Kismet - Article No. 1821

Kismet

قسمت - تحریر نمبر 1821

شام ڈھل رہی تھی ․․․․اور میں سر جھکا ئے فٹ پاتھ پر چلا جارہا تھا ۔تھکن ،مایوسی اور تہی دامنی کا ایک اور دن تمام ہو ا تھا

بدھ 5 دسمبر 2018

شام ڈھل رہی تھی ․․․․اور میں سر جھکا ئے فٹ پاتھ پر چلا جارہا تھا ۔تھکن ،مایوسی اور تہی دامنی کا ایک اور دن تمام ہو ا تھا۔جیب میں بچی کھچی برائے نام رقم میرا گویا منہ چڑارہی تھی اور آنکھوں کے سامنے مستقبل نہیں ،حال کی ڈراؤنی تصویر تھی ۔والد صاحب کی طویل علالت ،بیگم کے ادھورے خواب،بہن بھائیوں کے افسردہ چہرے ،ملازمت کے لیے سفارش اور رشوت کا مطالبہ ان بہت چیزوں سے خالی میرا دامن اور اگلا دن ․․․․؟
نئی نویلی چمکیلی ٹیکسی برا بر سے گزری تو میں اس سے بچنے کے لیے ایک طرف ہو کر اسٹا پ کی طرف چل پڑا ۔

اچانک وہی ٹیکسی آگے جا کر رکی اور الٹے قدموں آنے لگی ۔میرے قریب پہنچ کر گاڑی جھٹکے سے رکی اور میرے کانوں میں آواز آئی ۔
”اسلم ․․․․ارے اسلم ․․․یار کدھر ہو ․․․․؟“میں جھٹکے سے رک گیا ۔

(جاری ہے)

اس جگہ میرا کون شنا سانکل آیا․․․․؟مڑ کر دیکھا تو ٹیکسی میں ڈرائیور کی نشست پر بیٹھا ،ایک دراز قامت نوجوان میری ہی طرف دیکھ رہا تھا ۔


میں پہلی نظر میں اسے پہچان نہ سکا ۔یہ چہرہ یادداشت میں کہیں نہیں تھا۔
” ارے اسلم ․․․․اماں یار بھول گئے ․․․․؟”
اور ”اماں یار “کہنے والا،وسیم کے علاوہ اور کون ہو سکتا تھا ! وہ ٹیکسی سے اتر آیا اور مجھ سے لپٹ گیا۔برسوں کے بچھڑے ہوئے دوست پر جوش طریقے سے بغلگیر ہوئے تھے ۔پھر قریبی ہوٹل میں بیٹھ کر میں نے اسے اپنی پوری کہانی سنادی تھی ۔

وہ چپ چاپ بیٹھا سنتا رہا ۔پھر وہ اٹھا ،کاؤنٹر پر چائے کے بل کی ادائی کی اور مجھے ٹیکسی میں ساتھ بٹھا کر چل دیا ۔مجھے نہیں معلوم وہ کن کن گلیوں اور سڑکوں سے گزرا ۔پھر گاڑی ایک خوشحال علاقے کی خوبصورت اور کشادہ گلی کے ایک شاندار گیٹ پر جاکر رکی ۔نگہبانوں کے نزدک شاید وہ شنا سا مہمان تھا ، تبھی انہوں نے مسکراہٹ کے ساتھ دروازہ کھول دیا تھا۔

وسیع وعریض ،خوبصورت اور آراستہ و پیرا ستہ نشست گاہ میں ایک صاحب بیٹھے تھے ،وسیم نے بتایا کہ یہ ملک عبدالرشید صاحب ہیں ۔ہمیں ا س خوبصورت نشست گاہ میں بیٹھے ہوئے بہت دیر ہو چکی تھی اور پر تکلف چائے کا تیسرا دور چل رہا تھا ۔ملک صاحب نے رات کا کھانا کھائے بغیر جانے کی اجازت دینے سے صاف انکار کردیا تھا اوروسیم نے انہیں میرے بارے میں سب کچھ بتادیا تھا ۔

”پُتر!“ ملک صاحب نے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا ”آج سے تم ایک گاڑی کے مالک ہو ۔پیٹرول وغیرہ کا خرچہ ہمارے ذمے ․․․․‘تین مہینے تک تمام کمائی تمہاری اور اس کے بعد جو کچھ ہم کو دینا چاہو ،دے دینا․․․․
”ملک صاحب ․․․․! “میں صرف اتنا کہہ سکا ۔ملک صاحب مسکرائے ”پتر! ہم نے بھی دنیا دیکھی ہے اور گاڑی والے ہیں ،ا س لیے کچھ زیادہ ہی دنیا دیکھی ہے ۔
ہم نے ایک ہی نظر میں تم کو جان لیا تھا ۔ورنہ لاکھوں کی گاڑی کی چابی کوئی کسی کویوں ہی نہیں تھما دیتا۔اگر ”وسیم “صاحب تمہارے ساتھ نہ بھی ہوتے اور تم آتے تو بھی میرا یہی جواب ہوتا !“
”ملک صاحب ․․․! “میں نے دوبارہ کہنا چاہا اور انہوں نے اپنی مخصوص مشفقانہ مسکراہٹ کے ساتھ پھر میری بات کاٹ دی ۔
”پتر ! جب میں آج سے پچیس سال پہلے کراچی آیا تھا تو میرے پاس سوائے تن کے کپڑوں اور تین سوروپے نقدی کے اور کچھ نہ تھا ۔
میں نے کیا کیا محنت مزدوری نہ کی ۔کس طرح گاڑی چلانا سیکھی ،پھر دوسروں کی ڈرائیوری کی اور آج میری چھ بسیں اور آٹھ ٹیکسیاں چلتی ہیں ۔جس نے مجھے یہ سب کچھ عطا کیا ہے ،اسی کا یہ حکم بھی ہے کہ اس کے دوسرے بندوں کی بھی خدمت کی جائے ۔بس اس کے سوا میرا اور کوئی مقصد نہیں ۔لائسنس وغیرہ سب ہمارا مسئلہ ہے ۔کل سے آؤں یا پر سوں سے ۔ملک عبدالرشید کے گھر کا دروازہ تمہیں ہمیشہ کھلا ملے گا!“
ملک صاحب کہہ رہے تھے اور میری آنکھیں آنسوؤں سے بھرتی جارہی تھیں ! وہ آنسو ،جو میری قسمت کے ستارے بن کر میری پلکوں پر اتر آئے تھے اور میں اپنی قسمت پر نازاں تھا۔

مدد
یہ آج سے کافی عرصہ قبل کا واقعہ ہے ۔
مجھے ایک کام کے سلسلے میں اپنے آبائی گاؤں جانے کا اتفاق ہوا ۔انہی دنوں میرے ایک دوست شاداب حسین کی والدہ کا انتقال بھی ہوا تھا ۔لہٰذا مجھے ان کے ہاں تعزیت وفاتحہ کے لیے بھی جانا تھا ۔میرے یہ دوست گاؤں سے تقریباً پانچ کلو میٹر دور ایک کالونی میں رہائش پذیر تھے ۔
ایک روز میں اپنی خالہ کے گھر آیا ہوا تھا۔
میں نے دوست کے ہاں جانے کا پروگرام بنایا ۔شام کا وقت تھا ۔میرے دوست عموماً شام کو ہی گھر پر ملتے تھے ،کیونکہ دن کو اپنے روزگار پر ہوتے تھے ۔اس روز دن کو اچھی خاصی بارش ہوئی تھی ۔جس سے خنکی میں بھی اضافہ ہو گیا ۔شام تک مطلع صاف ہو گیا تھا ۔مگر آسمان پر کہیں کہیں بادل کے ٹکڑے دکھائی دیتے تھے ۔
میرے ساتھ میرے رشتے کے بھائی محمد شہباز بھی ہو لیے۔
شام پانچ بچے ہم گھر سے نکلے ۔سردیوں میں اندھیرا جلدی ہوجاتا ہے ۔مغرب کے بعد گاؤں میں تو ہر طرف سناٹا چھا جاتا ہے ۔ہمارے بس اسٹاپ تک پہنچنے تک بادل پھر گھر آئے اور ہلکی ہلکی بوندا باندی بھی شروع ہو چکی تھی ۔بس میں سوار ہوتے ہی بارش نے زور پکڑ لیا۔سارے راستے بارش ہوتی رہی ۔
جب ہم کالونی پہنچے تو موسلادھار بارش قیامت کا منظر پیش کررہی تھی اور اوپر سے بجلی کا بریک ڈاؤن بھی ہو چکا تھا ۔
ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔جب ہم بس سے اترے تو ہاتھ کو ہاتھ سمجھائی نہ دیتا تھا ۔اللہ اللہ کرکے ہم اپنے دوست کے گھر پہنچے وہ بھی حیران کہ اس طوفانی رات میں اور اس وقت ! دوست کی والدہ کے انتقال پر تعزیت اور فاتحہ خوانی کی ۔
دوست نے ہمیں بہ اصرار کھانا کھلایا اور پھر ہمارے سونے کا بندوبست کرنے لگا ۔ظاہر ہے انہوں نے سوچا ہوگا کہ اس طوفانی بارش میں اب یہ لوگ کہا جائیں گے ۔
مگر ہم خالہ سے وعدہ کرکے آئے تھے کہ ہم ہر حال میں واپس آئیں گے ۔ہم رات وہاں نہیں ٹھہر سکتے تھے ،کیونکہ اگر ہم واپس نہ پہنتے تو خالہ فکر مند اور پریشان ہوجاتیں ۔دوست نے بہت اصرار کیا کہ آ پ لوگ اس طوفانی رات میں کیسے جائیں گے ۔اب تو ٹریفک بھی بند ہو گئی ہو گی۔لیکن ان کے بے حد اصرار کے باوجود ہم ان کے گھر سے نکل آئے۔
بارش اب بھی اپنے جو بن پر تھی ۔
رات کے تقریباً نوبچ رہے تھے ۔یہ وقت وہاں کے حساب سے تقریباً آدھی رات کا وقت تھا ۔اب واپسی کے لیے سواری کا مسئلہ تھا ،کیونکہ وہاں عام دنوں میں مغرب کے بعد ٹریفک بند ہوجاتی ہے ۔آج تو یہ طوفانی رات تھی ۔ سیاہ رات ،بجلی کی کڑک ،بادل کی گرج دل دہلارہی تھی ۔ اسی عالم میں سڑک تک آئے ۔آتے ہوئے دوست نے اپنے ایک بھائی کو ہمارے ساتھ کردیا تھا کہ اگر انہیں گاڑی نہ ملے تو ہمیں واپس لے آئیں ۔

کھڑے کھڑے کافی دیر ہو گئی ۔کوئی گاڑی کیا سائیکل تک نظر نہ آئی ۔ظاہر ہے اس طوفانی رات میں کون اپنے گھر سے نکلے گا۔پھر ایک پرائیویٹ گاڑی گزری بھی ،مگر ر کی نہیں ۔ہم چھتریاں ساتھ لے آئے تھے ۔مگر وہ بھی اس قیامت خیز بارش کے سامنے بے بس تھیں ۔خیر ،اللہ اللہ کرکے دور سے ایک روشنی آتی دکھائی دی ۔نزدیک آنے پر پتا چلا کہ ٹرک ہے ۔ہمارے اشارہ کرنے پر رک گیا ۔
ہم نے اپنی مجبوری ظاہر کی تو اس نیک صفت ڈرائیور نے ہمیں اپنے ساتھ بٹھالیا۔ہمارے دوست کے بھائی ہمیں الوداع کہہ کروہیں سے واپس چلے گئے ۔
راستے میں ڈرائیور صاحب سے کچھ رسمی سی باتیں ہوئیں ۔ٹرک ڈرائیور سیمنٹ لے کر جارہا تھا۔
ہم کچھ ہی دور گئے تھے کہ ایک مصیبت کا سامنا کرنا پڑا ۔کچھ ہی فاصلہ طے کرنے کا بعد آگے ایک ندی پڑتی تھی ۔
اس طوفانی بارش کی وجہ سے اس میں سیلاب آیا ہوا تھا ۔سیلاب بھی انتہا کا تھا۔یہ صورت حال دیکھ کر تو ہمارے ہوش و حواس گم ہو گئے ۔اس سے تو بہتر تھا کہ ہم دوست کے گھر ہی ٹھہر جاتے ۔ڈرائیور نے ٹرک ندی سے کچھ فاصلے پرروک دیا۔پانی کی صورت حال دیکھی تو کہنے لگے کہ شاید ہمیں رات یہیں گزارنی پڑے ،پانی کا بہاؤ بہت تیز ہے ۔اب تو ہمیں مزید فکر ہوئی ۔
بارش تھمنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی اور سردی ایسی کہ جان نکلی جارہی تھی۔
ہمارے ٹرک کے ساتھ دو چار مزید ٹرک اور گاڑیاں بھی آکر رک چکی تھیں ،مگر کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ ندی کو پار کر کسے ،کیونکہ ندی کا پاٹ کافی چوڑا تھا ،اور پانی کا بہاؤ بھی تیز تھا ۔ہم رب العزت کو یاد کرتے رہے ۔تقریباً ایک گھنٹے بعد پانی کازور قدرے ہلکا ہوا تو ہماری جان میں جان آئی ۔
ایک آدھ ٹرک پانی میں داخل ہوا تو ہمارے ٹرک ڈرائیور نے بھی ہمت باندھی اور آہستہ آہستہ چلاتے ہوئے ٹرک بحفاظت دوسرے کنارے تک پہنچا دیا۔ہم سب نے رب رحیم و کریم کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا ۔
ان فرشتہ صفت ڈرائیور نے ہمیں رات تقریباً ایک بچے گاؤں پہنچا دیا ۔میرے رشتے کے بھائی نے انہیں کرائے کے طور پر کچھ رقم دینا چاہی مگر انہوں نے رقم لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ یہ تو میرا اخلاقی فرض تھا ۔یہ کہہ کر انہوں نے ہمیں ”اللہ حافظ “کہا اور ٹرک اسٹارٹ کر دیا۔

Browse More Urdu Literature Articles