OneesveeN Raat - Article No. 1619

OneesveeN Raat

انیسویں رات - تحریر نمبر 1619

اے امیرالمومنین‘ اس نے مجھے اپنے کچھ بال دیئے اور کہا کہ جب تو مجھے بلانا چاہے تو ان بالوں میں سے ایک بال لے کر جلائیو اور میں فوراً آجاﺅں گی‘ خواہ میں کوہ قاف کے پار ہی کیوں نہ ہوں

جمعہ 8 دسمبر 2017

انیسویں رات ہوئی تو اس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ ۔۔۔۔۔۔ خلیفہ نے حکم دیا کہ یہ داستان قلمبند کرلی جائے اور شاہی کتب خانے میں داخل کر دی جائے۔ پھر اس نے پہلی لڑکی کی طرف مخاطب ہوکر کہا کہ تجھے کچھ معلوم ہے کہ وہ دیونی کہاں ہے، جس نے تیری بہنوں پر جادو کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اے امیرالمومنین‘ اس نے مجھے اپنے کچھ بال دیئے ہیں اور کہا کہ جب تو مجھے بلانا چاہے تو ان بالوں میں سے ایک بال لے کر جلائیو اور میں فوراً آجاﺅں گی‘ خواہ میں کوہ قاف کے پار ہی کیوں نہ ہوں۔

خلیفہ نے کہا کہ مجھے وہ بال دے۔ لڑکی نے اسے بال دیئے اور خلیفہ نے لے کر انہیں جلایا۔ جب اس کی بو پھیلی تو محل ہلنے لگا اور بجلی کی کڑک اور لوہوں کے ٹکرانے کی سی آواز سنائی دی اور دیونی آپہنچی۔

(جاری ہے)

چونکہ وہ اسلام لا چکی تھی‘ اس نے کہا کہ السلام علیکم اے خدا کے جانشین! اس نے کہا وعلیکم السلام و رحمة اللہ و برکاتہ۔ دیونی نے کہا کہ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ اس لڑکی نے میرے ساتھ ایسی بھلائی کی ہے جس کا بدلہ دینے سے میں قاصر ہوں کیونکہ اس نے مجھے موت کے پنجے سے چھڑایا ہے اور میرے دشمن کو مار ڈالا ہے اور جو کچھ اس کی بہنوں نے اس کے ساتھ کیا وہ میرا چشم دید واقعہ ہے۔

اس لیے میری رائے ہوئی کہ میں ان سے بدلہ لوں اور میں نے جادو سے انہیں کتیاں بنا دیا۔ پہلے میرا ارادہ تھا کہ انہیں قتل کر ڈالوں لیکن مجھے ڈر ہوا کہ یہ اس لڑکی پر گراں گزرے گا۔ اب اے امیرالمومنین‘ اگر تو چاہے تو میں تیری اور اس لڑکی کی خاطر ان کو چھٹکارا دے دوں کیونکہ میں مسلمان ہوں۔ خیلفہ نے کہا کہ ہاں‘ ان کو اچھا کر دے اور اس کے بعد ہم کوڑے کے نشان والی لڑکی کے ماجرے کی تحقیقات کریں گے، اگر مجھے معلوم ہو گیا کہ وہ سچ کہتی ہے تو میں اس کے ظالم سے اس کا بدلہ لوں گا۔
دیونی نے کہا کہ اے امیرالمومنین دیکھ‘ میں ان کو ابھی اچھا کرتی ہوں اور تجھے اس شخص کا بھی پتہ بتاتی ہوں‘ جس نے لڑکی کے ساتھ یہ حرکت کی ہے اور اس پر ظلم کیا ہے اور اس کا مال چھین لیا ہے‘ اور وہ تیرا قریب ترین رشتہ دار ہے۔
اس کے بعد دیونی نے ایک پیالہ پانی لیا اور اس پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور کچھ ایسے الفاظ کہے جو میری سمجھ میں نہ آئے اور وہ پانی دونوں کتیوں پر چھڑک دیا اور کہنے لگی کہ اپنی اصلی انسان صورت پر آ جاﺅ اور وہ اپنی پرانی صورت پر آگئیں۔
پھر دیونی نے کہا کہ اے امیرالمومنین‘ جس نے اس لڑکی کو مارا ہے‘ وہ تیرا بیٹا امین‘ مامون کا بھائی ہے۔ اس نے اس لڑکی کے حسن و جمال کی تعریف سنی تھی اور چالاکی سے اسے بلوایا اور حلال طریقے سے اس سے نکاح کیا۔ اس لڑکی کے مارنے میں اس پر کوئی جرم عائد نہیں ہوتا کیونکہ اس نے اس سے شرط کرائی تھی اور بڑی بڑی قسمیں کھلائی تھیں کہ اس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو لیکن اس نے قسم توڑ دی۔
اس پر اس نے لڑکی کو قتل کرنے کا ارادہ کیا لیکن خدا سے ڈر کر چھوڑ دیا اور محض کوڑے مارنے پر اکتفا کیا اور اسے‘ اس کے گھر بھیج دیا۔ بس یہی داستان ہے دوسری لڑکی کی اور اللہ بہتر جانتا ہے۔
جب خلیفہ نے دیونی کی باتیں سنیں اور لڑکی کی مار کا اسے علم ہو گیا تو وہ بے حد اچنبھے میں آ گیا اور کہنے لگا کہ پاک ہے ذات‘ خدا کی جو بزرگ اور عالی شان ہے، جس نے میرے اوپر یہ احسان کیا ہے اور دونوں لڑکیوں کو جادو اور تکلیف سے نجات دی ہے اوراس لڑکی کی داستان سے مجھے مطلع کیا ہے۔
خدا کی قسم ہے کہ میں ایسا کام کروں گا جو میرے بعد تواریخ میں لکھا جائے۔ پھر اس نے اپنے بیٹے امین کو اپنے پاس بلایا اور اس سے دوسری لڑکی کا ماجرا پوچھا۔ اس نے سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔ اب خلیفہ نے قاضیوں اور گواہوں کو طلب کیا اور تینوں قلندروں کو اور پہلی لڑکی اور اس کی دونوں بہنوں کو جو جادو کی ماری تھیں‘ بلوایا اور ان تینوں لڑکیوں کا نکاح تینوں قلندروں سے کرا دیا جو اپنے قول کے بموجب بادشاہ تھے اور ان کو حاجیوں کا عہدہ عطا کیا اور ان کے لیے ساری ضروریات مہیا کر دیں اور ان کا مشاہرہ مقرر کر دیا اور بغداد کا محل ان کو رہنے کے لیے دیا اور مار کے نشان والی لڑکی اپنے بیٹے امین کو واپس کر دی اور اس کے عہد نامے کی تجدید کی اور اس لڑکی کو بہت سا مال عطا کیا اور حکم دیا کہ وہ بہترین سے بہترین مکان بنوائے اور خود خلیفہ نے سودا لانے والی لڑکی سے شادی کر لی اور اس رات وہ اس کے ساتھ سویا اور دوسرے دن اس کے لیے ایک علیحدہ محل مخصوص کر دیا اور خدمت کے واسطے اسے لونڈیاں دیں اور اس کا روزینہ مقرر کر دیا۔
اپنے قریب اس کا مکان بنوایا۔ لوگوں کو خلیفہ کی اس سخاوت اور عالی ہمتی اور دانشمندی پر سخت تعجب ہوا۔ اب خلیفہ نے حکم دیا کہ ان سب کی کہانیاں قلمبند کر لی جائیں۔
دنیا زاد نے اپنی بہن شہر زاد سے کہا کہ بہن واللہ یہ قصہ نہایت پیارا اور لطیف ہے اور ایسا کبھی سننے میں نہیں آیا لیکن اب کوئی اور کہانی سنا جس سے آج رات کی بیداری کٹے۔ اس نے کہا کہ بسروچشم۔
بشرطیکہ بادشاہ سلامت اجازت دیں۔ بادشاہ نے کہا کہ کہانی کہہ اور جلد کہہ۔
تین سیبوں کی کہانی:
اس نے کہا کہ اے زمانے کے بادشاہ اور دنیا جہاں کے مالک‘ ایک رات خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے وزیر جعفر کو بلوایا اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ شہر میں گشت کروں اور عام لوگوں سے حکام کے متعلق دریافت کروں اور جن کی وہ شکایت کریں‘ ان کو معزول کر دوں اور جس جس کا شکریہ ادا کریں ان کو ترقی دوں۔
جعفر نے کہا بسر و چشم۔ جب خلیفہ اور جعفر اور مسرور شہر سے ہو کر گزرے اور بازاروں اور گلیوں میں پھرنے لگے تو انہوں نے ایک گلی میں ایک بڑے بوڑھے شخص کو دیکھا جو اپنے سر پر جال اور ٹوکرا رکھے اور اپنے ہاتھ میں ڈنڈا لیے آہستہ آہستہ چلا جارہا اور یہ اشعار پڑھ رہا تھا:
لوگ کہتے ہیں کہ تو اپنے علم و فضل کی وجہ سے دنیا میں اتنا ممتاز ہے جتنی کہ چاندنی رات۔

تو میں ان کو جواب دیتا ہوں کہ چلو باتیں نہ بناﺅ کیونکہ اگر قسمت یاوری نہ کرے تو علم ہیچ ہے۔“
”اگر وہ مجھے میرے علم اور کتابوں اور دو راتوں سمیت گرو رکھیں اور انہیں اس کے بدلے مجھے ایک دن کا کھانا دینا پڑے تو وہ کہیں گے کہ اس گرو کو واپس کردو اور اس کا قصہ کوتاہ کرو۔“
فقیر اور فقیر کی زندگی کیسی گندی چیزیں ہیں۔
گرمیوں میں اسے کھانے کو نہیں ملتا اور سردیوں میں وہ انگیٹھی پر پڑا رہتا ہے۔“
”گلی کے کتے اس پر حملہ کرتے ہیں اور ہر ذلیل شخص اس کو ڈانٹتا ہے۔“
”اگر وہ کسی کے آگے اپنا دکھڑا روتا ہے تو کوئی اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ اگر فقیر کی زندگی یہی ہے تو اس سے بہتر ہے کہ وہ مر جائے۔“
جب خلیفہ نے اسے یہ اشعار پڑھتے سنا تو جعفر سے کہا کہ اس فقیر کو دیکھ اور ان اشعار کو۔
اس سے ظاہر ہے کہ وہ کوئی حاجب مند ہے۔ خلیفہ اس کی طرف بڑھا اور کہنے لگا کہ بڑے میاں‘ تیرا کیا پیشہ ہے؟ اس نے کہا کہ اے میرے سردار میں ماہی گیر ہوں اور میرے بال بچے ہیں۔ میں آج دوپہر سے اپنے گھر سے نکلا ہوں اور اس وقت تک خدا نے کوئی چیز مقسوم نہیں کی جس سے میں اپنے بال بچوں کو روٹی دے سکوں۔ اب میں اپنے آپ سے تنگ آگیا ہوں اور موت کی آرزو کررہا ہوں۔
خلیفہ نے کہا کہ اگر تو چاہتا ہے تو ہمارے ساتھ دریا پر چل اور دجلے کے کنارے کھڑے ہوکر میری قسمت کا جال پھینک اور جو کچھ نکلے گا اسے میں سو دینار میں خریدوں گا۔ یہ سن کر وہ بوڑھا خوش ہوگیا اور کہنے لگا کہ بسروچشم‘ میں تم لوگوں کے ساتھ چلتا ہوں۔ اب ماہی گیر ان کے ساتھ دریا پر گیا اور جال پھینکا اور تھوڑی دیر انتظار کے بعد ڈوریوں کو ملا کر جال اپنی طرف کھینچا تو کیا دیکھتا ہے کہ جال میں ایک بھاری صندوق‘ جس میں قفل لگا ہوا ہے، آیا۔
خلیفہ نے اسے دیکھ کر اٹھایا تو اسے بوجھل پایا‘ اور ماہی گیر کو سو دینار دے کر محل کی طرف لوٹا اور مسرور صندوق کو اٹھا کر خلیفہ کے ساتھ ہولیا اور وہ اسے لے کر محل میں داخل ہوئے اور موم بتیاں جلائیں اور صندوق خلیفہ کے سامنے رکھا۔ اب جعفر اور مسرور نے آگے بڑھ کر صندوق کو توڑا اور دیکھا کہ اس کے اندر کھجور کے پتوں کا ایک دونا ہے جو لال اون کے ڈورے سے سلا ہوا ہے۔
انہوں نے اس ڈورے کو کاٹا تو دیکھا کہ اس کے اندر ایک قالین کا ٹکڑا ہے۔ جب وہ ٹکڑا انہوں نے اٹھایا تو اس کے نیچے عبا کو پایا‘ جس کے اندر ایک نو عمر لڑکی تھی جو خالص چاندی کے ٹکڑے کی طرح تھی‘ مگر مقتول اور ٹکڑے ٹکڑے کی ہوئی۔ جب خلیفہ نے اس کو دیکھا تو اس کو بڑا افسوس ہوا اور اس کے رخسار پر آنسو بہنے لگے اور اس نے جعفر کی طرف مخاطب ہوکر کہا کہ اے وزیروں کے کتے‘ میری حکومت اور لوگ قتل ہو کر دریا میں پھینک دیئے جائیں! قیامت کے دن یہ مقتول مجھ سے دامن گیر ہوں گے‘ خدا کی قسم کہ میں اس لڑکی کا قصاص اس کے قاتل سے لوں گا اور اسے بری موت ماروں گا اور جعفر سے کہا کہ قسم ہے مجھے بنی عباس کے خلیفہ ہونے کی اگر تو اس شخص کو میرے پاس نہ لایا جس نے اس لڑکی کو قتل کیا ہے تاکہ میں اس سے اس کا بدلہ لوں تو میں تجھ کو اور تیرے چالیس چچا زاد بھائیوں کو اپنے محل کے دروازے پر لٹکا دوں گا۔
یہ کہہ کر خلیفہ طیش میں آگیا۔ جعفر وہاں سے روانہ ہوا اور کہا کہ مجھے تین دن کی مہلت دی جائے۔ خلیفہ نے کہا کہ میں تجھے تین دن کی مہلت دیتا ہوں۔
اب جعفر شہر میں آیا اور وہ نہایت غمگین تھا اور اپنے دل میں کہنے لگا کہ میں کہاں سے اس بات کا پتہ لگاﺅں کہ اس لڑکی کو کس نے قتل کیا ہے تاکہ میں اس کو خلیفہ کے سامنے پیش کروں! اور اگر میں کسی اور کو اس کے سامنے پیش کروں گا تو اس کا عذاب میرے سر ہوگا کیونکہ نہ معلوم وہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا!
اب جعفر تین دن تک اپنے گھر میں بیٹھا رہا اور چوتھے دن خلیفہ نے اس کے پیچھے اپنے ملازمین بھیجے اور اسے بلوایا۔
جب وہ حاضر ہوا تو خلیفہ نے پوچھا کہ لڑکی کا قاتل کہاں ہے؟ جعفر نے کہا کہ اے امیرالمومنین میں کوئی مقتولوں کا داروغہ ہوں کہ اس کے قاتل کو پہچان لوں! خلیفہ طیش میں آگیا اور حکم دیا کہ اسے محل پائیں میں لٹکا دیا جائے اور ایک ڈھنڈورا پیٹنے والے کو حکم دیا کہ بغداد کی گلیوں میں ڈھنڈورا پیٹ دے کہ جو کوئی جعفر برمکی خلیفہ کے وزیر اور دوسرے چالیس برمکیوں کو جو اس کے چچیرے بھائی ہیں‘ خلیفہ کے محل کے دروزے پر لٹکتا دیکھ کر خوش ہونا چاہیے‘ وہ آئے اور دیکھ کر خوش ہو۔
لوگ ہر محلے سے جعفر اور اس کے چچیرے بھائیوں کے لٹکنے کا تماشہ دیکھنے آئے لیکن اس لٹکائے جانے کی وجہ کسی کو معلوم نہ تھی۔ اب تختے لگائے گئے اور ان کو ان کے نیچے کھڑا کیا گیا تاکہ پھانسی دی جائے اور خلیفہ کے حکم کا انتظار تھا۔ لوگ جعفر اورا س کے چچیرے بھائیوں پر ماتم کررہے تھے کہ اتنے میں ایک خوبصورت جوان آپہنچا‘ جس کی پوشاک نفیس اور چہرہ چاند سا اور آنکھیں حور کی سی اور پیشانی روشن اور رخسار سرخ اور سبزہ اگا ہوا اور مسا گویا عنبر کی ٹکیا تھی۔
لوگوں کو چیرتا پھاڑتا وہ جعفر کے سامنے آکر ٹھہر گیا اور کہنے لگا کہ امیروں کے سردار اور فقیروں کے پشت پناہ‘ تو اس مصیبت سے بچ گیا ہے۔ جس شخص نے اس مقتولہ کو قتل کیا ہے‘ جسے تم نے صندوق میں دیکھا ہے‘ وہ میں ہوں۔ اس کے جرم میں مجھے پھانسی دے اور مجھ سے اس کا بدلہ لے۔ جب جعفر نے جوان کی باتیں سنیں تو اپنی رہائی پر خوش ہوا مگر جوان غمزدہ ہوا۔
ابھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بڑا بوڑھا سن رسیدہ لوگوں کو چیرتا پھاڑتا چلا آتا ہے، یہاں تک کہ وہ جعفر اور اس جوان تک پہنچ گیا اور انہیں سلام کرکے کہنے لگا کہ اے وزیر اور بڑے سردار‘ جو کچھ یہ کہتا ہے‘ اسے یقین نہ کر کیونکہ لڑکی کا قاتل سوائے میرے اور کوئی نہیں‘ اس لیے اس کا بدلہ مجھ سے لے ورنہ خدا کے سامنے میں تجھ سے جواب طلب کروں گا۔
جوان نے کہا کہ اے وزیر‘ یہ بوڑھا کھوسٹ ہے، اسے معلوم نہیں کہ یہ کیا بک رہا ہے، میں نے اس لڑکی کو قتل کیا ہے‘ مجھ سے اس کا بدلہ لے۔ اس پر بوڑھے نے کہا کہ بیٹا تو ابھی کم عمر ہے اور تجھے دنیا کی خواہش ہے اور میں بوڑھا اور دنیا سے سیر ہوچکا ہوں اور میں اپنی جان تجھ پر اور وزیر اور اس کے چچیرے بھائیوں پر فدا کرتا ہوں اور لڑکی کو میں نے ہی قتل کیا ہے۔
میں تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کہ مجھے جلد پھانسی دے دے کیونکہ اس لڑکی کے بعد اب جینے میں کوئی مزہ نہیں۔ جب وزیر نے یہ دیکھا تو اسے تعجب ہوا اور جوان اور بوڑھے دونوں کو لے کر خلیفہ کے پاس گیا اور زمین کو بوسہ دیا اور کہنے لگا کہ امیرالمومنین‘ لڑکی کے قاتل کو ہم لے آئے ہیں۔ خلیفہ نے کہا وہ کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہ جوان کہتا ہے کہ میں قاتل ہوں اور یہ بوڑھا اسے جھٹلاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں قاتل ہوں، اور یہ دونوں حاضر ہیں۔
خلیفہ نے بوڑھے اور جوان کی طرف دیکھا اور کہا کہ تم دونوں میں سے کس نے لڑکی کو قتل کیا ہے؟ جوان نے کہا کہ میں نے اور بوڑھے نے کہا کہ میرے سوا کسی نے اسے قتل نہیں کیا۔ خلیفہ نے جعفر سے کہا کہ ان دونوں لو لے جا کر پھانسی پر چڑھا دے۔ جعفر نے کہا کہ اگر ان میں سے ایک قاتل ہے تو دوسرے کو پھانسی دینا ظلم ہوگا۔ جوان نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آسمان کو بلند کیا اور زمین کو بچھایا ہے‘ میں نے اس لڑکی کو قتل کیا ہے اور ان چیزوں کا ذکر کیا جو خلیفہ نے پائی تھیں۔
اب خلیفہ کو یقین آگیا کہ جوان ہی نے لڑکی کو قتل کیا ہے۔
خلیفہ کو ان کی باتوں پر تعجب ہوا اور اس نے جوان سے پوچھا کہ تو نے کس وجہ سے بلاحق کے اس لڑکی کو قتل کیا؟ اور بغیر سزا کے قتل کا اقرار کیوں کرلیا اور خود بخود آکر تو یہ کیوں کہتا ہے کہ اس کا بدلہ مجھ سے لو؟
جوان نے جواب دیا کہ اے امیرالمومنین‘ یہ لڑکی میری بیوی ہے اور میری چچیری بہن اور یہ بوڑھا اس کا باپ ہے اور میرا چچا۔
میں نے اس سے اس وقت شادی کی جب وہ باکرہ تھی اور خدا نے مجھے اس سے تین نرینہ اولادیں عطا کیں، وہ مجھ سے محبت کرتی اور میری خدمت کرتی تھی اور میں نے اس کی کوئی برائی نہیں دیکھی۔ میں بھی اسے بہت چاہتا تھا یہاں تک اس مہینے کی پہلی تاریخ کو وہ سخت بیمار پڑی۔ میں نے حکیموں کو بلایا اور اسے تھوڑا تھوڑا افاقہ ہونا شروع ہوا۔ اب میں نے چاہا کہ اسے حمام میں لے جاﺅں لیکن اس نے مجھ سے کہا کہ حمام جانے سے پہلے میں ایک چیز چاہتی ہوں کیونکہ میرا اس کے لیے بہت جی چاہتا ہے۔
میں نے کہا کہ بسروچشم‘ وہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ ایک سیب سونگھوں اور اس کا ایک ٹکڑا کاٹ لوں۔ میں فوراً شہر گیا اور سیب تلاش کئے مگر کہیں بھی نہ ملے۔ اگر ایک دینار کا بھی ایک سیب ملتا تو میں خرید لیتا۔ اس سے مجھے بہت پریشانی ہوئی اور میں گھر واپس آیا اور کہنے لگا کہ اے میری چچا زاد‘ خدا کی قسم‘ مجھے کوئی سیب نہیں ملا۔
اس پر اسے بہت تشویش ہوئی اور کمزور تو تھی ہی‘ اس رات اور زیادہ کمزور ہوگئی۔ میں نے ساری رات سوچتے گزاری اور جب سویرا ہوا تو میں اپنے مکان سے نکلا اور ایک ایک باغ کا چکر لگایا لیکن وہاں بھی کوئی سیب نہ ملا۔ اتفاقاً مجھے ایک پرانا خانساماں ملا اور میں نے اس سے سیبوں کے متعلق دریافت کیا۔ اس نے جواب دیا کہ بیٹا‘ یہ چیز بہت کمیاب بلکہ ناپید ہے اور اگر کہیں ملے گی بھی تو امیرالمومنین کے باغ میں، جو بصرے میں ہے، وہاں کا خانساماں خلیفہ کے لیے جمع کرتا ہے۔
اب میں گھر واپس آیا اور اس کی محبت نے مجھے یہاں تک مجبور کیا کہ بالآخر میں نے سفر پر کمر باندھ لی۔ آنے جانے میں پندرہ دن اور پندرہ راتیں لگیں اور میں تین سیب لے آیا‘ جن کو میں نے بصرے کے خانساماں سے تین دینار میں خریدا تھا اور گھر میں گیا اور میں نے وہ سیب اس کو دیئے لیکن اس نے کوئی خوشی کا اظہار نہ کیا اور ان کو ایک طرف پڑا رہنے دیا کیونکہ کمزوری اور بخار میں زیادتی ہوگئی تھی۔
دس دن تک وہ یوں ہی کمزور پڑی رہی۔ اس کے بعد وہ ذرا اچھی ہوئی تو میں گھر سے نکلا اور اپنی دکان پر گیا اور بیٹھ کر خریدوفروخت کرنے لگا۔ اسی اثنا میں‘ میں نے دوپہر کے وقت دیکھا کہ ایک حبشی غلام میرے پاس سے گزرا اور اس کے ہاتھ میں ان تین سیبوں میں سے ایک سیب ہے اور وہ اس سے کھیل رہا ہے۔ میں نے کہا کہ اے نیک غلام تو یہ سب کہاں سے لایا ہے؟ میں بھی لانا چاہتا ہوں۔
اس پر وہ ہنس کر کہنے لگا کہ یہ سیب میری آشنا نے مجھے دیا ہے۔ میں باہر سفر پر گیا ہوا تھا اور اب اس کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ کمزور پڑی ہے اور اس کے پاس تین سیب رکھے ہوئے ہیں اور وہ کہنے لگی کہ میرا بھولا بھالا شوہر ان کی خاطر بصرے گیا تھا اور ان کو تین دینار میں خرید لایا ہے۔ یہ سیب اسی نے مجھ کو دیا ہے۔
اے امیرالمومنین‘ میں نے جب غلام کی باتیں سنیں تو دنیا میری آنکھوں میں تاریک ہوگئی اور میں اٹھا اور دکان بند کرکے گھر آیا اور غصے کی وجہ سے میری عقل جاتی رہی‘ اور دیکھا کہ واقعی دو ہی سیب رکھے ہوئے ہیں۔
میں نے کہا کہ تیسرا کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں اور نہ مجھے اس کی خبر ہے۔ اب مجھے غلام کی بات کا یقین آگیا اور میں اٹھا اور ایک چھری لایا اور اس کے پیچھے سے آیا اور بغیر ایک لفظ کہے اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا اور اسے چھری سے ذبح کر ڈالا اور اس کا سر کاٹ کر جلدی سے ٹوکری میں ڈال دیا اور اوپر سے عبا اوڑھا دی اور اس کو سی دیا اور اس پر قالین کا ایک ٹکڑا ڈال دیا اور صندوق میں رکھ کر قفل لگا دیا اور اپنے خچر پر لاد کر اسے دجلے میں بہا دیا۔
اے امیرالمومنین‘ تجھے خدا کی قسم‘ مجھے جلد پھانسی پر چڑھا دے کیونکہ میں قیامت کے مطالبے سے ڈرتا ہوں۔ جب میں اسے دجلے میں پھینک چکا اور کسی کو اس کی کانوں کان خبر نہ تھی‘ اور گھر واپس آیا تو دیکھا میرا بیٹا رو رہا ہے مگر اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ میں نے اس کی ماں کے ساتھ کیا کیا۔ میں نے کہا کہ بیٹا‘ تو کیوں رو رہا ہے؟ اس نے کہا کہ میں اماں کے سیبوں میں سے ایک سیب لے کر گلی میں اپنے بھائیوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ لمبا تڑنگا حبشی غلام آیا اور اس نے وہ سیب مجھ سے چھین لیا اور کہنے لگا کہ تجھے یہ سیب کہاں سے ملا؟ میں نے کہا کہ اس سیب کی خاطر میرا باپ بصرے گیا تھا اور وہاں سے میری ماں کے لیے لے کر آیا ہے کیونکہ وہ بیمار اور کمزور ہے۔
ایسے تین سیب اس نے تین دنیار میں خریدے ہیں۔ اس کے بعد اس نے سیب لے کر رکھ لیا اور میری کچھ پروا نہ کی۔ پھر میں نے دوبارہ اس سے یہی کہا اور پھر سہ بارہ لیکن اس نے کچھ توجہ نہ کی اور مجھ کو مارا اور سیب لے کر چلتا ہوا۔ میں ڈرا کہ میری ماں مجھے اس سیب کی وجہ سے مارے گی اور اس کے ڈر سے میں اپنے بھائیوں کو لے کر شہر سے باپر چلا گیا۔ اب رات زیادہ ہوگئی ہے اور مجھے ماں کا ڈر ہے۔
ابا میں تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کہ ماں سے کچھ نہ کہو ورنہ وہ اور کمزور ہو جائے گی۔ جب میں نے لڑکے کی یہ باتیں سنیں تو مجھے یقین آگیا کہ غلام نے میری چچا زاد پر بہتان لگایا ہے اور اسے قتل کرنا ظلم تھا۔ اب میں زار زار رونے لگا کہ اتنے میں یہ بوڑھا جو میرا چچا اور اس کا باپ ہے‘ آیا اور میں نے اسے سارا ماجرا بیان کیا، وہ بھی میرے پہلو بیٹھ کر رونے لگا اور آدھی رات تک ہم دونوں روتے پیٹتے رہے اور پانچ دن تک سوگ کرتے رہے، جو آج ختم ہوا ہے۔
ہمیں نہایت افسوس ہے کہ وہ بے گناہ ماری گئی اور اس کا سارا گناہ غلام کے سر ہے۔ یہ ہے سبب اس کے قتل کا۔ میں تجھے تیرے آباﺅاجداد کی عزت کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ مجھے جلد قتل کرا دے کیونکہ اس کے بعد اب جینے میں کوئی لطف نہیں‘ اور اس کا بدلہ مجھ سے لے لے۔ خلیفہ کو جوان کی یہ باتیں سن کر تعجب ہوا اور کہنے لگا کہ واللہ میں سوائے اس ملعون غلام کے کسی کو پھانسی نہ دوں گا‘ اور میں ایسی کارروائی کروں گا جس سے بیمار شفا پائیں گے اور خدا راضی ہوگا۔ اب شہرزاد کو صبح ہوتی ہوئی دکھائی دی اور اس نے کہانی بند کر دی‘ جس کی اسے اجازت دی گئی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles