Aaj Ka Daur Aur Bachon Ki Tarbiyat Mein Walidain Ka Kirdaar - Article No. 1856

Aaj Ka Daur Aur Bachon Ki Tarbiyat Mein Walidain Ka Kirdaar

آج کا دور اور بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار - تحریر نمبر 1856

یقین جانیں اگر آج آپ نے ان کو اللہ کا نہ بنایا تو یہ آپ کے بھی نہیں بنیں گے۔

جمعہ 4 جنوری 2019

مہوش خان جرمنی
مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب یونیورسٹی میں پہلے سیمسٹر کے اختتام پر ہمارے ڈیپارٹمنٹ والوں نے ایک پکنک کا اہتمام کیا، تو میں نے بھی اس میں جانا چاہا۔امی نے صاف انکار کیا تو مجبورا ابو کے پاس جا کر اجازت مانگنی پڑی،جوکہ اس وقت ایک انتہائ ہمت کا کام ہوتا تھا۔
ابو نے بھی یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ ابھی چار سال ہیں،آخر سیمسٹر کی پکنک میں تمہیں اجازت ہے، اس وقت ہم سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی صرف بتا دینا کہ کب اور کہاں جارہے ہو۔


یوں ہم نے اس انتظار میں چار سال گزار دیئے اور ابو نے اپنا وعدہ پورا کیا۔
لیکن جب بات پاکستان ٹور پر جانے کی آئ تو پھر وہی انکا،اور ہمیں وجہ پوچھنے کی بھی ہمت ہوئ نہ اجازت تھی۔
یہ میں کوئ بہت پرانے زمانے کی بات نہیں کر رہی،ابھی کچھ سال پہلے ہی کی بات ہے ۔

(جاری ہے)

کہ جس وقت زیادہ ضد کرنے پر والدین بڑے آرام سے ایک تھپڑ جڑ کر بچے کو سکون سے بٹھا دیا کرتے تھے ۔


لیکن پھر زمانہ بدلہ ہم لوگوں نے ترقی کی روپے پیسے ور آسایشوں کے انبار لگے اور بچوں کے منہ سے نکلی ہر بات جائز و ناجائز پوری کی جانے لگی اور یوں آہستہ آہستہ زمانہ الٹا اور ماں باپ بچوں کے آگے غلام کی صورت مجبور ہوتے گئے،یہاں تک کہ اگر بچوں کی تربیت کے حوالے سے دنیا داری سے متعلق بات کرو تو وہ مجبور، لوگوں سے متعلق بات کرو تو وہ مجبور، یہاں تک کہ اللہ کے احکامات سے متعلق پردے،سے متعلق، نماز روزے سے متعلق بات کرو تو وہ بچوں کے آگےمجبور،شادی بیاہ میں فضول رسومات روکنے اور سادگی اپنانے کی بات کرو تو وہ مجبور، اور تو اور زندگی کے بڑے بڑے غلط فیصلوں سے متعلق بات کرو تو وہ مجبور،یہاں تک کہ آپ کی اولاد کسی غیر مذہب میں شادی کرنے جا رہی ہے اور آپ اسی بات پر خوش اور مطمئن بیٹھے ہیں کہ آنے والا یا آنے والی نے کلمہ پڑھ لیا ہے ۔

حالانکہ یورپ میں رہتے ہوئے ہمارے اردگرد ایسی ڈھیروں مثالیں موجود ہیں جن میں جو انسان صرف اپنی محبت کو پانے یا شادی کی خاطر کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو اس پر بھلا اعتبار کیسے کیا جاسکتا ہے اور اعتبار تو چھوڑیں آپ اپنی آنے والی اگلی نسلوں کو اس کے سپرد کیسے کر سکتے ہیں، بربادی جن کا مقدر بنتی ہے، آنے والے کو جب خود ہی آپ کے دین و عقیدہ کا مکمل علم نہیں تو وہ آپ کی اگلی نسل کو کیسے منتقل کرے گا۔

اگر تو ایک ایسا انسان جو آپ کی اولاد کی محبت میں گرفتار ہونے سے قبل ہی خود کو سیدھے راستے پر چلاتاہوا یہاں تک پہنچا ہو وہ تو یقینا قابل اعتماد بھی ہے اور یقینا اس کو آپ کی راہنمائ کی ضرورت بھی ہے، لیکن صرف اپنی محبت کو پانے کی غرض سے کلمہ پڑھنے والے پر اعتبار کیوں کر کیا جا سکتا ہے۔
یقین جانیں اگر آج آپ نے اپنی اولاد کو اللہ کا نہ بنایا تو یہ آپ کے بھی نہیں بنیں گے اور یہ ایک حقیقت ہے ورنہ پاکستان میں اتنی تیزی سے اولڈ ہوم میں کبھی نہ اضافہ ہو رہا ہوتا۔

اولاد کے سامنے ماں باپ کی مجبوری کی مثالیں اس حد تک پہنچ چکی ہیں کہ کسی مہندی کی تقریب میں دلہن کو بڑھے ہوئے پیٹ کے ساتھ بیٹھے دیکھا تو دلہن کی والدہ ماجرہ سے بات کرنے پر پتہ چلا کہ لڑکا (دلہا)کوئ غیر مسلم ہے اور جب دھوم دھڑکے پر بات کی تو والدہ کا کہنا تھا کہ اب کیا کریں بہن بچوں کی خوشی کو بھی تو دیکھنا ہے نا۔
آخر ہم کس طرف جا رہے ہیں،کیا اپنے بچوں کو ہم نے صرف یہ دنیا ہی جھولیاں بھر بھر کر دینی ہے یا ان کو آخرت کے لئے بھی تیار کرنا ہے کہ جس دن ہر انسان اپنے کئے کو بھگتنے گا اچھا یا برا کیونکہ اللہ تعالی نے ہر ایک انسان کا اعمال نامہ اس کے گلے میں ہی لٹکا دیا ہے۔
آخر کیوں ہم اپنی آنے والی نسلوں کو آگ کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیںکہیں ایسا تو نہیں کہ آج کے دور کے ماں باپ خود ہی بگڑ گئے ہیں ،دین سے دوری اور تقوی سے نابلد ہیں ۔ہندوستانی رسومات سے متاثر۔
کیا کبھی وہ وقت واپس آئے گا جب بچے کی بے جا اور فضول ضد پر ماں یا باپ ایک ڈانٹ یا تھپڑ جڑ دیا کرتے تھے اور بچے وہیں دبک کر ماں باپ سے بنا کوئ لوجک یا وجہ پوچھے ان کے سامنے سر جھکا کر کھڑے ہو جایا کرتے تھے ۔یقینا ایسا اسی وقت ممکن ہے کہ جب آج کے والدین سب سے پہلے خود اپنے دین کو سمجھیں اور پھر اللہ سے مدد مانگتے ہوئے اپنی اولاد کی تربیت کریں انشاءاللہ حالات ضرور بہتر ہو جائیں گے

Browse More Urdu Literature Articles