Ajzi Ki Azmat - Article No. 1900

Ajzi Ki Azmat

عاجزی کی عظمت - تحریر نمبر 1900

اقبال کے شاہین اور خودی جیسی اصطلاح اشفاق احمد کے حصے آئی تو انہوں نے ’ بابا ‘ متعارف کرایا۔ وہ اکثر کہا کرتے لوگ سڑک پر روک کر پوچھتے ہیں ،مجھے بابے سے ملوا دیں

Dr Affan Qaiser ڈاکٹر عفان قیصر جمعہ 8 فروری 2019

مومن اور مسلمان میں تھوڑا ہی فرق ہوتا ہے۔ جو اللہ کو مانتا ہے وہ مسلمان ، جو اللہ کی مانتا ہے وہ مومن۔ یہ رات کا آخری پہر تھا۔ باہر شدید بارش ہورہی تھی۔ ہوا میں تھوڑا رومانس تھا اور کچھ زیادہ ٹھنڈ۔ ایک دوست کو نجانے کیا شرارت سوجھی کہ مجھے ایک انتہائی متنازع کتاب کا پی ڈی ایف ورژن یعنی سافٹ کاپی بھیج دی۔ آئی پیڈ کھولااور پڑھنے لگا،پانچ سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل یہ کتاب صرف دوگھنٹے میں تیزی کے ساتھ پڑھ ڈالی۔
یہ برڈ آئی ویو کہلاتا ہے۔ کتاب کیا تھی، بس منشیات، بالغ ویب سائٹس کے مواد نما اردو دیباچے اور ٹارگٹ کے طور پر ایک شخص کی کردار کشی کا مرکز تھی۔ کتاب ختم ہوئی تو رومانس تو دور خود سے ہی عجیب سی بیزاری ہونے لگی۔ خود کو روح تک گندا محسوس کرنے لگا۔ نہا یا ،نماز پڑھی اور پھر اپنے بہترین دوست قاسم علی شاہ سے رابطہ کیا، کیفیت بیان کی اور انہوں نے مجھے ایک ویڈیو بھیجی، ویڈیو اشفاق احمد کی زندگی پر مبنی تھی۔

(جاری ہے)

میں نے ویڈیو دیکھی اور زاویہ کا مطالعہ کرنے لگا۔ اشفاق احمد لکھتے ہیں، حضرت جنید بغدادی خدا کے ولی نہیں تھے، وہ تو کسی خلیفہ کے دربار میں ایک پہلوان ہوا کرتے تھے۔ ایک دن اس دربار میں ایک انتہائی نحیف ، خوبرو نوجوان تشریف لایا اور خلیفہ سے فریاد کی کہ وہ حضرت جنید بغدادی  سے مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ سننا تھاکہ تمام دربار ی ہنسنے لگے۔
خلیفہ بولے کیوں اپنی جان کے دشمن بنے ہو؟ وہ لڑکا بولا مجھے ایک خاص داؤ آتا ہے اور وہ میں نے بغدادی  کے لیے بچا کر رکھا ہے۔ آپ پورے شہر کو اکٹھا کریں۔ اس پر خلیفہ بہت حیران ہوا اور اس نے پورے شہر کو اکٹھا کر لیا۔ میدان لگا، مقابلہ شروع ہوا تو اس لڑکے نے پہلے ہی وار میں بغدادی  کی گردن کے ساتھ لٹک کر، سرگوشی شروع کردی۔ اس نے کہا ’ میں سید زادہ ہوں، سات دن سے بھوکا ہوں، مجھے ایک ہی داؤ آتا ہے، اللہ کا داؤ ، اپنے رب کی خاطر مجھ پر پردہ رکھ اور مجھ سے ہار جا، یقین دلاتا ہوں، تیری شہرت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، میں کبھی دوبارہ بھوکا نہیں رہوں گا‘ یہ سننا تھا کہ حضرت جنید بغدادی  نیچے لیٹ گئے اور وہ لڑکا ان کے سینے پر بیٹھ گیا۔
مجمع کو جیسے سانپ سونگھ گیا ،وہ پورے شہر کا ہیرو بن گیا۔ اس دن کے بعد سے مورخ یہ نہیں جانتے کہ وہ کون تھا کہاں سے آیا تھا، مگر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اس دن کے بعد سے جنید بغدادی  پر رب کا خاص کرم ہوا اور ان کی زندگی بدل گئی۔ وہ ایک پہلوان سے خدا کے ولی بن گئے ۔انہوں نے اس لڑکے سے اللہ کا خاص داؤ سیکھ لیا اور وہ داؤ تھا ’ پردہ داری ‘، ’ چھوٹے اور کمزور کے سامنے ہار جانے کا’ گر‘ ’ اپنی میں اور گردن جھکانے کا گر‘۔
اشفاق احمد ایک دور کا نام تھے۔ اقبال کے شاہین اور خودی جیسی اصطلاح اشفاق احمد کے حصے آئی تو انہوں نے ’ بابا ‘ متعارف کرایا۔ وہ اکثر کہا کرتے لوگ سڑک پر روک کر پوچھتے ہیں ،مجھے بابے سے ملوا دیں۔ ایک دن ایک اصلاح کا مارا ان کے گھر تک آگیا ۔ میں نے پانی پلایا اور اپنی پوتی کو بلایا اس کو کہا یہ بابا ہے۔ وہ حیران رہ گیا،تین چار سال کی بچی بابا کیسے ہوسکتی ہے۔
اشفاق احمد کہنے لگے، ایک دن ایک ڈاکیا پسینے میں شرابور گھر آیا ،اس کو خط دیا،اس نے خط نہیں پکڑا، بھاگ کر گئی اور اس کے لیے ٹھنڈا پانی لے کر آئی ۔ اس نے بغیر کسی آکڑاور انا کے اس کا خیال رکھا۔ ہر وہ انسان جو دوسرے انسانوں کا خیال رکھتا ہے،اپنے اندر سے کینہ ، بغض، نفرتیں، حسد، گلے شکوے اور انا کو نکال کر پھینک دیتا ہے ،وہ ہلکا ہوجاتا ہے ، لائٹ ہوجا تا ہے، اور پھر اس کا سفر لمبا ہوتا ہے،وہ دور تک جاتا ہے، بڑا آدمی بنتا ہے۔
جو ساری زندگی یہ بوجھ اٹھا کر پھرتے ہیں نہ وہ کبھی بڑے آدمی نہیں بنتے اور نہ ہی ان کا سفر بڑا ہوتا ہے۔ بڑا آدمی بننا ہے تو ’بابا ‘ بن جائیں۔ راقم القلم کو آج بھی وہ تقریب یاد ہے یہ لاہور میں کسی بڑے آدمی کی بیٹی کی شادی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد، باہر کوئی سائرن بجتے ،گارڈز کا ایک دستہ اندر آتا اور پھر وہ کوئی ایم این۔ اے،کوئی منسٹر ،کوئی اور بڑا آدمی ،وہ جو وقت کے بادشاہ تھے داخل ہوتے۔
گورنر آئے تو جیسے ہوٹروں اور شور کی بارش ہوگئی۔ میں سہم گیا کہ شادی ہی تو اٹینڈکرنی ہے ، اتنا پروٹوکول کیسی؟ خیر یہ سب تماشہ تھا اور ہم ایک کونے میں بیٹھے تماش بین بنے تھے۔ اچانک پورے شادی حال کے مجمع کا رخ ، شادی حال کے مرکزی دروازے کی جانب ہوگیا۔ تمام منسٹر،وی وی آئی پیز اور خود گورنر تعظیم میں کھڑے ہوگئے، دلہا خود دروازے کی جانب لپکا۔
کیا دیکھتا ہوں لٹھے کا کپڑا زیب تن کیے ،وہ کپڑا کہ جسے ہم شاید ہاتھ سے چھونا بھی پسند نہ کریں، ایک بابا بابی پہنے چلے آرہے ہیں۔ کوئی سائرن نہیں بجا، کوئی ہوٹر نہیں بجا ،کوئی گارڈز کی فوج نہیں آئی۔ مگر ہال کا پروٹوکول ایسا تھا کہ جیسے وقت کا سب سے بڑا بادشاہ آگیا ہو۔ راقم القلم کونے سے اٹھا اور آگے بڑا، ایک ہجوم تھا، تھوڑا تھما تو ادب سے سلام کیا، جواب ایسا تھا کہ یقین ہوگیا کہ جنید بغدادی  کو اللہ کا جو داؤ، وہ لڑکا سکھا کر گیا تھا، انہوں نے ایک دور اس داؤ کے نام کیا ہے۔
میاں بیوی کی تعظیم ، عزت،پردہ داری، جھکاؤ،محبت،شفقت۔ یہ دونوں حقیقت میں بہت ہی ہلکے،لائٹ انسان تھے،روئی کے گولے کی مانند ، کوئی بوجھ نہیں تھا، گارڈز اور ہوٹر بھی نہیں تھے۔اسی لیے یہ وقت کے بادشاہ تھے۔ سب بادشاہ ان کے سامنے حقیر نظر آنے لگے۔ رات کے پچھلے پہر زاویہ بند کی اور ایک بار پھر، اس کتاب کا مطالعہ کرنے لگا ،جو مجھے دوست نے بھیجی تھی۔
فجر کی اذانیں قریب تھیں۔ یہ کتاب ایک سابقہ بیوی نے اپنے سیاست دان شوہر کے ساتھ گزارے وقت کے بارے میں لکھی تھی۔ گو اس کتاب میں بہت کچھ اور بھی تھا، مگر صفحات کا زیادہ تر حصہ اس وقت کے متعلق ہی تھا۔ کتاب کو باریک بینی سے پڑھا جائے تو آپ کو منٹو کے افسانوں کی یاد ستانے لگتی ہے، مگر بارش کے شور میں مجھے اسے زاویہ کے آئینے سے پڑھنا تھا۔
میں نے ایک پاک ہوئی روح کے گرد حصار بنایا اور کتاب کا پوسٹ مارٹم کرنے لگا۔ یہ کتاب بی بی سی کی موسموں کا حال بتانے والی سابقہ اینکر ریحام خان نے پاکستا ن کے مقبول کرکٹر ٹرن سیاست دان عمران خان کے بارے میں لکھی تھی۔ کتاب میں ڈرگز،خاص کر کوکین سے لے کر ہر اس چیز کا ذکر ہے ،جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ شائد منٹو کے افسانوں میں بھی کچھ ناقابل بیان لمحات کی ایسی منظر کشی نظر نہ آئے جو کی گئی ہے۔
باہر بادل گرج رہے تھے ، میں نے اس کتاب پر ایک داؤ لگایا ’ اللہ کا داؤ ‘ ۔ کاش ریحام ،اس نحیف لڑکے کی سرگوشی سے کچھ سیکھ جاتی۔ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں۔ کچھ تھا یا نہیں تھا، میرا یہی ماننا ہے ،کہ پردہ رکھ جاتی ، چپ کر جاتی ،تو شاید وقت کی بغدادی  ہوتی۔ پہلوان بننے کی بجائے خدا کا ولی بننے کی کوشش کرتی تو حسد، کینہ ، بغض ، گلے شکوے ، نفرتوں کے بوجھ اتار کر پھینک دیتی تو بہت لائٹ ہوجاتی ۔
وہ جن محفلوں میں ہوٹروں ،سائرن اور گارڈز کی فوج کے ساتھ داخل ہونا چاہتی تھی، وقت کی بادشاہ بننا چاہتی تھی۔ ایک بار لٹھے کا لباس پہنے، خاموشی سے داخل ہوکر دیکھتی۔ وہ جو مقام چاہتی تھی، وہ پانا مشکل نہیں تھا، سرگوشی سننی تھی، پردہ رکھنا تھا، دنیا کے سامنے ہار کر، رب کے سامنے جیتنا تھا،بس ایک داؤ ہی تو تھا،جو سیکھنا تھا، اللہ کا داؤ۔ بارش تھم چکی تھی، باہر فجر کی اذانیں ہورہی تھیں، میں روح تک ایک بار پھر دھل چکا تھا۔ اللہ کو مانا تھا، اب بس اللہ کی ماننی تھی۔ مسلمان سے مومن ہونا تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles