Teesri Raat - Article No. 1496

Teesri Raat

تیسری رات - تحریر نمبر 1496

اس میں سے دھواں سا نکلتا نظر آیا جو آسمان کی طرف اٹھتا اور زمین پر چلتا جاتا تھا

پیر 18 ستمبر 2017

جب تیسری رات ہوئی تو اس کی بہن دنیا زاد نے کہا کہ اے بہن‘ اپنی کہانی ختم کر، اس نے جواب دیا کہ بسر و چشم۔ اے نیک بخت بادشاہ ۔۔۔ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تیسرے بڈھے نے پہلے دو قصوں سے زیادہ عجیب و غریب قصہ دیو سے بیان کیا۔ دیو بے حد خوش ہوا اور خوشی کے مارے ناچنے لگا اور کہا کہ میں نے اس کا باقی گناہ تیری خاطر بخش دیا اور تم لوگوں کی خاطر اسے جانے دیتا ہوں۔

سوداگر بڈھوں کے پاس آیا۔ اور ان کا شکریہ ادا کیا‘اور انہوں نے اس کی سلامتی پر مبارکباد دی اور وہ سب اپنے اپنے وطن واپس گئے لیکن یہ کہانی ماہی گیر کی کہانی سے زیادہ انوکھی نہیں ہے. بادشاہ نے کہا‘ وہ کیسے؟
ماہی گیر کی کہانی:
اس نے جواب دیا کہ اے نیک بخت بادشاہ ۔۔۔ میں نے سنا ہے کہ ایک ماہی گیر تھا جو بہت بوڑھا ہو چکا تھا‘ اور اس کی ایک بیوی اور تین اولادیں تھیں۔

(جاری ہے)

اور وہ بہت غریب تھا‘ اس کا دستور تھا کہ ہر روز صرف چار بار جال ڈالتا تھا‘ اس سے زیادہ نہیں۔ ایک روز تیسرے پہر کو وہ گھر سے نکلا اور سمندر کے کنارے پہنچا‘ اور اپنا ٹوکرا زمین پر رکھ دیا‘ اور اپنا کرتہ اوپر چڑھایا اور سمندر میں گھسا اور اپنا جال پھینکا اور انتظار کرتا رہا کہ وہ پانی میں بیٹھ جائے۔ جب اس نے تار جمع کئے تو اسے ایسا معلوم ہوا کہ جال بھاری ہے۔
اس نے اسے کھیچنے کی کوشش کی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا‘ تب وہ خشکی کے کنارے آیا اور وہاں ایک کھونٹا گاڑا اور جال کو اس سے مضبوط باندھ دیا۔ پھر اس نے اپنے کپڑے اتارے اور پانی میں غوطہ مارا اور جال کے آس پاس چکر لگایا اور اس کو نکال کو چھوڑا اور خوش ہوا اور پانی سے باہر آیا اور اپنے کپڑے پہنے لیکن جب جال کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس میں ایک مرا ہوا گدھا پھنسا ہوا ہے جس کی وجہ سے جال پھٹ گیا ہے۔
یہ دیکھ کر وہ بہت غمگین ہوا اور لاحول پڑھی اور کہنے لگا کہ یہ روزی بھی انوکھی روزی ہے اور یہ اشعار پڑھنے لگا:
”اے اندھیری رات اور ہلاکت میں گھسنے والے‘ اتنی زیادہ تکلیف نہ اٹھا کیونکہ روزی دوڑ دھوپ سے نہیں ملتی۔
تو یہ نہیں دیکھتا کہ ایک سمندر ہے اورایک ماہی گیر‘ اس پر استادہ ہے اور ستارے کمر باندھے کھڑے ہیں؟
”اب وہ اس میں غوطہ لگاتا ہے اور لہریں اسے تھپیڑے مارتی ہیں مگر اس کی نظر جال سے نہیں ملتی۔

”یہاں تک کہ اس نے خوشی خوشی ساری رات گزار دی اور ایک مچھلی لے کر آیا، جس کا تالو خونخوار کانٹے سے پھٹ گیا تھا‘ اور اس مچھلی کو اس شخص نے خریدا جو سردی سے بچا ہوا ساری رات عیش و آرام بسر کر رہا تھا۔“
”سبحان اللہ۔ وہ ایک کو دیتا اور دوسرے کو محروم رکھتا ہے۔ ایک مچھلی پکڑتا ہے اور دوسرا اس کو کھاتا ہے۔“
اس کے بعد اس نے دل میں کہا کہ اٹھ اس میں انشا اللہ کوئی بھلائی ضرور ہوگی اور یہ اشعار پڑھنے لگا:
”جب تو تنگی میں مبتلا ہو تو بڑے لوگوں کی طرح صبر کا جامہ پہن۔

”یہی دانشمندی ہے۔
”خدا کی شکایت بندوں سے مت کر‘ کیونکہ ایسا کرنے سے تو رحیم کی شکایت غیر رحیم سے کرتا ہے۔“
یہ کہہ کر اس نے گدھے کو جال سے نکالا اور جال کو نچوڑا‘ جب اسے نچوڑ چکا تو اسے پھر پھیلایا اور سمندر میں غوطہ مارا اور بسم اللہ کہہ کر جال پھینکا اور انتظار کیا یہاں تک کہ وہ پانی میں بیٹھ گیا اور بھاری پڑ گیا اور پہلے سے زیادہ پھنس گیا۔
وہ سمجھا کہ مچھلی ہے۔ اس نے جال کو باندھ دیا اور کپڑے اتارے اور پانی میں اترا اور غوطہ لگایا یہاں تک کہ اس کو خشکی پر لا کر چھوڑا۔ اس نے دیکھا کہ اس میں ایک بڑا مٹکا آیا ہے اور اس میں ریت اور مٹی بھری ہوئی ہے۔ یہ دیکھ کر وہ بہت غمگین ہوا اور ایہ اشعار پڑھنے لگا:
”اے زمانے کی تیزی رک جا۔ اگر تو کسی اور کے روکے نہیں رکتی تو خود رک جا۔

”میں نے اپنی روزی کے لیے ہاتھ بڑھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ روزی ہاتھ سے نکل گئی۔“
کتنے جاہل ہیں جو ثریا تک پہنچ گئے ہیں اور کتنے عالم خاک میں چھپے پڑے ہیں۔“
اس نے مٹکا تو پھینک دیا اور جال کو نچوڑا اور اسے صاف کیا اور خدا سے مدد چاہی اور تیسری بار سمندر کی طرف گیا اور جال پھینکا اور انتظار میں بیٹھ رہا۔ جب جال بیٹھ گیا تو اس نے کھینچا اور دیکھا کہ اس میں ٹھیکریاں اور شیشے کے ٹکڑے اور ہڈیاں آئی ہیں۔
اس پر اسے بڑا غصہ آیا اور وہ رو رو کر یہ اشعار پڑھنے لگا:
”رزق وہی ہے جو نہ کشادہ ہو اور نہ بستہ۔ روزی نہ علم سے ملتی ہے اور نہ لکھنے پڑھنے سے۔“
”خوشی اور روزی دونوں قسمت سے ملتی ہیں۔ کوئی زمین سبزہ زار ہوتی ہے اور کوئی بنجر۔“
”زمانے کی رفتار مہذب لوگوں کو پسپا کر دیتی ہے اور نااہل کو بلند۔“
”اے موت آ جا۔
کیونکہ جب شاہین زمین پر گرنے اور بطخیں اڑنے لگیں تو زمانہ رذیل ہوچکا ہے۔“
”یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے کہ پڑھا لکھا تو غریب ہو اور جاہل اپنی دولت پر اکڑتا پھرے۔“
ایسی چڑیاں بھی ہوتی ہیں جو اپنی روزی کے لیے مشرق اور مغرب تک اڑتی پھرتی ہیں اور ایسی بھی جو چل نہیں سکتیں اور انہیں مزے مزے کے چارے ملتے ہیں۔“
یہ کہہ کر اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا کہ خداوند‘ تو جانتا ہے کہ میں اپنا جال کسی روز چار بار سے زیادہ نہیں ڈالتا۔
آج تین بار ڈال چکا ہوں اور کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ اب اس بار تو میرے لیے روزی بھیج۔ اس نے خدا کا نام لے کر سمندر میں جال پھینکا اور بیٹھا انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ وہ پانی میں بیٹھ گیا۔ اس نے اسے کھینچنا چاہا تو نہ کھینچا کیونکہ وہ تھاہ میں پھنس گیا تھا۔ اس نے لاحول پڑھی‘ یہ اشعار گانے لگا:
”تف ہے دنیا پر اگر اس کا یہی طور ہے۔
میں اس دنیا میں بلا اور تکلیف میں مبتلا ہوں۔“
”اگر کسی کی زندگی صبح کو صاف ستھری ہے تو رات ہوتے ہوتے زمانہ اس کا ہلاکت کا جام پلا دیتا ہے۔“
”واقعی میری حالت پہلے ایسی تھی کہ اگر پوچھا جاتا کہ سب سے زیادہ عیش و آرام میں کون ہے تو جواب ملتا کہ میں۔“
اب اس نے اپنے کپڑے اتارے اور غوطہ مارا اور کوشش کرتے کرتے اسے خشکی پر لے آیا۔
اب جب اس نے جال کھولا تو اس میں سے ایک بھری ہوئی پیتل کی پیلی لٹیا نکلی۔ اس پر سلیمان بن داﺅد علیہ السلام کی مہر سیسے کے اوپر لگی ہوئی تھی۔ ماہی گیر اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ اسے پیتل والوں کے بازار میں لے جا کر بیچوں گا تو اس کے دام دس دینار ملیں گے۔ جب اس نے لٹیا کو ہلایا تو بھاری معلوم ہوئی اور چاروں طرف سے بند۔ اس نے اپنے دل میں کہا کہ دیکھوں تو سہی کہ اس لٹیا میں ہے کیا۔
اس کے بعد اسے بیچنے لے جاﺅں گا۔ اس نے چھری نکالی اور سیسے پر مارنے لگا تاکہ جو کچھ اس کے اندر ہو‘ نکل آئے لیکن جب اس میں سے کچھ نہ نکلا تو اسے تعجب ہوا۔ اب اس میں سے دھواں سا نکلتا نظر آیا جو آسمان کی طرف اٹھتا اور زمین پر چلتا جاتا تھا۔ جب سب کا سب دھواں نکل چکا اور یکجا ہوا اور اس میں حرکت پیدا ہوئی تو وہ ایک دیو بن گیا۔ اس کا سر بادلوں میں تھا اور پاﺅں زمین میں دھنسے ہوئے تھے۔
اس کا سر گنبد کا سا تھا اور ہاتھ سینگوں کی کنگھیوں کے سے۔ پاﺅں مسطول کے سے‘ منہ غار کا سا‘ دانت پتھروں کے سے‘ نتھنے لوٹوں کے سے۔ آنکھیں ایسی جیسے دو کالے چراغ‘ چہرہ تاریک اور تیوری چڑھی ہوئی تھی۔
جب ماہی گیر نے اس دیو کو دیکھا تو اس کے پٹھے تھرتھرانے اور دانت بجنے لگے اور تھوک خشک ہو گیا اور اسے اپنے آگے کچھ نہ سوجھتا تھا۔
جب دیو نے اسے دیکھا تو کہنے لگا کہ لا الہ الا اللہ و سلیمان نبی اللہ اور پھر کہا کہ اے اللہ کے نبی‘ مجھے قتل مت کر۔ اب میں کسی بات میں تیری مخالفت نہیں کروں گا اور تیرے سارے حکم بجا لاﺅں گا۔ ماہی گیر نے اس سے کہا کہ اے خبیث! تو سلیمان نبی اللہ کہتا ہے حالانکہ ان کو مرے ہوئے اٹھارہ سو سال ہو چکے ہیں اور اب ہم آخری زمانے میں ہیں۔ بتا تو سہی کہ تیرا قصہ کیا ہے اور تو اس لٹیا میں کیوں کر آیا؟ جب اس خبیث نے ماہی گیر کی باتیں سنیں تو کہنے لگا کہ لا الہ الا اللہ اے ماہی گیر‘ میں تجھے ایک خبر سناتا ہوں۔
ماہی گیر نے کہا کہ وہ کیا خبر ہے۔ اس نے جواب دیا کہ میں تجھے ابھی بری سے بری موت ماروں گا۔ ماہی گیر نے کہا کہ اے دیوﺅں کے سردار‘ اے مردود‘ اس خبر کے بدلے خدا تجھے ذلیل کرے! میں نے کون سی ایسی بات کی ہے کہ تو مجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔ میں نے تو تجھے لٹیا سے نکالا ہے اور تجھے سمندر کی تھاہ سے چھٹکارا دیا ہے اور تجھے لے کر خشکی میں آیا ہوں۔
دیو نے کہا‘ کہ بس! اگر کچھ تجھے کہنا ہے تو یہ کہہ کہ تو کون سی موت مرنا اور جس طرح قتل ہونا چاہتا ہے؟ ماہی گیر نے کہا کہ آخر تو مجھے کس گناہ کی سزا دیتا ہے؟ دیو نے جواب دیا کہ اچھا‘ میرا قصہ سن۔ ماہی گیر نے کہا کہ اچھا‘ کہہ مگر اختصار کے ساتھ! کیونکہ میری جان منہ کو آ رہی ہے۔“
اس نے کہا کہ اچھا ماہی گیر‘ سن! میرا شمار نافرنبردار جنات میں سے ہے۔
میں نے اور صخرا الجنی نے حضرت سلیمان بن داﺅد کی نافرمانی کی تھی۔ اس پر انہوں نے اپنے وزیر آصف بن برخیا کو میرے پاس بھیجا اور وہ مجھے زبردستی پکڑ کر لے گئے اور مجھے باوجود میرے غرور کے ذلیل کیا اور مجھے اپنے سامنے کھڑا رکھا۔ جب حضرت سلیمان نے مجھے دیکھا تو انہوں نے مجھ سے خدا کی پناہ مانگی اور کہا کہ ایمان لا اور میری اطاعت کر۔ جب میں نہ مانا تو انہوں نے ایک لٹیا منگوائی اور مجھے اس میں بند کر دیا اور لٹیا کا منہ سیسے سے بند کر کے اس پر اسم اعظم کی مہر لگا دی اور جنات کو حکم دیا کہ مجھے سمندر کے بیچوں بیچ ڈال دیں۔
وہاں ایک سو برس تک میں اپنے دل میں کہتا رہا کہ جو کوئی مجھے نکالے گا اس کو میں ہمیشہ کے لیے امیر بنا دوں گا۔ یہ سو برس گزر گئے اور کسی نے مجھے نکالا نہیں۔ جب دوسری صدی آئی تو میں نے کہا اب جو کوئی مجھے نکالے گا‘ اس کے لیے میں دنیا کے خزانے کھول دوں گا، لیکن پھر بھی کسی نے مجھے نہیں نکالا۔ اسی طرح اور چار سو سال گزر گئے۔ پھر میں نے کہا کہ جو کوئی اب مجھے نکالے گا اس کی تین حاجتیں پوری کروں گا لیکن پھر بھی کسی نے مجھے نہیں نکالا۔
اس پر میں نہایت غضبناک ہوا اور اپنے دل میں کہنے لگا کہ اگر اب کسی نے مجھے نکالا تو میں اس کو مار ڈالوں گا اور اسے اختیار دوں گا کہ وہ بتائے کہ کون سی موت مرنا چاہتا ہے اور دیکھ اب تو نے مجھے نکالا ہے۔ مانگ کہ تو کون سی موت مرنا چاہتا ہے۔
جب ماہی گیر نے دیو کی باتیں سنیں تو اس نے کہا کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ میں نے تجھے نکالا بھی تو ان دنوں میں! پھر ماہی گیر نے کہا کہ میرے قتل سے باز آ۔
خدا تیرے قتل سے باز آئے گا اور مجھے نہ مار! کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا تجھ پر کوئی قاتل مسلط کر دے۔ اس خبیث نے کہا کہ میں تجھے بے مارے نہ چھوڑوں گا۔ ہاں یہ مانگ کہ تو کون سی موت مرنا چاہتا ہے۔ جب ماہی گیر کو موت کا یقین آگیا تو وہ دیو کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ اس احسان کی بنا پر مجھے معاف کر دے کہ میں نے تجھے رہائی دی ہے، دیو نے کہا کہ اسی رہائی دینے کی وجہ سے تو میں تجھے قتل کررہا ہوں۔

ماہی گیر نے کہا کہ اے دیوﺅں کے سردار‘ یہ اچھی رہی کہ میں تجھ سے بھلائی کروں اور تو اس کا بدلہ برائی سے دے۔ ہاں یہ مثل سچ ہے جو ان اشعار میں بیان ہوئی ہے:
”ہم ان کے ساتھ نیکی کرتے ہیں اور وہ الٹا بدلہ دیتے ہیں۔ اپنے سر کی قسم‘ رنڈیوں کا یہی دستور ہے۔“
”جو شخص نااہل کے ساتھ نیکی کرتا ہے تو بدلے میں برائی پاتا ہے۔

جب دیو نے ماہی گیر کی باتیں سنیں تو کہنے لگا کہ بس اب زیادہ بک بک مت کر، موت سے تجھے چھٹکارا نہیں، ماہی گیر اپنے دل میں سوچنے لگا کہ یہ دیو ہے اور میں انسان۔ خدا نے مجھے پوری سمجھ دی ہے۔ میں بھی ترکیب اور سمجھ سے اس کے مارنے کی کوشش کرتا ہوں‘ جس طرح کہ وہ مکر اور بدذاتی سے مجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔ اس نے دیو سے کہا کہ کیا تو مجھے مار کر ہی چھوڑے گا؟ اس نے کہا کہ ہاں۔
ماہی گیر نے کہا کہ میں تجھے اسم اعظم کی قسم دیتا ہوں جو حضرت سلیمان بن داﺅد علیہ السلام کی انگوٹھی پر کنندہ ہے کہ میں تجھ سے ایک سوال کرتا ہوں اور تو مجھے ٹھیک ٹھیک جواب دے۔ اس نے کہا اچھا‘ مگر جوں ہی اس نے اسم اعظم کا ذکر سنا تو وہ پریشان ہو کر کانپنے لگا اور کہا کہ پوچھ‘ مگر اختصار کے ساتھ۔ اس نے کہا کہ کیا تو ہی اس لٹیا کے اندر تھا حالانکہ اس کے اندر نہ تیرا ہاتھ سما سکتا ہے اور نہ پاﺅں۔
تو سارے کا سارا کیسے اندر آ گیا۔ دیو نے کہا کہ کیا تجھے یقین نہیں آتا کہ میں اس کے اندر تھا؟ ماہی گیر نے کہا کہ جب تک اپنی آنکھ سے نہ دیکھ لوں‘ میں تیری بات ہرگز نہیں مان سکتا۔
یہاں تک کہنے کے بعد شہر زاد نے دیکھا کہ صبح ہو رہی ہے اور اس نے کہانی کہنی بند کر دی‘ جس کی اسے اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles