IkkisweeN Raat - Article No. 1649

IkkisweeN Raat

اکیسویں رات - تحریر نمبر 1649

نورالدین نے کہا کہ میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ کسی سے زیادہ میل جول مت رکھیو اور مخالفت اور مباشرت زیادہ نہ کیجیو، کسی پر ظلم نہ کیجیو، خاموشی اختیار کیجیو اور دوسروں کے عیب چھوڑ کر اپنے عیبوں کو دیکھوشراب سے دور رہیو اور اپنے مال کو بچائیو

ہفتہ 30 دسمبر 2017

جب اکیسویں رات ہوئی تو اس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ ۔۔۔۔۔۔ وزیر اس کی تعظیم کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور مرحبا کہا اور کہنے لگا کہ اٹھ‘ آج رات اپنی بیوی کے ساتھ سو۔ کل میں تیرے ساتھ بادشاہ کے پاس چلو ں گا اور خدا سے تیرے لیے بھلائی کی دعا کروں گا۔ نورالدین اٹھا اور اپنی بیوی کے پاس گیا جو وزیر کی بیٹی تھی۔ یہ تو نور الدین کا قصہ ہوا۔ اب اس کے بھائی کا ماجرا سنئے۔

وہ ایک مدت تک سلطان کے ساتھ سفر میں رہا اور جب لوٹا تو اپنے بھائی کو نہ پایا۔ اس نے نوکروں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جس روز سلطان کی ہمراہی میں روانہ ہوا ہے‘ اس روز اس نے اپنے خچر پر جلوسانہ چار جامہ چڑھایا اور سوار ہوکر چلا گیا اور کہنے لگا کہ میں ایک یا دو روز کے لیے قیلوبیہ کی طرف طرف جاتا ہوں کیونکہ میرا دل گھبرا رہا ہے اور کوئی میرے پیچھے نہ آئے۔

(جاری ہے)

مگر جس روز سے وہ گیا ہے‘ آج تک اس کی کوئی خبر نہیں آئی۔ شمس الدین اپنے بھائی کے فراق میں بہت پریشان تھا اور اسے اس کے چلے جانے کا بے حد غم ہوا اور وہ اپنے دل میں کہنے لگا کہ اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ میں نے اسے اس رات جھڑکا تھا۔ یہ اس کے دل پر گراں گزرا اور وہ چلا گیا۔ مجھے چاہیے کہ اس کی تلاش میں لوگوں کو روانہ کروں۔ اس نے سلطان کو اس واقعے سے مطلع کیا اور ہر صوبے میں خطوط روانہ کئے اور ہر جگہ نوجوانوں کے پاس ڈاک بھیجی مگر نورالدین بیس دن میں ملک سے غائب ہوکر دور دراز ممالک طے کررہا تھا۔
انہوں نے بہت تلاش کی لیکن کہیں اس کی خبرنہ ملی اور وہ واپس آگئے۔ اب شمس الدین اپنے بھائی کی طرف سے ناامید ہوگیا اور کہنے لگا کہ میں نے بچوں کی شادی کے متعلق اپنے بھائی سے سخت کلامی کی۔ لوگ ایسی حرکت کم کرتے ہیں‘ اور میں نے جو کچھ کیا وہ عقل کی کمی اور ناسمجھی کی وجہ سے تھا۔ تھوڑے دنوں کے بعد اس نے مصر کے ایک سوداگر کی بیٹی سے شادی کی اور نکاح نامہ لکھا کر دیا اور اس کے ساتھ ہم بستر ہوا۔
یہ اتفاق تھا کہ جس رات شمس الدین اپنی بیوی سے ہم بستر ہوا‘ اسی رات نورالدین بھی اپنی بیوی سے جو بصرے کے وزیر کی بیٹی تھی‘ ہم بستر ہوا اور خدا یوں ہی چاہتا تھا کہ وہ اپنا حکم اپنے بندوں پر نافذ کرے اور جیسا کہ ان دونوں نے کہا تھا‘ دونوں عورتیں حاملہ ہوگئیں اور شمس الدین مصر کی وزیر کی بیوی کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی‘ جس کا جواب سارے مصر میں نہ تھا اور نورالدین کی بیوی کے ایک لڑکا پیدا ہوا جو ساری دنیا میں یکتا تھا اور اس نے اس کا نام بدرالدین حسن رکھا‘ اور اس کا نانا جو بصرے کا وزیر تھا‘ خوشی کے مارے پھولا نہ سمایا اور لوگوں کو دعوتیں دیں اور ایسے ایسے کھانے کھلائے جو شہزادوں کو کھلائے جاتے تھے۔

اب وزیر نورالدین کو لے کر بادشاہ کے پاس گیا۔ جب نورالدین بادشاہ کے سامنے پہنچا تو اس نے زمین کو بوسہ دیا اور زبان کا فصیح اور دل کا مضبوط اور حسین اور خوش اطوار تو تھا ہی، اس نے یہ شعر پڑھے:
”اے میرے سرتاج‘ خدا کی عنایتیں تیرے اوپر ہمیشہ رہیں اور جب تک روشنی اور تاریکی دنیا میں قائم رہیں‘ تو بھی زندہ رہیو۔ جب کبھی تیری ہمت و مردانگی کا ذکر ہوتا ہے تو زمانہ ناچنے لگتا اور عالم تالیاں بجانے لگتا ہے۔

بادشاہ ان دونوں کی تعظیم کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور نورالدین کے الفاظ کا شکریہ ادا کیا اور وزیر سے پوچھا کہ یہ کون جوان ہے؟ وزیر نے اس کا سارا قصہ شروع سے لے کر آخر تک بیان کر دیا اور کہا کہ یہ میرا برادر زادہ ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ تیرا برادر زادہ کہاں سے آیا کیونکہ ہم نے کبھی اس کے متعلق نہیں سنا! اس نے جواب دیا کہ اے میرے سرتاج بادشاہ‘ میرا ایک بھائی تھا جومصر میں وزیر تھا‘ اس کا انتقال ہوگیا ہے اور اس کے دو بیٹے ہیں۔
بڑا بیٹا تو باپ کی بجائے وزیر ہوگیا ہے۔ اور یہ چھوٹا بیٹا میرے پاس آیا ہے۔ میں نے قسم کھائی تھی کہ میں اپنی بیٹی کی شادی سوائے اس کے کسی کے ساتھ نہ کروں گا اور جب وہ آیا تو میں نے اس کی شادی اس کے ساتھ کر دی۔ وہ جوان ہے اور میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری سماعت میں کمی آگئی ہے اور میری سیاست کمزور ہوگئی ہے۔ اب میری درخواست اپنے سرتاج بادشاہ سے یہ ہے کہ میرا عہدہ اسے دے دیا جائے کیونکہ وہ میرا برادر زادہ اور داماد ہے اور وزارت کا مستحق۔
وہ عقلمند ہے اور سیاست داں۔ بادشاہ نے اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور وہ اسے پسند آیا اور جو عہدہ وزیر اس کے لیے چاہتا تھا وہ عطا کیا اور وزارت اس کے سپرد کردی اور حکم دیا کہ اسے ایک عالیشان خلعت عطا کی جائے اور اپنے خاص خچروں میں سے ایک خچر دیا اور اس کے لیے روزینہ اور مشاہرہ مقرر کر دیا۔ نورالدین نے بادشاہوں کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور اپنے سسر کے ساتھ گھر روانہ ہوگیا اور وہ دونوں بہت خوش تھے اور کہتے تھے کہ یہ سب بچے حسن کی برکت ہے۔

دوسرے روز نورالدین بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور زمین کو بوسہ دیا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ وہ وزرات کی کرسی پر بیٹھے اور وہ بیٹھ گیا اور اپنی خدمت انجام دینے لگا اور وزیروں کے دستور کے مواقف لوگوں کے کاروبار اور انہیں حکم دینے میں مشغول ہوا۔ سلطان اسے دیکھتا تھا اور اس کے احکام اور عقل اور تدبیر اور دور بینی پر متعجب ہوتا تھا۔
بادشاہ کو اس سے محبت ہوگئی اور اس نے اسے اپنا مقرب بنا لیا۔ جب دربار برخاست ہوا تو نورالدین گھر گیا اور اپنے سسر سے سارا ماجرا بیان کیا اور وہ اس پر بہت خوش ہوا۔
نورالدین برابر وزارت کے عہدے پر مامور رہا یہاں تک کہ وہ دن رات میں کبھی سلطان سے جدا نہ ہوتا تھا اور بادشاہ نے اس کے روزینے اور مشاہرے میں اضافہ کر دیا یہاں تک کہ اس کی حالت بہت اچھی ہوگئی اور اس کی ملکیت میں بہت سی کشتیاں ہو گئیں جو تجارت کا مال لے کر ادھر ادھر جاتی تھیں اور بہت سے مفید اور کالے غلام اور دولاب اور باغ اور اس نے بہت سے گاؤں آباد کئے۔
جب اس کے بیٹے حسن کی عمر چار سال کی ہوئی تو بڑے وزیر کا انتقال ہوگیا جو نورالدین کا سسر تھا اور اس نے اس کی تجہیزوتکفین میں بہت کچھ خرچ کرکے اسے دفن کیا۔
اب نور الدین نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ کی اور جب وہ سات کا ہوا تو اسے گھر پر پڑھانے کے لیے ایک فقیہہ مقرر کیا اورا س سے کہا کہ علم و ادب اور اچھی تربیت سکھائے، اس نے اسے پڑھایا اور چند سال کی مدت میں اسے مختلف علوم اور قرآن حفظ کرایا‘ اور حسن روز بروز خوبصورتی اور قدو قامت اور اعتدال میں بڑھتا جاتا تھا۔
فقیبہ اسے اس کے باپ کے محل میں پڑھانے آتا تھا اور جب سے وہ بڑا ہوا تھا‘ کبھی وزرات کے محل سے باہر نہ گیا تھا۔ ایک روز وزیر نورالدین نے اسے عمدہ کپڑے پہنائے اور اپنے بہترین خچر پر سوار کرکے اسے سلطان کے پاس لے گیا۔ جب وہ داخل ہوا تو بادشاہ نے وزیر نورالدین کے بیٹے بدرالدین حسن کو دیکھا اور وہ اسے پسند آیا اور اس سے محبت کرنے لگا اور رعایا کا یہ حال تھا کہ انہوں نے اسے پہلی بار اس روز دیکھا جب کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ بادشاہ کے پاس گیا اور انہیں اس کے حسن کا علم ہوا اور وہ راہ میں کھڑے رہے کہ واپسی پر اسے دیکھیں اور اس کے حسن و جمال اور قد اور اعتدال کو دیکھ کر خوش ہوں۔
جب سلطان نے اسے دیکھا تو اسے انعام دیا اورا س سے محبت کرنے لگا اور اس کے باپ سے کہا کہ اے وزیر تو اسے ہر وقت اپنے ساتھ لایا کیجیو۔
اس نے کہا کہ بسروچشم اور اپنے بیٹے کو لے کر گھر گیا۔ وہ اسے ہر روز بادشاہ کے پاس لے کے جاتا تھا‘ یہاں تک کہ وہ پندرہ سال کا ہوگیا اور اس کا باپ وزیر نورالدین ضعیف ہوگیا۔ اس نے اپنے بیٹے کو اپنے پاس بلا کر کہا کہ بیٹا‘ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا فنا ہونے والی ہے اور آخرت ہمیشگی کا گھر ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ تجھے چند وصیتیں کردوں‘ اس لیے جو کچھ میں کہتا ہوں‘ اسے سمجھ اور اپنے ذہن کو اس کی طرف مائل کر۔ اس نے یہ وصیت کی کہ لوگوں کے ساتھ اچھا برتاﺅ کرنا اور تدبیرسے کام کرنا چاہیے۔
اب نورالدین اپنے بھائی اور وطن اور ملک کو یاد کرکے رونے لگا اور احباب کی جدائی اس پر گراں گزر رہی تھی اور وہ اپنے آنسو پونچھتا جاتا تھا۔
جب رونا بند ہوا تو وہ اپنے بیٹے کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگا کہ وصیت سے پہلے میں تجھ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تیرا ایک چچا ہے‘ جو مصر میں وزیر ہے۔ میں اسے چھوڑ کر اور بغیر اس کی مرضی کے چلا آیا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ تو کاغذ لے اور جو کچھ میں کہوں‘ لکھتا جا۔ بدرالدین حسن نے کاغذ کا ایک ورق لیا اور جو کچھ اس کا باپ کہتا جاتا تھا وہ لکھتا جاتا تھا۔
پہلے باپ نے سارا ماجرا شروع سے آخر تک لکھوا دیا اور اپنی شادی اور وزیر کی بیٹی کے ساتھ مجامعت کی تاریخ لکھوائی اور وہ تاریخ جب کہ وہ بصرے پہنچا اور وزیر سے ملا تھا۔ پھر یہ کہ اب جھگڑا ہوئے چالیس سال سے زیادہ ہوگئے ہیں اور یہ ہے میرا خط بھائی کے نام اور میں اپنے بعد اسے خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ اب اس نے خط کو بند کرکے مہر لگا دی اور کہنے لگا کہ بیٹا حسن‘ میری وصیت یاد رکھیو اور اس رقعے کے اندر تیرا شجرہ اور حسب نسب درج ہے۔
اگر تجھے کوئی مصیبت پیش آئے تو مصر جا کر اور اپنے چچا کا پتہ پوچھ کر اس کے پاس جائیو اور اس سے کہیو کہ میں پردیس میں اسے بے دیکھے مر گیا ہوں۔
بدر الدین حسن نے رقعہ لے کر لپیٹا اور قمیض اور عبا کے درمیان سی لیا اور اس کے اوپر ٹپکا باندھ لیا اور اپنے باپ اور اس کی جدائی پر گریہ و زاری کرنے لگا حالانکہ وہ ابھی کمسن تھا۔ نورالدین نے کہا کہ میں تجھے پانچ چیزوں کی وصیت کرتا ہوں:
اول یہ کہ کسی سے زیادہ میل جول مت رکھیو اور مخالفت اور مباشرت زیادہ نہ کیجیو تاکہ تو اس کے شر سے محفوظ رہے کیونکہ سلامتی گوشہ نشینی میں ہے۔

دوم یہ کہ کسی پر ظلم نہ کیجیو ورنہ زمانہ تیرے اوپر ظلم کرے گا کیونکہ زمانہ ایک روز تیرے مواقف ہوگا اور ایک روز مخالف۔ دنیا ایک قرضہ ہے جو ادا کرنا پڑے گا۔ سوم خاموشی اختیار کیجیو اور دوسروں کے عیب چھوڑ کر اپنے عیبوں کو دیکھو۔ مثل ہے کہ جس نے خاموشی اختیار کی‘ وہ آفتوں سے بچ گیا۔
چہارم اے بیٹا‘ شراب پینے سے دور رہیو کیونکہ شراب سارے فتنوں کی جڑ ہے اور وہ عقل کو زائل کر دیتی ہے۔
خدا بچائے شراب پینے سے۔
پنجم اے بیٹا‘ اپنے مال کو بچائیو تاکہ وہ تجھے بچائے‘ اپنے مال کی حفاظت کیجیو تاکہ وہ تیری حفاظت کرے۔ اسراف نہ کیجیو ورنہ ذلیل لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑے گا۔ درہم کی حفاظت کیجیو کیونکہ وہ مرہم ہے۔
نورالدین یہ وصیت کر ہی رہا تھا کہ اس کی جان نکل گئی اور گھر میں رونا پیٹنا مچ گیا اور سلطان اور سارے امراء غمزدہ ہو گئے اور اس کو دفن کیا۔
بدرالدین اپنے باپ کے سوگ میں دو مہینے تک رہا حتیٰ کہ وہ نہ سوار ہوا اور نہ دفتر گیا اور نہ سلطان سے ملا۔ سلطان کو اس بات پر بڑا غصہ آیا اور ایک حاجب کو اس کی جگہ مقرر کرکے وزیر بنا دیا اور اسے حکم دیا کہ نورالدین کے مکانات اور مال اور عمارتوں اور املاک پر مہر لگا دے۔ وزیر روانہ ہوا کہ ان پر مہر لگا دے اور بدرالدین حسن کو گرفتار کرکے سلطان کے سامنے لے جائے تاکہ وہ اپنی رائے کے مطابق کارروائی کرے۔
فوج میں مرحوم وزیر کا ایک غلام تھا۔ جب اس نے یہ سنا تو وہ گھوڑا دوڑا کر بدرالدین حسن کے پاس آیا اور دیکھا کہ وہ سر جھکائے اور غمگین اور شکستہ دل گھر کے دروازے پر بیٹھا ہوا ہے۔ غلام نے اتر کر اس کا ہاتھ چوما اور کہا کہ اے میرے سردار اور سردار کے بیٹے بھاگ‘ موت آپہنچی ہے۔ حسن کانپ اٹھا اور کہنے لگا کہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ سلطان برہم ہوگیا ہے اور اس نے تیرا محاصرہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
بلا تیرے سر آپہنچی ہے‘ اپنی جان لے کر بھاگ۔ اس نے کہا کہ میرے پاس اتنا وقت ہے کہ میں اندر جاکر کچھ دینوی چیزیں لے لوں‘ جس سے مجھے پردیس میں مدد ملے؟ غلام نے جواب دیا کہ اے میرے سرتاج فوراً یہاں سے چل دے اور گھر کا نام نہ لے۔
جب اس نے غلام کی باتیں سنیں تو اپنا دامن سر پر ڈال کر چل دیا۔ یہاں تک کہ شہر کے باہر پہنچا۔ یہاں اس نے لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ سلطان نے نئے وزیر کو مرحوم وزیر کے گھر بھیجا ہے کہ وہ اس کے مال اور مکانوں پر مہر لگا دے اور اس کے بیٹے بدرالدین حسن کو گرفتار کرکے سلطان کے پاس لے جائے تاکہ وہ اسے جان سے مار دے۔
لوگ اس کے حسن و جمال پر افسوس کر رہے تھے۔ جب اس نے لوگوں کی باتیں سنیں تو وہ سر اٹھا کر ایک طرف چل دیا اور اسے معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں جاتا ہے۔
وہ برابر چلتا جا رہا تھا یہاں تک کہ قسمت اسے اس کے باپ کی قبر پر لے گئی۔ مقبرے میں داخل ہوکر قبروں میں گھستا پلتا وہ اپنے باپ کی قبر پر جا بیٹھا اور اپنی عبا کے دامن سے اپنا سر ڈھانپ لیا اور دیکھا کہ اس پر سنہرے الفاظ میں یہ اشعار لکھے ہوئے تھے۔

”اے وہ شخص‘ جس کا ستارہ اور شبنم کی طرح چمکدار ہے‘ جان کہ نہ تیرے عزت و آبرو ہمیشہ رہے گی اور نہ تیری بزرگی۔“
ابھی وہ اپنے باپ کی قبر پر بیٹھا ہی ہوا تھا کہ ایک یہودی اس کے پاس پہنچا جو صراف معلوم ہوتا تھا کیونکہ اس کے پاس ایک تھیلی میں بہت سا سونا تھا۔ یہ یہودی حسن بصری کی طرف بڑھا اور اس سے کہنے لگا کہ آقا‘ خیر تو ہے‘ تیرا رنگ کیوں فق ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں ابھی گھر میں سو رہا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرا باپ مجھ سے کسی بات پر ناخوش ہے کہ میں اسے دیکھنے نہیں آتا۔
ڈر کے مارے میں جاگ اٹھا کہ مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دن ختم ہو جائے اور میں اس کی زیارت نہ کر سکوں اور مجھے اس سے تکلیف پہنچے۔ یہودی نے اس سے کہا کہ اے آقا‘ تیرے باپ نے چند کشتیاں تجارت کے لیے روانہ کی تھیں اور بعض ان میں سے واپس آگئی ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ ان ایک ہزار دینار سونے کے عوض اس کشتی کا مال خریدوں جو سب سے پہلے آئی ہے۔
یہ کہہ کر یہودی نے ایک تھیلی نکالی‘ جس میں سونا بھرا ہوا تھا اور اس میں سے ایک ہزار دینار گن کر وزیر زادے کو دیئے اور کہا کہ مجھے ان کی رسید لکھ کر اپنی مہر لگا دے۔
وزیر زادے نے ایک ورق کاغذ لے کر یہ لکھ دیا! اس کا لکھنے والا وزیر زادہ حسن ہے۔ اور اس نے ایک ہزار دینار کے عوض اپنے باپ کی پہلی کشتی کا کل سامان یہودی اسحاق کے ہاتھ بیچ ڈالا ہے۔
اب اس نے جلدی سے دینار اٹھا لیے اور یہودی نے وہ ورق لے لیا۔ حسن اپنی گزشتہ عزت یاد کرکے رونے لگا اور یہاں تک رویا کہ رات ہوگئی اور وہ رات اپنے باپ کی قبر کا تکیہ لگا کر لیٹ گیا اور اسے نیند آگئی اور اس کی آنکھ اس وقت تک نہ کھلی جب تک کہ چاند نہ نکلا اور اس کا سر قبر پر سے پھسل پڑا اور وہ پیٹھ کے بل سونے لگا اور اس کا چہرہ چاندنی میں چمکنے لگا۔

اس مقبرے میں مسلمان جن رہتے تھے۔ ان میں سے ایک جنیہ نے حسن کو سوتے دیکھا اور اس کے حسن و جمال پر حیران ہوئی اور وہ کہنے لگی کہ سبحان اللہ‘ یہ تو جنت کے لڑکوں میں سے معلوم ہوتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ اپنی عادت کے مواقف ہوا میں اڑ گئی اور اس نے وہاں ایک اور جن کو اڑتا ہوا دیکھا‘ جن نے اسے سلام کیا اور اس نے جن سے پوچھا کہ تو کہاں سے آرہا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہیں سے۔
جنیہ نے کہا کہ اگر تو میرے ساتھ چلے تو میں تجھے ایک حسین جوان دکھاؤں جو یہاں مقبرے میں سو رہا ہے۔ اس نے کہا کہ بہت خوب۔ وہ اڑ کر قبر پر اترے اور جنیہ نے کہا کہ کیا تو نے اس کی طرح کسی کو دیھا ہے؟ جن نے اس کو دیکھ کر کہا کہ پاک ہے محض وہ ذات جس کی شبیہہ کہیں نہیں! لیکن اے بہن، اگر تو اجازت دے تو میں بیان کروں کہ میں نے کیا دیکھا ہے؟ اس نے کہا کہ وہ کیا؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے اس جوان کا سا حسین مصر کے ملک میں دیکھا ہے اور وہ وزیر شمس کی بیٹی ہے اور اس کی عمر تقریباً بیس سال کی ہے اور وہ حسن و جمال اور خوبی و کمال اور قدواعتدال میں لاجواب ہے۔
جب وہ اس عمر کو پہنچی تو مصر کے سلطان نے اس کا شہرہ سنا۔ اس کے باپ کو جو وزیر ہے بلا کر کہا کہ اے وزیر‘ میں نے سنا ہے کہ تیری ایک بیٹی ہے‘ میں اس سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ وزیر نے کہا کہ اے میرے سرتاج سلطان‘ میرا عذر قبول کر اور میرے آنسوﺅں کی لاج رکھ لے۔ تجھے معلوم ہے کہ میرا بھائی نورالدین جو وزارت میں میرا شریک تھا‘ یہاں سے چلا گیا ہے اور ہمیں معلوم نہیں کہ کہاں گیا۔
اور وہ ناراض ہوکر چلا گیا ہے کیونکہ ہم دونوں ایک روز شادی اور اولاد کا ذکر کر رہے تھے‘ اور اسی پر وہ ناراض ہو گیا۔ تقریبا اٹھارہ سال ہوئے جبکہ وہ لڑکی پیدا ہوئی تھی، میں نے قسم کھائی تھی کہ سوائے اپنے برادر زادے کے اس بیٹی کی شادی کسی اور سے نہ کروں گا۔ تھوڑے دن ہوئے کہ میں نے سنا ہے کہ میرے بھائی نے بصرے کے وزیر کی بیٹی سے شادی کی ہے اور اس کا ایک لڑکا پیدا ہوا ہے۔
اپنے بھائی کی خاطر میں اپنی بیٹی کی شادی اس کے سوا کسی اور سے نہ کروں گا۔ میں نے اپنی اور حمل اور اس لڑکی کی پیدائش کی تاریخیں لکھ رکھی ہیں اور اسے اپنے برادر سے منسوب کر رکھا ہے۔ ہمارے آقا سلطان کے لیے بہت سی لڑکیاں ہیں۔
جب سلطان نے وزیر کی باتیں سنیں تو وہ طیش میں آگیا اور کہنے لگا کہ اگر مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیٹی سے شادی کرے تو یہ تجھ پر احسان کرنا ہے اور تو ہے کہ ست حجتیں پیش کرتا ہے۔
میں اپنے سر کی قسم کھاتا ہوں کہ میں تیرا غرور توڑنے کے لیے اس کی شادی اپنے ایک کم ترین نوکر سے کروں گا۔ بادشاہ کا ایک سائیس تھا جو آگے سے بھی کبڑا تھا اور پیچھے سے بھی۔ بادشاہ نے اسے بلا کر اس کا نکاح نامہ زبردستی وزیر کی بیٹی کے ساتھ لکھ دیا اور حکم دیا ہے کہ وہ آج ہی رات داخل ہو کر اس سے ہم بستری کرے۔
میں اسے اس حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ سلطان کے غلام حمام کے دروازے پر اس کے اردگرد بیٹھے موم بتیاں جلا رہے اور اس کا مذاق اڑا رہے ہیں اور وزیر کی لڑکی دائیوں اور سنگھار کرنے والیوں کے درمیان بیٹھی رو رہی ہے۔
وہ لڑکی اس جوان سے بے حد مشابہ ہے اور اس کے باپ کو حکم ملا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے پاس نہ جائے۔ اے بہن میں نے اس کبڑے سے زیادہ ڈراﺅنی شکل کا انسان نہیں دیکھا اور وہ لڑکی اس جوان سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔ اب شہر زاد کو صبح ہوتی دکھائی دی اور اس نے وہ کہانی بند کردی جس کی اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles