DasweeN Raat - Article No. 1555

DasweeN Raat

دسویں رات - تحریر نمبر 1555

لڑکیوں نے حمائل سے کہا کہ تو ایک شرط کے ساتھ یہاں رات کو رہ سکتا ہے کہ تو ہماری ہر بات مانے گا اور اگر کوئی بھی بات دیکھے تو اس کا سبب نہ پوچھے

منگل 24 اکتوبر 2017

جب دسویں رات ہوئی تو اس کی بہن دنیازاد نے کہا کہ بہن اپنی کہانی تمام کر, اس نے کہا بسر و چشم! اے نیک بخت بادشاہ ۔۔۔۔ لڑکیاں حمال سے کہتی جاتی تھیں کہ زب‘ ایر‘ خازوق‘ اور وہ ان کے بوسے لیتا اور کاٹتا اور گلے لگاتا جاتا تھا‘ یہاں تک کہ اس کا دل سیر ہو گیا اور لڑکیاں مارے ہنسی کے لوٹی جاتی تھیں۔ آخرکار انہوں نے کہا کہ اچھا بھائی تو ہی بتا کہ اس کا نام کیا ہے۔

اس نے کہا کہ تمہیں سچ مچ اس کا نام معلوم نہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ اس نے کہا کہ یہ ہے سدھا ہوا خچر جو پل پر کی ناز بو رتا ہے اور بے چھلکے کے تل کھاتا ہے اور ابو منصور کی سرائے میں آرام کرتا ہے۔ اس پر وہ ہنستے ہنستے لوٹ گئیں۔ اب پھر دور چلنے لگا یہاں تک کہ شام ہوگئی اور انہوں نے حمال سے کہا کہ بسم اللہ‘ اے آقا اٹھ اور جوتے پہن اور سلام کر اور چلتا بن۔

(جاری ہے)

حمال نے کہا کہ خدا کی قسم میری روح کا نکل جانا آسان تر ہے بہ نسبت اس کے کہ میں تمہارے پاس سے جاﺅں۔ آﺅ‘ ہم اس رات کو کل صبح سے ملا دیں اور پھر ہم سب اپنی اپنی راہ لیں۔ سامان لانے والی نے کہا کہ میری جان کی قسم اسے آج رات یہیں ہمارے یہاں سونے دو تاکہ ہم کچھ دیر اور اس کا مذاق اڑا لیں۔ ایسے شخص کے دوبارہ ملنے تک کون جیتا ہے۔ وہ بڑا مسخرا اور ظریف ہے۔
انہوں نے کہا کہ تو ایک شرط کے ساتھ یہاں رات کو رہ سکتا ہے کہ تو ہماری ہر بات مانے گا اور اگر کوئی بھی بات دیکھے تو اس کا سبب نہ پوچھے۔ اس نے کہا کہ بہت خوب۔ انہوں نے کہا کہ اٹھ اور دروازے پر جو کتبہ لکھا ہوا ہے کہ جو شخص ایسی بات کرے گا جس سے اسے کوئی تعلق نہیں تو وہ منہ کی کھائے گا۔ حمال نے کہا کہ میں تمہیں اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں کوئی ایسی بات نہ کروں گا جس سے میرا کوئی تعلق نہ ہو۔
سامان لانے والی اٹھی اور سب کے لیے کھانا لائی۔ انہوں نے کھانا کھایا اور موم بتیاں اور قندیلیں روشن کیں اور موم بتیوں سے عنبر اور عود سوز جلائے اور شرابیں پی پی کر اپنے اپنے معشوقوں کا ذکر کرنے لگے۔ پھر وہ وہاں سے اٹھ کر دوسری جگہ گئیں اور وہاں تازے پھل کھائے اور شرابیں پیں۔
ابھی انہیں کھانے پینے اور شراب نوشی اور نقل اور ہنسی مذاق اور اٹکھیلیوں میں ایک پہر سے زیادہ نہ گزرا ہوگا کہ انہوں نے دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز سنی۔
اس سے انہیں بالکل گھبراہٹ نہ ہوئی بلکہ ایک لڑکی اطمینان سے اٹھ کر دروازے پر گئی اور واپس آ کر کہا کہ آج ہماری خوش وقتی مکمل ہو جائے گی۔ سبب دریافت کرنے پر اس نے کہا کہ دروازے پر تین ایرانی قلندر کھڑے ہیں جن کی داڑھیاں اور سر اور بھویں منڈی ہوئی اور تینوں بائیں آنکھ سے کانے ہیں۔ یہ بڑا عجیب اتفاق ہے اور وہ سفر کرتے کرتے ابھی یہاں پہنچے ہیں۔
ان کی صورت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسافر ہیں اور آج پہلی بار ہمارے شہر میں داخل ہوئے ہیں۔ ہمارا دروازہ کھٹکھٹانے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں کوئی جگہ رات بسر کرنے کے لیے نہ ملی تو انہوں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید اس ڈیوڑھی کا مالک ہمیں اپنے اصطبل یا کسی غیر آباد گھر کی کنجی دے دے اور ہم وہاں رات گزار سکیں۔ واقعی رات زیادہ ہو گئی ہے اور وہ پردیسی ہیں اور یہاں کسی سے واقف نہیں جہاں اتر سکیں۔
اے بہنو، ان میں سے ہر ایک کی شکل صورت مضحکہ انگیز ہے۔ لڑکی لگاتار ان کی سفارش کرتی رہی یہاں تک کہ انہوں نے کہا کہ اچھا انہیں اندر بلا لا مگر ان سے یہ شرط کر لیجیو کہ وہ کوئی ایسی بات نہ پوچھیں جس سے انہیں تعلق نہ ہو ورنہ منہ کی کھائیں گے۔
لڑکی خوش ہو کر چلی گئی اور تینوں داڑھی مونچھ مونڈوں کو لے آئی۔ انہوں نے آ کر سلام کیا اور آداب بجا لائے اور ٹھٹھک گئے۔
لڑکیاں اٹھ کھڑی ہوئیں اور ان کا خیر مقدم کیا اور ان کی سلامتی پر مبارک باد دی اور انہیں بٹھلایا۔ قلندروں نے دیکھا کہ کیا خوبصورت محل ہے اور صاف ستھری جگہ، چادروں طرف پھول پتیوں سے آراستہ ہے، موم بتیاں جل رہی اور خوشبوئیں نکل رہی ہیں اور نقل اور میوے اور شراب رکھی ہوئی ہے اور تینوں لڑکیاں باکرہ ہیں۔ تینوں نے کہا کہ واللہ‘ کیا خوب! اب وہ حمال کی طرف متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ وہ مزے میں آ رہا ہے اور نشے کی وجہ سے اس کے ہاتھ پاﺅں ڈھیلے پڑ گئے ہیں۔
اسے دیکھ کر انہیں خیال ہوا کہ وہ بھی گھر والوں میں سے ہے اور وہ کہنے لگے کہ وہ بھی ہماری طرح قلندر ہے‘ خواہ وہ پردیسی ہو یا عرب۔ جب حمال نے یہ باتیں سنیں تو وہ اٹھا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ان کی طرف دیکھنے لگا اور کہا کہ بیٹھ جاﺅ اور فضول بک بک مت کرو۔ کیا تم نے دروازے پر کتبہ نہیں پڑھا؟ تم جیسے فقیروں کے لیے شایاں نہیں کہ ہمارے اوپر اپنی زبان کھولیں۔
انہوں نے کہا کہ اے فقیر ہم خدا سے معافی مانگتے ہیں اور تیرے آگے سر جھکاتے ہیں۔ لڑکیاں ہنس پڑیں اور انہوں نے اٹھ کر قلندروں اور حمال کے درمیان صلح کرا دی اور قلندرں کے سامنے کھانا پیش کیا۔ انہوں نے کھانا کھایا اور پھر شراب پینے بیٹھ گئے۔ دروازہ کھولنے والی شراب پلا رہی تھی اور شراب کا دور چل رہا تھا کہ حمال نے قلندروں سے کہا کہ بھائیو، اگر تمہیں کوئی کہانی یا عجیب و غریب قصہ معلوم ہو تو سناﺅ۔
اس پر انہیں جوش آ گیا اور انہوں نے کہا کہ باجے منگواﺅ۔ دروازہ کھولنے والی لڑکی اٹھی اور ایرانی ڈھولک اور سارنگی اور چنگ لے آئی۔ قلندر اٹھے اور باجوں کو ملایا‘ ایک نے ڈھولک اور سارنگی اور تیسرے نے چنگ اور وہ بجانے لگا۔ لڑکیوں نے اتنی تعریف کی کہ ان کا دماغ عرش پر پہنچ گیا۔ یہی ہو رہا تھا کہ پھر کسی نے دروازے پر دستک دی، دروازہ کھولنے والی اٹھی کہ دروازہ پر جا کر دیکھے کہ کون ہے۔

شہرزاد نے کہا کہ بادشاہ سلامت دروازہ کھٹکھٹانے کی وجہ یہ تھی کہ خلیفہ ہارون الرشید اور اس کا وزیر جعفر اور جلاد مسرور اس رات تفریح کرنے اور شہر کا حال چال دیکھنے نکلے تھے۔ خلیفہ کا دستور تھا کہ وہ سوداگر کا بھیس بدل کر نکلتا تھا۔ جب وہ اس رات نکلے اور شہر کا چکر لگایا اور اس ڈیوڑھی کے پاس پہنچے تو انہوں نے باجے اور گانے کی آواز سنی۔
خلیفہ نے جعفر سے کہا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ اس ڈیوڑھی میں چل کر گانا سنیں اور گھر والوں کو دیکھیں۔ جعفر نے کہا کہ امیرالمومنین‘ یہ لوگ نشے میں ہیں، مجھے ڈر ہے کہ کہیں ان سے ہمیں تکلیف نہ پہنچے۔ خلیفہ نے کہا کہ ہمیں ضرور اندر چلنا چاہیے۔۔۔۔۔ اور میں چاہتا ہوں کہ تو اندر چلنے کی کوئی تدبیر نکال۔ جعفر نے کہا کہ بسر و چشم اور آگے بڑھ کر اس نے دروازے پر دستک دی۔
دروازہ کھولنے والی نے آ کر دروازہ کھولا۔ جعفر آگے بڑھا اور زمین کو بوسہ دیا اور کہا کہ اے بی بی‘ ہم لوگ طبریہ کے سوداگر ہیں‘ بغداد میں آئے ہوئے ہمیں صرف دس دن ہوئے ہیں‘ ہم اپنا سامان بیچ چکے ہیں اور سوداگروں کی سرائے میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ آج رات ایک سوداگر نے ہماری دعوت کی تھی۔ ہم وہاں گئے اور اس نے کھانا پیش کیا۔ ہم نے کھانا کھایا اور ایک پہر تک شراب نوشی میں مشغول رکھ کر اس نے ہمیں رخصت کیا۔
ہم پردیسی تو ہیں ہی رات کے وقت ہم اپنی سرائے کا راستہ بھول گئے۔ اب تم لوگوں کی مہربانی سے امید ہے کہ تم ہمیں آج کی رات اپنے یہاں بسر کرنے دو۔ خدا تمہیں اس کا اجر دے گا۔ دروازہ کھولنے والی نے دیکھا کہ ان کا حلیہ سوداگروں کا سا ہے اور ان کے چہرے شان دار ہیں۔ اور اپنی بہنوں کے پاس گئی اور جو کچھ جعفر نے کہا تھا انہیں کہہ سنایا۔ لڑکیوں کو ان پر رحم آیا اور کہنے لگیں کہ ان کو اندر بلا لا۔
وہ واپس گئی اور ان کے دروازے کھول دیا۔ انہوں نے کہا کہ تیری اجازت سے ہم اندر آتے ہیں۔ اس نے کہا کہ ہاں اندر آﺅ۔ خلیفہ اور مسرور اندر داخل ہوئے۔ جب لڑکیوں نے انہیں دیکھا تو وہ سروقد کھڑی ہوگئیں اور ان کو بٹھلایا اور ان کی خاطر تواضع کی اور مرحبا اور اہلا و سہلا کہا مگر کہنے لگیں کہ تمہیں ہم سے ایک شرط کرنی پڑے گی۔ انہوں نے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ لڑکیوں نے کہا کہ جس بات سے تمہیں تعلق نہ ہو اسے مت پوچھنا ورنہ گالیاں سنو گے، انہوں نے کہا کہ بہت خوب۔
اب وہ لڑکیاں شراب نوشی کے لیے بیٹھ گئیں۔
خلیفہ نے تینوں قلندروں کی طرف نظر اٹھائی اور یہ دیکھ کر اسے سخت حیرانی ہوئی کہ وہ تینوں کے تینوں بائیں آنکھ سے کانے ہیں اور لڑکیوں کا حسن و جمال دیکھ کر وہ سخت متحیر تھا۔ لڑکیوں نے شراب نوشی اور بات چیت شروع کر دی اور خلیفہ سے کہا کہ پی۔ اس نے کہا کہ میں حج کے لیے جانے والا ہوں۔ یہ سن کر دروازہ کھولنے والی اٹھی اور ایک زردوزی کا دسترخوان لا کر بچھا دیا اور اس پر ایک چینی کا پیالہ رکھ کر اس میں بید مشک کا عرق ایک چمچہ برف اور مصری ڈال دی۔
خلیفہ نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اپنے دل میں کہا کہ واللہ میں اس کی بھلائی کا بدلہ پرسوں ضرور دوں گا۔ اب وہ شراب نوشی میں مشغول ہو گئے، جب شراب کا نشہ چڑھنے لگا تو بڑی لڑکی اٹھی اور آداب بجا لائی اور سامان لانے والی کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ بہن اٹھ تاکہ ہم اپنا قرضہ ادا کریں۔
دونوں بہنوں نے کہا کہ بہت خوب۔
یہ کہہ کر دروازہ کھولنے والی ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
لیکن اس سے پہلے وہ چھلکے باہر پھینک آئی اور نئے اگر سوز لا کر لگائے اور کمرے کو صاف ستھرا کیا اور قلندروں کو لے جا کر محل کے کنارے ایک دیوان پر اور خلیفہ اور جعفر اور مسرور کو دوسرے کنارے دوسرے دیوان پر بٹھا آئی اور حمال سے چلا کر کہا کہ ائے بے عزت تجھے کیا ہو گیا ہے؟ تو کوئی اجنبی شخص نہیں، تو تو گھر والوں میں سے ہے۔ حمال کمر کس کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ تو کیا چاہتی ہے؟ اس نے کہا کہ اپنی جگہ ٹھہرا رہ۔
اب سامان لانے والی اٹھی اور کمرے کے بیچ میں ایک کرسی ڈالی اور ایک کوٹھری کھول کر حمال سے کہا کہ آ۔ میری مدد کر۔ حمال نے دیکھا کہ دو کتیاں زنجیر میں جکڑی ہوئی ہیں۔ لڑکی نے اس سے کہا کہ انہیں لے چل۔ حمال انہیں کمرے کے بیچ میں لے کر آیا۔ اب مکان کی مالکہ اٹھی اور آستینیں چڑھا کر ہاتھ میں ایک کوڑا لے لیا اور حمال سے کہا کہ ایک کتیا کو یہاں لا۔
وہ زنجیر کھینچ کر اسے لایا۔ کتیا روتی اور لڑکی کی طرف اپنا سر ہلاتی جاتی تھی۔ لڑکی نے اسے کوڑے مارنے شروع کیے اور کتیا چلانے لگی۔ اس نے اتنے کوڑے مارے کہ اس کی کلائیاں تھک گئیں۔ اب اس نے کوڑا پھینک کر کتیا کو سینے سے لگا لیا اور اس کے آنسو اپنے ہاتھ سے پونچھنے اور اسے بوسے دینے لگی۔ پھر اس نے حمال سے کہا کہ اسے لے جا اور دوسری کتیا کو لا۔
جب وہ دوسری کتیا کو لایا تو اس لڑکی نے اس کے ساتھ وہی کیا جو پہلی کے ساتھ کیا تھا۔ اس پر خلیفہ کا دل کڑھا اور اسے سخت پریشانی ہوئی اور اس کا صبر ہاتھ سے جاتا رہا اور اسے ان کتیوں کا حال جاننے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ اس نے جعفر کی طرف اشارہ کیا۔ جعفر نے اس کی طرف متوجہ ہو کر اشارے سے جواب دیا کہ چپ رہئے۔
اب اس لڑکی نے دروازہ کھولنے والی کی طرف مخاطب ہوکر کہا کہ اٹھ اور اپنا فرض ادا کر۔
اس نے کہا کہ بہت خوب۔ یہ کہہ کر وہ لڑکی تخت کے اوپر گئی جو صنوبر کی لکڑی کا بنایا ہوا تھا اور جس میں سونے چاندی کے پتر لگے ہوئے تھے اور دروازہ کھولنے والی اور سامان لانے والی سے کہا کہ اب تمہاری باری ہے۔ وہ دونوں اٹھیں اور تخت کے پہلو میں کرسیوں پر بیٹھ گئیں۔ سامان لانے والی ایک کوٹھڑی میں گئی اور وہاں سے اطلس کا ایک تھیلا لے ائی جس میں ہری جھالر اور دو سونے کے پھندے لگے ہوئے تھے۔
مالکہ کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے تھیلا کھولا اور اس میں سے ایک سارنگی نکالی اور اس کے تار ملائے اور کھونٹیاں کسیں اور اسے خوب ٹھیک کر کے بجانے اور گانے لگی۔ جب مالکہ نے ان کا گانا سنا تو اس کے دل سے ایک سرد آہ نکلی اور اس نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور بے ہوش زمین پر گر پڑیں۔ خلیفہ نے دیکھا کہ اس کے بدن پر چھڑی اور کوڑے مارنے کے نشان ہیں اور وہ سخت حیران ہوا۔
اب دروازہ کھولنے والی اٹھی اور اس پر پانی کا چھینٹا دیا اور عمدہ پوشاک لا کر اسے پہنائی۔ جب سب لوگوں نے یہ ماجرا دیکھا تو انہیں سخت پریشانی ہوئی اور ان میں سے کسی کو اس کے قصے کی خبر نہ تھی۔ خلیفہ نے جعفر سے کہا کہ اس لڑکی اور اس کی حالت اور کوڑے کے نشان کو دیکھ تو سہی۔ جب تک مجھے سارا واقعہ اس لڑکی اور دونوں کتیوں کا حال معلوم نہ ہو جائے میں چپ نہیں بیٹھ سکتا۔
جعفر نے کہا کہ اے میرے آقا، انہوں نے ہمارے سامنے شرط کی ہے کہ جس بات سے ہمیں تعلق نہ ہو اس پر زبان نہ کھولیں‘ ورنہ منہ کی کھائیں گے۔ اب اس لڑکی نے سامان لانے والی سے کہا کہ بہن قریب آ اور اپنا فرض ادا کر۔ اس نے کہا کہ بسروچشم‘ اور سارنگی لے کر اپنے سینے سے ٹیک لی اور بجانے اور گانے لگی۔ جوں ہی مالکہ نے یہ دوسرا گیت سنا تو چلا کر کہنے لگی کہ واللہ کیا خوب کہا اور پہلے کی طرح اپنے ہاتھوں سے اپنے کپڑے پھاڑنے لگی اور بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑی۔
سامان لانے والی اٹھی اور اس نے اس پر پانی چھڑکا اور دوسرے کپڑے پہنائے۔ اب وہ اٹھ بیٹھی اور اپنی بہن سے کہنے لگی کہ اور سنا اور میرا قرضہ پورا پورا ادا کر۔ یہ سنتے ہی سامان لانے والی نے پھر سارنگی اٹھائی اور گانے لگی۔ جب لڑکی نے سنا تو چلانے لگی اور اپنے کپڑے‘ دامن تک چک کر ڈالے اور تیسری بار بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑی اور مار کے نشان پھر کھل گئے۔
قلندروں نے کہا کہ کاش ہم اس گھر میں نہ آئے ہوتے اور باہر گھوڑے پر سو رہتے۔ اس جگہ ٹھہرنے سے ہمارا دل پاش پاش ہو رہا ہے۔ خلیفہ ان کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ یہ کیوں؟ انہوں نے کہا کہ یہ باتیں دیکھ کر ہمارے دل پر چوٹ لگتی ہے۔ خلیفہ نے کہا کہ تو کیا تم اس گھر کے رہنے والے نہیں ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ آج سے پہلے ہم نے کبھی اس مکان کی شکل بھی نہیں دیکھی۔
خلیفہ کو تعجب ہوا اور اس نے کہا کہ شاید وہ شخص جو تمہارے پاس بیٹھا ہے ان کی بابت کچھ جانتا ہو۔ اس نے حمال کو اشارے سے بلا کر پوچھا۔ اس نے کہا کہ واللہ ہم سب ایک ہی محبت کے مارے ہوئے ہیں۔ میں بغداد ہی میں بڑھا پلا ہوں‘ لیکن آج سے پہلے کبھی اس مکان میں نہیں آیا اور میرا اس جگہ ٹھہر جانے کا ماجرا عجیب و غریب ہے۔ انہوں نے کہا کہ واللہ‘ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ تو بھی انہیں میں سے ہے مگر اب معلوم ہوا کہ تو بھی ہماری ہی طرح ہے۔
خلیفہ نے کہا کہ دیکھو ہم سات مرد ہیں اور یہ محض تین عورتیں اور ان کے ساتھ کوئی چوتھا شخص نہیں۔ آﺅ ان کا حال دریافت کریں۔ اگر وہ خوشی سے نہ بتائیں گی تو انہیں مجبوراً بتانا پڑے گا۔
اس پر سب متفق ہو گئے لیکن جعفر نے کہا کہ یہ کوئی رائے نہیں، انہیں چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ ہم ان کے مہمان ہیں اور انہوں نے ہمارے سامنے ایک شرط پیش کی ہے اور تم سب جانتے ہو کہ ہم اس شرط کو مان چکے ہیں۔
بہتر ہے کہ ہم اس معاملے میں زبان نہ کھولیں۔ اب تھوڑی سی رات باقی رہ گئی‘ اس کے بعد ہم اپنی اپنی راہ چلتے ہوں گے۔ پھر اس نے خلیفہ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ایک پہر سے زیادہ رات باقی نہیں‘ ہم ان کو کل آپ کے سامنے پیش کر دیں گے اور آپ ان سے سارا قصہ سن لیجئے گا۔ خلیفہ نے اپنا سر اٹھایا اور ناراض ہو کر ڈانٹنے لگا اور کہا کہ اب مجھ سے زیادہ صبر نہیں ہو سکتا۔
قلندروں کو بلا کر کہا کہ وہ ان سے پوچھیں۔ جعفر نے کہا کہ یہ ٹھیک رائے نہیں ہے۔ اب سب میں یہ بحث ہونے لگی کہ پہلے ان سے کون پوچھے اور حمال پر آخر فیصلہ ٹھہرا۔ حمال اٹھا اور اس نے مالکہ سے کہا کہ اے میری آقا‘ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ تو ان سے کتیوں کا حال بیان کرے‘ اور یہ کہ تو نے انہیں کیوں مارا اور پھر کیوں رونے اور ان کو بوسہ دینے لگی اور اپنی بہنوں اور اپنے چھڑیوں سے مارے جانے کا قصہ بیان کر۔
وہ یہی چاہتے ہیں اور بس۔ مالکہ نے مہمانوں سے پوچھا کہ کیا اس کا کہنا صحیح ہے؟ سب نے کہا کہ ہاں مگر جعفر چپ رہا۔ لڑکی نے کہا کہ واللہ اے مہمانو‘ تم نے مجھے سخت اذیت دی کیونکہ جب تم آئے تھے تو ہم نے تم سے یہ شرط کر لی تھی کہ جو کوئی ایسی بات پوچھے گا جس سے اس کا کوئی تعلق نہیں تو وہ کھری سنے گا۔ کیا یہ کافی نہ تھا کہ ہم نے تمہیں اپنے گھر میں پناہ دی اور کھانا کھلایا۔
لیکن یہ تمہاری خطا نہیں۔ خطا اس کی ہے جو تمہیں ہمارے پاس لائی۔ یہ کہہ کر اس نے آستین چڑھائی اور تین بار زمین پر ہاتھ مارا اور کہا کہ جلد آﺅ۔ اب ایک کوٹھری کا دروازہ کھلا اور اس میں سے سات غلام شمشیر بدست نکل آئے۔ لڑکی نے کہا کہ ان فضول گویوں کا کاندھے سے کاندھا ملا کر باندھ دو۔ انہوں نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور کہا کہ اے پردہ نشین‘ کیا تو حکم دیتی ہے کہ ہم ان کی گردنیں اڑا دیں۔
اس نے کہا کہ ذرا ٹھہر جاﺅ۔ پہلے ذرا میں ان کے حالات دریافت کر لوں۔ حمال نے کہا کہ اے بی بی‘ خدا سے شرم کر، دوسروں کے گناہ پر مجھے مت مار۔ سوائے میرے سب نے غلطی کی ہے اور گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ خدا کی قسم‘ اگر یہ قلندر نہ آتے تو ہماری رات کیسی اچھی گزرتی۔ اگر یہ آباد شہر میں داخل ہوں تو وہ بھی ویران ہو جائے۔
جب حمال یہ کہہ چکا تو لڑکی ہنسنے لگی۔
اب شہرزاد کو صبح ہوتی نظر آئی اور اس نے وہ کہانی بند کر دی جس کی اسے اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles