Apne Zindagi Ke Diary Khud Likho - Article No. 2051

Apne Zindagi Ke Diary Khud Likho

اپنی زندگی کی ڈائری خود لکھو!‎ - تحریر نمبر 2051

زندگی کیا ہے۔جاننے کی چاہ میں لفظوں کے اندراٹک چکے تھے۔پڑھتے ہوئے مجھے لگا کہ موصوفہ دکھی ہے۔ جیسا کہ آگے لکھا تھا۔ تم ایسا نہیں کرنا۔ زندگی بستر مرگ پر پتہ چلتی ہے کیا ہے۔ جب بناوٹ سے سروکار نہیں ہوتا

کنول نوید جمعرات 16 مئی 2019

جب میں نے ہوش سنبھالا تو ایسے لگا شعور آگیا۔ بابا سے خواہش ظاہر کی۔میں ڈائری لکھوں گی۔انھوں نے پہلے ہنسی میں اڑا دیا۔ ہاں،کیا لکھوں گی۔لڑکی۔ پڑھو ، پڑھنے پر دھیان دو۔لیکن بابا کی ہنسی مجھے روک نہ پائی۔اپنا ننھا منھا خزانہ نکالا۔بابا کو دیا اور پھر کیا۔ڈائری آگئی۔ اب مسئلہ ہوا کہ لکھوں کیا؟ بابا نے میری مدد کی۔یہ تحریر دے کر! میں نے بڑے شوق سے اپنی پاکٹ منی سے ڈائری لی۔
پھر کیا تھا ،ایک یقین سے لکھنا شروع کیا۔زندگی کیا ہے؟وقت بیتا۔ ڈائری ختم ہوئی۔ جب آخری صفحہ لکھا تو ایسا محسوس ہوا۔میں کیسی بے وقوف تھی۔ شعورتو اب آیا ہے۔پھر کیا جوش نے سراٹھایا اور ہم نے نئی ڈائری لے ڈالی۔شروعات پھر وہی تھی۔ اسی گھمبیر موضوع پر،زندگی کیا ہے؟اس بار بھی آخری صفحہ پر ویسا ہی احساس ندامت ہوا۔

(جاری ہے)

میں کیسی بے وقوف تھی۔

زندگی کیا ہے؟وہ تو ابھی بھی نہ پتہ تھا۔پر لکھنا آگیا تھا۔ لفظوں کی بناوٹ نے مزید لکھنے پر اُکسایا۔ پھر ہم نے خود کو سمجھایا۔ لکھتے لکھتے شاید کبھی پتہ چل جائے کہ زندگی کیا ہے۔ ڈائری بدلتی رہی۔ زندگی ہر روز ایک سورج کے ساتھ اپنا صفحہ بدلتی رہی۔جو ہمارے ساتھ ہوا کسی دکھی فلم جیسا تھا۔ ہم مکمل بھٹک چکے تھے۔ زندگی کیا ہے۔جاننے کی چاہ میں لفظوں کے اندراٹک چکے تھے۔
پڑھتے ہوئے مجھے لگا کہ موصوفہ دکھی ہے۔ جیسا کہ آگے لکھا تھا۔ تم ایسا نہیں کرنا۔ زندگی بستر مرگ پر پتہ چلتی ہے کیا ہے۔ جب بناوٹ سے سروکار نہیں ہوتا۔لکھاوٹ سے کوئی پیار نہیں ہوتا۔ وہ سیدھی سادی پگڈنڈی صاف صاف دیکھائی دینے لگتی ہے۔جس پر جانا پھر ناممکن ہوتا ہے۔ کیونکہ زندگی کی ڈائری کا صفحہ آخری ہم لکھ رہے ہوتے ہیں۔اس پر لکھتے ہوئے مایوسی میں اکثر اتنا ہی لکھ پاتے ہیں۔
میں کیسا بے وقوف تھا۔میں کیسی بے وقوف تھی۔اصل راہ کا پتہ تو اب چلا ہے۔ آہ کہ میری ڈائری ختم ہو گئی۔ یہ ڈائری تو نئی نہیں ملتی۔ یہ زندگی پھر نہیں ملتی۔ مجھے اپنے اندر خوف محسوس ہوا۔ میری ڈائری کہیں خراب نہ ہو جائے۔میری پہلی ڈائری جب میرے بابا نے لا کر دی تو یہ تحریر نہ جانے کہاں سے کاٹ کر تھما دی تھی۔میں نے تحریر کو من و عن پڑھا۔ افسردگی کا ایسا بخار چڑھا۔
پریشانی سے قلم اٹھایااور بھٹک نہ جاؤں اس احساس نے کچھ لکھنے ہی نہیں دیا۔یوں میری پہلی ڈائری کوری کی کوری رہ گئی۔ میں اپنی کتابوں میں ایسی متحمکن ہوئی کہ ڈائری لکھنے کا خیال ہی نہ آیا۔ اماں ،بابا نے اس ڈائری پر اپنا حساب کر ڈالا۔زندگی کا سورج میرے لیے بھی اپنے صفحات بدل رہا تھا۔ میں اپنی ڈائری پر خود لکھنا چاہتی تھی۔پر میری پہلی ڈائری ہی دوسروں نے لکھ ڈالی۔
میں بڑھی میرا خوف بڑھا۔پھر گھر گھرسُستی کی نئی شروعات۔ یہ کیا ہوا۔ ایک نئی ڈائری۔کہا گیا خود لکھوں۔ آرھا ،ترچھا۔جیسا بھی۔یہ تمہاری ہے۔ پر کیوں میرے ہاتھ منجمند پہاڑ سے جو برف سے ڈھکا ہوتا ہے ،اکڑ گئے۔ میں کیا لکھوں؟نظریں ارد گرد ایسے فرد کوڈھونڈ رہی تھی۔جو میری ڈائری لکھ دے۔پھر جانتے ہیں۔اس ڈائری کا کیا ہوا۔ میری الگ الگ الماریوں میں وہ۔
سورج کے بدلتے صفحات کے ساتھ جگہ بدلتی رہی۔ کبھی میرے شوہر نے اس پر حساب کیا۔تو کبھی پچوں نے فقط لکھنے کی چاہ میں آڑھی ترچھی لائن لگائیں۔یہاں تک کہ ڈائری کے ایک دو صفحات باقی تھے۔وہ بھی میرے بچوں نے لکھے۔ یہ ہی حال میری زندگی کا ہوا۔نہ ہی میں نے اپنی زندگی کی ڈائری لکھی۔ نہ ہی اپنے بارے میں کوئی رائے دے پائی۔ کاش کہ میں بھی کہہ پاتی میں کیسی بے وقوف تھی۔
اب جب زندگی کی ڈائری کے چند الفاظ ختم ہونے والے لمحات پر پیوست کرنے ہیں تو سوچتی ہوں۔کیا ہی اچھا ہوتا غلط لکھتی یا ٹھیک میں اپنی ڈائری خود لکھتی۔ چاہے شاہد ضائع کرتی ،پر یہ میرے صفحات تھے۔ یہ میری زندگی تھی۔ میری آنکھ سے مایوسی کا جو آنسو ٹپکا۔اس کی تحریر اتنی تھی۔ یہ ماں باپ زندگی دے کرزندہ رہنے کااختیار کیوں چھین لیتے ہیں۔اپنی مرضی کی تحریروں سے شروعات کی ڈائری ایسی گندی کی جاتی ہے کہ لکھنے کے لیے حوصلہ ہی نہیں رہتا۔
ہمارے معاشرے میں یہ اکثر لڑکیوں کی زندگی ہے۔ یہی ان کی ڈائری کی بیرونی پرت ہی فقط ان کے نام کی ہے۔ تحریر دوسروں کی۔زندگی جیسا انمول تحفہ جو رب نے خاص آپ کو دیا ہے۔ دوسروں کو نہ سونپ دیں،دوسروں کو بتائیں کہ آپ نے کیا لکھا۔مزید کیا لکھنا چاہیے۔ مشورہ لیں مگر لکھیں خود ہی۔ مجھے اک تحریر لکھنی ہے ذدا سی سیاہی دے دو۔ کنول جاننا ہے مجھے خود کو،ذرا سی اگہی دے دو۔

Browse More Urdu Literature Articles