامنے نہ آئی۔ دس دن کے بعد وہ میرے پاس آئی اور مجھ سے کہنے لگی کہ اے کل مونہے‘ میں تجھے زیرہ گوشت کھا کر ہاتھ نہ دھونے کا مزہ چکھاؤں گی۔ یہ کہہ کر اس نے کنیزوں کو آواز دی اور انہوں نے میری مشکیں کسیں اور اس نے ایک تیز استرا لا کر میرے انگوٹھے کاٹ ڈالے جیسا کہ اے حاضرین تم دیکھ رہے ہو۔
اس کے بعد میں بے ہوش ہو گیا اور اس نے انگوٹھوں پر کوئی سفوف چھڑکا اور خون بند ہو گیا اور میں کہتا جاتا تھا کہ میں کبھی زیرہ گوشت نہ کھاؤں گا۔ اگر کھا کر چالیس بار سوڈے اور چالیس بار خوشبو اور چالیس بار صابن سے نہ دھوؤں۔ اس کے بعد میں نے قسم کھائی کہ میں کبھی زیرہ گوشت نہ کھاؤں گا۔ اگر اس کے بعد میں اپنے ہاتھ نہ دھوؤں جیسا کہ میں نے تم سے بیان کیا ہے۔
اس لیے جب تم یہ زیرہ گوشت لائے تو میرا رنگ فق ہو گیا اور میں اپنے دل میں کہنے لگا کہ یہی میرے انگوٹھوں کے کٹنے کا سبب ہے اور جب تم نے میرے ساتھ زبردستی کی تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ مجھے قسم پوری کرنی چاہیے۔
حاضرین نے پوچھا کہ اس کے بعد کیا ہوا؟ اس نے جواب دیا کہ جب میں نے قسم کھائی تو اس کا دل پسیج گیا اور اس کے ساتھ سویا اور اس طرح ہم ایک مدت تک رہتے رہے۔
اس کے بعد اس نے کہا کہ شاہی محل میں ہمارا رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ یہاں سوائے تیرے اور کوئی نہیں آتا اور وہ بھی زبیدہ بیگم کی مہربانی سے۔ یہ کہہ کر اس نے پچاس ہزار دئیے اور کہا کہ یہ دامن لے اور ہمارے لیے ایک کشادہ مکان خرید۔ میں نے جا کر ایک خوبصورت اور کشادہ مکان خریدا اور اس میں جتنا اس کا سامان تھا اور جو مال اور کپڑے اور تحفے اس نے جمع کئے تھے،منتقل کیے۔
یہ ہے سبب میرے انگوٹھوں کے کٹنے کا۔ اس کے بعد ہم کھانا کھا کر واپس آئے اور کبڑے کے ساتھ وہ واقعہ پیش آیا۔ بس یہی میری باتوں کا مقصد ہے۔ اور بس! بادشاہ نے کہا کہ یہ کہانی کبڑے کی کہانی سے زیادہ با مزہ نہیں ہے بلکہ کبڑے کی کہانی اس سے کہیں زیادہ مزیدار ہے اور میں تم سب کو بغیر پھانسی دئیے نہ چھوڑوں گا۔ اب یہودی آگے بڑھا اور اس نے زمین کو بوسہ دیا اور کہا کہ جہاں پناہ میں تجھ سے ایک کہانی کہتا ہوں‘ جو کبڑے کی سرگزشت سے زیادہ عجیب و غریب ہے۔
چین کے بادشاہ نے کہا کہ اچھا‘ اپنی کہانی سنا۔
یہودی کی کہانی:
اس نے کہا کہ سب سے عجیب ماجرا میرے ساتھ گزرا ہے۔ وہ یہ ہے کہ میں جب دمشق میں پرھتا تھا تو ایک روز میں بیٹھا ہوا تھا کہ دمشق کے وزیر کے گھر سے ایک غلام آیا اور کہنے لگا کہ میرا مالک تجھ سے گفتگو کرنا چاہتا ہے۔ میں اٹھا اور اس کے ساتھ وزیر کے گھر گیا۔
جب میں اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ محل کے صدر میں صنوبر کا ایک تخت پڑا ہوا ہے۔ جس پر سونے کے پتر چڑھے ہوئے ہیں اور اس پر ایک بیمار لیٹا ہوا ہے اور وہ ایک جوان ہے اور اس سے زیادہ خوبصورت جوان دیکھنے میں نہیں آیا ہے، میں اس کے سرہانے بیٹھ گیا اور اس کی صحت کی دعا مانگی۔ اس نے اپنی آنکھ کے اشارے سے جواب دیا۔ میں نے کہا کہ اے آقا‘ اپنا ہاتھ مجھے دے‘ خدا تجھے صحت عطا کرے! اس نے اپنا بایاں ہاتھ نکال کر دیا۔
اس پر مجھے تعجب ہوا اور میں اپنے دل میں کہنے لگا کہ خداوند یہ عجیب بات ہے کہ یہ جوان اتنا خوبصورت اور اتنے بڑے گھرانے کا اور اسے تمیز نہیں! یہ عجیب و غریب بات ہے۔ اب میں نے اس کی نبض دیکھ کر اسے نسخہ لکھ دیا اور دس دن تک میرا آنا جانا اس کے یہاں رہا۔ یہاں تک کہ وہ اچھا ہو گیا اور حمام گیا اور غسل کر کے نکلا۔
وزیر نے مجھے ایک خوبصورت خلعت عطا کی اور مجھے اس شفاخانے کا رئیس بنا دیا جو دمشق میں تھا۔
ایک دن جب میں اس جوان کے ساتھ حمام گیا اور اس نے کپڑے اتارے تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کا داہنا ہاتھ کٹا ہوا ہے اور یہ حال کا واقعہ ہے اور اس کی بیماری کا یہی سبب تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے تعجب ہوا اور اس پر میرا دل کڑھنے لگا۔ اب میری نظر اس کے بدن پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ اس پر کوڑے کے نشان ہیں اور اس وجہ سے وہ تیل کی مالش کراتا تھا، اس پر میں پریشان تھا اور پریشانی کے آثار میرے چہرے سے نمایاں تھے۔
جوان نے مجھے دیکھا اور سمجھ گیا کہ مجھ پر کیا گزری ہے اور کہنے لگا کہ اے نامور حکیم‘ میری حالت پر تعجب مت کر۔ حمام سے نکل کر میں اپنی آپ بیتی تجھ سے بیان کروں گا۔ جب ہم حمام سے نکل کر گھر آئے اور کھانا کھا کر آرام کرنے لگے تو جوان نے کہا کہ آیا تو بالاخانے کی سیر کرنا چاہتا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ اس نے غلاموں کو حکم دیا کہ فرش اوپر لے چلیں اور ایک میمنہ تل کر لائیں اور کچھ میوے۔
غلام میوے لائے اور ہم دونوں نے کھائے لیکن اس نے بائیں ہاتھ سے کھایا۔ اب میں نے اس سے کہا کہ اپنا ماجرا بیان کر۔
اس نے کہا کہ اے نامور حکیم میں موصل کا رہنے والا ہوں۔ جب میرے دادا کا انتقال ہوا تو اس کے دس بیٹے تھے اور منجملہ ان کے میرا باپ اے حکیم‘ سب سے بڑا تھا۔ جب وہ جوان ہوئے تو انہوں نے شادیاں کیں اور اپنے باپ سے میں پیدا ہوا لیکن باقی نو بھائیوں کے کوئی اولاد نہ ہوئی۔
اب میں بڑا ہوا اور میرے چچاؤں کو نہایت خوشی تھی۔ جب میں بالغ ہوا تو ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ موصل کی جامع مسجد میں گیا۔ جمعے کا دن تھا اور جمعے کی نماز پڑھ کر لوگ جا چکے تھے لیکن میرے والد اور چچا بیٹھ کر ملکوں اور شہروں کے عجائبات کا ذکر کرنے لگے۔ یہاں تک کہ مصر کا ذکر ہونے لگا اور میرے چچاؤں نے کہا کہ مسافروں کا بیان ہے کہ مصر اور نیل سے زیادہ خوبصورت جگہ دنیا بھر میں نہیں ہے۔
جب میں نے یہ سنا تو میرے دل میں مصر کا شوق پیدا ہو گیا۔ میرے والد کہنے لگے کہ جس نے مصر نہیں دیکھا‘ اس نے دنیا میں کچھ نہیں دیکھا۔ اس کی مٹی سونا اور نیل عجوبہ‘ وہاں کی عورتیں حوریں ہیں اور مکانات محل اور آب و ہوا معتدل اور اس کی خوشبو کے آگے عود اور اگر تم کو شرم آتی ہے اور اس کے سوا اور ہو بھی کیا سکتا ہے کیونکہ دنیا وہی ہے۔ اگر تم اس کے باغوں کو عصر کے بعد دیکھو جب کہ سایہ بڑھ رہا ہو تو تمہیں عجیب و غریب نظارہ دکھائی دے گا اور تمہیں اس سے بڑی مسرت حاصل ہوگی۔
یہ کہہ کر انہوں نے مصر اور نیل کی تعریفوں کے پل باندھنے شروع کر دئیے۔ جب وہ فارغ ہوئے اور میں نے مصر کی یہ تعریفیں سنیں تو وہ دل میں بیٹھ گئیں۔ وہ تو اٹھ کر گھر چلتے ہوئے لیکن مجھے رات بھر نیند نہ آئی اور کھانا پینا حرام ہوگیا۔
کچھ دنوں کے بعد میرے چچاؤں نے مصر کے سفر کی تیاریاں کیں اور میں اپنے باپ کی خوشامد کرنے لگا۔ یہاں تک کہ اس نے میرے لیے بھی تجارت کا مال تیار کیا اور میں ان کے ساتھ روانہ ہوگیا اور میرے باپ نے ان سے کہا کہ اس کو مصر نہ لے جانا بلکہ وہ دمشق میں رہ کر اپنا مال فروخت کرے۔
اب میں اپنے والد سے رخصت ہوکر روانہ ہوگیا اور موصل سے سفر کرتے کرتے ہم حلب پہنچے۔ وہاں کچھ دن ٹھہر کر ہم روانہ ہوگئے اور دمشق پہنچے۔ ہم نے دیکھا کہ اس شہر میں بے شمار درخت اور نہریں اور میوہ جات اور چڑیاں ہیں، گویا کہ وہ جنت اور وہاں ہر قسم کے میوے موجود ہیں، وہاں ہم ایک سرائے میں اترے اور میرے چچاؤں نے چند روز وہاں قیام کرکے خریدوفروخت کی اور میرا سامان بھی بیچا اور مجھے ایک درہم میں پانچ کا فائدہ ہوا‘ جس پر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔
اب میرے چچا مجھے وہاں چھوڑ کر مصر روانہ ہو گئے۔ ان کے چلے جانے کے بعد میں وہاں ٹھہرا رہا اور میں نے ایک خوبصورت کوٹھی لی جس کی تعریف سے زبان قاصر ہے۔ اس کا کرایہ دو دینار ماہوار تھا۔ میں نے وہاں رہ کر کھانے پینے میں زندگی گزاری یہاں تک کہ جتنا روپیہ پیسہ میرے پاس تھا‘ سب ختم ہو گیا، ایک دن میں اپنی کوٹھی کے دروازے پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک نوجوان لڑکی آئی جو بہترین لباس پہنے ہوئے تھی، اس سے بہتر لباس میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہ دیکھا تھا۔
میں نے اس کی طرف آنکھ ماری اور وہ فوراً دروازے میں داخل ہو گئی۔ جب وہ اندر گئی تو میں بھی اندر گیا اور میں نے دروازہ بند کر لیا، جب اس نے اپنی نقاب الٹی اور اپنی قبا اتاری تو میں نے دیکھا کہ وہ حسن میں لاجواب ہے اور میرا دل اس پر آ گیا۔ میں اٹھا اور ایک خوانچہ لایا جس میں بہتر سے بہتر کھانے تھے اور میوہ جات اور تمام چیزیں جو اس موقعے کے لیے ضروری تھیں، میں نے اسے لاکر رکھا اور ہم دونوں نے کھانا کھایا اور پھر ہنسی مذاق کرنے لگے، اس کے بعد ہم نے شراب پینی شروع کی‘ یہاں کہ مدہوش ہو گئے اور میں اٹھا اور اس کے ساتھ بچھونے پر گیا اور صبح تک ایسی رات گزاری کہ کبھی نہ گزاری تھی۔
اب میں نے اسے دس دینار دینا چاہے اور اس نے تیوری چڑھائی اور اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور وہ خفا ہو کر کہنے لگی کہ تف ہو تم پر اے موصل والو! تو سمجھتا ہے کہ میں تیرے مال کی لالچ میں آئی ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی قمیض کی جیب سے پندرہ دینار نکال کر میرے آگے ڈال دئیے اور کہنے لگی کہ خدا کی قسم‘ اگر تو انہیں نہ لے گا تو میں پھر کبھی تیرے پاس نہ آؤں گی۔
اس لیے میں نے وہ دینار لے لیے اور وہ کہنے لگی کہ اے میرے پیارے‘ تین دن کے بعد مغرب اور عشاء کے درمیان میری راہ دیکھیو اور میں آؤں گی اور ان دیناروں سے آج کی طرح دعوت مہیا کیجیو۔
یہ کہہ کر وہ رخصت ہوئی اور چل دی اور میری عقل بھی اس کے ساتھ چلتی ہوئی۔ تین دن گزرنے کے بعد وہ پھر آئی اور پہلے سے زیادہ زرکش لباس اور زیور پہنے ہوئی تھی اور میں نے اس کے آنے سے پہلے اس جگہ کو آراستہ و پیراستہ کر رکھا تھا۔
اب ہم نے کھانا کھایا اور شراب پی اور پہلے کی طرح ہم بستر رہے۔ اب اس نے مجھے پھر پندرہ دینار دئیے اور تین دن کے بعد آنے کا وعدہ کر گئی۔ میں نے اس مقام کو اس کے لیے پھر آراستہ کیا اور وہ تین دن کے بعد آئی اور اس کا لباس پہلی دو مرتبہ سے بھی زیادہ عمدہ تھا اور مجھ سے کہنے لگی کہ اے میرے مالک‘ کیا میں خوبصورت نہیں ہوں؟ میں نے جواب دیا کہ واللہ تو خوبصورت ہے۔
اس نے کہا کہ اگر تیری اجازت ہو تو میں اپنے ساتھ ایک لڑکی لاؤں جو مجھ سے زیادہ حسین اور کمسن ہے تاکہ ہم سب باہم کھیلیں کودیں اور تو اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرے اور اس کا دل بھی خوش ہو کیونکہ وہ ایک زمانے سے غمگین ہے۔ اس نے مجھ سے درخواست کی کہ میرے ساتھ آکر رات گزارے۔ جب میں نے اس کی باتیں سنیں تو کہا کہ بہت خوب۔ اب ہم شراب پی کر مست ہو گئے اور صبح تک ہم بستر رہے۔
پھر اس نے مجھے پندرہ دینار نکال کر دئیے کہ دوسری لڑکی کی خاطر جو میرے ساتھ آئے گی‘ اس جگہ کو اور زیادہ آراستہ و پیراستہ کیجیو۔ یہ کہہ کر وہ چلی گئی اور میں نے چوتھے دن دستور کے مواقف مکان کو سجایا۔ مغرب کے بعد وہ آئی اور اس کے ساتھ ایک اور تھی جو قبا میں لپٹی ہوئی تھی۔ دونوں آئیں اور بیٹھ گئیں۔ مجھے اس پر بڑی خوشی ہوئی اور میں نے موم بتیاں جلائیں اور کشادہ پیشانی سے ان سے ملا۔
وہ اٹھیں اور انہوں نے اپنے کپڑے اتارے، جب نئی لڑکی نے اپنا منہ کھولا تو میں نے دیکھا کہ چودہویں رات کے چاند کی طرح ہے اور میں نے ایسا چہرہ کبھی نہیں دیکھا ہے۔
اب میں اٹھ کر ان کے لیے کھانا اور شراب لایا اور ہم سب نے کھایا پیا اور میں نئی لڑکی کے منہ میں نوالے دیتا اور اس کے لیے پیالہ بھرتا اور اس کے ساتھ شراب پیتا تھا۔ اس لیے لڑکی دل ہی دل رشک کھانے لگی اور اس نے کہا کہ خدا کی قسم بتا کہ یہ لڑکی مجھ سے زیادہ حسین نہیں ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں‘ واللہ۔
اس نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ تو اس کے ساتھ سو۔ میں نے کہا کہ بسر و چشم۔ اب وہ اٹھی اور ہم دونوں کے لیے بچھونا بچھایا اور میں اس لڑکی کے پاس گیا اور صبح تک سویا۔ جب میں جاگا تو میں نے دیکھا کہ میں پانی میں نہایا ہوا ہوں اور مجھے خیال ہوا کہ پسینہ آیا ہوگا۔ میں بیٹھ گیا اور لڑکی کو جگانے لگا اور اس کے کاندھے ہلائے تو اس کا سر تکیے پر سے گر پڑا۔
اس سے میرے حواس جاتے رہے اور میں چلایا اور کہنے لگا کہ اے پردہ پوش‘ میرا پردہ رکھیو۔ کیونکہ میں نے اسے ذبح ہوا پایا۔ اب میں اٹھا اور دنیا میری آنکھوں کے آگے تاریک تھی اور میں نے اپنی پرانی دوست کو ڈھونڈا مگر اس کو نہ پایا اور مجھے معلوم ہوا کہ ہو نہ ہو اسی نے حسد کی وجہ سے اس لڑکی کی گردن کاٹ ڈالی ہے۔ میں نے کہا کہ لا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم اب میں کیا کروں۔
تھوڑی دیر تک سوچنے کے بعد اٹھا اور کپڑے اتار کر آنگن کے بیچ میں ایک گڑھا کھودا اور لڑکی کو مع اس کے زیور کے لے کر اس میں ڈال دیا اور اوپر سے اسے مٹی اور پتھروں سے پاٹ دیا اور نہا دھو کر صاف کپڑے پہن کر اور باقی مال لے کر گھر سے نکلا اور اس میں قفل ڈال دیا اور کوٹھی کے مالک کے پاس ہمت کر کے گیا اور اسے ایک سال کا کرایہ دے کر کہا کہ میں چچاؤں کے پاس مصر جا رہا ہوں۔
یہ کہہ کر میں مصر چلاگیا اور اپنے چچاؤں سے ملا۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور وہ تجارت کا مال بیچ چکے تھے۔ انہوں نے مجھ سے آنے کا سبب پوچھا اور میں نے جواب دیا کہ تم لوگوں سے ملنے کو جی چاہتا تھا۔ مگر میں نے ان سے یہ نہ کہا کہ میرے پاس اب تک کچھ دام باقی ہیں۔ میں ایک سال تک ان کے ساتھ رہا اور مصر اور اس کے نیل کی سیر اور جو دام میرے پاس تھے‘ ان کو خرچ کیا اور خوب کھایا پیا۔
جب میرے چچا چلنے لگے تو میں بھاگ کر چھپ گیا۔ انہوں نے خیال کیا کہ میں دمشق چلا گیا ہوں گا۔ جب وہ چلے گئے تو میں نکلا اور تین سال اور مصر میں گزارے یہاں تک کہ اب میرے پاس کچھ باقی نہ رہا۔ میں ہر سال دمشق کی کوٹھی والے کے پاس کوٹھی کا کرایہ بھیجتا تھا مگر تین سال کے بعد میری حالت اتنی نازک ہو گئی کہ میرے پاس سوائے ایک سال کے کرائے کے اور کچھ نہ تھا اس لیے میں وہاں سے روانہ ہو کر دمشق پہنچا اور اسی کوٹھی میں اترا۔
کوٹھی کا مالک مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا، میں نے دیکھا کہ تمام کمرے ویسے ہی بند ہیں‘ جیسے میں انہیں بند کر گیا تھا۔ میں نے انہیں کھول کر اپنی ضروریات کی چیزیں نکالیں۔ اب میں کیا دیکھتا ہوں کہ اس فرش کے نیچے جس پر اس رات اس لڑکی کے ساتھ سویا تھا جو ذبح کر دی گئی تھی‘ ایک سونے کا طوق پڑا ہو اہے جس میں جواہرات جڑے ہوئے ہیں۔ میں نے اسے اٹھا لیا اور مذبوحہ لڑکی کا خون لگا ہوا تھا‘ اسے پونچھا اور سوچنے اور تھوڑی دیر تک رونے لگا۔
دو دن رہنے کے بعد تیسرے دن میں حمام گیا اور کپڑے بدلے اور چونکہ میرے پاس بالکل دام نہ رہے تھے میں بازار گیا اور شیطان نے میرے دل میں وسوسہ ڈالا تاکہ قضا و قدر کا حکم نافذ ہو۔ میں جواہرات کا ہار لے کر بازار گیا اور دلال کے حوالے کیا، وہ مجھے مکان والے کے پاس بٹھا کر چلتا ہوا اور جب بازار گرم ہوا تو بغیر میرے جانے اس نے خفیہ آواز لگائی۔
ہار پر دو ہزار دینار دام لگے ہوئے تھے دلال میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یہ لڑی تانبے کی ہے‘ جھوٹی ہے اور یورپ کی بنی ہوئی ہے اور اس کے ہزار دام سے زیادہ نہیں ملتے۔ میں نے کہا کہ ہاں‘ اسے ہم نے ایک عورت کا مذاق اڑانے کے لیے بنوایا تھا اور یہ میری بیوی کی میراث میں ملا ہے اور میں اسے بیچنا چاہتا ہوں۔ جا اور ایک ہزار درہم لے آ۔
اب شہر زاد کو صبح ہوتی دکھائی دی اور اس نے وہ کہانی بند کردی جس کی اسے اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles