BaeesveeN Raat - Article No. 1652

BaeesveeN Raat

بائیسویں رات - تحریر نمبر 1652

جن اسے لے کر مصر شہر میں اترا اور اسے ایک اڈے پر بٹھا کر جگا دیا۔ جب وہ نیند سے جاگا تو اس نے دیکھا کہ میں بصرے میں اپنے باپ کی قبر پر نہیں

جمعرات 4 جنوری 2018

جب بائیسویں رات ہوئی تو اس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ ۔۔۔۔۔۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ جب جن نے جنیہ سے بیان کیا کہ بادشاہ نے اس کی لڑکی کا نکاح کبڑے سائیس سے کردیا ہے اور وہ بہت غمگین ہے اور سوائے اس جوان کے کوئی دوسرا حسن میں اس کے مشابہ نہیں تو جنیہ نے کہا کہ تو جھوٹ کہتا ہے کیونکہ یہ جوان دنیا بھر میں زیادہ خوبصورت ہے‘ جن نے اس کی تردید کی اور کہا کہ اے بہن‘ خدا کی قسم لڑکی اس سے زیادہ خوبصورت ہے لیکن سوائے اس کے اور کوئی اس کے قابل نہیں کیونکہ وہ ایک دوسرے سے مشابہ ہیں اور سگے! چچیرے بھائی بہن معلوم ہوتے ہیں۔

افسوس کہ یہ کبڑا اس کے پالے پڑا ہے۔ جنیہ نے کہا کہ بھائی‘ چل ہم اس کے نیچے داخل ہو جائیں اور اسے اٹھا کر لڑکی کے پاس لے چلیں، جس کا تو ذکر کرتا ہے اور دیکھیں کہ دونوں میں کون زیادہ خوبصورت ہے۔

(جاری ہے)

جن نے کہا کہ بسروچشم۔ یہ تو نے ٹھیک کہا اور تیری رائے اس وقت بہترین ہے۔ میں ابھی اسے اٹھائے لاتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اسے اٹھا لایا اور ہوا میں اڑنے لگا اور جنیہ اس کے ساتھ ہو لی۔

یہاں تک کہ وہ جن اسے لے کر مصر شہر میں اترا اور اسے ایک اڈے پر بٹھا کر جگا دیا۔ جب وہ نیند سے جاگا تو اس نے دیکھا کہ میں بصرے میں اپنے باپ کی قبر پر نہیں ہوں۔ اس نے دہنے بائیں دیکھا اور اپنے آپ کو بصرے کے علاوہ کسی اور جگہ پایا اور قریب تھا کہ وہ چلائے کہ اتنے میں جن نے اسے ایک مکا مارا۔ جن اس کے لیے عمدہ لباس لایا تھا جو اس نے اس کو پہنایا اور ایک موم بتی روشن کی اور اس سے کہنے لگا کہ میں تجھے لایا ہوں اور میں تیرے ساتھ فی سبیل اللہ ایک کام کرنے والا ہوں۔
اس موم بتی کو اپنے ہاتھ میں لے اور اپنے سامنے والے حمام کی طرف جا اور لوگوں میں شریک ہو جا‘ اور ان کا ساتھ نہ چھوڑیو جبکہ تو دلہن کے کمرے کے پاس نہ پہنچ جائیو۔ اس کے بعد آگے بڑھ کر کمرے میں داخل ہو جائیو اور کسی سے نہ ڈریو۔ داخل ہوتے ہی کبڑے دولہے کی دہنی طرف ٹھہر جائیو اور سنگھار کرنے والیوں اور ڈومینوں اور دائیوں میں سے جو جو تیرے پاس آتی جائیں ان کے لیے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالیو‘ جو سونے سے بھری ہوگی‘ اسے جلدی سے نکال کر ان کی طرف پھینک دیجیو اور کچھ فکر مت کیجیو کیونکہ جتنی بار تو جیب میں ہاتھ ڈالے گا‘ اسے سونے سے بھرا پائے گا۔
جو کوئی تیرے پاس آئے‘ اسے چنگل بھر بھر اشرفیاں دیجیو اور کسی چیز سے نہ ڈریو اور اپنے پیدا کرنے والے پر بھروسہ کیجیو کیونکہ یہ تیری طاقت سے نہیں بلکہ خدا کے حکم سے ہوگا۔
جب بدر الدین حسن نے جن کی یہ باتیں سنیں تو وہ اپنے دل میں کہنے لگا کہ آخر یہ لڑکی کون ہے اور اس بھلائی کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے! اب وہ آگے بڑھا اور موم بتی جلا کر حمام کے پاس آیا تو دیکھا کہ کبڑا گھوڑے پر سوار ہے۔
بدرالدین حسن لوگوں کے درمیان داخل ہوگیا۔ وہ نہایت آن بان کے ساتھ اور خوبصورت تھا اور وہ کلاہ پہنے ہوئے تھے اور اس پر پگڑی بندھی ہوئی تھی اور اس کی قبا سنہرے تاروں سے بنی ہوئی تھی اور وہ اکڑتا ہوا چلا جاتا تھا اور جب کبھی ڈومنیاں یا اور لوگ اس کے پاس آتے تو وہ اپنا ہاتھ جیب میں ڈالتا اور اسے اشرفیوں سے بھرا ہوا پاتا اور جلدی سے نکال کر انہیں ڈومنی کی ڈھپلی میں ڈال دیتا یہاں تک کہ اس نے ڈھپلی کو سونے سے بھر دیا۔
ڈومنیوں کی عقل دنگ رہ گئی اور لوگوں کو اس کے حسن و جمال پر اچنبھا ہوتا تھا۔ اسی طرح وہ وزیر کے گھر تک گئے۔ اب حاجیوں نے غیر لوگوں کو اندر آنے سے روکا اور ان سے کہا کہ وہ واپس چلے جائیں لیکن ڈومنیوں نے کہا کہ جب تک کہ نوجوان ہمارے ساتھ اندر نہ آئے گا ہم بھی داخل نہیں ہونے کے‘ کیونکہ اس نے ہمیں انعال دے کر ہماری جھولیاں بھر دی ہیں‘ اور ہم دلہن کی منہ دکھائی نہ کریں گے جب تک وہ موجود نہ ہوگا۔
الغرض وہ اسے لے کر شادی کے کمرے میں گئیں اور اسے کبڑے دولہے کی آنکھوں کے سامنے بٹھایا۔ امرا اور وزرا اور حاجیوں کی بیویاں دو رویہ صف باندھے کھڑی تھیں اور ہر ایک کے ہاتھ میں ایک بڑی موم بتی جل رہی تھی اور ہر ایک کے چہرے پر ایک ہلکی سی نقاب تھی اور وہ دلہن کے بیٹھک سے لے کر محل کے صدر تک جو دلہن کے نکلنے کی جگہ تھی‘ دہنے بائیں صف باندھے کھڑی تھیں۔

جب عورتوں نے بدرالدین حسن اور اس کے حسن و جمال کو دیکھا‘ کیونکہ اس کا چہرہ نئے چاند کی طرح چمک رہا تھا‘ تو یہ سب اس کی طرف مائل ہوگئیں اور ڈومنیوں نے عورتوں سے کہا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حسین مرد نے ہمارے ساتھ سرخ سونے کی بخشش کی ہے‘ اس کی خدمت کرنے میں کوتاہی نہ کرنا اور جو کچھ وہ کہے‘ اسے ضرور ماننا۔ اب عورتیں موم بتیاں لیے اس کے اردگرد جمع ہوگئیں اور اس کا حسن و جمال دیکھنے اور اس کی خوبصورتی پر رشک کھانے لگیں۔
ان میں سے ہر ایک کا یہ جی چاہتا تھا کہ کاش کہ وہ تھوڑی دیر اس کی گود میں بیٹھتی نہیں بلکہ سال بھر تک اور انہوں نے اپنے چہروں سے نقابیں اتار لیں کیونکہ ان کی عقلیں سلب ہوچکی تھیں اور کہنے لگیں کہ کیسی خوش قسمت ہوگی وہ عورت جو اس کی ملکیت ہو۔ پھر وہ اس کبڑے سائین اور اس شخص کو جس کی وجہ سے اس کی شادی اس خوبصورت لڑکی سے ہوئی‘ بددعائیں دینے لگیں اور جب بدرالدین حسن کو دعائیں دیتی تھیں اس کبڑے کو بھی ساتھ ساتھ بددعائیں دیتی تھیں۔
اب ڈومنیوں نے ڈھولکیں بجانا اور طبلوں پر گانا شروع کیا اور سنگھار کرنے والیاں نکلیں اور ان کے بیچ میں وزیر کی لڑکی تھی۔ انہوں نے اسے خوب خوشبوئیں اور عطر لگائی تھیں اور معطر کیا تھا اور اس کے بالوں کو خوبصورت بنایا تھا اور انہیں دھونی دی تھی اور اسے زیور اور شاہانہ لباس پہنایا تھا۔ مجنملہ اس کے لباس کی ایک پوشاک تھی جس پر سرخ سونے کے بیل بوٹوں اور جانوروں اور چڑیوں کی تصویریں تھیں اور وہ پوشاک قبا کی طرف لباس کے اوپر پڑی ہوئی تھی اور ان کے گلے میں کئی ہزار دینار کا یمنی ہار پڑا ہوا تھا۔
جس میں ایسے ہیرے جڑے ہوئے تھے جو نہ تببع اور نہ قیصر کو کبھی نصیب ہوئے ہوں گے۔ دلہن چودھویں رات کے چاند کی طرح تھی اور جب وہ سامنے آئی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ جنت کی حور ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اسے اس خوبروئی کے ساتھ پیدا کیا۔ جب عورتوں نے اسے چاروں طرف گھیر لیا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ تارے ہیں اور دلہن چاند جو ابھی بادلوں میں سے نکلا ہے۔

بدر الدین حسن بیٹھا ہوا تھا اور لوگ اسے دیکھنے میں محو تھے کہ اتنے میں دلہن ناز و ادا سے چلتی ہوئی آئی۔ کبڑا سائیس اٹھا کہ اسے بوسہ دے لیکن لڑکی نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا اور دوسری طرف چل دی یہاں تک کہ وہ اپنے چچیرے بھائی کے سامنے پہنچی۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ وہ بدرالدین حسن کی طرف مائل ہے تو وہ زور زور سے ہنسنے لگے اور ڈومنیاں چلانے لگیں۔

اس نے فوراً جیب میں ہاتھ ڈالا اور اشرفیاں نکال کر ڈومنیوں کی ڈھولکوں میں ڈال دیں اور وہ خوش ہوگئیں اور کہنے لگیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ تیری دلہن بنے۔ حسن مسکرایا اورسب کے سب اس کی طرف دیکھنے لگے اور کبڑا سائیس بندر کی طرح اکیلا رہ گیا اور جب لوگ اس کے لیے موم بتی جلاتے تھے تو وہ نہ جلتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ ششدر رہ گیا اور اندھیرے میں بیٹھا ہوا دل میں کڑھ رہا تھا لیکن بدر الدین حسن کے سامنے لوگ موم بتیاں لیے کھڑے تھے‘ اور جب اس نے دیکھا کہ ایک طرف تو دولہا اندھیرے میں اکیلا کھڑا ہے اور دوسری طرف وہ خود لوگوں کے درمیان ہے اور موم بتیاں اس کے آگے جل رہی ہیں تو وہ حیران ہوگیا اور سخت متعجب ہوا۔
جب بدرالدین حسن نے اپنی چچیری بہن پر نظر ڈالی تو وہ خوشی کے مارے پھولا نہ سمایا اور اس نے دیکھا کہ اس کا چہرہ حسن کی چمک دمک دکھا رہا ہے اور وہ سرخ اطلس کی پوشاک پہنے ہوئے ہے۔ اب سنگھار کرنے والیوں نے اسے منہ دکھائی کی پہلی خلعت پہنائی اور وہ اس کی خوبروئی پر گروید ہوگیا اور جب وہ اپنے حسن کے غرور میں مٹک مٹک کر چلنے لگی تو عورتوں اور مردوں دونوں کی عقلیں زائل ہوگئیں۔

اب انہوں نے یہ پوشاک بدل کر دوسری آسمانی رنگ کی پوشاک پہنائی اور جب وہ اس لباس میں باہر نکلی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چاند نکل آیا‘ اس کے بال کالے کالے تھے‘ رخسار نرم نرم، چہرہ ہنس مکھ، سینہ ابھرا ہوا، پہلو اور کلائیاں نرم نرم اور وہ منہ دکھائی کی دوسری پوشاک پہنے ہوئے تھی‘ پھر انہوں نے تیسری پوشاک بدلی اور گھنے بال اس کے اوپر چھوڑ دئیے اور کالی اور لمبی لٹیں بکھیر دیں جو کالی راتوں کی طرح سیاہ اور طویل معلوم ہوتی تھیں‘ اور وہ اپنی جادو بھری آنکھوں سے دلوں پر تیر چلانے لگی اور تیسری پوشاک اس کے بدن پر تھی۔
اب انہوں نے چوتھی پوشاک بدلی تو وہ نکلتے ہوئے سورج کی طرف سامنے آئی اور ناز و ادا سے جھوم جھوم کر چلنے اور غزالوں کی طرح دیکھنے اور اپنی پلکوں کے تیروں سے دلوں کو پاش پاش کرنے لگی۔ پھر وہ پانچویں پوشاک میں نکلی مثل ایک پیاری لڑکی کے‘ گویا وہ بید کی چھڑی تھی یا پیاسا ہرن‘ اور اس کی لٹوں کے بچھو رینگ رہے تھے اور ان کے عجائبات ظاہر ہورہے تھے۔
اور اس کے کولہے مٹک رہے تھے اور گردن اٹھی ہوئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک سبز پوشاک میں اس کی منہ دکھائی کی اور اس کے سیدھے قد کے آگے نیزہ شرمانے لگا اور وہ سارے جہاں کے حسینوں سے بازی لے گئی اور اس کے چہرے کی چمک دمک کے آگے چودھویں رات کا چاند مدھم پڑ گیا اور اس کے حسن و جمال نے اس کی آروزوئیں پوری کر دیں اور اس کی لوچ اور لچک کے آگے نئی ٹہنیاں شرمندہ تھیں اور وہ اپنی خوبروئی سے دلوں کو چکنا چور کررہی تھی۔
پھر انہوں نے ساتویں پوشاک میں منہ دکھائی کی جو دھانی رنگ کی تھی۔
جب دلہن نے آنکھیں کھولیں تو کہنے لگی کہ خدایا‘ اس شخص کو میرا شوہر بنا اور اس کبڑے سائیس سے میرا پیچھا چھڑا۔ ان لوگوں نے ساتوں کی ساتوں منہ دکھائیاں بدرالدین حسن کے سامنے کیں اور وہ کبڑا سائیس ایک طرف بیٹھا رہا۔ جب وہ اس سے فارغ ہوچکیں تو لوگوں سے کہا کہ اب جاﺅ اور تمام عورتیں اور لڑکے لڑکیاں جو تماشے میں مشغول تھے‘ چلے گئے اور محض بدرالدین حسن اور کبڑا سائیس باقی رہ گئے۔
اب سنگھار کرنے والیاں دلہن کے کمرے میں داخل ہوئیں تاکہ اس کے کپڑے اور زیور اتار کر اسے دولہا کے لیے تیار کریں‘ اس پر کبڑا سائیس بدرالدین حسن کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے میرے آقا‘ تیری وجہ سے آج کی رات خوب کٹی اور تو نے اپنے احسانات سے ہمیں مالا مال کردیا۔ تو اب اٹھ کر باہرجا۔ اس نے کہا بسم اللہ اور وہ اٹھ کر دروازے کے باہر چلا گیا‘ جن نے اسے دیکھ کر کہا کہ اے بدرالدین ٹھہر، جب کبڑا پاخانے جائے تو فوراً اندر جاکر دالان میں بیٹھ جائیو اور جب دلہن سامنے آئے تو اس سے کہیو کہ تیرا شوہر میں ہوں۔
بادشاہ نے یہ چال اس لیے چلی تھی کہ کہیں نظر نہ لگ جائے اور جس شخص کو تو نے دیکھا ہے‘ وہ ہمارا ایک سائیس ہے۔ پھر تو آگے بڑھ کر اس کا چہرہ کھولیو‘ کیونکہ ہم اپنی غیرت مندی کے لیے یہ کام کررہے ہیں۔
جن بدرالدین سے یہ باتیں کر ہی رہا تھا کہ سائیس نکل کر پاخانے میں گیا اور کھڈی پر بیٹھ گیا۔ اب جن چوبچے کے پانی میں سے چوہے کی شکل میں نکل اور زیق زیق کرنے لگا، کبڑے نے کہا کہ خیر تو ہے‘ تجھے کیا ہوا؟ اب چوہا بڑھتے بڑھتے بلی بن گیا اور میاﺅں میاﺅں کرنے لگا اور پھر بڑھ کر کتا ہوگیا اور عمہ عمہ کی آواز نکالنے لگا۔
جب سائیس نے یہ دیکھا تو ڈر گیا اور کہنے لگا کہ دور ہو‘ اے منحوس‘ لیکن کتا بڑھ کر گدھے کے برابر ہوگیا اور اس کے آگے رینگنے اور چلانے لگا! ہاق ہاق۔ اب وہ اور بھی ڈر گیا اور کہنے لگا کہ اے گھر والو‘ دوڑو۔ اب گدھا بڑھتے بڑھتے بھینس کے برابر ہوگیا اور اس کا راستہ روک لیا اور انسان کی طرح باتیں کرنے لگا اور اس سے کہا کہ لعنت ہو تجھ پر‘ اے کبڑے‘ اے گندے! سائیس کے پیٹ میں درد ہونے لگا اور وہ بغیر کپڑے اتارے کھڈی پر بیٹھ گیا اور ڈر کے مارے اس کے دانت بجنے لگے۔
اب جن نے اس سے کہا کہ دنیا تیرے اوپر اتنی تنگ ہوگئی تھی کہ تجھے میری معشوقہ کے علاوہ اور کوئی نکاح کے لیے نہ ملا۔ سائیس چپ تھا اور جن نے کہا کہ جواب دے‘ ورنہ میں تجھے زمین کے اندر گاڑ دوں گا۔ اس نے کہا کہ خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ میرا کوئی گناہ نہیں‘ لوگوں نے میرے ساتھ زبردستی کی ہے اور مجھے معلوم نہ تھا کہ اس کے عاشق بھینسے ہیں۔
میں خدا کے سامنے اور پھر تیرے سامنے توبہ کرتا ہوں۔ جن نے کہا کہ میں بھی قسم کھاتا ہوں اگر تو اس وقت یہاں سے نکلا یا سورج نکلنے سے پہلے کوئی بات کی تو میں تجھے قتل کر ڈالوں گا۔ جب سورج نکل چکے تو‘ تو یہاں سے نکل کر چل دیجیو اور پھر کبھی مکان کی طرف رخ نہ کیجیو۔ اب دیو نے کبڑے سائیس کو پکڑ کر اسے سر کے بل کھڈی میں کھڑا کر دیا اور اس کے پاﺅں اوپر کی طرف کر دیئے اور کہنے لگا کہ میں تجھے یہاں چھوڑتا ہوں مگر سورج نکلنے تک میں تجھ پر پہرہ داری کروں گا۔

یہاں تک تو کبڑے کا قصہ ہوا۔ اب بدرالدین حسن البصری کا ماجرا سنیے۔ اس نے کبڑے اور جن کو جھگڑتا چھوڑا اور مکان میں داخل ہوا اور دالان کے بیچ میں آکر بیٹھ گیا۔ اتنے میں دلہن آئی اور اس کے ساتھ ایک بڑھیا تھی۔ بڑھیا کمرے میں دروازے پر ٹھہر گئی اور کہنے لگی کہ اے سروقد والے‘ اٹھ اور خدا کی امانت لے۔ یہ کہہ کر بڑھیا الٹے پاﺅں پھر گئی اور دلہن نے دالان میں قدم رکھا۔
اس کا نام ست الحسن تھا اور اس کا دل ٹوٹا ہوا تھا اور وہ اپنے دل میں کہہ رہی تھی کہ اپنے آپ کو اس کے حوالے ہرگز نہ کروں گی‘ خواہ وہ مجھے قتل ہی کیوں نہ کرڈالے۔ جب وہ دالان کے اندر پہنچی تو اس کی نظر بدرالدین حسن پر پڑی اور وہ کہنے لگی کہ اے پیارے‘ تو اب تک یہیں کھڑا ہے! میں اپنے دل میں کہہ رہی تھی کہ تیری اور کبڑے سائیس کی شرکت میں ہوں۔
بدرالدین حسن نے کہا کہ سائیس کی کیا مجال کہ وہ تیرے قریب بھی آئے! بھلا اس کی یہ قدرت ہوسکتی ہے کہ وہ تجھ میں میرا شریک ہو۔ لڑکی نے کہا کہ میرا شوہر کون ہے؟ بدرالدین نے کہا کہ اے ست الحسن ہم نے اس کا مذاق اڑانے کے لیے یہ سوانگ باندھا تھا‘ تو نے دیکھا نہیں کہ سنگھار کرنے والیاں اور ڈومنیاں اور تیرے گھر والیاں تیری منہ دکھائی میرے سامنے کررہی تھیں؟ تیرے باپ نے اسے دس دینار دے کر کرائے پر بلایا تھا تاکہ ہم پر نظر نہ لگے‘ اب وہ چل دیا ہے۔

جب ست الحسن نے بدرالدین کی باتیں سنیں تو وہ مسکرائی اور خوش ہوگئی اور نہایت ناز و ادا سے ہنسنے لگی اور اس نے کہا کہ خدا کی قسم‘ تو نے میرا غم دور کر دیا، تجھے خدا کی قسم دیتی ہوں کہ مجھے اپنے پہلومیں لے لے اور اپنے سینے سے لگا۔ وہ برہنہ تھی اور پاﺅں سے لے کر گردن تک کوئی کپڑا نہ تھا۔ اس لیے اس کا اندام نہانی اور کولہے بھی ننگے تھے۔
جب بدرالدین نے یہ دیکھا تو اس کی شہوت جوش میں آئی اور وہ بھی کھڑا ہوگیا اور اپنے کپڑے اتار ڈالے اور اس سونے کی تھیلی کو جس میں یہودی کے دیئے ہوئے ایک ہزار دینار تھے اپنے پاجامے میں لپیٹ کر بچھونے کے نیچے رکھ لیا اور اپنی پگڑی اتار کر کرسی پر لٹکا دی اور محض ایک اٹنگی قمیض پہنے رہا اور اس قمیض میں سنہرے بیل بوٹے تھے‘ اب ست الحسن اٹھی اور اس نے اسے اپنی طرف کھینچا اور بدرالدین نے اسے اپنی طرف کھینچا اور اسے لپٹا لیا اور اس کی جوانی کے مزے لوٹے اور وہ حاملہ ہوگئی۔
جب بدرالدین فارغ ہوچکا تو دونوں نے ایک دوسرے کے سر کے نیچے ہاتھ رکھا اور لپٹ کر سو گئے۔
یہ تو بدرالدین اور اس کی چچا زاد ست الحسن کا واقعہ ہوا۔ اب جن اورجنیہ کا قصہ سنئے۔ جن نے جنیہ سے کہا کہ اٹھ اور جوان کو اٹھا لا اور ہم اسے اس کے مکان میں پہنچا آئیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ صبح ہو جائے۔ کیونکہ صبح قریب ہے۔ اب جنیہ بڑھی اور اسے سوتا اٹھا لائی اور لے کر اڑ گئی اور وہ محض قمیض پہنے ہوئے اسی حالت میں تھا اور کوئی کپڑا اس کے بدن پر نہ تھا۔
ابھی جنیہ اسے لیے اڑ رہی تھی کہ جن اس کے ساتھ ساتھ تھا اور وہ راہ ہی میں تھے کہ صبح ہوگئی اور مؤذن نے حی علی افلاح کہنا شروع کیا۔ خدا نے اپنے فرشتوں سے کہا کہ جن پر آگ کے انگارے پھینکیں۔ جن جل کر خاکستر ہوگیا اور جنیہ بچ گئی اور وہ بدرالدین کے ساتھ اسی جگہ پر اتر پڑی جہاں جن پر انگارے پڑے تھے کیونکہ اسے ڈر تھا کہ کہیں بدرالدین پر کوئی مصیبت نازل نہ ہو۔
ان کی قسمت میں یہ لکھا تھا کہ وہ دمشق پہنچ جائیں۔ یہاں پہنچ کر جنیہ نے اسے دمشق کے ایک دروازے پر اتار دیا اور وہ خود اڑ کر چل دی۔ جب دن نکلا اور شہر کے دروازے کھلے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک پری جمال نوجوان محض قمیض اور ٹوپی پہنے پڑا ہوا ہے اور ان کے علاوہ اور کوئی کپڑا اس کے بدن پر نہیں اور وہ رات کو جاگنے کی وجہ سے نیند میں چور ہے۔ جب لوگوں نے اسے دیکھا تو کہنے لگے کہ کیسی خوش نصیب ہے وہ عورت‘ جس کے ساتھ اس نے رات گزاری ہے، کاش کو یہ اتنا ٹھہرا ہوتا کہ کپڑے پہن لیتا! دوسرے نے کہا کہ بے چارہ بچہ بھٹی سے کسی ضرورت کے لیے نکلا ہوگا مگر نشہ چڑھ گیا اور جہاں جاتا تھا‘ وہاں کی راہ بھول گیا اور شہر کے دروازے پر آپہنچا اور اسے بند پا کر وہیں سو گیا، ابھی لوگ اس کے متعلق شش و پنج میں تھے کہ ہوا چلی اور بدرالدین کی قمیض پیٹ تک اٹھ گئی اور اس کا پیٹ اور گول ناف اور دونوں پنڈلیاں اور رانیں بلور کی طرف چمکنے لگیں۔
لوگوں نے کہا کہ خدا کی قسم‘ کیسا خوبصورت ہے! اب بدرالدین کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک شہر کے دروازے پر ہے اور وہاں بہت سے لوگ جمع ہیں۔ اس پر اسے تعجب ہوا اور وہ کہنے لگا کہ میں کہاں ہوں؟ اے نیک بخت لوگو‘ اور تم لوگ یہاں کیوں جمع ہو اور تمہیں میرے ساتھ کیا ماجرا پیش آیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے فجر کی اذان کے وقت تجھے یہاں پڑا سوتا پایا ہے۔
اس کے علاوہ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ بتا تو سہی کہ آج رات تو نے کہاں بسر کی؟ بدرالدین حسن نے کہا کہ اے لوگو‘ واللہ‘ آج رات میں مصر میں سویا ہوں، اس پر ایک شخص نے کہا کہ کیا تو بھنگ کھاتا ہے؟ دوسرے نے کہا کہ تو پاگل ہے‘ مصر میں رات گزارتا ہے اور صبح کے وقت دمشق میں سوتا نظر آتا ہے! اس نے کہا کہ اے نیک مرد‘ خدا کی قسم میں نے تم سے جھوٹ نہیں کہا ہے۔
میں کل رات واقعی مصر میں تھا اور کل دن میں بصرے میں۔ ایک نے کہا کہ بہت خوب۔ دوسرے نے کہا کہ یہ جوان پاگل ہے اور سب کے سب اس پر تالیاں بجانے اور ایک دوسرے سے کانا پھوسی کرنے لگے اور کہا کہ افسوس آتا ہے‘ اس کی جوانی پر واللہ اس کے پاگل ہونے میں بالکل شک نہیں۔ پھر انہوں نے اس سے کہا کہ اپنے ہوش ٹھکانے کر اور سمجھ کر باتیں کر۔ بدرالدین نے کہا کہ کل میری شادی مصر میں ہوئی۔
انہوں نے جواب دیا کہ شاید تو نے خواب دیکھا ہے اور جو کچھ تو کہہ رہا ہے وہ خواب کی باتیں ہیں۔ حسن سوچ میں پڑگیا اور پھر ان سے کہنے لگا کہ واللہ یہ خواب نہیں اور نہ میں نے اسے نیند میں دیکھا ہے۔ واقعی میں وہاں گیا ہوں اور انہوں نے دلہن کی منہ دکھائی میرے سامنے کی ہے اور تیسرا شخص ہمارے ساتھ کبڑا سائیس تھا۔ واللہ اے میرے بھائیو‘ یہ کوئی خواب نہیں ہے اور اگر خواب ہوتا تو میری سونے کی تھیلی کہاں ہے اور کہاں ہے میرے کپڑے اور لباس اور پگڑی۔

اب وہ اٹھ کر شہر میں داخل ہوا اور اس کی سڑکوں اور بازاروں میں سے ہوکر گزرا۔ لوگ اس کے ارد گرد جمع ہو جاتے اور اس کا مذاق اڑاتے تھے‘ یہاں تک کہ وہ ایک باورچی کی دکان میں داخل ہوا۔ یہ طباخ بڑا شاطر تھا یعنی شاطر چور‘ لیکن اب وہ چوری سے توبہ کرچکا تھا اور اس نے باورچی کی دکان کھول رکھی تھی۔ دمشق کے سب لوگ اس سے خوف کھاتے تھے‘ کیونکہ وہ بڑا طاقتور تھا۔
اس لیے جب لوگوں نے دیکھا کہ جوان باورچی کی دکان میں چلا گیا ہے تو ڈر کے مارے وہاں سے چلتے ہوئے۔ جب باورچی کی نظر بدرالدین پر پڑی تو اس نے دیکھا کہ وہ کیسا خوبرو جوان ہے تو اس کے دل میں اس کی محبت بیٹھ گئی اور وہ کہنے لگا کہ اے نوجوان تو کہاں سے آتا ہے، اپنا ماجرا تو بیان کر کیونکہ میں تجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں‘ اس نے اپنا سارا قصہ شروع سے لے کر آخر تک بیان کر دیا۔
باورچی نے اس سے کہا اے میرے آقا بدرالدین‘ یہ عجیب و غریب واقعہ ہے لیکن بیٹا‘ جب تک خدا تیری حالت درست نہ کر دے‘ اپنا قصہ کسی سے مت بیان کیجیو اور میرے ساتھ اس گھر میں ٹھہر۔ میرے کوئی بیٹا نہیں ہے۔ اس لیے میں تجھے اپنا بیٹا بناﺅں گا۔ بدرالدین نے کہا کہ بہت خوب چچا! اب باورچی بازار گیا اور بدرالدین کے لیے قیمتی کپڑے خرید کر لایا اور اسے وہ کپرے پہنا کر قاضی کے پاس لے گیا اور رسمی طور پر اسے اپنا بیٹا بنا لیا اور دمشق میں خبر مشہور ہوگئی کہ وہ باورچی کا بیٹا ہے‘ اور وہ دکان میں باورچی کے ساتھ بیٹھتا اور دام اپنی تحویل میں لیتا رہا۔
اس طرح سے اس نے باورچی کے ساتھ اپنے دن کاٹے۔
یہ تو بدرالدین حسن کا ماجرا ہوا۔ اب اس کی چچا زاد ست الحسن کا حال سنئے۔ جب سویرا ہوا اور وہ نیند سے جاگی تو اس نے بدرالدین حسن کو نہ پایا اور خیال کیا کہ وہ بیت الخلا گیا ہوگا،۔وہ بیٹھی اس کی راہ دیکھ رہی تھی کہ اس کا باپ آیا۔ وہ اس واقعے پر نہایت غم زدہ تھا جو بادشا کے ساتھ پیش آیا تھا اور نیز بادشاہ کی ناراضگی پر اور اس پر کہ اس نے اس کی بیٹی کی شادی زبردستی اپنے ایک غلام سے کردی اور وہ بھی ایک کبڑے سائیس سے اور اپنے دل میں کہہ رہا تھا کہ اگر اس لڑکی نے اس مردود کو اپنا بدن حوالے کیا تو میں اس کو قتل کردوں گا۔
وہ چل کر دالان تک گیا اور دروازے پر ٹھہر کر ست الحسن کو آواز دی۔ اس نے کہا کہ اے میرے سرتاج میں حاضر ہوں۔ یہ کہہ کر وہ باہر آئی اور وہ خوشی کے مارے جھوم رہی تھی‘ اس نے زمین کو بوسہ دیا اور اس معشوق کی ہم آغوشی کی وجہ سے اس کے چہرے کی چمک دمک اور بڑھ گئی۔ جب اس کے باپ نے اسے اس حالت میں دیکھا تو کہنے لگا کہ اے ملعون، اس سائیس کی وجہ سے اتنی خوش ہے۔
جب ست الحسن نے اپنے باپ کو یہ کہتے سنا تو مسکرائی اور کہنے لگی واللہ‘ میرے ساتھ کافی مذاق ہوچکا ہے جبکہ لوگ میری ہنسی اڑاتے اور سائیس کے متعلق مجھے طعنے دیتے تھے جو میرے شوہر کے کٹے ہوئے ناخن کے برابر بھی نہیں۔ خدا کی قسم‘ کل رات جیسی میں نے عمر بھر کوئی رات نہیں گزاری، اس کبڑے کا ذکر کرکے میرا مذاق مت اڑا۔ جب اس کے باپ نے اسے یہ کہتے سنا تو وہ غصہ میں بھر گیا اور اس کی آنکھیں نیلی پڑگئیں اور وہ کہنے لگا کہ لعنت ہو تجھ پر! یہ تو کیا باتیں کہہ رہی ہے؟ کبڑا سائیس تیرے ساتھ سویا ہے۔
اس نے جواب دیا کہ میں تجھے خدا کی قسم دیتی ہوں کہ اس کا ذکر مت کر۔ خدا اس کے باپ پر لعنت بھیجے! اور میری ہنسی مت اڑا۔ سائیس کا واقعہ تو دس دینار کے عوض ایک چال تھی اور وہ اپنی مزدوری لے کر چلتا ہوا۔ اس کے بعد میں دالان میں آئی اور میں نے دیکھا کہ میرا شوہر بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے قبل ڈومنیاں اس کے آگے میری منہ دکھائی کرچکی تھیں اور اس نے اتنی اشرفیاں بانٹی تھیں کہ جو غریب موجود تھے‘ سب امیر ہوگئے۔
اسی جوان کالی کالی آنکھوں اور ملی ہوئی ابرو والے شوہر کے ساتھ میں نے رات بسر کی۔ جب اس کے باپ نے یہ باتیں سنیں تو دنیا اس کی آنکھوں کے آگے تاریک ہوگئی اور وہ کہنے لگا کہ اے چھنال‘ یہ تو کہا بک رہی ہے؟ تیری عقل کو کیا ہوگیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اے باپ‘ تو میرا دل توڑ رہا ہے۔ اب بس کر اور مجھے زیادہ تنگ مت کر۔ میرا شوہر جس نے میری بکارت زائل کی ہے‘ بیت الخلا گیا ہے اور میں اس سے حاملہ ہو چکی ہوں۔

باپ متعجب ہوکر کھڑا ہوگیا اور بیت الخلا میں گیا تو دیکھتا ہے کہ کبڑا سائیس سر کے بل کھڈی میں کھڑا ہے اور اس کے پاﺅں اوپر کی طرف ہیں۔ یہ دیکھ کر وزیر حیران ہوگیا اور اپنے دل میں کہنے لگا کہ ہو نہ ہو یہی کبڑا ہے، اسے آواز دی کہ اے کبڑے۔ کبڑے نے یہ خیال کیا کہ جن اس سے باتیں کررہا ہے اور تغوم تغوم کرنے لگا۔ وزیر نے اسے ڈانٹ کر کہا کہ بول ورنہ میں اس تلوار سے تیرا سر اڑا دوں گا۔
یہ سن کر کبڑے نے کہا کہ اے جنوں کے سردار خدا کی قسم جب سے تو نے مجھے اس جگہ کھڑا کیا ہے میں نے اپنا سر بالکل نہیں اٹھایا۔ میں تجھے خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھ پر رحم کھا۔ جب وزیر نے کبڑے کو یہ کہتے سنا تو کہنے لگا کہ تو کیا بک رہا ہے؟ میں تو دلہن کا باپ ہوں‘ جن نہیں۔ اس نے کہا کہ تو نے ہی میری جان پر یہ عذاب ڈالا ہے۔ اب تو یہاں سے چلتا ہو قبل اس کے کہ جن تیرے سر پر بھی آکر سوار ہو جائے‘ جس نے میرے ساتھ یہ کارروائی کی ہے۔
تم نے مجھے لاکر بھینسوں اور جنوں کی معشوقہ کے ساتھ میری شادی کر دی ہے۔ لعنت ہو اس ہر جس نے اس کی شادی میرے ساتھ کی اور لعنت ہو اس پر جس کی وجہ سے یہ شادی ہوئی۔
اب شہر زاد کو صبح ہوتی دکھائی دی اور اس نے وہ کہانی بند کردی‘ جس کی اسے اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles