Kya Hum Bhi Sukh Ki Zindagi Guzaraian Gay - Article No. 1963

Kya Hum Bhi Sukh Ki Zindagi Guzaraian Gay

کیا ہم بھی سکھ کی زندگی گزاریں گے․․․․؟ - تحریر نمبر 1963

مجھے ماں کی غم ناک نگاہوں سے اپنے سوال کا جواب تو مل جاتا ہے ،مگر ماں کے چہرے پر کرب اور اضطرات کی ابھرتی مٹتی لہریں دیکھ کر میں خود شرمندہ سی ہو جاتی ہوں ۔

جمعہ 15 مارچ 2019

اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے شمی آنسوؤں کو آنکھوں کے بند توڑنے سے نہ روک سکی۔
آج سے بائیس سال پیشتر بھی میرا ابا مزدور تھا اور آج بھی وہ مزدور ہی ہے ۔میں نے بچپن میں جس ماحول میں اپنے آپ کو مد غم کر لیا تھا آج وہی ماحول اور وہی فضا مجھے کسی زہریلے ناگ کی مانند ڈس رہی ہے ۔گھٹے گھٹے ماحول سے نفرت کا احساس مجھے بغاوت پر آمادہ کر رہا ہے ۔


بچپن میں بھی میں اچار اور دھنیے کی چٹنی سے باسی روٹی کھایا کرتی تھی اور آج اتنے سال گزر جانے کے باوجود بھی میں اور میرے دوسرے بہن بھائی اچار اور دھنیے کی چٹنی سے روٹی کھاتے ہیں ۔مجھے یاد ہے جب میں چھوٹی سی تھی تو باسی روٹی کھاتے ہوئے مجھے ہر نوالے کے ساتھ ایک گھونٹ پانی پینا پڑتا تھا اور جب ماں میری آنکھوں میں آنسو دیکھتی تو کہا کرتی تھی۔

(جاری ہے)


”بیٹی گھبراؤ مت․․․اچھا وقت ضرور آئے گا۔“اور آج اچھے وقت کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے میری آنکھوں سے آرزوؤں کا خون رسنے لگا ہے۔میں کئی مرتبہ ماں سے پوچھتی ہوں۔
”ماں ․․․․اچھا وقت کب آئے گا“․․․تو وہ حسرت سے میری طرف دیکھتی ہوئی نظریں نیچی کرلیتی ہے ․․․․بے چاری ماں ۔
مجھے ماں کی غم ناک نگاہوں سے اپنے سوال کا جواب تو مل جاتا ہے ،مگر ماں کے چہرے پر کرب اور اضطرات کی ابھرتی مٹتی لہریں دیکھ کر میں خود شرمندہ سی ہو جاتی ہوں ۔

کبھی کبھار جب سامنے والی کالونی میں ابا کو مزدوری ملتی ہے تو میں ٹاپ کا پردہ اٹھا کر جھانکتی ہوں ۔میرا بوڑھا باپ اپنے کندھوں پر طاقت سے زیادہ بوجھ لادتا ہے تو اس کی کمر بالکل کمان کی مانند ٹیڑھی ہو جاتی ہے ۔میں ندامت اور شرمندگی کے ساتھ پردہ گرادیتی ہوں۔
ابا کے کھانسنے کی آواز ہتھوڑے کی ضرب بن کر میرے بغاوت کے اس خوابیدہ احساس کو بیدار کرتی ہے جسے میں بڑی مشکل سے تھپک تھپک کر اور جھوٹی تسلیوں اور دلاسوں کی لوریاں دے دے کر سلاتی ہوں ۔

میں ایک مزدور کی مجبور بیٹی ہوں ۔ابا نے اپنے پیٹ پر پتھر رکھ کر میرے چھوٹے بھائی شہزاد کو اس آس کے ساتھ دس جماعتیں پاس کروائیں کہ شاید وہ ہم سب کا معیار زندگی بلند کر سکے ،مگر اب اس کی تعلیم ہی ہماری نظروں میں خاربن کر کھٹکنے لگی ہے ۔اَن پڑھ ہوتا تو کم از کم مزدوری تو کر لیتا نا․․․؟اب تو دس جماعتیں اس کی مزدوری کی راہ میں بھی حائل ہونے لگی ہیں وہ کہتا ہے ․․․․
”مز دوربننے سے کہیں بہتر ہے کہ میں دریا میں چھلانگ لگا دوں۔

شہزاد نے ابھی دس جماعتیں پاس نہیں کی تھیں تو ماں بڑے ارمانوں سے کہا کرتی تھی ․․․․”شہزاد تم دس جماعتیں پاس کر لو۔میرا چچازاد بھائی نور الدین ٹھیکیدار ہے ۔وہ تمہیں کوئی اچھی سی نوکری دلادے گا۔“
اور جس روز شہزاد نے فرسٹ ڈویژن لے کر دسویں پاس کی تو ماں اور ابا کی باچھیں کھل کھل جاتی تھیں ۔
شہزاد بھی نواب بننے کے خواب دیکھ رہا تھا۔
فسٹ ڈیویژن لے کر جیسے خوشحالی کے سارے پھول ہی اس کے دامن میں ڈھیر ہو جائیں گے۔
ماں پیٹ میں چار لڈو رکھے شہزاد کو اپنے چچاز ادبھائی نور الدین کے گھر لے گئی تو وہاں گھاس تو کیا انہیں بھو سے کا ایک تنکا بھی نہ ڈالا گیا۔اس روز شہزاد اور ماں کیسے منہ لٹکائے واپس آئے تھے ۔تب ہی سے شہزاد کے نواب بننے کے خواب ایک ایک کرکے منتشر ہونے شروع ہو گئے تھے ۔

جب میں ماں اور ابا کو دیکھتی ہوں تو مجھے ان کی آنکھوں میں مایوسیوں کی کائی کی ایک موٹی تہہ جمی نظر آتی ہے ۔
ماں کے ہاتھ لوگوں کے برتن مانجھتے مانجھتے جیسے گھس گئے ہیں اور ابا․․․ابا کے خون کا آخری قطرہ نچڑنے میں دیر ہی کیارہ گئی ہے ۔
لوگ کہتے ہیں انسان قدرت کا شاہکار ہے ۔میں پوچھتی ہوں کون سا انسان ․․․؟کیونکہ انسانوں کی بھی تو دو قسمیں ہیں ایک طرف بے حس اور خود غرض انسان ہیں اور دوسری طرف پُر خلوص اور ہمدرد انسان ۔
رہا محنت کش طبقہ تو ہو تو چکی کے دو پاٹوں میں پسنے کے لیے پیدا ہوا ہے ،اس کی زندگی محض روٹی کے گرد گھومتی ہے ،ان کو زمین کو گولائی کا علم نہیں ہاں یہ معلوم ہے کہ روٹی گول ہوتی ہے ۔
ایک روز دو پہر کو جب ہمیں روٹی میسر نہ آئی تو بچوں کو روتے بلکتے دیکھ کر ابا شہزاد پر برس پڑا۔
”دس پاس کرکے تمہیں کون سے سُر خاب کے پر لگ گئے ہیں جو تم اپنے آپ کو پھنے خاں سمجھنے لگے ہو۔

مزدوری نہیں کرنا چاہتے تو جاؤ اس گھر سے نکل جاؤاور اس وقت تک قدم نہ رکھنا جب تک کہ مزدوری کرکے کہیں سے پیسہ نہ کمالاؤ۔“
شہزاد نے گھر سے نکلتے ہوئے چیخ کر کہا تھا۔”مٹی نہیں ڈھوؤں گا ابا․․․میں مزدور نہیں بنوں گا۔“میں نے پوری قوت سے بھاگ کر شہزاد کے بازوپکڑلیے۔اس نے چپکے سے میرے کان میں شرگوشی کی ۔”میں آج رات کہیں ڈاکہ ڈالوں گا میری پیاری بہن․․․․ڈاکہ۔

میں اس کے ان الفاظ پر لرز جاتی ہوں ۔میرا بھائی کیا سوچ رہا ہے ․․․․وہ کس راہ پر جانا چاہتا ہے ․․․․کیا میں اسے اس بھیانک راستے پر جانے دوں ۔
دنیا والو،تم ہمیں بے ایمان کہو،چورکہو،ڈاکو کہواور جو تمہارے جی میں آئے کہو لیکن میں تمہارے احساسات کے بند کو اڑ پر دستک دے کر پوچھتی ہوں ،بتاؤ جب ہمیں دو وقت کی روٹی میسر نہ آئے تو ہم کیا کریں ۔جب ہمارے بچوں کی آرزوئیں سسک سسک کر ہمارے سامنے دم توڑ دیں تو ہم کہاں جائیں․․․․؟
شمی کی آنکھوں سے آنسوں کچی زمین میں جذب ہورہے تھے پھر وہ خاموش ہو گئی جیسے وہ ہم سے سوال کر رہی ہو کہ کیا ہم کبھی سکھ کی زندگی بھی گزارپائیں گے ․․․․؟

Browse More Urdu Literature Articles