Aik Shair Ki Siasi YadeN ..... Primary School MeiN - Article No. 1545

Aik Shair Ki Siasi YadeN ..... Primary School MeiN

ایک شاعر کی سیاسی یادیں ۔۔۔۔۔ پرائمری سکول میں - تحریر نمبر 1545

دو ٹرنکوں، ایک نواڑی پلنگ اور بان کی ایک چارپائی سمیت ہمارا سارا سامان دو تانگوں میں آ گیا

Basir Sultan Kazmi باصر سلطان کاظمی منگل 17 اکتوبر 2017

اس موضوع پر کہ انسانی حافظہ کتنی عمرسے واقعات محفوظ کرنا شروع کر دیتا ہے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ پاپا کی ڈائری کے مطابق ہم مارچ 1957 میں اپنے پرانی انارکلی والے مکان سے کرشن نگر کے مکان میں منتقل ہوئے تھے۔ اُس وقت میں تقریباً ساڑھے تین سال کا تھا۔ اپنے پرانے مکان کی چنددھندلی اور دو واضح یادیں میرے حافظے میں محفوظ ہیں۔ ایک روز رات کوباجی (ہم اپنی والدہ کو باجی کہتے تھے)کھانا پکا رہی تھیں کہ گلی سے ایک فقیر کی صدا سنائی دی۔

باجی نے ایک روٹی پر کچھ خشک سالن رکھ کے مجھے دیا کہ اُسے دے آﺅں۔ میں نے دروازے پہ پڑی ہوئی چق اٹھائی۔ باہر گہرا اندھیرا ہونے کے باعث میں یہ نہ جان سکا کہ فقیر دیکھنے سے قاصِر تھا۔ میں نے روٹی اُس کے بڑھے ہوئے ہاتھ پہ رکھ دی لیکن وہ پھسل کے زمین پہ جاگری۔

(جاری ہے)

مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو بہت ندامت محسوس کی۔ باجی سے ایک اور روٹی لے کر فقیر کو دی، اس بار احتیاط سے۔


میرے اور میرے چھوٹے بھائی حسن کے کھلونوں میں ریل گاڑی کا ایک سیٹ بھی تھا۔ ایک دن ہم پٹڑی کے ٹکڑے جوڑ کے، دائرے کی شکل میں ٹریک مکمل کر کے اُس پہ بوگیاںسیٹ کر رہے تھے کہ ہمارے تایا حامد حسین معمول کی ملاقات کے لئے آگئے۔ ہم انہیں یہ سرکلر ٹرین ایسے دکھاتے رہے جیسے یہ ہم نے ایجاد کی تھی۔ ریل گاڑی مجھے آج بھی مسحور کرتی ہے اور اس کا موجد، سٹیون سن، میرے ہیروز میں سے ایک رہا ہے۔

نئے گھر میں منتقل ہونا بھی مجھے یاد ہے۔ دو ٹرنکوں، ایک نواڑی پلنگ اور بان کی ایک چارپائی سمیت ہمارا سارا سامان دو تانگوں میں آ گیا تھا۔ تانگے ایک بہت بڑے اور اونچے گھر کے آگے آکے رکے تو سوچا کہ واہ، یہ ہوئی نا بات۔ لیکن دروازہ کھُلا تو یہ کھُلا کہ ہمیں صرف ایک کمرہ ملا تھا اور وہ بھی چھوٹاسا (پرانے مکان میں ہمارے پاس اِس سے زیادہ بڑے دو کمرے تھے)۔
فرشی منزل کا باقی کا تمام حصہ کسی اورصاحب کے پاس تھا، پہلی منزل میں ایک خاندان اور دوسری میں کوئی اور خاندان رہائش پذیر تھا۔ صحن بہت وسیع و عریض تھا جس میںلمبی لمبی گھاس اور خود رو پودے اُگے ہوئے تھے۔ صحن میںاینٹیں جوڑ کے چولہا بنایا گیا جس میں لکڑیاں اور اُپلے جلا کے کھاناپکایا گیا۔ باجی کی نانی بھی ان کا ہاتھ بٹانے ہمارے ساتھ آئی تھیں۔
دو چار روز اِسی ایک کمرے میںگذارا کیا ، پھر ساتھ کا بڑا کمرہ بھی ہمیں مل گیا۔ رفتہ رفتہ تقریباً دو تین سال میں سارا مکان ہمیںمل گیا۔ پتا چلا کہ مکان ہمیں ہی الاٹ ہوا تھا، باقی لوگ مقامی تھے جو عارضی طور پر وہاں مقیم تھے۔ تقسیم سے پہلے کا بنا ہوا یہ سہ منزلہ مکان گنجان علاقے سے ذرا دور نئی آبادی کا تقریباً آخری گھر تھا جس کے چاروں طرف کھیت تھے۔
چھت سے شمال مشرق کی جانب بادشاہی مسجد کے مینار اور مغرب میں دریائے راوی ایک سفید چمکتی ہوئی طویل پٹی کی طرح نظر آتا تھا۔
ٹیپو سلطان:
میں نے سیاست کا پہلا سبق پہلی ہی جماعت میں پڑھا۔ ایک کہانی میںایک بچی میری (Mary) دریا کے کنارے کھیلتے ہوئے پھسل کر پانی میں جا گری۔ وہ ڈوب رہی تھی کہ سکول ماسٹر کے کتے، سلطان ،نے دریا میں کود کر اُسے بچا لیا۔
(Sultan, the school master's dog, jumped into the river and -----)۔ کمرہءجماعت میں دبی دبی آوازیں ابھریں: Sultan, the school master's dog۔ پھر کھانے کے وقفے میں یہ آوازیں سکول کی گراونڈ میں بھی گونجتی سنائیں دیں۔ مجھے بہت شرم محسوس ہو تی رہی۔ گھر آکر میں نے باجی سے پوچھا کہ میرا نام سلطان کیوں رکھا گیاتھا۔ انہوں نے بتایا کہ سلطان کا مطلب بادشاہ ہوتا ہے اور میرے دادا کا نام بھی سلطان تھا۔
انگریزی کی کتاب انگلستان میں چھپی تھی اور انگریز ٹیپو سلطان سے دشمنی کی وجہ سے اپنے کتوں کے نام اس کے نام پہ رکھنے لگے تھے۔
”یہ ٹیپو کون تھا؟“ میں نے پوچھا۔
”یہ ہندوستان کے ایک حصے کا بادشاہ تھا جو ساری عمر انگریزوں کے خلاف لڑتا رہا اور آخر ایک لڑائی میں شہید ہو گیا۔ جب بڑی کلاسوں میں جاﺅ گے تو اس بارے میں بہت کچھ پڑھو گے۔
“ انہوں نے کہا۔
”یہ انگریز کون تھے؟“
”سات سمندر پار رہنے والی ایک قوم۔“
”وہ اتنی دور سے لڑنے آئے تھے؟“
”ہاں۔“
”کیوں؟“
”وہ ہندوستان پہ قبضہ کرنا چاہتے تھے۔“
”پھر؟“
”انہوں نے قبضہ کر لیا۔“
”پاکستان پر بھی؟“
پاکستان اُس وقت ہندوستان ہی کا حصہ تھا۔

”انگریز ہمارے بھی دشمن تھے؟“
”ہاں۔“
”پھرہم اُن کی کتابیں کیوں پڑھتے ہیں؟“
اب وہ ہمارے دشمن نہیں ہیں۔“
”اِس کا مطلب ہے کہ اب جو انگریز ہیں وہ برے نہیں ہیں۔“
”نہیں۔“
”پھر وہ اپنے کتوں کے نام سلطان کیوں رکھتے ہیں؟“
باجی ہنس پڑیں۔

ہمارا تعلیمی’ بجٹ:‘
ہمارا سکول، ماڈرن سٹینڈرڈ ہائی سکول، انگریزی میڈیم پرائیویٹ سکول تھا ۔
اگرچہ کئی سرکاری سکولوں کا معیار بہت سے پرائیویٹ سکولوں سے بہتر تھا اور پاپا کی آمدنی بھی زیادہ نہ تھی ، پھر بھی ان کا اصرار تھا کہ ہمیں پرائیویٹ سکول میں پڑھایا جائے۔جلد ہی ہمیں یہ احساس ہونے لگا کہ ہمارے والدین کےلئے اپنے محدود وسائل میں ہماری تعلیم کے اخراجات اٹھانا مشکل ہو رہا تھا۔ پہلی جماعت (1958ئ) میں میری فیس تیرہ روپے تھی ۔
درآمد شدہ کتابیں، سٹیشنری اور یونیفورم وغیرہ کا خریدنا بھی ہمارے ذمے تھا۔ حسن کوفیس میں پچاس فیصد’بھائی کی رعایت‘ (brother's concession) ملنے کے باوجود یہ اخراجات بہت زیادہ تھے۔ اس وقت روپے کی جو قدروقیمت تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگائیںکہ میری والدہ نے پہلی بار مجھے سکول چھوڑ کر آتے ہوئے وقفے میں خرچ کرنے کے لئے ایک چونی دی۔ اس پر ہیڈ مسٹرس، مسز نجم الدین نے، جن کے سپرد مجھے کیا گیا تھا، کہا: ” او ہو، چار آنے؟ عیش ہو گئے۔
“ لیکن یہ پہلے دن کی عیاشی تھی۔ اس کے بعد روز کا جیب خرچ دو آنے ملتا۔ ایک آنے کی چھوٹی قلفی آتی اور دو آنے کی بڑی۔ میں چھوٹی قلفی لیتا اور اس کے ساتھ کچھ اور۔ اُس وقت ایک آنے کا پوسٹ کارڈ ملتا تھا جس پر ٹکٹ چھپی ہوتی اور وہ ملک بھر میں کہیں بھی بھیجا جا سکتا تھا۔ ایک روپے میں سولہ آنے تھے۔ ایک روپے کا سفید، چمکتا ہوا سکہ دیکھ کرسونے کی اُس اشرفی کا خیال آتا جس کا ذکر کہانیوں میں ملتا تھا۔
اٹھنی اور چونی بھی کچھ کم پُرکشش نہیں تھیں۔ اس کے بعد چوکور شکل کی وزنی دونی، ایک آنے کا کٹے ہوئے کناروں کا گول سکہ اورتانبے کے دو پیسے اور ایک پیسے کے سکے۔ ایک پیسے کے سکے میں سوراخ ہوتاتھا اور چھوٹے بچے اسے انگلی میں انگوٹھی کے طور پرپہن لیتے۔
قائدِاعظم:
مجھے سکول جاتے ہوئے تین ساڑھے تین ماہ ہو چکے تھے۔ ایک دن میںنے چاچا عنصر کو یہ کہتے سنا کہ فلاں دن چھٹی ہو گی، یعنی اُس روزاتوار نہ ہونے کے باوجود نہ انہیں دفتر جانا تھا نہ مجھے سکول۔

”یہ چھٹی کس بات کی ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”اس دن ہمارے قائدِ اعظم پیدا ہوئے تھے۔ باجی نے جواب دیا۔
”قائدِ اعظم کون تھے؟“
”انہوں نے ہمارا پاکستان بنایا تھا۔“ باجی نے کہا اور پھر کسی طرح یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان ’بنانے‘ کا مطلب کیا تھا۔ میں جوکچھ سمجھ سکا وہ یہ تھا کہ انگریزوں نے جو ملک ٹیپو سلطان سے چھین لیا تھا وہ قائدِ اعظم نے واپس لے لیا اور یہ کہ وہ اپنے وقت میں دنیا کے سب سے بڑے آدمی تھے۔

”اگر وہ ہمارے گھر آتے تو ہمارے دروازے سے اندر آ سکتے تھے؟“ میرا خیال تھا کہ وہ بہت لمبے چوڑے، بھاری بھرکم انسان رہے ہوں گے جبھی تو اکیلے اتنے بہت سے مخالفوں سے لڑتے رہے۔ باجی ہنسنے لگیں۔
سبق پھر پڑھ سیاست کا:
سیاست کا دوسرا سبق مجھے دوسری جماعت میں ملا۔ کھانے کے وقفے میںہم کھیل رہے تھے۔کمپاونڈ کے ایک کونے میں میری ہم جماعت کچھ لڑکیاںبیٹھی تھیں۔
ان میں سے ایک، ف، نے مجھے آواز دے کر بلایا اور کہا:پلیز ،کلاس سے میرے بیگ میں سے میرا لنچ باکس لا دو گے؟
”تم خود کیوں نہیں لے آتیں؟“ میں نے کہا۔
”میرے پاﺅں میں چوٹ لگی ہوئی ہے۔ میں جلدی میں ادھر آتے ہوئے بھول آئی۔“
’ف‘ کے اصرار، بلکہ منت سماجت کرنے پرمیں نے اسے اس کا لنچ لا دیا۔ وقفے کے بعدکلاس شروع ہوتے ہی اُس نے شور مچا دیا:
”میڈم، میڈم، میرا شارپنر۔

میڈم اور ’ف‘ میں مکالمہ جاری تھا کہ ’ف‘ کی ایک سہیلی نے کھڑے ہو کر کہا:
”میڈم، میں نے باصِر کو دیکھا تھا، لنچ بریک میں، اِس کا بیگ کھولتے ہوئے۔ باصِر کے بیگ کی تلاشی لیں۔“
میرا بیگ کھولا گیا تو اُس میں سے مطلوبہ شارپنر نکل آیا۔
”شیم، شیم۔“ میرے ہم جماعتوں کی آوازیں سنائی دیں۔
سالانہ امتحان میںنمایاں پوزیشن حاصل کر کے میں نے جوعزت کمائی تھی اسے بحال کرنے میں مجھے بہت عرصہ لگا۔
’ف‘ کا مقصد محض مجھے نقصان پہنچاناتھا۔ بڑوں کی طرح بچوں میں بھی مقابلے کی کئی مثبت اور منفی صورتیں ہوتی ہیں۔
ملکہ الزبتھ کی لاہور آمد:
نئے سال کا آغاز تھا، موسم سردیوں کا۔ ایک دن باجی نے کہا ، ”تیار ہو جاﺅ، ملکہ الزبتھ کو دیکھنے جانا ہے۔ وہ گول باغ کے سامنے ٹاﺅن ہال میں آرہی ہیں۔“
”وہ کون ہیں؟“ ہم نے پوچھا۔

”انگلستان کی ملکہ۔ انگریزوں کی۔“ جواب ملا۔
آپ کو ملکہ الزبتھ کیوں پسند ہے؟“
”بس مجھے اچھی لگتی ہے۔ “
ہم ٹاﺅن ہال پہنچے۔ سواری آئی اور گذر گئی۔ ملکہ نے گلابی رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا اور سفید دستانے۔ سر پر ہیٹ نما بہت خوبصورت ٹوپی جس کی تفصیل مجھے یاد نہیں۔ وہ ہاتھ ہلا ہلا کر لوگوں کی تالیوں کا جواب دے رہی تھیں۔

پلاٹ کا مقدمہ:
ہمیں نئے گھرکی مکمل ملکیت حاصل کئے زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ ایک دن سہ پہر کے وقت اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے گلی میںبہت سے لوگ جمع ہو گئے ہوں۔ہم سب گھر میں تھے۔ بالائی منزل میں پاپا اپنے دوستوں، شیخ صلاح الدین، ڈاکٹر عبادت بریلوی اور انتظار حسین، کے ساتھ محوِ گفتگو تھے۔ پھر ہمارے دروازے پہ دستک ہوئی۔ چچا نے دروازہ کھولا تو باہر متعدد باوردی پولیس والے نظر آئے۔
دو تین نے ہتھکڑیاں اٹھا رکھی تھیں۔ ان کے پیچھے لوگوں کا ایک چھوٹا سا مجمع تھا ۔
”یہ ناصِر کاظمی کا گھر ہے نا؟“ ایک نے پوچھا۔
”جی۔“ چچا نے جواب دیا۔
چاچا اور پولیس والوں میں مکالمہ جاری تھا کہ پاپا بھی آگئے۔ بات تند و تیز جملوں کے تبادلے تک پہنچ گئی۔ ہمیں بتایا جا رہا تھا کہ ہمارا صحن مکان کا حصہ نہیں تھا اور کسی اور کو الاٹ ہو گیاتھا اور پولیس انہیں قبضہ دلانے آئی تھی۔
پاپا نے کہا کہ انہیں کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی اور اس طرح بغیر اطلاع دیے اچانک کاروائی نہیں کی جاسکتی۔ پولیس والے صحن کی طرف چلے گئے اور دو افراد دیوار پہ سیڑھی لگا کے اینٹیں اکھاڑنے لگے۔ پاپا نے کہا کہ انہیں کچھ مہلت دی جائے تاکہ وہ متعلقہ محکمے سے تصدیق کر لیں، لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی اور دیوار توڑ کے قبضہ مدعین کو دلا دیا گیا۔
انہوں نے قیام کے لئے صحن میں ایک خیمہ نصب کرلیا اور اگلے روز دیوار تعمیر کر کے صحن کو گھر سے الگ کر دیا۔ یہاں سے مقدمہ بازی کا ایک سلسلہ شروع ہو ا جوتیتیس برس تک چلا۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ ابتدائی عدالت سے فیصلہ ہمارے حق میں ہونے کے نتیجے میں صحن کا قبضہ ہمیں دوبارہ مل گیا۔ ہم نے یہاں پھولوں کے پودے اورپھل دار درخت لگائے، کرکٹ اور بیڈمنٹن کھیلی اور پارٹیاں کیں۔

کوئلوں پہ مہر:
اپنے والدین کا ’بوجھ‘ گھٹانے کے لئے میں اور حسن کفایت شعاری کے مختلف منصوبوں پہ غور کرتے رہتے۔ ایک بار سکول نے پتلی تماشا دیکھنے جانے کا پروگرام بنایا۔ہر طالب علم کو چار آنے جمع کرانا تھے۔ ہم نے سوچا کہ اُس دن پڑھائی تو ہو گی نہیں لہذا ہم یہ آٹھ آنے بچاتے ہیں اور گھر میں یہ کہہ دیں گے کہ سکول کسی وجہ سے بند کیا گیا تھا۔
یہ ہماری پہلی سیاسی غلطی تھی۔ ہم مزے سے چھٹی منا رہے تھے کہ باجی کو اُن کی ایک سہیلی سے، جن کے بچے ہمارے ہی سکول میں پڑھتے تھے، حقیقت پتا چل گئی۔ ہمیں یادگارڈانٹ پڑی۔
ونسٹن چرچل:
کلاس فور یا فائیو میںایک مضمو ن ونسٹن چرچل کے بارے میں پڑھا۔ کتاب میں اُس کی وہ تصویرتھی جس میں اُسے ’ V‘کا نشان بناتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
سبق کا لبِ لباب یہ تھا کہ بائیس تیئس برس قبل ہٹلر نامی ایک بہت ہی برے شخص نے کئی ملکوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ ان ملکوں نے انگریزوں کی مدد سے اپنے ملک واپس لے لئے ۔ چرچل اُس وقت انگریزوں کا لیڈر تھا۔ مجھے یہ شخص اچھا لگا۔

مشرقی پاکستان میں مشاعرے:
پاپا کو ڈھاکہ، سلہٹ اور چاٹگام میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں شرکت کی دعوت ملی۔
منتظمین نے پی آئی اے کا ٹکٹ بھیجا جو دو سو دس یا بیس روپے کا تھا۔ اُس وقت لاہور سے کراچی کا کرایہ بھی تقریباًاتنا ہی تھا۔ منٹگمری (موجودہ ساہیوال) تک ریل کا انٹر کلاس کا ٹکٹ غالباً چار پانچ روپے تھا۔ ہم انہیں ائرپورٹ چھوڑنے گئے۔اُن دنوںمسافروں کو الوداع یا خوش آمدید کہنے والے، جہاز کے اتنے قریب جا سکتے تھے کہ انہیں آواز دے کے بلا سکتے تھے۔
اُس دن ہم نے احمد ندیم قاسمی اور قتیل شفائی کو پہلی بار دیکھا۔ پاپا کی واپس آمد پر جب جہاز کا دروازہ کھلا تو چند مسافروں کے بعد پاپا نظر آئے۔ اُن کے ہاتھ میں ڈوریوں سے لٹکی ہوئی ایک چاٹی دیکھ کے ہم حیران ہوئے۔ گھر پہنچ کے اُس میں سے جو مٹھائی نکلی اُس کی لذت مدتوں زبان پہ رہی۔ چاٹی میںکیلے کے پتوں سے تہیں بنا کے مختلف اقسام کی مٹھائیاں رکھی گئی تھیں۔

ایک گروپ فوٹو کے مطابق نومبر1962 میںڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہء فارسی کی انجمنِ اردو کے زیرِ اہتمام ایک کل پاکستان مشاعرہ اے کے فضل الحق ہال میںہوا۔ شعرا اور دیگر معززین، دائیں سے بائیں، اس ترتیب سے بیٹھے ہوئے تھے: ڈاکٹر آفتاب احمد صدیقی، پروفیسر فیض احمد چوہدری، پروفیسر ڈاکٹر حنیف فوق، پروفیسر نظیر صدیقی، ناصِر کاظمی، احمد ندیم قاسمی، رئیس امروہوی،جوش ملیح آبادی، قتیل شفائی، ڈاکٹر محمود حسین (وائس چانسلر )، ارشد کاکوی اور ڈاکٹر معزالدین۔

سونے کا بھاﺅ:
ہمارا ننھیال منٹگمری میں تھا ۔ ہم چھٹیاں وہاںگزارتے۔ ایک روزبیرونی دروازے پہ دستک ہوئی، جا کے دیکھا تو ایک شخص تھیلا گلے میں لٹکائے کھڑا تھا۔ بولا، ”اندر جا کے پوچھو سونا خریدنا ہے؟ ایک سو نو روپے تولہ۔“

Browse More Urdu Literature Articles