Dosri Raat - Article No. 1489

Dosri Raat

دوسری رات - تحریر نمبر 1489

چرواہے کی لڑکی نے میری چچیری بہن کو جادو کے زور سے اس ہرنی کی شکل میں تبدیل کر دیا اور مجھ سے کہنے لگی کہ یہی اچھی صورت ہے‘ بری ہوتی تو آنکھوں کو تکلیف پہنچتی

بدھ 13 ستمبر 2017

جب دوسری رات ہوئی تو دنیا زاد نے اپنی بہن شہرزاد سے کہا کہ بہن‘ اپنی وہ کہانی سوداگر اور دیو والی پوری کر۔ اس نے کہا بسر و چشم بشرطیکہ بادشاہ سلامت مجھے اجازت دیں۔ بادشاہ نے کہا ہاں کہہ۔ اس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ اور اسے رہبر آقا‘ میں نے سنا ہے کہ جب سوداگر نے بچھڑے کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو اس کا دل کڑھا اور اس نے چرواہے سے کہا کہ اس بچھڑے کو لے جا کر اور جانوروں میں چھوڑ دے۔


بڈھا اس قصے کو دیو سے بیان کر رہا تھا اور دیو کو اس عجیب و غریب قصے پر تعجب ہو رہا تھا۔ ہرنی والے بڈھے نے کہا کہ اے دیوؤں کے سرتاج‘ یہ باتیں ہو رہی تھیں اور میری چچیری بہن یہ ہرنی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی اور کہتی جاتی تھی کہ اسی بچھڑے کو ذبح کر کیونکہ وہ بہت موٹا تازہ ہے۔

(جاری ہے)

لیکن میرا دل اس کے ذبح کرنے کے خیال سے کڑھتا تھا۔ میں نے چرواہے کو حکم دیا کہ اسے لے جا! اور وہ اسے لے کر چلتا ہوا۔

دوسرے روز میں بیٹھا ہوا تھا کہ چرواہا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے آقا میں آپ کو ایک خوش خبری دینے آیا ہوں۔ کیا اس کے بدلے آپ بھی مجھے کوئی خوش خبری دیں گے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ سنیے۔ میری ایک بیٹی ہے۔ اس نے بچپن ہی میں ایک بڑھیا سے‘ جو میرے یہاں تھی‘ جادو سیکھا ہے۔ کل جب آپ نے مجھے بچھڑا دیا تو میں اسے لے کر اپنے گھر اپنی بیٹی کے پاس گیا۔

اس نے اسے دیکھ کر اپنا منہ چھپا لیا اور پہلے رونے پھر ہنسنے لگی اور کہا کہ ابا‘ کیا میں تیرے آگے اتنی ذلیل ہو گئی ہوں کہ تُو میرے پاس پرائے مردوں کو لاتا ہے۔ میں نے کہا کہ پرایا مرد کون ہے؟ اور اس کی کیا وجہ ہے کہ پہلے تُو رونے اور پھر ہنسنے لگی؟ اس نے کہا کہ یہ بچھڑا جو تیرے ساتھ ہے‘ وہ ہمارے آقا کا بیٹا ہے جو جادو کے زور سے بچھڑا بنایا گیا اور خود اس کی سوتیلی ماں نے اس پر اور اس کی ماں پر جادو کیا ہے۔
یہ سب میرے ہنسنے کا۔ اور رونے کا سبب اس کی ماں ہے جسے خود اس کے باپ نے ذبح کیا ہے۔ یہ سن کر مجھے بے حد تعجب ہوا اور ابھی پو نہ پھوٹی تھی کہ میں آپ کے پاس آیا اور سارا ماجرا سنایا۔
اے دیو‘ جب میں نے چرواہے سے یہ باتیں سنیں تو میں اس کے ساتھ باہر نکلا اور مجھے اتنی خوشی تھی کہ میں بے پئے مست تھا۔ جب میں اس کے مکان پر پہنچا تو چرواہے کی بیٹی نے میرا خیر مقدم کیا اور میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔
پھر بچھڑا میرے پاس دوڑا ہوا آیا اور زمین پر لوٹنے لگا۔ میں نے چرواہے کی لڑکی سے کہا کہ جو کچھ تُو نے اس بچھڑے کی بابت کہا ہے کیا وہ سچ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ جی ہاں‘ حضور وہ آپ کا بیٹا اور آپ کا لخت جگر ہے۔ میں نے کہا کہ اگر تُو اسے اصلی شکل میں لے آئے تو میرا جس قدر مال اور مویشی تیرے باپ کے سپرد ہیں سب تیرے ہیں۔ وہ مسکرائی اور کہنے لگی کہ آقا بغیر دو شرطوں کے مجھے آپ کے مال کی ضرورت نہیں۔
پہلی شرط یہ ہے کہ آپ اس کی شادی میرے ساتھ کر دیں۔ دوسری یہ ہے کہ جس نے اس پر جادو کیا ہے اس پر میں بھی جادو کروں اور اسے قید کروں ورنہ اس کے مکر سے میں محفوظ نہیں رہ سکتی۔
اے دیو‘ جب میں نے چرواہے کی بیٹی سے یہ باتیں سنیں تو میں نے کہا کہ علاوہ اس کے جو تُو مانگتی ہے تمام جانور اور مال جو تیرے باپ کی سپردگی میں ہیں‘ سب تیرے ہیں اور میری چچیری بہن کا خون بھی تیرے لیے مباح ہے۔
جب اس نے یہ سنا تو وہ ایک کٹورا لائی اور اس میں پانی بھرا اور اس پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور پانی کو بچھڑے کے اوپر چھڑکا اور کہا کہ اگر تُو واقعی بچھڑا ہے اور خدا نے تجھے بچھڑا ہی پیدا کیا ہے تو اسی شکل میں رہ اور صورت تبدیل نہ کرو۔ اور اگر تجھ پر جادو کیا گیا ہے تو خدا کے حکم سے اپنی اصلی شکل میں آ جا۔ اس نے یہ کہا ہی تھا کہ بچھڑا اپنی شکل بدل کر انسان بن گیا۔
میں اس سے لپٹ گیا اور کہنے لگا کہ تجھے خدا کی قسم ہے کہ جو کچھ میری چچیری بہن نے تیرے اور تیری ماں کے ساتھ کیا ہے سب بیان کر۔ اس نے ساری سرگزشت بیان کر دی۔ میں نے کہا کہ بیٹا تیرے نجات دینے والے کو خدا نے اپنے پاس سے بھیجا ہے۔
اے دیو‘ اس کے بعد میں نے اس کی شادی چرواہے کی بیٹی سے کر دی۔ پھر اس نے میری چچیری بہن کو جادو کے زور سے اس ہرنی کی شکل میں تبدیل کر دیا اور مجھ سے کہنے لگی کہ یہی اچھی صورت ہے‘ بری ہوتی تو آنکھوں کو تکلیف پہنچتی۔
اس کے بعد چرواہے کی لڑکی رات دن ہمارے ساتھ رہنے لگی۔ یہاں تک کہ اللہ میاں نے اسے اپنے پاس بلا لیا۔ جب وہ فوت ہو گئی تو میرے لڑکے نے ہندوستان کا سفر کیا اور یہی اسی شخص کا وطن ہے جس کے تیرے درمیان یہ ماجرا پیش آیا ہے۔ اس سفر میں میں نے اپنی چچیری بہن کو ساتھ لے لیا ہے اور اس کے ساتھ شہر شہر پھر رہا ہوں تاکہ اپنے بیٹے کا پتا لگاؤں‘ یہاں تک کہ قسمت مجھے یہاں لے آئی اور میں نے اس سوداگر کو دیکھا کہ یہاں بیٹھا رو رہا ہے۔
بس یہ ہے میرا قصہ۔ دیو نے کہا کہ یہ قصہ عجیب و غریب ہے اور میں نے تہائی خون بخش دیا۔
دوسرے بڈھے کا قصہ:
اس کے بعد وہ بڈھا‘ جس کے ساتھ دو شکاری کتے تھے‘ آگے بڑھا اور دیو سے کہا کہ اب میں تجھ سے وہ ماجرا بیان کرتا ہوں جو میرے دونوں بھائیوں اور ان دو کتوں کے ساتھ پیش آیا ہے۔ اگر تیرے خیال میں وہ عجیب و غریب ہو تو اس کا دوسرا تہائی خون بھی بخش دیجیو۔
دیو نے کہا کہ اگر تیرا قصہ بھی واقعی عجیب و غریب ہوگا تو میں ایسا ہی کروں گا۔ بڈھے نے کہا کہ اے دیوؤں کے سرتاج‘ سن! یہ دونوں کتے میرے دو بھائی ہیں اور میں تیسرا بھائی ہوں۔ جب ہمارے باپ نے وفات پائی تو ہمیں تین ہزار دینار ترکے میں ملے۔ میں نے ایک دکان کھولی اور خرید و فروخت میں مشغول ہو گیا۔ اسی طرح میرے ان دونوں بھائیوں نے بھی دکانیں کھولیں۔
کچھ دنوں کے بعد میرے بعد میرے بڑے بھائی نے‘ جو ان کتوں میں ایک ہے‘ اپنی دکان کا سارا مال ایک ہزار دینار میں بیچ کر تجارت کا مال خریدا اور وہاں سے روانہ ہو گیا۔ ایک سال گزرنے کے بعد ایک روز میں اپنی دکان میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک فقیر آیا اور بھیک مانگنے لگا۔ میں نے جواب دیا کہ خدا تجھے زیادہ دے۔ وہ رو کر کہنے لگا کہ اب تُو مجھے پہچانتا بھی نہیں۔
میں نے غور سے دیکھا تو وہ میرا بھائی تھا۔ میں اٹھ کھڑا ہوا اور اس کا خیر مقدم کیا اور اس کو اپنی دکان کے اندر لے آیا اور اس کی خیریت پوچھی۔
اس نے کہا کہ کچھ نہ پوچھ! میرا مال اب میرا مال نہیں اور میرا حال ظاہر ہے۔ میں نے اسے حمام میں بھیجا اور اپنے روزمرہ کے کپڑے اسے پہننے کے لیے دئیے اور اسے اپنے ساتھ ٹھہرایا۔ پھر میں نے اپنی دکان کا بہی کھاتا کھولا اور خرید و فروخت کا جائزہ لیا۔
میں نے دیکھا کہ مجھے ایک ہزار دینار کا فائدہ ہوا ہے اور میری پونجی دو ہزار دینار ہے۔ یہ میں نے اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان برابر تقسیم کی اور اس سے کہا کہ تُو یہ خیال کر کہ تُو نے گویا سفر نہیں کیا اور یہاں سے باہر نکلا ہی نہیں۔ اس نے قبول کیا اور خوش ہوا اور اپنی الگ دکان کھولی۔ اس پر پھر ایک زمانہ گزر گیا۔ اب میرے دوسرے بھائی نے‘ جو دوسرا کتا ہے‘ اپنی ساری پونجی بیچ ڈالی اور سفر کی ٹھان لی۔
ہم نے اسے بہت روکنا چاہا مگر وہ نہ رکا۔ اس نے تجارت کا مال خریدا اور قافلے کے ساتھ روانہ ہو گیا اور ایک سال تک واپس نہ آیا۔ جب وہ ایک سال کے بعد لوٹا تو اسی طرح جس طرح کہ بڑا بھائی لوٹا تھا۔ اس نے کہا کہ بھائی کیا میں نے تجھے مشورہ نہ دیا تھا کہ سفر نہ کر۔ وہ رونے لگا ور کہا کہ یہ قسمت کی بات ہے‘ اب تو میں فقیر ہو گیا ہوں۔ میرے پاس ایک درہم بھی نہیں اور میں ننگا ہوں‘ میرے پاس پہننے کے لیے ایک کرتہ تک نہیں۔

اے دیو! میں اسے حمام میں لے گیا اور پہننے کے لیے اپنے روزمرہ کے کپڑے دئیے اور اسے اپنی دکان میں لایا اور ہم دونوں نے ساتھ بیٹھ کر کھایا پیا۔ اس کے بعد میں نے کہا کہ بھائی میں ہر سال کے آخر میں ایک بار اپنی دکان کا حساب کرتا ہوں۔ میرے پاس اصل سے جتنا زائد ہوگا اسے اپنے اور تیرے درمیان تقسیم کر دوں گا۔ اے دیو! یہ کہہ کر میں اٹھا اور حساب کیا تو دو ہزار دینار زائد نکلے۔
میں خدا کا شکر بجا لایا۔ ایک ہزار دینار میں نے اپنے بھائی کو دئیے اور ایک ہزار خود رکھے۔ میرے بھائی نے پھر ایک دکان کھولی اور اسی طرح ہم سب زندگی بسر کرنے لگے۔ پھر ایک زمانے کے بعد دونوں بھائی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ چلو ہم سب سفر میں چلیں!
میں نے انکار کیا اور کہا کہ دونوں نے سفر میں کون سا تیر مارا ہے کہ مجھے بھی اس پر آمادہ کرنا چاہتے ہو۔
میں نے ان کی بات نہ مانی اور ہم تینوں اپنی اپنی دکانوں میں خرید و فرخت کرتے رہے۔ ہر سال وہ مجھے سفر کی ترغیب دیتے تھے اور میں راضی نہ ہوتا تھا‘ یہاں تک کہ چھ سال گزر گئے۔ اب میں نے ان سے سفر کا وعدہ کر لیا اور کہا کہ بھائیو‘ چلو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ لیکن پہلے دکھاؤ کہ تمہارے پاس کتنا مال ہے۔ معلوم ہوا کہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں‘ وہ سب کچھ فضول خرچی میں گنوا چکے ہیں‘ کیونکہ وہ دن رات کھانے پینے اور عیاشی میں مشغول رہتے تھے۔
میں نے ان سے اس بارے میں کچھ نہ کہا بلکہ اپنی دکان کا حساب جانچا اور سارا مال نکالا تو چھ ہزار دینار نکلے۔ اس پر میں بہت خوش ہوا اور اس کے دو حصے کئے اور ان سے کہا کہ ان تین ہزار دینار سے ہم تجارت کریں گے۔ باقی تین ہزار دینار میں نے زمین میں گاڑ دیئے تاکہ اگر میرا حال بھی انہیں کا سا ہوا تو واپس آ کر ہم سب اپنی اپنی دکانیں پھر کھول لیں گے۔
اسے سب نے منظور کیا اور میں نے دونوں بھائیوں کو ایک ایک ہزار دینار سپرد کر دئیے اور خود ایک ہزار دینار اپنے پاس رکھے۔ پھر ہم نے ضروری سامان خریدا اور سفر کی تیاری کر دی اور ایک کشتی کرائے پر لی اور اس پر سارا سامان لادا اور روانہ ہو گئے۔
دن گنتے گنتے پورے ایک مہینے کے بعد ہم اپنا مال لے کر ایک شہر میں داخل ہوئے اور ہمیں ایک میں دس کا فائدہ ہوا۔
جب ہم واپسی کے لیے سمندر کے کنارے پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک نوجوان لڑکی پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے سامنے آئی اور اس نے میرے ہاتھ کو بوسہ دیا اور کہنے لگی کہ آقا اگر تو میرے ساتھ نیکی کرے گا تو میں تجھے اس کا بدلہ دوں گی۔ میں نے کہا بہت خوب! میں چاہتا ہوں کہ نیکی کروں اور یہ بھی کہ تُو مجھے اس کا بدلہ نہ دے۔ اس نے کہا کہ اے آقا‘ میرے ساتھ نکاح کر لے اور مجھے اپنے وطن لے چل‘ کیونکہ میں دل و جان سے تیری ہوں۔
میرے ساتھ نیک سلوک کر اور میں واقعی اس قابل ہوں کہ میرے ساتھ نیک سلوک کیا جائے۔ میں تجھے نیکی کا بدلہ دوں گی۔ میری ظاہری صورت سے دھوکا مت کھا۔ جب میں نے اس کی باتیں سنیں تو مجھے اس پر ترس آیا اور میں نے اسے ساتھ لے لیا اور اسے کپڑے دئیے اور اس کے لیے کشتی میں نرم بچھونا بچھوایا اور اس کی عزت اور حرمت کی اور کشتی چل دی۔ مجھے اس سے بڑی محبت ہوگئی اور میں دن رات اس کے ساتھ رہنے لگا یہاں تک کہ اس کی وجہ سے میں اپنے بھائیوں کو بھی بھول گیا۔
اس وجہ سے وہ مجھ سے ناراض رہنے لگے اور میرے مال و دولت پر حسد کرنے لگے۔ اب وہ اس فکر میں ہوئے کہ کسی طرح میرے مال کو اپنے قبضے میں لائیں اور وہ آپس میں مجھے قتل کرنے اور میرا سارا مال لے لینے کے بارے میں کانا پھوسی کرنے لگے اور یہ ٹھان لی کہ وہ مجھے قتل کر ڈالیں اور میرا مال دبا بیٹھیں، اس فعل کو شیطان نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ ان کے سامنے پیش کیا۔
ایک بار جب انہوں نے دیکھا کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ سو رہا ہوں تو انہوں نے ہم دونوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔ جب میری بیوی کی آنکھ کھلی اور اس نے ادھر ادھر دیکھا تو وہ جن بن گئی اور مجھے اٹھا کر ایک جزیرے میں لے آئی اور خود تھوڑی دیر کے لیے غائب ہو گئی۔ دوسرے دن صبح کو وہ لوٹی اور کہنے لگی کہ میں تیری لونڈی ہوں‘ میں ہی تجھے اٹھا لائی ہوں اور خدا کے حکم سے تجھ کو قتل ہونے سے بچایا ہے۔
سن! میں جن ہوں‘ میں نے تجھے دیکھا تھا اور تجھ پر عاشق ہو گئی تھی۔ میں خدا اور اس کے رسول پر ایمان رکھتی ہوں۔ یہی سبب ہے کہ میں تیرے پاس اس بھیس میں آئی تھی جس میں تُو نے مجھے دیکھا تھا‘ اور تیرے ساتھ نکاح کیا تھا۔ دیکھ‘ اب میں نے تجھے ڈوبنے سے بچایا ہے اور تیرے بھائیوں سے سخت ناراض ہوں اور ان کو بے مارے نہ چھوڑوں گی۔
جب میں نے اس کی باتیں سنیں تو مجھے سخت تعجب ہوا اور میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس سے کہا کہ میرے بھائیوں کا قتل کرنا ٹھیک نہیں۔
پھر میں نے اس سے سارا ماجرا بیان کر دیا جو میرے اور ان کے درمیان پیش آیا تھا۔ جب اسے سب باتیں معلوم ہو گئیں تو اس نے کہا کہ میں آج رات اڑ کر ان کے پاس جاؤں گی اور ان کی کشتی کو ڈبو دوں گی اور ان کو مار ڈالوں گی۔ میں نے کہا تجھے خدا کی قسم‘ ایسا مت کر‘ کیونکہ مثل ہے کہ اے نیک کردار‘ بدکردار کے لیے خود اس کی بدکرداری کافی ہے۔ اور وہ تو بہرحال میرے بھائی ہیں۔
اس نے کہا کہ خدا کی قسم‘ میں ان کو بے مارے نہ چھوڑوں گی۔ میں نے آہستہ آہستہ اس کا غصہ ٹھنڈا کیا اور وہ مجھے لے کر اڑی اور میرے گھر کی چھت پر لے جا کر اتارا۔ میں نے دروازے کھولے اور جو زمین کے نیچے دفن کر آیا تھا اسے نکالا اور لوگوں سے صاحب سلامت کی اور اپنی دکان پھر کھولی اور اس کے لیے مال خریدا۔
عشاء کے وقت جب میں اپنے گھر واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ یہ دونوں کتے میرے گھر میں بندھے پڑے ہیں۔
جب انہوں نے مجھے دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے اور رونے اور مجھے سے چمٹنے لگے۔ مجھے تو کچھ پتہ نہ تھا لیکن میری بیوی نے کہا کہ یہ تیرے بھائی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ ان پر جادو کس نے کیا؟ اس نے جواب دیا کہ میں اپنی بہن کو بلا کر لائی تھی‘ اس نے جادو کیا ہے اور یہ دس سال سے پہلے چھٹکارا نہ پائیں گے۔ اب دس سال ہونے کو آئے ہیں اور میں اس کے پاس ان کے چھٹکارے کے لیے جا رہا تھا کہ یہاں میں نے اس جوان کو دیکھا اور اس نے مجھے اپنا ماجرا سنایا اور میں ٹھہر گیا کہ دیکھوں تو کہ تیرے اور اس کے درمیان کیا پیش آتا ہے۔
یہ ہے میرا قصہ۔ سن کر دیو نے کہا کہ یہ قصہ واقعی عجیب و غریب ہے اور میں تیری خاطر اس کا دوسرا تہائی خون اور گناہ معاف کرتا ہوں۔
تیسرے بڈھے کا قصہ:
تیسرے خچر والے بڈھے نے کہا کہ میں تجھ سے ایک ایسا قصہ بیان کرتا ہوں جو پہلے دونوں قصوں سے زیادہ عجیب و غریب ہے اور اے دیو‘ تو اس کا باقی خون اور گناہ بھی بخش دیجیو! دیو نے کہا کہ بہت خوب۔
اس نے کہا کہ اے بادشاہ اور جنات کے سردار یہ خچر میری بیوی ہے۔ ایک بار میں سفر پر گیا اور پورے سال تک اس سے جدا رہا۔ جب میں سفر سے واپس آیا اور رات کے وقت گھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ایک حبشی غلام کے ساتھ پلنگ پر پڑی لیٹی ہوئی ہے اور دونوں میں راز و نیاز اور ہنسی مذاق ہو رہا ہے اور دونوں ایک دوسرے سے گتھے ہوئے ہیں۔ جونہی اس نے مجھے دیکھا وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی اور ایک پانی بھرا لوٹا لائی اور اس پر کچھ پڑھ کر میرے اوپر چھڑک دیا اور کہنے لگی کہ اپنی صورت بدل کر کتے کی صورت بن جا۔
میں فوراً کتا بن گیا اور اس نے مجھے دھتکار کر گھر سے نکال دیا۔ میں دروازے سے باہر آیا اور چلتے چلتے ایک قصاب کی دکان پر پہنچا اور ہڈیاں کھانے لگا۔ جب قصاب نے دیکھا تو وہ مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گیا۔ جب قصاب کی بیٹی نے مجھے دیکھا تو اس نے میرے سامنے اپنا منہ چھپا لیا اور کہنے لگی کہ یہ تو مردوئے کو لے کر ہمارے پاس آیا ہے۔ باپ نے کہا کہ مردوا کہاں ہے۔
اس نے کہا کہ یہی کتا جس پر اس کی بیوی نے جادو کیا ہے ‘میں اسے اچھا کر سکتی ہوں۔ جب باپ نے اس کی باتیں سنیں تو کہنے لگا کہ بیٹی‘ تجھے خدا کی قسم ‘اسے اچھا کر دے، لڑکی نے ایک پانی بھرا لوٹا لیا اور اس پر کچھ پڑھ کر دم کیا اور اس میں سے تھوڑا سا میرے اوپڑ چھڑک دیا اور کہا کہ اس شکل کو بدل کر اپنی اصلی صورت میں آ جا۔ میں پھر اصلی صورت میں آ گیا اور میں نے اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ تُو میری بیوی پر جادو کر جس طرح اس نے مجھ پر کیا ہے۔
اس نے مجھے تھوڑا سا پانی دیا اور کہا کہ جب وہ سو رہی ہو‘ اس وقت یہ پانی اس پر چھڑک دیجیو اور جو چاہو کہیو‘ وہ وہی ہو جائے گی جو تو چاہے گا۔ میں وہ پانی لے کر اپنی بیوی کے پاس گیا اور اس کو سوتا پایا اور اس پر وہ پانی چھڑک دیا اور کہا اپنی صورت بدل کر خچر کی شکل بن جاؤ اور وہ فوراً خچر بن گئی اور یہی ہے جسے تُو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے‘ اے بادشاہ اور جنوں کے سرتاج! اس نے خچر سے کہا کہ کیا یہ سچ ہے؟ اس نے اپنا سر ہلایا اور اشارہ کیا‘ یعنی جی ہاں‘ یہ ہے میرا قصہ! جب وہ بیان کر چکا تو دیو خوشی کے مارے ناچنے لگا اور جو تہائی خون رہ گیا تھا وہ بھی بخش دیا۔

اب شہرزاد کو صبح ہوتی دکھائی دی اور اس نے وہ کہانی بند کر دی‘ جس کی اسے اجازت ملی تھی۔ اس کی بہن نے کہا کہ اے بہن تیری کہانی کیسی اچھی اور عمدہ‘ مزے دار اور میٹھی ہے۔ اس نے جواب دیا کہ اگر میں زندہ رہی اور بادشاہ سلامت نے مجھے قتل نہ کیا تو جو کہانی میں کل رات تم لوگوں سے بیان کروں گی اس میں اور اس میں زمین آسمان کا فرق ہو گا۔
بادشاہ نے کہا کہ خدا کی قسم جب تک میں اس سے باقی کہانی نہ سن لوں گا‘ اس وقت تک اسے قتل نہ کروں گا‘ کیونکہ یہ کہانی بڑی نرالی ہے۔ پھر وہ دونوں صبح تک ایک دوسرے کے گلے لگے رہے۔ اس کے بعد بادشاہ دربار میں داخل ہوا اور لشکر اور وزیر حاضر ہوئے۔ بادشاہ نے دربار کیا اور شام تک احکام صادر کرتا رہا۔ کسی کو عہدہ دیا اور کسی کو برخاست کیا اور کسی بات کی ممانعت کی اور کسی کو حکم دیا۔ پھر دربار برخاست ہوا اور شہریار بادشاہ اپنے محل میں گیا۔ جب رات ہوئی تو اس نے وزیر زادی سے اپنی ضرورت پوری کی۔

Browse More Urdu Literature Articles