Soch - Article No. 1878

Soch

سوچ۔۔۔تحریر:عبدالرحمٰن ہاشمی - تحریر نمبر 1878

دماغ کی چولیں ہل گئیں نیند کوسوں دور چلی گئی دل نے سوچا چھوڑو یار سو جاؤ مگر دماغ تو پھنس چکا تھاسوچوں کی لہریں میرے بس میں ہی کہاں تھیں

جمعرات 17 جنوری 2019

سردی کے موسم کی طویل راتوں میں اگر لحاف میں لپٹے انسان سے نیند روٹھ جائے تو اُس کی کیا کفیت ہوتی اِس کا اندازہ وہ ہی کر سکتا ہے جس پر بیت رہی ہو گزشتہ شب میں بھی اسی مرحلے میں تھا ۔ سوچو کا ایک سمندر تھا جو امڈتا چلا آ تا تھااِس پل میں سوچتا ہوں کیا رات کی سوچ میرا پاگل پن تھا جس نے گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ دماغ میںآن کر صبح کر دی آپ اِس پاگل پن کا اندازہ لگا کر حکم صادر کریں یہ کس درجے کا پاگل پن ہے۔
۔۔ ہماری کہکشاں کیسے وجود میں آئی یہ سورج کا حصہ تھی مگر سورج کہاں سے آ یا اُس میں ابلنے والی ہائیڈوجن پھر اُس سے بننے والی ہیلم کا سارا عمل کہاں سے شروع ہوا جب کچھ نہ تھا تو پہلا پرٹان اور الیکٹران کہاں سے آیا کیا یہ کسی سائنس دان کا منصوبہ تھا یا کچھ اور۔

(جاری ہے)

چلو مفروضے کے طور پر مان لیا ہائیڈوجن پیدا ہو گئی اب انرجی کے بغیر ایٹمی ریکٹر کیسے چل گیا ۔

۔۔۔دماغ کی چولیں ہل گئیں نیند کوسوں دور چلی گئی دل نے سوچا چھوڑو یار سو جاؤ مگر دماغ تو پھنس چکا تھاسوچوں کی لہریں میرے بس میں ہی کہاں تھیں اِس بارپہلے سے زیادہ گھبیر مسئلہ تھا سورج میں یک لخت طوفان کیوں آیا جس سے اِس کے گرد سیارے بکھر کر اُس جگہ جا ٹیکے جہاں کشش ثقل اِس قدر ہو کے سب گھومنے لگیں ہماری زمیں کیا خود ایسے مقام پر آ گئی جس کا چکر چوبیس گھنٹے کا ہو چاند بھی ایک ہو جو صرف رات میں ہی روشنی دے یہ سب کیوں ہوا کیا یہ بھی کوئی پلانگ تھی مگر کس کی اور کس لئے۔
۔خدارا ہاشمی صاحب اب سو جاؤ۔ دو بجے کا عمل تھا اور میرا دماغ نہ جانے کس آٹے باٹے میں الجھا ہوا تھا کئی بار اٹھ کر ٹہلا شاید نیند آ جائے مگر دماغ کی الجھن سے الجھی نیند نا جانے کہاں تھی دورسے کتوں کی آواز آ رہی تھی اٹھ کر کھڑکی کے پٹ بند کئے یہ کتا بھی تو جان دار ہے جان زمیں پر کیسے آئی ڈارون کے نظریات کے مطابق زمیں پر لاکھوں سال پانی برستا رہا جس سے سمندر بنے اُس کی مٹی سے۔
نائٹروجن، اوکسیجن، ہائیڈوجن نے مل کر ایک ڈی ۔این ۔ اے بنایا حیرت ہے اِن عناصر نے D .N. A. ۔کا روپ کیوں دھارا جس سے زندگی کی ابتدا ہوئی تمام جانور ایک اِسی ڈی ۔این ۔ اے سے پیدا ہوئے یعنی یہ مٹی کا خمیر ہی ہے جو جان دار بنا ہر جان دار میںD .N. A. سے بننے والے کرموسوم کی تعداد الگ الگ ہے پھراِن پر جین اور جین پر موجود پیغام ایک ہی نسل کے جانور کو دوسرے سے الگ پہچان دے رہا ہے دیکھا جائے تو میری طرح اور کوئی جانورہے جو رات کے اِس پہر سوچ میں غرق ہو کر کیوں اور کیسے کے مسئلے حل کرے ڈارون کے مطابق اگر میں بھی ایولوشن کی پیداوار ہوں تو میری طرح دوسرے جانور سوچ سوچ کر اپنی نیند برباد کیوں نہیں کرتے گائے۔
بھنس۔طوطا۔ مینا بندر۔ بن مانس کیا وہ بھی کیوں کیسے کے چکر میں پڑتے ہیں اگر نہیں تو پھر ڈارون مجھے اُن کے ساتھ کیوں ملاتا ہے ۔ اگر میرے خمیر کی مٹی اور ہے تو پھر وہ کہاں سے آئی میں سائنس کی کئی بُک کھنگال چکا مگر دماغ جواب نہ پا سکا اگر جواب ہوتا تو میں آج سکون کی نیند سو رہا ہوتا مگر میرا تو خمیر ہی کیوں کیسے سے بنایا کیا ہے پھر بھلا نیند کیسے آئے۔
۔ او ہویہ سوچیں آتی ہی کیوں ہیں اور کہاں سے آ رہی ہیں اگر یہ میرے دماغ کا کمال ہے تو پھر دوسرے ایسا کیوں نہیں سوچتے اُن کے اور میرے دماغ کی ساخت تو یکساں ہے پھر سوچیں یکساں کیوں نہیں آتیں شعور ۔ لاشعورکے تابع ہے یا لاشعور ۔شعور کے۔۔ یہ لاشعور میرے اختیار میں کیوں نہیں تاکہ میں اِن سے جان چھڑا کر آرام سے سو سکوں ۔ لوگ کہتے ہیں نیند تو عاشق کو نہیں آتی مجھے کون سا عشق ہے جس نے رات بھر سونے نہ دیا مجھے کس محبوب کی تلاش ہے جس کا وصل مجھے سکوں دے سکے ۔
کوئی سائنس داں تو پیدا ہو جو اِن مسائل کو حل کرے ویسے تو ہم بہت بڑے طرے خان بنتے ہیں مگر آج تک سوچوں کے بارے میں معلوم نہ کر سکے یہ کہاں سے آتی ہیں نیوٹن سے پہلے لاکھوں انسان سیب کے درخت کے نیچے بیٹھے ہوں گے اُن کے سر پر نہیں تو سامنے سیب زمین پر گرا ہو گا پھر نیو ٹن ہی کیوں گرویٹی کا موجد بنا ۔۔۔۔ میری بھٹکتی سوچوں نے نہ جانے کہاں کہاں کے چکر لگانے تھے کہ اچانک دور کسی مسجد سے آواز بلند ہوئی۔
۔ اللہ ھو اکبر یقیناً اللہ بڑا ہے شاید میں ہی پاگل ہو گیا ہوں جو رات کے اِس پہر الجھ رہا ہوں آخیر مجھے تلاش کس چیز کی ہے شاید میں اپنے آپ کو تلاش کر رہا ہوں چند لمحے ذہین خالی رہا نہ جانے کس طرح پلکوں کا سفر نیچے کی جانب ہوا تو کچھ خبر نہ رہی۔۔ اب دن کے دو کا عمل ہے میں بیٹھا اپنے آپ کو مجرم کے طور پر پیش کر رہا ہوں آپ کا کیا خیا ل ہے لوگ مجھے پاگل کیوں نہ کہیں افکار ہے میرا۔ عالم سے مفقود کہتے ہیں یہ دیوانہ ۔دیوانے ہیں

Browse More Urdu Literature Articles