NaweeN Raat - Article No. 1544

NaweeN Raat

نویں رات - تحریر نمبر 1544

لڑکی دروازے کے پاس ٹھہر گئی اور نقاب الٹ کر آہستہ آہستہ سے دستک دی۔ حمال اس کے پیچھے کھڑا ہوا اس کے حسن و جمال میں محو تھا

پیر 16 اکتوبر 2017

جب نویں رات ہوئی تو اس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ ۔۔۔۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ جب جادوگرنی نے تالاب میں سے پانی لیا اور اس نے کچھ پڑھ کر پھونکا جو سمجھ میں نہ آتا تھا تو مچھلیاں رقص کرنے لگیں اور انہوں نے اپنے اپنے سر نکالے اور فوراً اٹھ کھڑی ہوئیں اور شہر والوں کا جادو اتر گیا اور شہر دوبارہ آباد ہو گیا۔ دکاندار خرید و فروخت کرنے لگے‘ ہر شخص اپنے کام کاج میں لگ گیا۔

جزیرے پہلے کی طرح ہو گئے۔ جادوگرنی فوراً بادشاہ کے پاس گئی اور کہنے لگی کہ اے پیارے‘ اپنا ہاتھ مجھے دے اور اٹھ کھڑا ہو۔ بادشاہ نے دھیمی آواز سے کہا کہ قریب آ۔ وہ قریب آئی یہاں تک کہ اس کے بدن سے بدن مل گیا۔ بادشاہ نے تلوار کھینچ کر اس کے سینے پر ایسا وار کیا کہ تلوار چمکتی ہوئی دوسری طرف پیٹھ سے نکل آئی۔

(جاری ہے)

پھر بادشاہ نے دوسرا وار کرکے اس کے دو ٹکڑے کر دیئے اور خود باہر نکل آیا۔

یہاں اس نے دیکھا کہ جوان اس کے انتظار میں کھڑا ہوا ہے۔ جوان نے اس کی سلامتی پر اسے مبارک باد دی اور اس کے ہاتھ چومے۔ بادشاہ نے کہا کہ اگر تیرا جی چاہے تو اپنے اسی شہر میں ٹھہر ورنہ میرے ساتھ شہر چل۔ جوان نے کہا کہ تجھ کو معلوم ہے کہ تو اپنے شہر سے کتنی دور ہے؟ بادشاہ نے کہا کہ ڈھائی دن کا فاصلہ ہے۔ جوان نے کہا کہ اے بادشاہ اگر تو خواب میں ہے تو بیدار ہو جا۔
یہاں سے تیرے شہر تک ایک تیز رو مسافر کی رفتار سے پورے سال کا راستہ ہے۔ تو جو ڈھائی دن میں پہنچ گیا ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ شہر جادو کے اثر میں تھا۔ اے بادشاہ! میں تجھ سے لمحہ بھر کے لیے بھی جدا نہ ہوں گا۔ بادشاہ نے کہا کہ شکریہ ہے خدا کا جس نے تجھے مجھ کو عطا کیا۔ آج سے تو میرا بیٹا ہے‘ کیونکہ عمر بھر میرے کوئی بیٹا پیدا نہیں ہوا۔
دونوں گلے لپٹ گئے اور خوشی کے مارے ان کی باچھیں کھل گئیں۔ پھر وہاں سے روانہ ہو کر وہ محل میں پہنچے۔ جوان نے تمام رﺅسا کو حکم دیا کہ سفر کی تیاری کی جائے اور ساری ضروریات مہیا کی جائیں۔ دس روز تیاری ہوتی رہی۔ پھر دونوں بادشاہ روانہ ہوگئے۔ اس عجیب و غریب جدائی کی وجہ سے سلطان کے دل میں اپنے شہر کو دوبارہ دیکھنے کی آگ بھڑک رہی تھی۔ راہ میں ان کے ساتھ پچاس غلام اور بہت سے تحفے تحائف تھے۔
دن رات سفر کرتے کرتے وہ پورے ایک سال کے بعد سلطان کے شہر تک پہنچے اور انہوں نے سلطان کے صحیح و سلامت پہنچنے کی خبر وزیر کو بھیجی۔ وزیر و سپاہ جو بادشاہ کے دیدار سے ہاتھ دھو چکے تھے‘ استقبال کے لیے آئے۔ لشکر آگے بڑھا اور سلطان کے آگے زمین کو بوسہ دیا اور اس کی سلامتی پر مبارک باد دی۔ اب سلطنت کے کاروبار پھر جاری ہو گئے۔ سلطان نے بہت لوگوں پر انعام و اکرام کیا اور وزیر کو حکم دیا کہ ماہی گیر کو بلایا جائے جو مچھلیاں لایا تھا اور شہر والوں کو خلاصی کا اصل سبب تھا۔
جب وہ آیا تو سلطان نے اسے خلعت عطا کیا اور اس کی خیر و عافیت دریافت کرکے اس سے پوچھا کہ تیرے کوئی اولاد ہے؟ اس نے کہا کہ میری دو لڑکیاں اور ایک لڑکا ہے۔ بادشاہ نے ان تینوں کو بھی دربار میں طلب کیا اور ایک لڑکی سے خود شادی کی اور دوسری کی شادی اس جوان سے کر دی اور لڑکے کو خزانچی کے عہدے پر مامور کیا۔ وزیر کی کمر میں تلوار باندھ کر اسے جوان کے شہر کا، جو جزائر سیاہ تھے‘ سلطان بنا کر بھیج دیا اور پچاس غلام جو اس کے ہمراہ آئے تھے‘ وزیر کے ساتھ روانہ کر دیئے اور تمام امرا کے لیے خلعت روانہ کئے۔
وزیر سلطان کے ہاتھوں کو بوسہ دے کر سفر کے لیے روانہ ہو گیا اور سلطان اور نوجوان وہیں ٹھہر گئے۔ ماہی گیر اپنے زمانے کا امیر ترین شخص ہو گیا اور اس کی بیٹیاں مرتے دم تک رانیاں رہیں لیکن یہ کہانی حمال کی کہانی سے زیادہ عجیب نہیں ہے۔
حمال اور تین لڑکیوں کی کہانی:
بغداد میں ایک حمال رہتا تھا۔ جس کے بیوی بچے نہ تھے۔ ایک روز وہ بغداد میں اپنے ٹوکرے سے تکیہ لگائے کھڑا تھا کہ ایک عورت آئی۔
اس کا برقعہ موصلی ریشم کا تھا۔ جوتوں پر زردوزی کا کام تھا اور ان کے حاشیوں پر موتی اور ہیرے ٹکے ہوئے تھے۔ اس کے گیسو ہل رہے تھے‘ اس نے اپنا نقاب اٹھایا تو اس کے نیچے دو کالی کالی آنکھیں چمکتی ہوئی نظر آئیں‘ جن پر پلکوں کی گوٹ لگی ہوئی تھی۔ اس کا بدن نازک اور نازنین اور حسن کامل تھا۔ اس نے حمال کی طرف متوجہ ہو کر پیاری اور میٹھی آواز سے کہا کہ اپنا ٹوکرا لے کر میرے پیچھے پیچھے آ۔
حمال کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا اور ٹوکرا لے کر اس کے پیچھے دوڑا اور کہنے لگا کہ اے نیک بختی کے دن‘ اے کامیابی کے دن! چلتے چلتے وہ ایک مکان کے دروازے پر ٹھہر گئی اور دروازہ کھٹکھٹانے لگی۔ ایک عیسائی نیچے آیا‘ اس نے اسے ایک دینار دیا اور ایک زیتونی رنگ کی شراب کی بوتل لے کر ٹوکرے میں رکھ دی اور حمال سے کہا کہ اٹھا اور میرے پیچھے پیچھے چل۔
حمال نے اپنے دل میں کہا کہ واللہ‘ آج کا دن بڑا مبارک اور دعا کے قبول ہونے کا دن ہے اور ٹوکرا اٹھا کر اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ اب وہ ایک میوہ فروش کی دکان پر ٹھہری اور وہاں سے شامی سیب‘ عثمانی ناشپاتیاں‘ عمانی آڑو‘ چنبیلی‘ شامی‘ نیلوفر‘ اقلامی ککڑیاں مرابی نیبو‘ سلطانی نارنگیاں‘ ریمانی مرسینا‘ مہندی پھل‘ بابونہ‘ شقائق النعمان‘ بنفشہ گلنار اور نسرین خرید کر سب چیزیں حمال کے ٹوکرے میں ڈال دیں اور کہا کہ اٹھا۔
وہ اٹھا کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ اب وہ ایک قصاب کی دکان پر ٹھہری اور کہا کہ دس رطل گوشت کاٹ دے۔ اس نے گوشت کاٹ دیا۔ اور لڑکی نے اس کی قیمت ادا کر کے گوشت کو کیلے کے پتے میں لپیٹ کر ٹوکرے میں رکھ دیا اور کہا کہ اے حمال اٹھا‘ اس نے ٹوکرا اٹھایا اور لڑکی کے پیچھے ہو لیا۔ وہاں سے چل کر وہ ایک بنئے کی دکان پر ٹھہری وہاں سے چھلے ہوئے پستے‘ تہامی کشمش اور بادام خرید کر اس میں مختلف قسم کی مٹھائیاں مثلاً مشک دانے‘ صابونیاں‘ نیبو پارے‘ مربے‘ نیب کنگھی‘ چھوارے‘ راحت لقم اور طرح طرح کے حلوے بھر کر اسے ٹوکرے میں رکھ دیا۔
حمال نے کہا اگر مجھے معلوم ہوتا تو اپنے ساتھ ایک اونٹ لیتا آتا اور یہ سارا سامان اس پر لاد لیتا۔ لڑکی نے مسکرا کر اپنا ہاتھ اس کی گدی پر مارا اور کہا کہ جلد چل اور باتیں نہ بنا۔ خدا نے چاہا تو مجھے کافی مزدوری ملے گی۔ پھر وہ ایک عطر فروش کی دکان پر ٹھہری اور دس قسم کے مختلف عطر خریدے مثلاً گلاب‘ شگوفہ‘ نیلوفر‘ بید مشک وغیرہ اور مصری خریدی اور گلاب پاش اور ایک لوبان کی ڈلی اور عود اور عنبر اور مشک اور اسکند رانی موم بتیاں اور انہیں ٹوکرے میں رکھ کر کہا کہ اٹھا اپنا ٹوکرا اور پیچھے پیچھے چل۔
حمال نے اپنا ٹوکرا اٹھایا اور اس کے پیچھے روانہ ہو گیا۔ یہاں تک کہ وہ ایک خوبصورت مکان کے پاس پہنچی‘ جس کے سامنے ایک وسیع میدان تھا۔ مکان بلند اور اس کے ستون مضبوط تھے۔ دروازے کے دونوں پٹ آبنوس کے تھے اور ان پر سونے کے پتر جڑے ہوئے تھے۔ لڑکی دروازے کے پاس ٹھہر گئی اور نقاب الٹ کر آہستہ آہستہ سے دستک دی۔ حمال اس کے پیچھے کھڑا ہوا اس کے حسن و جمال میں محو تھا۔
اب دونوں پٹوں نے جنبش کی اور دروازہ کھلا۔ حمال نے دروازہ کھولنے والی کو دیکھا‘ نو عمر لڑکی بلند و بالا‘ سینہ ابھرا ہوا‘ حسن و جمال اور آب و تاب اور قد و اعتدال میں لاجواب‘ روشن پیشانی‘ سرخ رخسار‘ نیل گائے یا غزال کی سی آنکھیں‘ شعبان کے چاند کی کمان کے سے ابرو‘ شقائق النعمان کے سے رخسار، سلیمان کی انگوٹھی کا سا منہ‘ مرجان کی طرح سرخ ہونٹ‘ موتی کی لڑی کی طرح دانت، غزال کی سی گردن، شامیانے کی طرح سینہ، پستان جیسے دو انار، پیٹ ریشم کی طرح نرم، ناف جس میں آدھ چھٹانک لوبان کا تیل آ جائے۔
حمال نے اسے دیکھا تو ہوش اڑ گئے اور قریب تھا کہ ٹوکرا اس کے سر کے اوپر گر پڑے‘ اس نے اپنے دل میں کہا کہ آج سے زیادہ مبارک دن میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ دروازہ کھولنے والی لڑکی نے سامان لانے والی لڑکی سے کہا کہ اندر آ اور اس بیچارے حمال پر سے سامان اتار لے۔ سامان لانے والی لڑکی دروازے کے اندر داخل ہوئی‘ اس کے پیچھے پیچھے دروازہ کھولنے والی پھر حمال۔
چلتے چلتے وہ ایک وسیع صحن میں داخل ہوئے جو نہایت سڈول اور خوبصورت بنا ہوا تھا اور جس میں نقش و نگار اور پچی کاری کا کام تھا۔ اس میں بارہ دریاں اور چھجے اور محرابیں تھیں نیز الماریاں جن پر پردے پڑے ہوئے تھے۔ صحن کے بیچ میں پانی بھرا ہوا تھا۔ اس کے وسط میں ایک فوارہ تھا۔ صحن کے بالائی حصے میں ایک تخت پڑا ہوا تھا جو صنوبر کی لکڑی کا بنا ہوا اور جس میں ہیرے‘ جواہرات جڑے ہوئے تھے۔
تخت کے اوپر لال اطلس کی چھتری لگی ہوئی تھی۔ جس کے حاشئے میں بعض گولیوں کے برابر اور بعض ان سے بھی بڑے موتی ٹکے ہوئے تھے۔ اس کے اندر سے ایک نو عمر لڑکی نکلی۔ اس کی پیشانی چمکدار تھی۔ حسن دو فریب‘ اندر فلسفیانہ‘ جسم چاند کا سا، آنکھیں جادو بھری‘ بھنویں ترچھی کمانوں کی سی‘ قد تیر کا سا‘ خوشبو عنبر کی سی‘ ہونٹ لعل کی طرح سرخ اور شکر کی طرح میٹھے۔
اس کے چہرے کی آب و تاب کے آگے سورج شرمندہ تھا، اس کی مثال آسمانی تارے کی سی یا سنہرے گنبد کی سی تھی یا آرستہ و پیراستہ دلہن کی سی یا عربی نیزے کی سی۔
یہ تیسری نوعمر لڑکی تخت پر سے اتری اور ناز و انداز سے چلتی ہوئی صحن کے وسط تک اپنی بہنوں کے پاس پہنچی اور کہنے لگی کہ کھڑی کیا کرتی ہو؟ بیچارے حمال کے سر پر سے بوجھ اتروا دو۔ سامان لانے والی لڑکی نے حمال کے آگے سے ہاتھ لگایا اور دروازہ کھولنے والی نے پیچھے سے، تیسری نے ان کی مدد کی اور حمال کا ٹوکرا اتروا دیا اور اس میں سے چیزیں نکال کر انہیں اپنی اپنی جگہ سلیقے سے رکھ دیا اور حمال کو دو دینار دے کر کہا جا۔
حمال نے لڑکیوں کی طرف نظر ڈالی اور ان کی خوش صورتی اور خوش سیرتی کا نظارہ کرنے لگا۔ ایسا اچھا منظر عمر بھر اس کی آنکھوں کے سامنے نہ آیا تھا لیکن اس نے دیکھا کہ ان کے یہاں کوئی مرد نہیں اور یہ بھی کہ اس کے پاس کس قدر شرابیں اور میوہ جات اور عطریات وغیرہ ہیں۔ اس پر اسے سخت اچنبھا ہوا اور ٹھٹھک گیا۔ ایک لڑکی نے کہا کہ تو جاتا کیوں نہیں؟ کیا تجھے کافی مزدوری نہیں ملی؟ یہ کہہ کر وہ اپنی بہن سے مخاطب ہوئی اور کہا کہ ایک دینار اور دے دے۔
حمال نے کہا کہ اے میری مالکہ‘ مزدوری تو مجھے کم نہیں ملی کیونکہ میری مزدوری دو درہم سے زیادہ نہیں۔ مگر میں یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ کیا بات ہے کہ تم لوگ اکیلی ہو اور گھر میں کوئی مرد نہیں جو تمہارا ساتھ دے۔ تمہیں معلوم ہے کہ دعوت میں چار سے کم نہیں ہوتے اور تمہارے ساتھ کوئی چوتھا نہیں۔ عورتوں کا کھیل کود بغیر مرد کے اچھا نہیں لگتا۔
تم تین ہو‘ تمہیں چوتھے کی ضرورت ہے جو عقلمند اور سمجھدار اور جہاندیدہ اور رازدار ہو۔ جب ان لڑکیوں نے اس کی باتیں سنیں تو وہ ان کو بھلی معلوم ہوئیں اور وہ ہنسنے لگیں اور کہا کہ ایسا ہمیں کون مل سکتا ہے؟ ہم تو لڑکیاں ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کوئی راز کی بات کہیں اور وہ تشت از بام ہو جائے، حمال نے کہا کہ تمہاری جان کی قسم میں سمجھ دار اور امانت دار آدمی ہوں۔
میں نے بہت سے کتابوں بالخصوص تاریخ کا مطالعہ کیا ہے۔ میں اچھی بات کو ظاہر کرتا اور بری بات کو چھپاتا ہوں۔
جب لڑکیوں نے یہ سنا تو کہنے لگیں کہ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے اپنی ساری دولت اس مکان میں لگا دی ہے۔ بتا کہ تیرے پلے کچھ ہے کہ ہمارے ساتھ معاملہ کرے؟ یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ ہم تجھے اپنے ساتھ بٹھلائیں اور اپنا ہم مشرب بنائیں اور اپنے حسین و ملیح چہرے دکھائیں اور تو ان کے بدلے ہمیں کچھ نہ دے۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ بے پیسے کی محنت ذرا برابر بھی نہیں ہوتی۔
دروازہ کھولنے والی نے کہا کہ اے دوست‘ اگر تیرے پلے کچھ ہے تو ایک چیز ہے‘ اور اگر تیرے پلے کچھ نہیں تو ناکام لوٹ جا۔ سامان لانے والی لڑکی نے کہا کہ بہنو‘ اسے دق مت کرو۔ اس نے آج بڑا کام کیا ہے۔ اگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ اکتا جاتا‘ جو کچھ اس کے ذمے ہے وہ میں اپنے اوپر لیتی ہوں۔
حمال کی باچھیں کھل گئیں اور اس نے زمین کو بوسہ دیا اور شکریہ ادا کیا۔ تخت والی لڑکی نے کہا کہ خدا کی قسم‘ بغیر ایک شرط کے تجھے ہرگز اپنے ساتھ نہ بٹھاﺅں گی اور وہ یہ ہے کہ جس چیز سے تیرا واسطہ نہ ہو‘ وہ ہرگز نہ پوچھیو، ورنہ میں تجھے ماروں گی۔ حمال نے کہا کہ منظور ہے اے مالکہ بسروچشم۔ دیکھ میں ابھی سے گونگا ہوا جاتا ہوں۔ یہ کہہ کر سامان لانے والی لڑکی اٹھی اور اپنی کمر کس کر بوتلوں کو ایک صف میں آراستہ کیا اور شراب کو نتھارا اور پھول دانوں کے اردگرد پھول پتیاں لگائیں اور باقی ضروری چیزیں لاکر رکھیں۔
پھر وہ اپنی بہنوں کے ساتھ بیٹھی اور حمال کو اپنے ساتھ بٹھایا۔ اور شراب کا دور چلنے لگا۔ حمال کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا خواب دیکھ رہا ہے۔ لڑکی نے شراب کی صراحی اٹھائی اور ایک جام بھر کر پی گئی‘ پھر دوسرا‘ پھر تیسرا‘ پھر جام بھر کر اس نے اپنی بہنوں کے سامنے پیش کیا‘ پھر اور جام اور بھر کر حمال کو دیئے اور کہنے لگی:
پی جا‘ تجھے مبارک ہو اور آرام دہ۔
اس کے پینے سے ساری بیماریاں دور ہوتی ہیں۔ حمال نے جام اپنے ہاتھ میں لے لیا اور آداب بجا لا کر شکریہ ادا کیا اور یہ اشعار پڑھنے لگا:
”شراب محض۔
اس شخص کے ساتھ پی جاتی ہے جس پر اعتبار ہو۔
جو پاک طینت ہو
اور جس کا شجرہ
دور تک پہنچتا ہو“
”شراب کی حالت ہوا کی سی ہے
اگر خوشبو دار چیز کے اوپر سے گزرے تو خوشبودار ہو جاتی ہے
اور اگر مردار پر سے گزرے
تو بدبودار ہو جاتی ہے“
پھر اس نے یہ شعر پڑھا:
”اگر تو شراب پئے تو
معشوق کے ہاتھ سے پی
تاکہ تجھ میں
لطیف خیالات پیدا ہوں“
یہ اشعار پڑھنے کے بعد اس نے ان لڑکیوں کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور شراب پی اور جھومنے لگا۔
پھر اس لڑکی نے ایک جام بھر کر اپنی منجھلی بہن کو دیا۔ اس نے جام لے کر بہن کا شکریہ ادا کیا اور چڑھا گئی۔ پھر اس نے دوسرا جام بھر کر تخت والی کو دیا اور ایک پیالہ بھر کر حمال کو۔ حمال نے زمین کو بوسہ دیا اور شکریہ ادا کرکے پی گیا۔ اب وہ محل کی مالکہ کے آگے آیا اور کہنے لگا کہ اے مالکہ میری‘ میں تیرا غلام، زر خرید بندہ اور خادم ہوں۔
اس نے کہا کہ تجھے راس آئے! اور پی‘ خدا مبارک کرے اور تجھے صحت و عافیت دے۔ حمال نے پیالہ لے کر اس کے ہاتھ چومے اور چڑھا گیا۔ اب لڑکی نے خود ایک پیالہ لیا اور پی گئی۔ اور اپنی بہنوں کے پاس آئی اور حمال کو اپنے ساتھ بٹھا کر مے نوشی میں مشغول ہو گئی اور سب کے سب مل کر گانے‘ ناچنے اور یہ اشعار پڑھنے لگے۔ اور حمال ان کے ساتھ بوس و کنار کرنے لگا‘ کبھی انہیں کاٹتا، کبھی چٹکیاں لیتا۔
لڑکیوں میں سے کوئی اس کے منہ میں نوالہ دیتی‘ کوئی مکے مارتی‘ کوئی چپت لگاتی‘ کوئی خوشبو سنگھاتی اور اس میں اسے بڑا مزہ آ رہا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ جنت میں حوروں کی صحبت میں ہے۔ وہ اسی حالت میں تھے کہ شراب ان کے سروں میں چڑھنے لگی۔
جب شراب کافی چڑھ چکی تو دروازہ کھولنے والی لڑکی اٹھی اور اپنے کپڑے اتار کر برہنہ ہو گئی اور اپنے لمبے لمبے بالوں سے بدن کو ڈھانپ لیا اور حوض میں کود پڑی اور پانی کے ساتھ کھیلنے لگی‘ کبھی منہ میں پانی بھر کر ادھر ادھر پھینکتی اور کبھی حمال پر کلی کرتی ۔
۔۔۔۔۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ پھر سب سے بڑی لڑکی، جو سب سے زیادہ خوبصورت تھی، اٹھی اور برہنہ ہو کر حوض میں کود پڑی اور غوطے لگانے اور نہانے اور کھیلنے لگی۔ حمال نے اسے برہنہ دیکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ گویا وہ چاند کا ٹکڑا تھی‘ اس کا چہرہ پوری چاند کی طرح تھا یا روشن صبح کی طرح۔ اس نے اس کے قد و قامت اور سینے پر نظر ڈالی اور ان بھاری کولہوں پر جو مٹک رہے تھے اور وہ سر تا پا برہنہ تھی جس طرح کہ خدا نے اسے پیدا کیا تھا۔
حمال اس کی طرف مخاطب ہو کر یہ شعر پڑھنے لگا:
اگر میں تیرے قد کو
ہری بھری ٹہنی سے تشبیہ دوں
تو یہ زیادتی اور زبردستی ہے
کیونکہ ٹہنی
اس وقت بھلی لگتی ہے
جب کہ وہ اپنے لباس میں ہوتی ہے
اور تو اس وقت
جب کہ تو برہنہ ہوتی ہے“
اب شہر زاد کو صبح ہوتی دکھائی دی اور اس نے وہ کہانی بند کر دی جس کی اسے اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles