Qabooliyat Ki Ghari Ke Silsilay - Article No. 2127

Qabooliyat Ki Ghari Ke Silsilay

قبولیت کی گھڑی کے سلسلے - تحریر نمبر 2127

پوری رات چاہے سڑک پر صندوق پر بیٹھے گزری ہو، آسمان پر طلوع ہوتے سورج سے خود کے لیے بادشاہی ہی مانگنی ہے اور ہر حال میں رب کا شکر ادا کرنا ہے۔ اگر میں نے اپنی زندگی میں یہ سب داخل کرلیا تو میری ہر رات لیلتہ القدر ہوگی، میری ہر گھڑی شبھ ہوگی

Dr Affan Qaiser ڈاکٹر عفان قیصر جمعرات 29 اگست 2019

گھر کی بالکونی پر جب بارش ہوتی، سامنے دور افق پر چھائے بادل دیکھنے کا لطف عجب ہوتا ۔زندگی کی نفسا نفسی میں شدید سٹریس کم کرنے کا واحد ذریعہ ان بادلوں کو کافی دیر دیکھتے رہنا،گالوں پر پڑتی بوندوں کو اپنے جسم میں جذب کرنا اور دل سے کوئی اچھی دعا مانگنا۔یہ عادت بظاہر تو مجھے ذہنی تناؤ کم کرنے کے لیے پڑگئی، مگر اس کے پیچھے غیب کی کوئی سائنس تھی۔
بچپن میں میرے امتحان ہوتے ، میں سخت پریشان ہوتا تو دادی اماں یا نانی اماں کے پاس زیادہ بیٹھنا شروع کردیتا۔ میری دادی اماں کی ایک عادت تھی ،وہ روزانہ مغرب کے وقت صحن میں چارپائی ڈال کر اس پر جائے نماز بچھا کر بیٹھ جایا کرتی تھیں اور نیلے آسمان کی طرف دیکھ کر تسبیح پڑھتی رہتی تھیں،یہ عمل رات تہجد تک جاری رہتا ،نانی اماں بھی کچھ ایسا ہی کیا کرتی تھیں۔

(جاری ہے)

یہ دونوں بزرگ اب اس دنیا میں نہیں ، مگر انہوں نے میرے لیے اس پہر جو جو دعائیں مانگیں وہ سب قبول ہوئیں۔ میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے جادو ہوتے دیکھے، اپنی دنیا بدلتے دیکھی۔ جو عمل میں گھر کی بالکونی پر بارش میں بادلوں کو دیکھ کر کیا کرتا تھا؟ یہ کیا تھا؟ اس کے لیے میں نے ایم آر باوا کی کتاب laylatul qadr day of light پڑھی۔ میں نے اپنی سوچوں کو بادلوں کے اس پار دیکھا تو مجھے سلسلے ملتے نظر آنے لگے۔
یہ قبولیت کی گھڑی کے سلسلے تھے۔ میری کلاس میں ایک ہندو لڑکا پڑھا کرتا تھا،اس کا تعلق نیپال سے تھا۔ اچھا دوست تھا۔ وہ کو ئی بھی بڑا کام کرنے لگتا،تو نیپال میں اپنے جوتشی کو فون کرتا ، اس سے کام کرنے کا وقت پوچھتا اور تبھی وہ کام کرتا،وہ کہا کرتا تھا کہ پورے دن میں دو گھڑیاں آتی ہیں،ایک منحوس ہوتی ہے اور ایک شبھ ہوتی ہے۔ اگر تم نے منحوس گھڑی میں کوئی بات بھی منہ سے ایسی ویسی نکال دی تو تم گئے۔
میں اس کی حرکت پر ہنسا کرتا تھا۔ مگر باوا کی کتاب کے سلسلے جب میں نے اپنی زندگی میں داخل کیے تو مجھے اپنے ہندو دوست کی بات پر یقینِ کامل ہوگیا۔ دنیا میں جتنے کامیاب لوگ ہوتے ہیں،ان کی زندگی کا سب سے بڑا راز یہ ہوتا ہے کہ وہ پورا دن مثبت سوچتے ہیں، ہر وقت اپنے لیے اچھا پلان کرتے ہیں اور کبھی تنگ آکر بھی منہ سے کچھ برا نہیں نکالتے اور اگر نکالتے ہیں تو مارے جاتے ہیں۔
جان کینیڈی کھلی کار میں پورے امریکہ کا سفر کیا کرتا تھا اور کہا کرتا تھاکہ سپر پاور کے صدر کو گولی کون مارے گا؟ اسے گولی ماری گئی۔ صدام حسین کہا کرتا تھا ،مجھے چاہے لٹکانا ہے ،لٹکا دو،اسے لٹکا دیا گیا۔ کرنل قذافی کہتا تھا،چاہے مجھے مار دیں،میری لاش پر پیشاب کریں،میں اصولوں پر رہوں گا،وہ مارا گیا اور اس کی لاش پر عوام نے پیشاب بھی کیا۔
اس ملک کے تمام سابق حکمرانوں کی پرانی تقریریں نکال لیں،آپ کو وہ اپنا انجام خود بولتے نظر آئیں گے۔ وہ منحوس گھڑی میں اپنے لیے ایسا مانگ بیٹھے جو انہیں لے ڈوبا۔ اسی طرح تاریخ ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جو کنگال تھے، مگر ان کو کوئی ایک قبولیت کی گھڑی زمین سے آسمان پر لے گئی۔ فیس بک کا مالک مارک اپنے ہاسٹل کے بند کمرے میں ،ساتھ والے کمرے میں اپنے دوست سے بات کرنے کے لیے کوئی سافٹ وئیر بنانے کی جہد میں تھا۔
ایک رات اس کے دوست نے اس کا بہت مذاق اڑایا، مارک نے اسے غصے میں آکر کہہ دیا۔ میں ایسا سافٹ وئیر بناؤں گا کہ پوری دنیا اس کمرے میں مجھ سے بات کرے گی۔ یہ بات اس نے جب ادا کی،وہ قبولیت کی گھڑی تھی، رب نے اس کی سن لی اور آج فیس بک کا ریونیو پوری دنیا میں گوگل کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ آپ سابق امریکی صدر باراک اوباما کو لے لیں، یہ ایک سیاہ فام مسلمان کا بیٹا تھا، خود قانون کا پروفیسر تھا۔
مفلس ،نادار اور گوروں کے دیس میں ایک کالا۔ 90ء کی دہائی میں یہ اپنے دوست صادق سے ملنے نیو یارک آیا۔ صادق گھر نہیں تھا،پوری رات اس کو ایک صندوق پر اس کے فلیٹ کے سامنے گزارنا پڑی۔اگلی صبح صادق آیا،اس کو کھانا کھلانے ساتھ ریستوران میں لے گیا۔ اوباما کھانا کھا رہا تھا کہ اس کے سامنے اخبار پر امریکی الیکشن کے اشتہار چھپے تھے۔اس نے اپنے دوست صادق کو کہا کہ ایک دن میں امریکہ کے صدر کا الیکشن لڑوں گا اور امریکہ کا پہلا سیاہ فام صدر بنوں گا۔
یہ بات سن کر صادق قہقہہ مار کر ہنسا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب کسی کالے کو امریکہ میں کوئی نوکری نہیں دیتا تھا اور اوباما اس ملک کا صدر بننے کی بات کررہا تھا۔ پوری رات عجیب پریشانی اور آزمائش میں گزارنے کے بعد اوباما نے صبح جو الفاظ ادا کیے ،وہ عین قبولیت کی گھڑی تھی اور پھر پوری دنیا الٹ گئی اور اوباما امریکہ کا پہلا سیاہ فام صدر بن گیا۔
قبولیت کی گھڑی کی فلاسفی انفرادی سطح سے نکال کر اجتماعی طور پر لاگو کی جائے تو اس میں منفی اور مثبت کا پہلو سامنے آتا ہے۔ یعنی جس معاشرے میں زیادہ منفی سوچ ہوگی،اس میں زیادہ لوگ منفی سوچیں گے اور معاشرہ منحوس گھڑیوں کے چکر میں مارا جائے گا۔اسی طرح اگر اجتماعی سوچ مثبت ہوگی تو معاشرہ شبھ گھڑیوں میں اپنی اچھی قسمت لکھے گا۔ترقی کرے گا۔
گریٹر جرمنی ہٹلر کی ان منفی سوچوں کی بھینٹ چڑھ گیا جو اس نے پورے معاشرے کی رگوں میں اتار دیں تھیں،انہوں نے ہر وقت پوری دنیا کو نیست و نابود کرنے کا سوچا اور یہ سب منحوس گھڑیوں میں قبول ہوتا گیا اور بالآخر خود بھی تباہ ہوگئے۔ ایم آر باوا اپنی کتاب میں لیلتہ القدر کی اصل حقیقت یوں بیان کرتے ہیں کہ اس رات انسان جو رب سے مانگتا ہے،وہ مل جاتا ہے، یہ وقت ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے پر محیط ہوتا ہے،جب آسمان کے ساتوں پردے ہٹ جاتے ہیں،جو مانگا جاتا ہے ،وہ سنا جاتا ہے اور آسمان سے رحمتیں برستی ہیں۔
بس یہ رات چوبیس گھنٹے میں آنے والی دو گھڑیوں میں قبولیت کی وہ گھڑی ہوتی ہے،جب سب اچھا ساتو ں آسمانوں کے پردے ہٹا کر سنا بھی جاتا ہے اور قبول بھی کیا جاتاہے ۔ باوا کی کتاب نے مجھے میری گھر کی بالکونی میں بارش کی بوندیں گالوں پر جذب کرنے اور دیر تک پہاڑوں کے اس بار کالے بادلوں کو تکنے کی وضاحت دے دی۔ مجھے دادی اماں کا مغرب کے وقت آسمان کی طرف منہ کرکے تہجد کے وقت تک تسبیح پڑھنا بھی سمجھ آگیا اور یہ بھی سمجھ آگیا کہ مجھے زندگی میں رب سے فلاح مانگنی ہے تو مجھے ہر وقت اپنے گرد مثبت کا حصار باندھے رکھناہے۔
سخت سے سخت مایوسی کے عالم میں بھی زبان پر منحوس بات کا قفل لگائے رکھنا ہے۔ ہر وقت اچھا سوچنا ہے،رب سے اچھا مانگنا ہے۔ پوری رات چاہے سڑک پر صندوق پر بیٹھے گزری ہو، آسمان پر طلوع ہوتے سورج سے خود کے لیے بادشاہی ہی مانگنی ہے اور ہر حال میں رب کا شکر ادا کرنا ہے۔ اگر میں نے اپنی زندگی میں یہ سب داخل کرلیا تو میری ہر رات لیلتہ القدر ہوگی، میری ہر گھڑی شبھ ہوگی۔
میں معاشرے میں مثبت سوچ رکھنے والا انسان بنو ں گا، تو مجھ جیسے کئی اور مل کر، پورے معاشرے کو رب سے قبولیت کی گھڑی میں مانگی دعاؤں کے ذریعے فلاح کی جانب لے جائیں گے۔ باوا کی کتاب بند کی،تو تہجد کا وقت تھا، باہر بارش ہورہی تھی،گھر کی بالکونی کو لوٹا، بارش کی بوندیں گالوں میں جذب کرنے لگا اور آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ جن سلسلوں کو میں غیبی سمجھتا تھا،وہ بہت آسان تھے۔یہ قبولیت کی گھڑی کے سلسلے تھے۔

Browse More Urdu Literature Articles