Azizo! Car Aamad Bano Car Aamad,dusro Ke Liye Bhi Aur... - Article No. 2080

Azizo! Car Aamad Bano Car Aamad,dusro Ke Liye Bhi Aur...

عزیزو! کار آمد بنو کار آمد، دوسروں کے لیے بھی اور۔۔۔ - تحریر نمبر 2080

ہمارے ایک دوست ڈاکٹر قاسم ہیں وہ بھی ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اپنی تعلیم کیلئے انہوں نے جھاڑو دینے اورمعمولی سے معمولی کام بھی کیے، روکھی سوکھی کھا کر تعلیم حاصل کی اورپھر وہ ٹیلی فون محکمے کی ملازمت سے وابستہ ہوئے، اب ریٹائر ہوچکے ہیں مگراُن کے ذوق ِعلمی اور جذبہ خدمتِ خلق نے اب انھیں ہومیو پیتھک جیسے علاج و معالجے سے وابستہ کر رکھا ہے

Nadeem Siddiqui ندیم صدیقی ہفتہ 22 جون 2019

”ایک ڈرائیور کی ضرورت ہے۔‘ میں نے اشتہار دے رکھا تھا، تیسرے دِن صبح گھر والوں نے بتایا کہ ایک خان صاحب ڈرائیونگ کی ملازمت کیلئے آئے ہیں۔ مَیں برآمدے میں گیا تو شکل و صورت اور وضع قطع سے اچھی عمر کا نیک بندہ، نورانی چہرہ، باادب ایک خان صاحب نظر آئے اورسلام میں سبقت کر گئے۔۔ ’السلام و علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ۔۔‘ کا آوازہ مَیں نے سُنا، سلام کے بعد بھی انہوں نے مجھے کچھ کہنے کا موقع نہیں دِیا، وہ کہہ رہے تھے۔
’جی میں آپ کی گاڑی ضرور چلاؤں گا مگر میری کچھ شرطیں ہیں۔‘ میں نے سوچا کہ شاید تنخواہ کی بات ہوگی،میں نے ہنستے ہوئے پوچھا کہ’وہ کیا شرطیں ہیں؟‘ جواب ملا:’ایک تو آپ کی گاڑی میں گانے نہیں لگنے دوں گا، دوسری بات یہ کہ نماز کا وقت ہوگا تومیں گاڑی روک دوں گا اور نماز پڑھنے کے بعد ہی گاڑی چلاؤں گا اور تیسری شرط یہ کہ گاڑی چلانا مجھے نہیں آتا وہ بھی آپ کو سِکھانا ہوگا۔

(جاری ہے)

“۔۔۔۔ اس بیانیہ کے اختتام پر آپ یقیناً ہنسے ہونگے اور ہے ہی ایسا واقعہ کہ ہنسنا ہی چاہیے۔ گزشتہ دِنوں ہم ضلع اکولہ(مہاراشٹر) کے مشہور ٹاؤن بالا پور گئے تھے وہاں ایک ایسے جلسے میں بھی شرکت کا موقع ملا جس میں نوجوان طلبا اور طالبات کو دیکھا جو حال میں اعلیٰ درجات کے امتحانات میں نمایاں طور پر کامیاب ہوئے تھے، کوئی دس سے زائد طلبہ رہے ہونگے جن میں اکثریت لڑکیوں کی تھی، انھیں معزَزین ِ شہر اور مہمانِ خاص مہاراشٹر پولیس کے آئی جی اور مشہور شاعر قیصر خالد نے ان طلبہ کو اعزاز سے نوازا۔
ہمیں اُس وقت بہت خوشی ہوئی، جب یہ پتہ چلا کہ ان لڑکیوں میں سے بعض نے80 صد فیصد یا نوے فیصد سے زائد نمبر حاصل کیے ہیں، ان لڑکیوں میں کئی ایسی تھیں جو حجاب اور برقعے میں اپنے سرپرستوں کے ساتھ آئی تھیں۔ قیصر خالد صاحب نے اپنی تقریر میں ان لڑکیوں کی کامیابی پر کہا کہ”ہماری بیٹیاں تعلیم میں بڑھ رہی ہیں، یقیناً یہ خوشی اور مسرت کا مقام ہے مگر ہم جیسوں کے ذہن میں ایک سوال بھی اُٹھتا ہے کہ ہمارے بیٹے کہاں ہیں اور وہ کیا کر رہے ہیں۔
؟‘پھر خود ہی اپنے سوال کا جواب دِیا کہ”فیس بک، موبائل یا پھر وٹس ایپ پر چیٹنگ میں لگے ہونگے یہ بھی ممکن ہے کہ کسی چائے خانے میں خیالی گھوڑے دَوڑا رہے ہوں۔“ قیصر خالد نے امتحانات میں نقل کے رُجحان کی مذمت ہی نہیں کی بلکہ یہ بھی کہا کہ”جب امتحانات کے ایام میں پولس بندوبست ہوتا ہے تو میں اپنے ماتحتین کو سختی سے ہدایت دیتا ہوں کہ جس دِن ریاضی اور سائنس کے پرچے حل ہونے والے ہوں اُس دِن امتحان گاہ پر سخت نگرانی رکھی جائے۔
“قیصر خالد کی اس تقریر پر ہمیں بھی کئی واقعات یاد آکے رہ گئے۔ ایک واقعہ: ایس ایس سی کا امتحان ہوچکا تھا، پرچوں کی جانچ ہورہی تھی کہ مالی گاؤں کے ہمارے ایک تعلیم یافتہ اوراللہ والے دوست جو، اب فلسفے کے ڈاکٹر بھی ہیں، موصوف کا فون آیا کہ”ندیم! آپ مُمبرا میں رہتے ہیں وہاں ایک صاحب ہیں جن کے پاس ریاضی اور مراٹھی (ایس ایس سی) کے پرچے جانچنے کیلئے پہنچے ہیں، ان کا یہ نام ہے اور فلاں مقام پر رہتے ہیں ذرا معلوم کر کے اس کی تصدیق کیجیے تو ہمارا کام بنے“۔
ہم بہت حیران ہوئے کہ ان کو یہ ساری معلومات کیسے حاصل ہوئیں۔؟ انتہا یہ کہ اس ممتحن کے پاس کس مضمون کے پرچے گئے ہیں۔ سب کچھ معلوم ہے۔!!؟؟ ہم نے بہر حال اس معاملے میں خموشی اختیار کی۔ مگر ذہن میں پہلے سے بعض شکوک نے اپنے پردے ضرور سرکائے،وہ شکوک یہ تھے کہ(اس وقت) اکثر وہی طلبا امتحانات میں نمایاں کامیاب ہو رہے تھے کہ جن کے والدین درس و تدریس سے وابستہ تھے اور جو مالی گاؤں کے ہمارے دوست کی طرح امتحان کے نگراں سے لیکر پرچے جانچنے والوں کے شجرے تک سے باخبر ہوتے تھے۔
قیصر خالد صاحب کی تقریر میں امتحان کی نقالی کا تذکرہ ہر گز عجب نہیں تھا، بلکہ اس بات سے ہمارے شک وشبہات کو ایک تقویت بھی ملی کہ واقعی ایسا ہوتا ہے۔ بچپن میں بعض بزرگوں سے سنا ہوا ایک فقرہ بھی یاد آیا، بظاہر تعلیم یافتہ قسم کے لڑکوں سے جب وہ ملتے تھے اور جب وہ اُن سے کوئی سوال کرتے اور وہ لڑکے یا تو خموش رہتے یا پھر دائیں بائیں دیکھتے، وہ فقرہ یہ تھا۔
میاں! کیا اناج دے کر پڑھا ہے؟ ہم نے اس سے قبل بھی اپنے ایک اُستاد افضل حسین کا ذکر کیا ہے، کوئی نصف صدی قبل کی بات ہے کہ کانپور کے افضل حسین صاحب، لندن اور آکسفورڈ کے قصے ایسے سناتے تھے کہ گویا موصوف کل ہی لندن اور آکسفورڈ سے لوٹے ہوں، وہ تو بعد میں طلبا کو پتہ چلا کہ موصوف نے انگلینڈ تو کجا ممبئی اور کلکتہ بھی نہیں دیکھا مگر وہ لندن ہی نہیں مانچسٹر جیسے شہروں کے بارے میں بھی خاصی معلومات رکھتے ہیں اور یہ معلومات ان کے گہرے اور وسیع مطالعے کا حاصل ہیں۔
واضح رہے کہ افضل حسین صاحب ایک غریب خاندان کے فرد تھے، معتبر ذریعے سے ملنے والی اطلاع کے مطابق وہ جب ہائی اسکول(بورڈ)کا امتحان دے رہے تھے تواُن کے گھر میں فاقے کی صورتِ حال تھی، اس غربت اور نامساعد حالات کے باوجود ان کے دل میں تعلیم کا جو چراغ روشن تھا، اس کی لَو کبھی مدھم نہیں پڑی۔ اسی طرح ملک ِعزیز کے دوسرے باوقار وزیر اعظم لعل بہادر شاستری جنہیں ہندستانی سیاسی تاریخ میں ایک اہمیت حاصل ہے ان کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ وہ اپنے گاؤں سے جہاں پڑھنے جاتے تھے تو راستے میں ایک ندی پڑتی تھی اور اُس ندی کو عبور کیے بغیر درس گاہ پہنچنا ممکن نہیں تھا، ایک دن ایسا ہوا کہ اُن کے پاس کشتی کے ملّاح کو دینے کے لیے پیسے نہیں تھے تو اُنہوں نے اُس دِن ندی کو تیر کر پارکیا اور اسکول میں حاضری درج کرائی۔
ہمارے ایک دوست ڈاکٹر قاسم ہیں وہ بھی ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اپنی تعلیم کیلئے انہوں نے جھاڑو دینے اورمعمولی سے معمولی کام بھی کیے، روکھی سوکھی کھا کر تعلیم حاصل کی اورپھر وہ ٹیلی فون محکمے کی ملازمت سے وابستہ ہوئے، اب ریٹائر ہوچکے ہیں مگراُن کے ذوق ِعلمی اور جذبہ خدمتِ خلق نے اب انھیں ہومیو پیتھک جیسے علاج و معالجے سے وابستہ کر رکھا ہے۔
ہمارے ایک عزیز ’تھانے‘ کی ضلعی عدالت میں بہ حیثیت وکیل اپنی عمر کے لوگوں میں معروف نہیں بلکہ ممتاز ہیں۔ ان کی طالب علمی سے لے کر ابتک کی زندگی ہماری آنکھوں میں ہے۔غربت نہیں اِنتہائی غربت کی حالت میں انہوں نے تھانے ہی سے ایل ایل بی کیا اور تھانے میں اپنے زمانے کے مشہور ایڈووکیٹ اسحاق نرویل کے ساتھ بحیثیت جونیئر اپنی عملی(وکالتی)زندگی شروع کی اور اِس وقت شمیم احسن ممبرا کے ممتاز تر وکیل ہیں۔
زندگی کی مسرتیں اگرآسانی سے ہاتھ آتی ہیں تو ان کی قدر ویسی نہیں ہوتی جیسا کہ ان کا حق ہوتا ہے مگر وہ لوگ جوزندگی کے نرم گرم سے گزر کر زندگی کے کارگاہ میں پہنچتے ہیں تو زندگی کی بہاریں یقیناً اُن پر نچھاور ہوتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک شکایت عام ہے کہ’مذہبی عصبیت کے سبب ہم پر ملازمت کے دَر وازے بند ہیں‘، ہو سکتا ہے کہ بعض مقامات پریہ باتیں سچ بھی ہوں۔
ہم نے اس تحریر کی ابتدا جس واقعے سے اور جس شخص سے کی ہے، تعلیم سے فراغت کے بعد اعزاز و انعامات کے ایک جلسے میں اُسی شخص نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بچو! تم مسلمان ہو تمہارا نمازی ہونا یا روزے دار ہونا ہر گز عجب نہیں مگر اس دُنیا میں اگر آپ دوسروں کے لیے کار آمد نہیں ہیں تو آپ کو زندگی کی کامیابی ہر گز نہیں ملنے کی،اس کیلئے آپ کے ہاں جو صلاحیت دیکھی جائے گی وہ یہ ہوگی کہ آپ دُنیا کیلیے کتنے کار آمد ہیں تو عزیزو! نیک بننے کے ساتھ کار آمد بننا بھی آپ پر واجب ہے ورنہ تو بیکار چیزوں کی طرح آپ بھی اِدھر اُدھر پڑے رہیں گے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ جنت کا راستہ اسی دُنیا سے جاتا ہے اور دُنیا میں رہ کر آپ چاہیں کہ دُنیا سے منہ موڑ کر جی لیں گے، تویہ محال ہے۔
تاریخ اُٹھا کر دیکھیے،اسی مذہب کے ماننے والوں میں کیسے کیسے لوگ گزرے ہیں کہ جنہوں نے دُنیا کو بہت کچھ دِیا، آپ بھی دینے والے بنیے اِن شااللہ جو سب سے بڑا دینے والا ہے اُس کی عطا کے دَر آپ پر بھی کھل سکتے ہیں اوریہ بھی یاد رکھیے کہ اللہ کے کرم کیلئے بھی آپ کو اہلیت ثابت کرنی ہوگی، یہ فطرت کا اصول ہے اور فطرت اپنے اُصول کبھی نہیں بدلتی۔“ تو عزیزو!کار آمد بنو کار آمد، دوسروں کیلئے بھی اور اپنے لئے بھی۔۔۔

Browse More Urdu Literature Articles