Woh Mar Gaya - Article No. 2267

Woh Mar Gaya

وہ مر گیا - تحریر نمبر 2267

آج میں بہت خوش ہوں۔ وہ سفر جو تم دونوں کے سنگ کاٹنا طے پایا تھا، مکمل ہوا۔ اور شاید اسی لئے ان دنوں تم سے راہ و رسم پھر سے بڑھ گئے تھے، ورنہ اس سے پہلے اک عرصہ بیتا، ہم کب کوئی ملا کرتے تھے۔ شاید قدرت کو بھی یہی منظور تھا کہ جن کے ساتھ میں نے اڑان بھری تھی، انہی کے ساتھ ہی مجھے واپس لوٹنا تھا

پیر 24 فروری 2020

تحریر:ذیشان نور خلجی


کہتے ہیں دنیا میں سب سے طاقت ور اور عزیز ترین شے اولاد ہے لوگ اس کے لئے کچھ بھی کر دینے کو تیار رہتے ہیں۔ میں صاحب اولاد تو نہیں، بلکہ ابھی تک کسی کی اولاد کا صاحب بھی نہیں بن سکا۔ یعنی کنوارا ہی ہوں لیکن میرا خیال ہے منطقی طور پر یہ بات درست نہیں۔ کیا مائیں ناجائز اولاد کو عزت کی بھینٹ نہیں چڑھا دیتیں؟ ہمیں کچرا کنڈیوں سے یہ معصوم اور نومولود لاشے اکثر و بیشتر دیکھنے کو ملتے ہی رہتے ہیں۔


اس نے بھی میری عزیز ترین شے یعنی عزت کو خاک میں ملایا تھا اور میری جیتی جاگتی مسکراتی زندگی برزخ میں بدل گئی۔ مجھے اندازہ ہے دوزخ میں جلنا کسے کہتے ہیں۔ اور آگ کی سنگینی اس وقت مزید شدت اختیار کر لیتی ہے جب الاؤ کہیں اندر سے ہی جل رہا ہو۔

(جاری ہے)

گو کہ بارہ برس کا قصہ ہے جب ابھی عمر عزیز کی بارہ پندرہ بہاریں ہی دیکھ پایا تھا لیکن آج سے شروع کرتا ہوں۔


رات کافی دیر سے آنکھ لگی سو صبح اٹھتے اٹھتے دس بج گئے۔ لان میں بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا کہ پیغام ملا وہ مر گیا ہے۔ گو کہ مجھے مدت سے اس کے چلے جانے کا انتظار تھا۔ اس لئے نہیں، کہ میں نے اسے معاف نہیں تھا کیا۔ بلکہ اس لئے، کہ اس کے جنازے میں شریک ہو کے اپنی معافی پہ مہر ثبت کر سکوں۔ اور اپنے من سے اٹھتی اس آواز کو جھٹلا سکوں کہ مجھے ابھی بھی اس سے شکوہ ہے۔

دراصل ہم تین میں سے وہ پہلا تھا۔ گاڑی کی تین سیٹیں بک کروائی گئیں۔ پہلی سیٹ متوفی کی، دوسری سیٹ، جس نے اس کی موت کا پیغام پہنچایا اور تیسری سیٹ، میرے لئے مخصوص تھی۔ کیسا اتفاق ہے کہ سب سے آخر میں سوار ہونے والا سب سے پہلے گاڑی سے اتر گیا۔ دوسرے مسافر کی باری بھی دوسرے نمبر پہ آئی۔ اور سب سے پہلے سوار ہونے والا سب سے آخر میں اترا۔
اور وہ بھی جب ملک الموت اس کے استقبال کو آئے۔میں نے جلدی جلدی غسل کیا اور تازہ بنی ہوئی شیو کو ایک دفعہ پھر سے رگڑ ڈالا۔ سوچنے لگا وہ جاتے جاتے بھی تکلیف کا باعث بن رہا ہے۔
خیر! میں نے پیغامبر کو فون کیا کہ گزری زندگی کے وہ دن، جب تینوں اکٹھے محو سفر تھے، میں ان کو پھر سے محسوس کرنا چاہتا ہوں۔ گو کہ سفر چبھن بھرا، کٹھن اور بہت مشکل تھا لیکن ماضی کے دنوں کو پھر سے جینا بھی اک حسین تجربہ ہوا کرتا ہے۔
اور آج قدرت کی طرف سے آخری آخری موقع ملا ہے کہ ہم تینوں اکٹھے ہو سکیں۔ سو میری خواہش ہے تمہاری ہمراہی میں اس کے پاس جاؤں، لہذا مجھے پک کر لینا۔ وہ کہنے لگا کہ تمیں تو اس کے جانے کا افسوس نہیں ہونا چاہئیے تھا۔ میں نے تائید کی کہ میرے نزدیک اس کی ایسی اہمیت نہیں کہ دل میں اس کے لئے نفرت پالوں اور دس سال ہوئے، میں اسے معاف کر چکا ہوں لیکن واضح کر دوں مجھے رونا بالکل نہیں آنے والا۔
جواباً کہنے لگا افسوس تو مجھے بھی نہیں ہوا لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ ایک اچھا انسان تھا۔ میں سوچنے لگا کہ بھلا کوئی برا بھی ہوتا ہے؟ یا کبھی کسی نے یہ بھی کہا ہے جو چلا گیا وہ برا تھا۔
تجہیز و تکفین کے دوران رات ہوچکی تھی۔ میں نے اپنے حصے کی مٹی لحد پہ ڈالی اور تھکا ہارا ایک پختہ قبر کے سرہانے بیٹھ گیا اور سگریٹ سلگا لیا۔اسی اثناء میں میرا ہمراہی میرے پاس آیا اور چلنے کا اشارہ کیا۔
گھر میں ایک گرما گرم ڈنر ہمارا منتظر تھا۔ کھانے سے فراغت کے بعد کچھ لمحات خاموشی کی نذر ہوئے پھر اس نے اجازت چاہی۔ میں نے اسے گلے لگا لیا اور کہا۔
'' آج میں بہت خوش ہوں۔ وہ سفر جو تم دونوں کے سنگ کاٹنا طے پایا تھا، مکمل ہوا۔ اور شاید اسی لئے ان دنوں تم سے راہ و رسم پھر سے بڑھ گئے تھے، ورنہ اس سے پہلے اک عرصہ بیتا، ہم کب کوئی ملا کرتے تھے۔
شاید قدرت کو بھی یہی منظور تھا کہ جن کے ساتھ میں نے اڑان بھری تھی، انہی کے ساتھ ہی مجھے واپس لوٹنا تھا۔ گو کہ بہت سی تھکن تھی اس سفر میں، لیکن کیا ہے کہ آسانی میرے اختیار میں تو نہیں تھی نا۔ ورنہ گزرے بارہ برس، سگریٹ کے چند کشوں سے پھونک دیتا۔ لیکن سچ کہوں تو میں سرخ رو ہو چکا۔ دل سے اک بھاری پتھر، مانو سرک سا گیا۔
بارہ بج چکے ہیں اور ہماری بارہ سالہ مسافت اختتام کو پہنچ چکی ہے۔ میں تمھارا ممنون ہوں کہ تمھاری بدولت اس سفر کا خاتمہ بالخیر ہوا اور میری دعا ہے تم بہشت ارضی پہ اور وہ بہشت سماوی پہ خوش رہے۔

Browse More Urdu Literature Articles