Ao Column Likhen - Article No. 2063

Ao Column Likhen

آٶ کالم لکھیں - تحریر نمبر 2063

اچھا ایک کلو کدو بھی اس سبزی والی پرچی پہ لکھ لو،تمھارے ابا نے آج کدو کی فرمائش کی ہے“۔پرچی پر کدو لکھنے کے بعد بندہ جیسے ہی واپس کہانی پہ آتا ہے،اچھا تو کہاں تھا میں! وہ حسین کدو۔۔۔ ،نہیں ،نہیں ،وہ لہلہاتی پالک۔۔۔۔نہیں نہیں توبہ،توبہ وہ کیا تھا

Ahmad khan lound احمد خان لنڈ ہفتہ 1 جون 2019

یوں تو کالم نگاری بہت سے لوگوں کے لیے مشکل کام ہو سکتا ہے، لیکن ہمارے ضمن میں تو اسے اور بھی کچھ قدر ملکہ حاصل ہے ۔مثلاً ایک تو پہلے ہی کالم لکھنے اور اس کے بارے میں سوچ سوچ کے بندہ کا جی ہلکان ہوتا ہے اور بندہ جونہی خیالات و افکار کے سمندر میں ڈوبا ہوا کالم لکھنے کے لیے قلم اٹھاتا ہے تو اول، لفظوں کی باہم مڈبھیڑ شروع ہو جاتی ہے اور جونہی اس طغیانی میں ذرا سا ٹھہراؤں پیدا ہوتا تو احساسات اور خیالات غائب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
اس طوفان کو پار کرنے کے بعد بھی اگر بندہ کالم لکھنے کا حوصلہ جاری رکھے اورجیسے ہی کہانی کا آغاز ہوتا ہے ”اِس کی چمکتی ہوئی آنکھوں سے اُس کی آنکھیں دوچار ہوئیں اور اُس کے لبوں میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔۔۔“ فوراً ہی بندہ کے کمرہ کا دوازہ کھلتا ہے اور ایک کرخت آواز گونجتی ہے ”۲ کلو پیاز ،۱ کلو آلو ،۳ گھٹی پالک اور ہاں۔

(جاری ہے)

۔۔ ادرک اور لہسن بھی فوراً ہمراہ لے کر دیے جائیں، بصورت دیگر اس گستاخی کے نتیجے میں شام کا کھانا اور ماہانہ پٹرول کے اخراجات سے بھی کٹوتی ممکن ہے۔

کافی دیر کی منت سماجت اور یقین دہانیوں کے بعد وقتی طور پر سبزی لانے سے جان چھڑانے کے بعد بندہ جونہی قلم اٹھا کر خیالات کے منقطع سلسلے کو جوڑنے کی کل وقتی کوشش میں جیسے ہی کچھ حد تک کامیاب ہوتا ہے تو پھر سے دروازے پہ آہٹ پیدا ہوتی ہے اور آواز آتی ہے کہ ”اچھا ایک کلو کدو بھی اس سبزی والی پرچی پہ لکھ لو،تمھارے ابا نے آج کدو کی فرمائش کی ہے“۔
پرچی پر کدو لکھنے کے بعد بندہ جیسے ہی واپس کہانی پہ آتا ہے ،اچھا تو کہاں تھا میں! وہ حسین کدو۔۔۔ ،نہیں ،نہیں ،وہ لہلہاتی پالک۔۔۔۔نہیں نہیں توبہ ،توبہ وہ کیا تھا ،کہاں تھا میں ۔۔۔ہاں شاید ہ”ہونٹوں کی مغموم جنبش سے جونہی۔۔۔۔۔“ اچانک پھر سے ایک کرخت آواز آتی ہے” لو جی اب پانی بھی ختم ہو گیا ۔اوئے کتنی دفع کہاں ہے تجھے کم کھیلا کر کمپیوٹر پر ،چل اٹھ اور جا ،پانی بھر کے آ، جلدی سے “۔
پھر سے کچھ دیر کی منت سماجت کے بعد کل وقتی طور پر جاں خلاصی ہوتی ہے اور جونہی پھر سے قلم جاری ہوتا ہے ”اس کے شرم سے گلابی ہوتے گالوں پر۔۔۔۔۔“۔صدر دروازے پر دستک ہوتی ہے اور ایک کرخت آواز گونجتی ہے ”احمد دیکھ اوئے دروازے پر کون آیا ہے“ ۔اب کی مرتبہ دروازے پر جاکہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمسایوں کی بجلی نہیں آرہی اور وہ بجلی کا پوچھنے کی غرض سے تشریف لائے ہیں ۔
اس مصیبت کے بعد بندہ پھر سے میز پر آکر قلم سے لکھنا شروع کرتا ہے”اس کے شرم سے گلابی ہوتے گالوں پر سورج کی کرنیں۔۔۔۔“اب کی بار کچن سے آواز آتی ہے اوئے نکمے، نکھٹوں انسان ادھر آ اور چینی کے ڈبے کا ڈھکن کھول کہ دے پہلے مجھے۔خدا خدا کرکہ چینی کا ڈھکن کھولنے کے بعد بندہ پھر سے میز پر آ دھمکتا ہے اور کافی دیر کی محنت کے بعد پھر سے خیالات وافکار کا سلسلہ جڑتا ہے ”اُس کی لہلہاتی زلفوں میں چینی کا ڈھکن ۔
۔۔۔۔“کچھ دیر کے بعد دروازہ کھلتا ہے اور غصے سے بھرا ہوا ایک چہرہ میز پہ آتے ہی لکھی ہوئی تحریر کو پڑھتا اور ایک غضبناک آواز گونجتی ہے ”اچھا تو اب تک یہی لکھا جا رہا تھا ،بند کرو اسے بڑا آیا کالم نگار ،بند کرو بند کرو اسے فورا ً۔ ”۲ کلو پیاز ،۱ کلو آلو ،۳ گھٹی پالک اور کدو لے کر آؤ کہ ورنہ ۔۔۔۔۔“ اب تو ہم یہ کالم پہ یہی کہ سکتے ہیں کہ ”یک شدِ عالم جاَرِجا مَن تعَلمِ دوجاَ“ اب اس کے کیا معنی ہیں ،وہ تو مجھے بھی نہیں معلوم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Browse More Urdu Literature Articles