AttharveeN Raat - Article No. 1613

AttharveeN Raat

اٹھارھویں رات - تحریر نمبر 1613

مجھے اس سانپ پر ترس آیا اور میں نے ایک پتھر اٹھا کر اژدہے کے سر پر دے مارا اور وہ فوراً مرگیا۔ اب سانپ نے دو بازو کھولے اور ہوا میں اڑ گیا اور میری نظر سے غائب ہو گیا

پیر 4 دسمبر 2017

جب اٹھارہویں رات ہوئی تو اس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ لڑکی نے کہا کہ میں نہایت خوبی سے جوان کو اپنی طرف مائل کرتی رہی یہاں تک کہ اس نے مجھ سے اقرار کرلیا اور میں اس رات اس کی رانوں کے نیچے سوئی اور مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ مجھے کس قدر فرحت ہو رہی ہے۔ جب سویرا ہوا تو ہم اٹھے اور خزانوں میں گئے اور ہلکی اور قیمتی چیزیں اپنے ساتھ لے لیں اور قلعے سے اتر کر شہر میں آئے۔

یہاں ہم نے دیکھا کہ غلام اور ناخدا ہمیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ جب ان کی نظر ہم پر پڑی تو وہ خوش ہوگئے۔ میں نے جو کچھ دیکھا تھا‘ ان سے بیان کیا اور اس جوان کا قصہ اور اس شہر پر خدا کا قہر نازل ہونے کا سبب شروع سے آخر تک سنا۔ یہ سن کر وہ حیران رہ گئے لیکن جب میری دونوں بہنوں‘ ان کتیوں نے مجھے اور میرے ساتھ اس جوان کو دیکھا تو میرے اوپر حسد کرنے لگیں اور طیش میں آگئیں اور پوشیدہ مکروفریب کرنے لگیں۔

(جاری ہے)

اب ہم خوش خوش کشتی میں سوار ہوئے اور اپنی کمائی پر خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے تھے۔ لیکن مجھے سب سے زیادہ خوشی اس جوان کی تھی۔ اب ہم ہوا کا انتظار کرنے لگے اور جوںہی مواقف ہوا چلی‘ ہم نے بادیان کھول دئیے اور روانہ ہوگئے، میری دونوں بہنیں ساتھ تو تھیں ہی اور ہم نے بات چیت شروع کردی تو ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ بہن‘ اس خوبصورت جوان کا تو کیا کرے گی؟ میں نے جواب دیا کہ میرا ارادہ ہے کہ میں اسے اپنا شوہر بناؤں۔
پھر میں نے اس جوان کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ اے میرے آقا‘ میں تجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں‘ بشرطیکہ تو مخالف نہ کرے اور وہ یہ کہ جب ہم اپنے وطن بغداد پہنچیں تو میں حرم کی رسم کے موافق اپنے آپ کو تیری غلامی میں پیش کروں اور تو میرا شوہر اور میں تیری بیوی ہو جاﺅں۔ اس نے کہا کہ بسروچشم۔ میں نے اپنی بہنوں کی طرف مخاطب ہوکر کہا کہ میرے لیے یہ جوان کافی ہے اور جس جس نے جو چیزیں حاصل کی ہیں‘ وہ ان کی ملکیت رہیں۔
انہوں نے کہا جو کچھ تو نے کیا‘ ٹھییک ہے لیکن ان کے دل میری طرف سے پوشیدہ کھوٹ رہی۔ ہوا موافق تھی اور ہماری کشتی چلتی رہی یہاں تک کہ ہم مخدوش سمندر سے نکل کر امن و امان میں پہنچے اور کچھ دنوں کے بعد بصرے کے قریب آئے اور اس کی شہر پناہ چمکتی ہوئی دکھائی دی اور ہم سو گئے تو میری بہنیں اٹھییں اور مجھے بستر سمیت لے کر سمندر میں پھینک دیا۔
یہی حرکت انہوں نے جوان کے ساتھ کی اور چونکہ اس کو اچھی طرح تیرنا نہ آتا تھا‘ وہ ڈوب گیا اور خدا نے اسے شہادت کا درجہ عطا کیا۔ کاش کہ میں بھی اس کے ساتھ ڈوب گئی ہوتی لیکن خدا نے میری تقدیر میں سلامتی لکھی تھی اور میں بچ گئی۔ جب میں سمندر میں پڑی ہوئی تھی خدا نے میرے لیے لکڑی کا تختہ بھیج دیا اور میں اس پر چڑھ گئی اور لہروں نے مار کر مجھے جزیرے کے کنارے پھینک دیا۔
باقی رات میں نے جزیرے پر ادھر ادھر چلتے گزار دی۔ جب سویرا ہوا تو میں نے دیکھا کہ جزیرے کے پاس سے انسان کے قدم کے برابر چوڑا راستہ خشکی کو جاتا ہے۔ چونکہ سورج نکل چکا تھا۔ میں نے اپنے کپڑے دھوپ میں سکھائے اور جزیرے کے کچھ پھل کھائے اورپانی پیا اور چل کھڑی ہوئی۔ جب میں چلتے چلتے خشکی کے قریب پہنچی اور مجھ میں اور شہر میں دوپہر کی راہ باقی رہی تو کیا دیکھتی ہوں کہ کھجور کے درخت پر اتنا موٹا ایک سانپ میری طرف بھاگتا چلا آتا ہے اور میں نے دیکھا کہ وہ دہنے بائیں گھومتا چلا آرہا ہے‘ یہاں تک کہ وہ میرے قریب پہنچ گیا اور میں نے دیکھا کہ اس کی زبان بالشت بھر لٹکی ہوئی ہے اور وہ مٹی اڑاتا چلا آرہا ہے اور اس کے پیچھے پیچھے ایک اژدہا لگا ہوا تھا جو اس پر حملہ آور تھا اور وہ لمبا اور پتلا تھا اور لمبائی میں نیزے کے برابر تھا۔
اسی اژدہے سے وہ سانپ بھاگ رہا تھا اور دہنے بائیں پھرتا جاتا تھا کیونکہ اژدہے نے اس کی دم پکڑلی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور دوڑنے کی وجہ سے اس کی زبان لٹک پڑی تھی۔ مجھے اس سانپ پر ترس آیا اور میں نے ایک پتھر اٹھا کر اژدہے کے سر پر دے مارا اور وہ فوراً مرگیا۔ اب سانپ نے دو بازو کھولے اور ہوا میں اڑ گیا اور میری نظر سے غائب ہو گیا۔
میں بیٹھ کر اس پر تعجب کرنے لگی اور میں تھکی ہوئی تو تھی ہی‘ مجھے نیند آگئی اور میں اپنی جگہ پر سو گئی۔ جب میں ایک پہر کے بعد اٹھی تو میں نے دیکھا کہ میرے پاﺅں کے پاس ایک لڑکی بیٹھی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ دو کتیاں ہیں اور وہ میرے پاﺅں دبا رہی ہے۔ مجھے اس سے شرم آئی اور میں اٹھ کر بیٹھ گئی اور اس سے کہنے لگی کہ بہن‘ تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ کتنی جلد تو مجھے بھول گئی! میں وہی ہوں جس کے ساتھ تو نے بھلائی کی ہے اور نیکی کا بیچ بویا ہے اور میرے دشمن کو قتل کیا ہے۔
میں وہی ہوں جسے تو نے اژدہے سے بچایا تھا۔ میں جینہ ہوں اور وہ اژدھا جن تھا اور میرا دشمن، بغیر تیرے میرا چھٹکارا نہ ہوتا۔
جب تیری وجہ سے مجھے نجات ملی تو میں میں ہوا میں اڑ کر اس کشتی پر پہنچی‘ جس میں تیری بہنوں نے تجھے پھینک دیا تھا اور جو کچھ اس کشتی میں تھا‘ وہ میں نے تیرے مکان میں منتقل کرکے کشتی کو ڈبو دیا اور تیری بہنوں کو کالی کتیاں بنا دیا‘ کیونکہ جو کچھ تیرے اور ان کے درمیان پیش آیا تھا‘ وہ سب مجھ کو معلوم تھا‘ جوان تو ڈوب چکا۔
یہ کہہ کر وہ مجھے اور دونوں کتیوں کو اٹھا کر لے گئی اور میرے مکان کی چھت پر ڈال دیا۔ میں نے دیکھا کہ جو کچھ مال کشتہ کے اندر تھا‘ وہ سب مکان کے بیچ میں پڑا ہوا ہے اور اس میں ذرا سا بھی ضائع نہیں ہوا۔ اس کے بعد سانپ نے مجھ سے کہا کہ تجھے ہمارے سردار سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی کے نقش کی قسم ہے کہ اگر تو ان میں سے ہر ایک کو روز تین سو کوڑے نہ مارے گی تو میں آ کر تجھے بھی انہی کی طرح کردوں گی‘ میں نے کہا کہ بسروچشم۔
اسی لیے اے امیر المومنین‘ میں برابر انہیں اسی قدر کوڑے مارتی ہوں اور ساتھ ساتھ ان پر ترس بھی کھاتی ہوں اور انہیں بخوبی معلوم ہے‘ ان کے مارنے میں میری کوئی خطا نہیں اور وہ میرا عذر قبول کرتی ہیں۔ یہ ہے میرا قصہ اور میری حکایت! راوی کہتا ہے کہ خلیفہ کو اس پر سخت تعجب ہوا اور دوسری لڑکی سے کہنے لگا کہ تیرے جسم پر جو مار کے نشان ہیں‘ ان کا کیا سبب ہے؟
دوسری لڑکی کی کہانی:
اس نے کہا کہ اے امیر المومنین‘ جب میرا باپ فوت ہوا تو اس نے بہت سا مال ترکے میں چھوڑا۔
اس کے مرنے کے کچھ مدت بعد میں نے ایک شخص سے نکاح کیا اور اپنے زمانے میں وہ سب سے زیادہ نیک بخت تھا۔ ایک سال زندہ رہ کر وہ بھی انتقال کر گیا اور مجھے اسی ہزار دینار سونے کے‘ میراث میں ملے اور شرع کے مواقف یہی میرا حصہ تھا۔ اب میں زیادہ امیر ہوگئی اور میری خبر دور دور پہنچی اور میں نے دس جوڑے کپڑے بنوائے تھے‘ جن میں سے ہر جوڑے کی قیمت ایک ہزار دینار تھی۔
ایک روز جب کہ میں بیٹھی ہوئی تھی تو ایک بڑھیا‘ میرے پاس آئی جس کے گال پچکے ہوئے تھے اور بھوئیں بے بال اور آنکھیں اندر گھسی ہوئی اور دانت ٹوٹے ہوئے اور چہرے پر جھریاں پڑی ہوئی اور آنکھیں چندھلی اور سر چونے کی طرح سفید اور بال کچھڑی اور جسم پھوڑے پھنسیوں سے بھرا ہوا اور قد جھکا ہوا اور رنگ بدلا ہوا تھا۔ جب بڑھیا اندر ائی تو اس نے سلام کیا اور میرے سامنے زمین کو بوسہ دیا اور مجھ سے کہنے لگی کہ میری ایک یتیم لڑکی ہے اور آج کی رات کو میں اس کا نکاح اور منہ دکھائی کی رسم ادا کررہی ہوں اور ہم لوگ اس شہر میں پردیسی ہیں اور کسی کو نہیں جانتے‘ اس وجہ سے ہم دل شکستہ ہورہے ہیں۔
تو اس کی منہ دکھائی میں شامل ہوکر اجر اور ثواب حاصل کر۔ جب شہر کی شریف زادیاں سنیں گی کہ تو شامل ہورہی ہے تو وہ خود آئیں گی اور لڑکی کی دلجعمی بھی ہوگی۔ وہ دل شکستہ ہے اور سوائے خدا کے اس کا کوئی نہیں۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگی۔ مجھے اس پر رحم اور ترس آیا اور میں نے کہا کہ بسروچشم۔ پھر میں نے کہا کہ اگر خدا نے چاہا تو میں اس کے ساتھ کچھ سلوک بھی کروں گی اور میں اس کی منہ دکھائی کی رسم اپنے ہی کپڑوں اور زیور اور گہنوں میں ادا کروں گی۔
بڑھیا خوش ہوگئی اور جھک کر میرے قدم چومنے لگی کہ خدا تجھے نیک بدلہ دے گا اور تیری دلجمعی کرے گا جس طرح تو نے میری دل جمعی کی ہے۔ لیکن اے میری مالکہ‘ ابھی سے تکلیف نہ کر‘ بلکہ عشا کے وقت تیار رہ میں تجھے آ کر لے جاﺅں گی۔ یہ کہہ کر اس نے میرے ہاتھ چومے اور چلی گئی۔ اب میں اٹھی اور نہا دھوکر کپڑے بدلے اور سنگھار کیا۔ بڑھیا آئی اور کہنے لگی کہ اے مالکہ شہر کی شریف زادیاں آ گئی ہیں اور میں نے ان سے تیرے آنے کا ذکر کر دیا ہے‘ وہ خوش ہیں اور تیرا انتظار کررہی ہیں اور تشریف آوری کی راہ دیکھ رہی ہیں۔
میں اپنی عبا پہن کر اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنی کنیزوں کو ساتھ لے کر چل کھڑی ہوئی۔ چلتے چلتے میں ایک گلی میں پہنچی۔ جہاں جھاڑو دی گئی تھی اور پانی چھڑکا ہوا تھا۔ وہاں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور نہایت صفائی تھی۔ اب ہم ایک دروازے کی طرف بڑھے جس کے اوپر ایک مضبوط مرمر کا گنبد تھا اور جس کے آگے محل کا دروازہ تھا‘ جو زمین سے لے کر بادلوں تک بلند تھا۔

جب ہم دروازے پر پہنچے تو بڑھیا نے دستک دی اور دروازہ کھولا اور ہم اندر گئے۔ ہم نے دیکھا کہ قالین بچھا ہوا ہے اور جلتی ہوئی قندیلیں لٹکی ہوئی ہیں اور شمع دانوں میں جواہرات اور قیمتی معدنیات پڑے ہوئے ہیں۔ ڈیوڑھی سے چل کر ہم ایک بے مثل دالان میں داخل ہوئے‘ جس میں ریشم کا فرش بچھا ہوا تھا اور جلتی ہوئی قندیلیں لٹکی ہوئی تھیں اور جھاڑ اور فانوس کی دو صفیں تھیں اور دالان کے صدر میں صنوبر کا ایک تخت تھا‘ جس میں موتی اور جواہرات جڑے ہوئے تھے اور جس کے اوپر اطلس کا ایک شامیانہ تھا۔
ہم ان چیزوں میں محو تھے کہ شامیانے کے نیچے سے ایک لڑکی نکلی۔ جب میں نے اسے دیکھا تو اے امیر المومنین وہ چودھویں کے چاند سے زیادہ خوبصورت تھی اور اس کا چہرہ چمکتی ہوئی صبح سے زیادہ روشن تھا۔ لڑکی شامیانے سے نیچے آئی اور کہنے لگی کہ مرحبا اھلاً وسھلاً اے عزیز اور عالی قدر بہن‘ ہزار بار مرحبا۔ پھر وہ بیٹھ گئی اور کہنے لگی کہ بہن‘ میرا ایک بھائی ہے‘ جس نے تجھے بعض تماشوں اور عید کے دنوں میں دیکھا ہے اوروہ جوان ہے اور مجھ سے زیادہ خوبصورت ہے۔
وہ دل و جان سے تجھ پر عاشق ہے کیونکہ تیرا حسن و جمال لاجواب ہے‘ اور اس نے یہ بھی سنا ہے کہ تو اپنی قوم کی سردار ہے اور وہ بھی اپنی قوم کا سردار ہے۔ اس کا ارادہ ہے کہ وہ تجھ سے رشتہ قائم کرے اور مجھے تجھ سے ملانے کا ہی سب حیلہ تھا۔ وہ تجھ سے اللہ اور اس کے رسول کی سنت کے مواقف نکاح کرنا چاہتا ہے اور حلال کام میں کوئی عیب نہیں۔ جب میں نے اس کی باتیں سنیں اور دیکھا کہ میرا دل مکان پر آچکا ہے تو میں نے لڑکی سے کہا بسروچشم۔
وہ خوش ہوگئی اور اس نے تالی بجائی اور ایک دروازہ کھولا۔ اس میں سے ایک جوان نکلا جو جوانی میں چور تھا۔ اور عمدہ لباس پہنے ہوئے تھا اور قد اور جسم اور اعتدال اور حسن اور جمال اور خوبصورتی میں یکتا تھا‘ اس کا انداز دلکش اور بھویں کمان کی طرح تھیں اور اس کی آنکھیں دلوں پر جلال جادو چلاتی تھیں۔
جب میں نے اسے دیکھا تو میرا دل بھی اس پر آگیا اور اس کی محبت میرے دل میں سما گئی۔
وہ میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور ایک پہر تک میں اس کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔ اب اس لڑکی نے دوبارہ تالی بجائی اور نعمت خانے کا دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک قاضی اور چار گواہ نکلے اور سلام کرکے بیٹھ گئے۔ میں نے جوان کے ساتھ نکاح کا معاہدہ لکھا اور وہ لوگ چلے گئے۔ اب جوان نے میری طرف مخاطب ہوکر کہا کہ یہ کیسی مبارک رات ہے! پھر کہا کہ اے میری مالکہ‘ میں تیرے ساتھ ایک شرط کرنا چاہتا ہوں۔
میں نے کہا کہ اے میرے مالک‘ وہ شرط کیا ہے؟ وہ اٹھا اور قرآن لے آیا اور کہنے لگا کہ حلف اٹھا کہ تو میرے سوا کسی اور پر نظر نہ ڈالے گی اور اس کی طرف مائل نہ ہوگی۔ میں نے اس بات کا حلف اٹھا لیا اور وہ بہت خوش ہوگیا اور مجھے گلے لگا لیا اور اس کی محبت نے میرے دل پر قبضہ کر لیا۔ اب لوگ میرے لیے دسترخوان لائے اور ہم نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔
اس کے بعد وہ جوان ہمارے پاس آیا اور مجھے لے کر عروسی کے بستر پر گیا اور صبح تک بوس و کنار میں مشغول رہا۔ ایک مہینہ تک اس کی یہی حالت رہی اور ہماری خوشی اور سرور کی کوئی انتہا نہ تھی۔ ایک مہینے کے بعد میں نے اس سے اجازت مانگی کہ بازار سے کچھ کپڑے خرید لاﺅں اور اس نے مجھے جانے کی اجازت دے دی۔ میں نے عبا پہنی اور بڑھیا اور ایک لونڈی کو اپنے ساتھ لیا۔
بازار پہنچ کر میں ایک نوجوان دکاندار کی دکان میں جا بیٹھی جو بڑھیا کا واقف تھا۔ بڑھیا نے مجھ سے کہا کہ اس لڑکے کا باپ مرچکا ہے اور اس کے لیے بہت مراث چھوڑی ہے اور اس کے پاس بہت سامان ہے جو کچھ تو چاہے گی وہ اس دکان میں مل جائے گا۔ بازار بھر میں اس کے کپڑوں سے اچھے کہیں نہ ملیں گے۔ پھر بڑھیا نے دکاندار سے کہا کہ اس نوجوان لڑکی کے لیے بہترین کپڑے نکال۔
اس نے کہا بسروچشم۔ بڑھیا نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ مگر میں نے کہا کہ ہمیں تیرے شکریے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم ضرورت کی چیزیں اس سے لے کر اپنے گھر واپس جائیں۔ جو کچھ ہم چاہتے تھے وہ اس نے نکال کر دیا اور ہم نے اس کے لیے دام نکالے۔ لیکن اس نے دام لینے سے انکار کیا اور کہنے لگاکہ اسے آپ لوگ آج کے دن میری طرف سے مہمانی خیال فرمائیں۔
بڑھیا نے کہا کہ اگر تو دام نہیں لیتا تو ہم تیرے کپڑے تجھے واپس کئے دیتے ہیں۔ اس نے کہا کہ خدا کی قسم میں تجھ سے کچھ نہ لوں گا اور تمام چیزیں ایک بوسے کے بدلے مفت نذر ہیں کیونکہ ایک بوسہ میری دکان کے سارے مال سے زیادہ قیمتی ہے۔ بڑھیا نے کہا کہ ایک بوسے سے تجھے کیا مل جائے گا؟ پھر وہ مجھ سے کہنے لگی کہ اے بیٹی‘ تو نے سنا کہ یہ جوان کیا کہتا ہے؟ اگر اس نے تیرا ایک بوسہ لے لیا تو تیرا کیا بگڑ جائے گا؟ اور اس کے بدلے جو تیرا جی چاہے‘ لے لے۔
میں نے جواب دیا کہ کیا تو نہیں جانتی کہ میں نے حلف اٹھایا ہے؟ اس نے کہا کہ اسے بوسہ لے لینے دے اور تو خاموش رہیو۔ اس میں تیرا کوئی حرج نہیں اور تجھے یہ دام بھی واپس ملتے ہیں۔ وہ اس بات کو ایسے اچھے پیرائے میں بیان کرتی رہی کہ بالآخر میں نے اپنا منہ گریبان میں ڈال دیا اور راضی ہوگئی۔ پھر میں نے آنکھیں بند کرلیں اور اپنی عبا لے کر راہ گیروں کی طرف سے اوٹ کر لی‘ اور وہ اپنا منہ عبا کے اندر میرے رخسار تک لایا۔
جب اس نے میرا بوسہ لیا تو اتنی زور سے کاٹا کہ میرے رخسار کا ایک ٹکڑا گوشت کا جدا ہوگیا اور میں بے ہوش ہوگئی اور بڑھیا نے مجھے اپنی گود میں اٹھا لیا۔ جب مجھے افاقہ ہوا تو دیکھا کہ دکان میں قفل لگا ہوا ہے اور بڑھیا میرے اوپر افسوس کررہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ خدا اسے بڑی مصیبت سے بچائے۔ اب اس نے مجھ سے کہا کہ اٹھ اور گھر چل اور دل کو مضبوط کر‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ فضیحت ہو جائے۔
جب گھر پہنچو تو بیمار بن کر لیٹ جائیو اور میں تیرے اوپر چادر ڈال دوں گی اور ایک دوا لے آﺅں گی جس سے یہ زخم جلد بھر آئے گا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں اپنی جگہ سے اٹھی اور مجھے بڑی تشویش تھی اور میں بہت ڈر رہی تھی اور میرے قدم آہستہ آہستہ پڑ رہے تھے۔ جب میں گھر پہنچی تو بیمار بن کر پڑ گئی۔ جب رات ہوئی تو میرا شوہر آیا اور کہنے لگا کہ بی بی‘ تجھے آج باہر جا کر کیا ہو گیا ہے؟ میں نے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے‘ سر میں درد ہے۔
اس نے مجھے دیکھا اور پھر ایک موم بتی جلائی اور میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ترے رخسار پر یہ زخم کیسا ہے؟ اور وہ بھی نرم گوشت میں؟ میں نے کہا کہ میں جب آج دن میں تجھ سے اجازت لے کر کپڑے خریدنے گئی تو ایک اونٹ سے ٹکر لگ گئی۔ جس پر لکڑیاں لدی ہوئی تھیں اور میرا نقاب پھٹ گیا اور میرا رخسار زخمی ہوگیا۔ جیسا تو دیکھ رہا ہے کیونکہ یہ شہر بہت تنگ ہے۔
اس نے کہا کہ میں کل ہی جا کر شہر کے حاکم سے کہتا ہوں کہ وہ شہر کے تمام لکڑ ہاروں کو پھانسی دے دے۔ میں نے کہا تو ایک شخص کے گناہ پر صبر نہیں کر سکتا؟ واقعہ تو یہ ہے کہ میں گدھے پر سوار تھی اور وہ گر پڑا اور میں زمین پر آپڑی اور ایک لکڑی جو وہاں پڑی ہوئی تھی میرے رخسار پر لگی اور میں زخمی ہوگئی۔ اس نے کہا کہ کل اس ماجرے کی اطلاع‘ جعفر برمکی کو دوں گا اور وہ اس شہر کے تمام گدھوں کو مروا ڈالے گا۔
میں نے کہا کہ میرے سبب تمام گدھوں کو ہلاک کر دینا چاہتا ہے جو کچھ میرے ساتھ ہوا وہ تقدیر میں لکھا ہوا تھا‘ اس نے کہا کہ میں ضرور ایسا کروں گا اور مجھ سے اصرار کرتا رہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ میں بھاگی اور اس سے سخت کلامی کرنے لگی۔
اے امیرالمومنین‘ اب وہ سمجھ گیا کہ میں نے کیا کیا اور کہنے لگا کہ تو نے اپنی قسم توڑ ڈالی اور زور سے چلایا اور ایک دروازہ کھلا اور اس میں سے سات حبشی غلام نکلے اور اس کے حکم کے بموجب انہوں نے مجھے بچھونے پر سے کھینچ کر مکان کے بیچ میں ڈال دیا۔
اب اس نے ایک غلام کو حکم دیا کہ وہ میرے گھٹنوں پر بیٹھ کر میرے دونوں پاﺅں پکڑ لے پھر ایک تیسرا آیا جس کے ہاتھ میں تلوار تھی اور وہ کہنے لگا کہ اے سردار‘ کیا میں تلوار سے اس کے دو ٹکڑے کردوں؟ اور وہ دونوں غلام ایک ایک ٹکڑا لے کر دجلے میں پھینک آئیں تاکہ ان کو مچھلیاں کھا جائیں اور یہی سزا اس شخص کی ہے جو قسم اور محبت کو توڑتا ہے۔ پھر اس نے غلام سے کہا کہ اے سعد‘ اس کی گردن اڑا دے۔
جب غلام کو یقین آگیا تو وہ میرے سر پر آکر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ کہ میری مالکہ‘ شہادت کا کلمہ پڑھ اور اگر تیری کوئی حاجت ہے تو ہم سے کہہ کیونکہ اب تیری زندگی ختم ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ اے نیک غلام‘ ذرا مجھے مہلت دے تاکہ میں آخری وصیت کر دوں۔ اب میں نے اپنا سر اٹھایا اور اپنے حال پر غور کرنے لگی اور یہ کہ میں عزت کے بعد کس قدر ذلت میں مبتلا ہوگئی۔
پھر میرے آنسو بہنے لگے اور میں زاروقطار رونے لگی اور وہ میری طرف غضبناک ہوکر دیکھنے لگا۔ اے امیرالمومنین‘ جب میں نے اسے دیکھا تو میں رونے اور اس کی طرف دیکھنے لگی۔ لیکن اس کا غصہ اور بڑھ گیا۔ میں روتی اور گڑگڑاتی تھی اور اپنے دل میں کہتی تھی کہ میں اسے باتوں میں لبھا لوں گی‘ ممکن ہے کہ وہ میرے قتل سے باز آئے۔ خواہ وہ میرا سارا مال متاع لے لے۔
میں روتی جاتی تھی اور وہ میری طرف دیکھتا اور مجھے ڈانٹتا اور گالیاں دیتا جاتا تھا۔ اب اس نے للکار کر غلام سے کہا کہ اس کے دو ٹکڑے کر ڈال اور مجھے اس سے نجات دے کیونکہ اس میں ہمیں اب کوئی فائدہ نہیں۔
اے امیرالمومنین جب ہم ایسی حالت میں تھے‘ اور مجھے اپنی موت کا یقین آچکا تھا اور میں اپنی زندگی سے ناامید ہوچکی تھی اور میں اپنا معاملہ خدا کے سپرد کرچکی تھی تو کیا دیکھتی ہوں کہ وہی بڑھیا آئی اور جوان پر گر پڑی اور ان کو چومنے اور رونے لگی اور کہا کہ بیٹا‘ میری تربیت اور خدمت کے حق کے بدلے اس لڑکی کو معاف کردے کیونکہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے اس سزا کی مستحق ہو‘ اور تو ابھی کمسن ہے‘ میں ڈرتی ہوں کہ کہیں تو اس کی وجہ سے گناہ میں مبتلا نہ ہو جائے، مثل ہے کہ قاتل کو قتل کی سزا دی جاتی ہے۔
اس گندگی سے کیا فائدہ! اس کو اپنے پاس اور اپنے دل سے دور کر دے۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگی اور خوشامد پر خوشامد کرتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ مان گیا اور کہنے لگا کہ میں نے اسے معاف کیا لیکن یہ ضرور ہے کہ میں اس پر کوئی نشانی لگا دوں جو عمر بھر اس کے ساتھ رہے۔ اس نے غلاموں کو حکم دیا کہ وہ میرے کپڑے اتاریں اور مجھے گھسیٹ کر لمبا لٹا دیں اور غلام میرے اوپر بیٹھ گئے اور جلاد غلام اٹھا اور بہی کی ایک چھڑی لاکر مجھے مارنا شروع کردیا اور میری پیٹھ اور پہلو پر اتنی چھڑیاں ماریں کہ میں اس کی وجہ سے بے ہوش ہوگئی اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
اب اس نے غلاموں کو حکم دیا کہ جب رات ہو جائے تو مجھے وہاں سے اٹھا لے جائیں اور بڑھیا کو ساتھ لے لیں تاکہ وہ گھر کا پتہ بتائے اور مجھے اس گھر میں ڈال آئیں‘ جہاں میں پہلے تھی۔ انہوں نے ایسا ہی کیا جیسا کہ ان کے سردار نے انہیں حکم دیا تھا اور مجھے میرے گھر میں ڈال آئے اور چلے گئے۔ رات بھر میں بے ہوش پڑی رہی۔ جب سویرا ہوا تو مرہم اور دواﺅں سے میں نے اپنی حالت ذرا درست کی اور اپنے جسم کا علاج کیا۔
لیکن جیسا کہ تو جانتا ہے کہ کوڑے کے نشان میری پسلیوں پر باقی رہ گئے۔ چار مہینے تک میں کمزور اور بستر پر پڑی رہی اور میرا علاج ہوتا رہا یہاں تک کہ مجھے فائدہ ہوا اور میں اچھی ہوگئی۔ اب میں پھر اس مکان کی طرف گئی جہاں میرے ساتھ یہ ساری واردات ہوئی تھی اور دیکھا کہ وہ کھنڈر ہوگیا ہے اور گلی کی گلی مسمار پڑی ہے اور وہ مکان مٹی کا ڈھیر ہو کر رہ گیا لیکن مجھے یہ نہ معلوم ہو سکا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اب میں اپنی سوتیلی بہن کے پاس گئی اور دیکھا کہ اس کے ساتھ یہ دونوں کالی کتیاں ہیں۔
میں نے اسے سلام کیا اور اپنی حالت اور ساری داستان سنائی۔ اس نے کہا کہ بہن‘ زمانے کی گردش سے کون بچا ہے! لیکن خدا کا شکر ہے تو صحیح سلامت ہے۔ اس کے بعد اس نے اپنی داستان سنائی اور ماجرا بیان کیا جو اس کی بہنوں کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اور جو نتیجہ ظاہر ہوا۔ اب ہم دونوں ساتھ ساتھ رہنے لگے اور پھر کبھی شادی کا ذکر اپنی زبان پر نہ لائے۔ پھر یہ سودا خریدنے والی لڑکی بھی ہمارے ساتھ ہوگئی۔
وہ ہر روز جا کر تمام چیزیں خرید لاتی ہے جن کی ہمیں دن یا رات کے لیے ضرورت ہوتی ہے‘ کل تک ہم اسی دستور پر قائم تھے کہ ہماری بہن بازار سے ہمارے لیے کچھ خریدنے گئی جیسا کہ وہ ہر روز کیا کرتی تھی اور حمال اور ان تینوں قلندروں کا وہ واقعہ پیش آیا جو معلوم ہے۔ ہم نے ان سے گفتگو کی اور انہیں اپنے گھروں میں لائے اور ان کی خاطر تواضع کی اور ابھی تھوڑی ہی رات اور گزری ہوگی کہ موصل کے تین معزز سوداگر ہمارے پاس آئے اور انہوں نے اپنی داستان بیان کی اور ہم ان سے بات چیت کرنے لگے۔
ہم نے ان کے ساتھ ایک شرط کی تھی جو انہوں نے توڑ ڈالی اور ہم نے انہیں عہد شکنی کی سزا دی اور ان سے کہا کہ اپنی اپنی داستان بیان کرو۔ جب انہوں نے اپنی اپنی حکایتیں اور ماجرے بیان کئے تو ہم نے ان کو معاف کردیا اور آج تک جبکہ ہم تیرے حضور میں حاضر نہ ہوئے تھے‘ ہم سارے واقعات سے بے خبر تھے۔ خلیفہ کو اس پر تعجب ہوا اور اس نے سارا قصہ لکھوا کر اپنے کتب خانے میں داخل کر دیا۔ اب شہرزاد کو صبح ہوتی نظر آئی اور اس نے وہ کہانی بند کردی جس کی اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles