Yeh Ibrat Ki Ja Hai Tamasha Nahi Hai - Article No. 2144

Yeh Ibrat Ki Ja Hai Tamasha Nahi Hai

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے - تحریر نمبر 2144

رات کے 1 بج رہے تھے مگر میں بدبو کی وجہ سے بے چین ہورہا تھا، بار بار ناک صاف کیا مگر فرق نہیں پڑرہا تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ چلو ایک بوتل پی کر آتا ہوں دُکان سے شاید کچھ فرق پڑ جائے، گلی میں نکلا تو دیکھا میرا دوست بھی گلی میں ہی بیٹھا ہے اور اس کی حالت بھی میرے والی نہیں تو قریب قریب ضرور تھی

سید مصعب غزنوی پیر 7 اکتوبر 2019

رات کے 10 بج رہے تھے اور دوست کے پاس اس کی دُکان پر بیٹھے حالات حاضرہ پر گپ شپ ہورہی تھی۔ فون کی گھنٹی بجی تو دیکھا کہ نیازی صاحب کا فون ہے، تو خیال آیا ضرور کوئی ضروری کام ہوگا ویسے تو نیازی صاحب اس وقت فون نہیں کریں گے۔ فون اٹھایا تو نیازی صاحب بولے مصعب بھائی اسپتال تو آجائیں، اب تو یقین ہوگیا کہ ایمرجنسی کام ہی ہے کوئی۔ میں اور دوست فورا موٹرسائیکل پر اسپتال پہنچے، تو نیازی صاحب بھی ہمارے ساتھ موٹرسائیکل پر سوار ہوگئے اور ہمیں برف خانے لے آئے۔
وہاں انہوں نے بتایا کہ ایک لاوارث لاش ہے جو دریائے راوی میں کہیں دور سے تیرتی ہوئی یہاں پہنچی ہے۔ صبح اس کا جنازہ پڑھیں گے ابھی آپ ایسا کریں کہ یہاں سے میں آپ کو ایک برف کا بلاک لے دیتا ہوں آپ اس کے چار ٹکڑے کر کے لاش کے چاروں طرف رکھ دینا۔

(جاری ہے)

ہماری تحصیل بہت بڑی ہے مگر اس کے باوجود ایک سرد خانہ نہیں ہے اسپتال میں۔ حالانکہ سرد خانے کی اکثر و بیشتر ضرورت پڑتی رہتی ہے، جرائم کی شرح کی ذیادتی کی وجہ سے۔

مگر اس بارے میں حکام نے روایتی سستی ہی اپنائی ہوئی ہے۔ خیر نیازی صاحب نے ہمیں برف کا بلاک لے دیا اور خود انہیں کوئی ضروری کام تھا تو وہ وہاں چلے گئے، اب ہم نے برف کے بلاک کے چار ٹکڑے کیئے اور اسے رکشہ میں رکھ کر اسپتال پہنچے، اسپتال کے باہر ایک پوسٹمارٹم روم میں لاش پڑی ہوئی تھی ابھی ہم کمرے کے قریب ہی تھے کہ ہلکی ہلکی بدبو سی آنے لگ گئی۔
اب ہمیں اندازہ ہوگیا کہ ہم کس مصیبت میں مبتلا ہونے والے ہیں۔ خیر یہ مصیبت کا لفظ اس لیے استعمال کیا کیونکہ پہلے کبھی اس طرح کے کام سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ اب ذمہ داری تو جو لگ چکی تھی وہ تو ادا کرنا ہی تھی اور کام بھی نیکی کا تھا، سو میں نے اور میرے دوست نے ہمت کر کے دروازہ کھولا اور برف کا بلاک ایک ایک کر کے دروازہ کے قریب لا کر رکھ دیا، اب باری تھی لاش کے اردگرد برف لگانے کی اب اس کی ہم میں ہمت نہ تھی۔
باقی ماندہ ہمت نے بھی یوں جواب دیا کہ لاش کو جس کپڑے سے ڈھانپا گیا تھا پہلے تو اس میں سے صرف اس کا بہت پھولا ہوا پیٹ نظر آرہا تھا، مگر ایک دم سے ہمیں اس کے دونوں بازو کپڑے سے باہر نظر آئے جو انتہائی خراب حالت میں تھے۔ انگلیاں کٹی تھیں شاید کیڑے وغیرہ دریا میں اسے کھا چکے تھے، اور باقی بازو کی حالت اس قدر بری تھی کہ بیان کرنا ممکن نہیں۔
اب ہماری ہمت جواب دے گئی مگر برف لگائے بغیر لوٹنا انتہائی نامناسب فعل ہوتا، سو ہم نے اب کی بار بچی کھچی ہمت سمیٹی اور پاؤں سے دھکیل کر برف کے چاروں ٹکڑے چارپائی کے نیچے رکھ دیئے مگر اس قدر شدیدبد بو تھی جو ناک کے اندرون تک کھلبلی مچا چکی تھی۔ اب ہم اسپتال کے پوسٹمارٹم روم کا دروازہ بند کرکے لوٹ رہے تھے کہ پولیس والے نے درخواست کی کہ بھائی جو اینٹیں دروازے کے آگے پڑی تھیں انہیں دوبارہ لگا دیں نہیں تو رات کے وقت کوئی چیز اندر گھس جائے گی، اس درخواست کو ہم نے مان لیا اور دروازہ صحیح سے بند کرنے کے بعد ہم گھر کی طرف پلٹے۔
مگر ان 2 گھنٹوں کے دوران میرے دماغ میں بہت سارے خیالات و سوالات جنم لے چکے تھے، اور بدبو جس کا تجربہ زندگی میں پہلی مرتبہ ہوا تھا میرے لیئے ناقابل فراموش تھی۔ رات کے 1 بج رہے تھے مگر میں بدبو کی وجہ سے بے چین ہورہا تھا، بار بار ناک صاف کیا مگر فرق نہیں پڑرہا تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ چلو ایک بوتل پی کر آتا ہوں دُکان سے شاید کچھ فرق پڑ جائے، گلی میں نکلا تو دیکھا میرا دوست بھی گلی میں ہی بیٹھا ہے اور اس کی حالت بھی میرے والی نہیں تو قریب قریب ضرور تھی۔
اب ہم دونوں نے بوتل پی اور کچھ آدھ گھنٹہ کھلی ہوا میں چل پھر کر گھر لوٹے مگر نیند کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ ذہن میں خیالوں اور سوالوں کی بوچھاڑ تھی جو مجھے اندر سے بار بار ہلا رہی تھی، کون ہو گا یہ، کتنے دن پانی میں رہا ہوگا، کس علاقے سے آیا ہوگا، ہمارے صوبہ سے بھی اس کا کوئی تعلق ہوگا کیا، اس کے گھر والے یقینا اس کی تلاش میں ہوں گے، وہ اس کے انتظار میں ہوں گے، وہ یقینا اس کی راہ تک رہے ہوں گے، کیا کبھی اس نے سوچا بھی تھا کہ یوں اتنی دور کسی اسپتال کے ایک گندے سے کمرے میں میری لاش ساری رات پڑی رہے گی، اس کو صبح یہاں ہی قبرستان میں دفنا دیا جائے گا کیا اس کے گھر والے کبھی جان بھی پائیں گے کہ وہ یہاں دفنایا گیا ہے، یہاں اس کی قبر ہے۔
یہ سارے سوالات میرے لیے بے چینی کا باعث بنے ہوئے تھے۔ اور میں اپنے رب سے دعا مانگنے میں مصروف تھا کہ اے میرے رب میں اس طرح کی موت سے تیری پناہ چاہتا ہوں، میری موت ایمان پر اور تیرے رستہ میں آئے اور جب جان نکلے تو ہر طرح کی آزمائش سے محفوظ فرما لینا، اس ہی کیفیت میں نجانے کب نیند آگئی اور میں سو گیا۔ موبائل کی گھنٹی پر ہی میری آنکھ کھلی، میں نے فون اٹھایا تو نیازی صاحب کی آواز تھی مجھے ایک دم سے اندازہ ہوگیا کہ ضرور جنازہ کیلئے ہی فون ہے۔
نیازی صاحب نے پوچھا کدھر ہیں تو میں نے جواب دیا کہ گھر ہی ہیں تو بولے جنازہ پڑھنا تھا یاد نہیں رہا آپ کو؟ چلیں آجائیں میں آپ کو لے لیتا ہوں۔ میں نے کافی بہانے کئے مگر نیازی صاحب لینے کے لیے آہی گئے تو مجبورا جانا پڑا۔ اب وہاں پر میرے علاوہ بھی 6 لوگ موجود تھے پہلا مرحلہ تھا کفن کا، چونکہ لاش انتہائی خراب ہوچکی تھی تو غسل ممکن نہیں تھا۔
وہ تو شکر کہ نیازی صاحب نے 2 گورکن بلائے ہوئے تھے اب ان دونوں نے اور نیازی صاحب نے کفن پہنانا تھا۔ وہ لوگ اندر کمرے میں چلے گئے اور میں باہر انتظار کرتا رہا، ایک دم دونوں گورکن تیزی سے کمرے سے باہر نکلے اور اپنے منہ سے ماسک اتار کر کھلا سانس لینے لگے۔ اب مجھے اندازہ ہوگیا کہ لاش کی حالت بہت بگڑ چکی ہے، مگر نیازی صاحب نے انہیں دوبارہ بلایا اور ایک بڑا سا شاپر لے کر اندر چلے گئے۔
جس سے اندازہ ہوا کہ لاش کو بنا شاپر کے نہیں اٹھایا جاسکتا لاش مکمل گل سڑ گئی ہے، میں نے گورکن سے پوچھا کہ لاش کی کیا حالت ہے تو وہ بولا چہرہ بلکل مٹ چکا ہے۔ اللہ اکبر کچھ آدھ گھنٹے کے بعد لاش کو باہر لایا گیا اور نیازی صاحب نے اس کا جنازہ پڑھایا، اب پھر سوال نے جنم لیا کہاں کا یہ بیچارہ اور کہاں کے نیازی صاحب یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ اس کا جنازہ نیازی صاحب پڑھائیں گے مگر پھر قرآنی آیت یاد آگئی کہ، ''''بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے'''' جنازہ کے بعد اسے مقامی قبرستان میں دفن کردیا گیا، دفن کے بعد نیازی صاحب نے مجھے بتایا کہ مصعب بھائی یہ یہاں قریب قریب جتنی بھی قبریں ہیں یہ سب لاوارثوں کی ہیں جنہیں میں نے خود دفنایا ہے، اور اب تک 46 لوگ ہوچکے ہیں۔
جسے سن کر مجھے شدید دھچکا لگا، نیازی صاحب نے دعا کروائی اور دعا کے درمیان رونے لگ پڑے، رونا تو مجھے بھی آرہا تھا مگر میں نے اپنے آنسوؤں پر بند باندھ لیا۔ میں نے نیازی صاحب سے کہا کہ نیازی صاحب کوئی اس طرح ذمہ داری نہیں اٹھاتا، تو انہوں نے جواب دیا دیکھیں یہ اللہ کا کرم ہے کہ اللہ پاک یہ کام ہم سے کرواتے ہیں۔ اس کا اجر اللہ کے ہاں بہت ذیادہ ہے۔
اب باعث عبرت بات جو ہمارے لیے ہے وہ یہ ہے کہ، یہ نوجوان بھی کچھ روز پہلے تک اپنے اہل و عیال کے ساتھ بہترین زندگی گزار رہا ہوگا، دوستوں کے ساتھ ہماری طرح خوش گپیاں بھی لگاتا ہوگا۔ گھر والوں کی آنکھوں کیلئے باعث مسرت بھی ہوگا۔ یقینا یہ نوجوان کچھ روز پہلے تک بلکل ہماری طرح ہی اپنے انجام سے بے خبر زندگی گزار رہا ہوگا، اور اسے بلکل کسی بھی قسم کی کوئی بھنک نہیں ہوگی کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
اور یقینا کچھ روز پہلے تک یہ نوجوان اس دنیا کے کھیل تماشے میں مگن اور اس دنیا کی رعنائیوں میں کھویا ہوا ہوگا۔ یقینا اب اس کے اہل و عیال شدت غم سے اور کرب کے لمحوں سے گزر رہے ہوں گے، اور اس کے انجام سے بے خبر اس کی واپسی کی راہ تک رہے ہوں گے۔ یہ شاید اب تک معتبر لوگوں میں شمار ہوتا ہوگا مگر موت اس کی بے نامی پر آئی، اس کو آخری وقت پر اپنے عزیز و اقارب کی قربت بھی میسر نہ آئی اور شاید باقی 45 کی طرح اس کے گھر والے بھی کبھی اس کی قبر نہ تلاش کرپائیں۔
یہ ایک مثال عبرت ہے، یہ دنیا اس طرح کی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ جو صرف ہمیں عبرت سکھانے کیلئے ہیں مگر ہم ہیں کہ ہم بھی اپنے انجام سے بے خبر ہیں۔ اِعلَمُو اَنَّمَا الحَیٰوةُ الدُّنیَا لَعِبٌ وَّ لَہوٌ (الحدید) ترجمہ: خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشہ ہے

Browse More Urdu Literature Articles