Jamia Kashmir Ki Urdu Adbi Khidmat - Article No. 2255

Jamia Kashmir Ki Urdu Adbi Khidmat

جامعہ کشمیر سرینگر کی اردو ادبی خدمات - تحریر نمبر 2255

پچھلے چھ ماہ سے انٹرنیٹ بند ہونے کے سبب اب لوگوں کو فرصت ملی ہے کہ لائبریوں میں جاکر کتابوں کا مطالعہ کریں۔اول تو اس کتاب کی اشاعت کے بارے میں بہت کم لوگوں نے سنا ہوگا۔

بدھ 5 فروری 2020

ریحانہ عبداللہ
جامعہ کشمیر سرینگر کا نام سنتے ہی مجھے وہ دن یاد آتے ہیں جب میں جامعہ کشمیر کی طالبہ تھی۔دوسال تک محنت ومشقت کرنے کے باوجود صرف مصّنف کی زیر نظر کتاب کا انتساب ملا۔اسی انتساب کی وجہ سے میں نے کتاب کا تبصرہ لکھنا ضروری سمجھا۔
میرے ہاتھوں میں ڈاکٹر محمد یاسین گنائی کی کتاب”جامعہ کشمیر کی اردو ادبی خدمات“ کے عنوان سے یہ ضخیم کتاب ہے جس کے سرورق پر علامہ اقبال لائبریری کی دلکش ودلآویز تصویر اپنے حسن وجمال سے کھینچتی چلی جارہی ہے۔
کتاب کے بیک کور پر مصنف کی تصویر اور ان کے شائع شدہ تحقیقی وتنقیدی مضامین کی فہرست ہے کہ وہ کن رسائل وجرائد میں شائع ہوئے ہیں۔ان متنوع رسائل وجرائد سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کے مضامین کہاں کہاں شائع ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

کتاب سخت جلد کے ملبوس میں زیور طبع ہوئی ہے۔زیر نظر کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے اوراس کی کل ضخامت ۱۰۰۷ صفحات ہے۔یہ کتاب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے معالی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔

کتاب کا انتساب انسان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ مصنف نے کتاب کا انتساب جامعہ کشمیر کی مشترکہ خوبیوں کے نام کیا ہے جن میں کم نمبرات جیسے چھ استعارے شامل ہیں۔میزان پبلیشرز بٹہ مالو سرینگر نے کتاب کو شائع کیا ہے اور کتاب کی قیمت۵۶۸ روپے ہے۔کتاب کا سرنامہ بھوپال سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مختار شمیم نے لکھا ہے ۔اس کتاب میں ڈاکٹر ایس ایم شکیل کا لکھا ہوا حروف چند بھی شامل ہے جو اندور یونیورسٹی میں مصنف کے ڈاکٹریٹ مقالے کے گائنڈ رہے ہیں۔
اتنا ہی نہیں دہلی نیورسٹی کے پروفیسر خالد علوی نے بھی کتاب پر تاثرات لکھے ہیں جو شاملِ کتاب ہیں۔اظہارِ تشکر میں مصنف نے کتاب لکھنے کے مقاصد اور ان دوست واحباب کا ذکر کیا ہے جنہوں نے وقتاً فوقتاً کتاب لکھنے میں نیک مشوروں سے نوازا ہے۔
آٹھ ابواب پر مشتمل اس کتاب کے پہلے باب میں جامعہ کشمیر کا تعارف پیش کیا گیا ہے کہ یہ یونیورسٹی کن حالات میں قائم ہوئی ہے۔
ابتداء سے تاحال چانسلر،پروچانسلر اوروائس چانسلر رہ چکے حضرات کانام ان کے ادوار کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔اتنا ہی نہیں یونیورسٹی کے ہر ایک تدریسی وتحقیقی مرکز کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ یہ مراکز کب وجود میں آئے تھے ۔مصنف نے خطہ کشمیرکے دس اضلاع اورخطہ لداخ کے دو اضلاع کے حوالے سے ان اضلاع کا مختصر تعارف بھی پیش کیا ہے اور ان اضلاع میں قائم ڈگری کالجوں،بی ایڈ کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں کا بھی تعارف پیش کیا ہے جو کشمیر یونیورسٹی کے ساتھ الحاق شدہ ہیں۔
اس کام کے بدولت جامعہ کشمیر کے الحاق شدہ تمام تعلیمی اداروں کا مختصر تعارف ملتا ہے۔رائے دینا میرا مشغلہ نہیں ہے البتہ یہ کہنا فرض سمجھتی ہوں کہ مستقبل میں اس باب میں ان الحاق شدہ تعلیمی اداروں کی اردو ادبی خدمات کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے۔
زیر تبصرہ کتاب کا دوسرا باب جامعہ کشمیر کا قیام ومقصد ایک مختصر ترین باب ہے۔اس میں جامعہ کے قیام کے ساتھ ساتھ اس مقاصد کا ذکر کیا گیا ہے۔
مصنف نے جامعہ کشمیر کے بنیادی اور نو اہم مقاصد کے بارے میں ذکر کیا ہے۔مصنّف کے مطابق جامعہ کشمیر کوکچھ مقاصد میں کامیابی ملی ہے اور کچھ چیزیں تاحال۱۹۴۸ء جیسے ہی نظر آتے ہیں۔بہرحال کتاب کا تیسرا باب جامعہ کشمیر کے گردنواح میں سیاحتی،تاریخی اور مذہبی مقامات کے بارے میں ہے۔ایسا لگتا ہے اس بات کا جامعہ کشمیر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، البتہ مصنف نے ماحول کے اثرات کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ جامعہ کشمیر کے گردونواح کے سیاحتی ومذہبی مقامات اس یونیورسٹی کے حسن میں چار چاند لگاتے ہیں۔
جیسے یونیورسٹی کا جھیل ڈل کے کنارے آباد ہونا اور جھیل کے اُس پارزبرون پہاڑ کے دامن میں نشاط،شالیمار ،ہارون اورباغِ گل لالہ کے باغات اس دانش گاہ کو کوہ نور ہیرے جیسی اہمیت دیتے ہیں اور مذہبی مقامات جو جامعہ کشمیر جاتے وقت راستے میں آتے ہیں ان کے فیض وبرکت سے ہی جامعہ کے طلبہ میں ذہانت وفطانت پیدا ہوتی ہے۔جامع مسجد،درگاہ حضرت بل،مخدوم صاحب،دستگیر صاحب،ہاری پربت ،چھٹی سنگھ پادشاہی وغیرہ کی تاریخی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے۔
مصنف نے ان تمام تاریخی مقامات کی تاریخ کے بارے میں دو دوکلمات تحریر کیے ہیں۔اور جامعہ کشمیر کے مختلف تحقیقی مراکز نے ان سیاحتی،تاریخی اور مذہبی مقامات پر کس قسم کا تحقیقی کام کرایا ہے اس کا بھی ذکر ملتا ہے۔
زیر نظر کتاب کا چوتھا باب ادبی لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔اس میں مصنف نے رسمی کام کو نظر انداز کرکے جامعہ کشمیر کے اُن دروازوں،ہوسٹلوں،تحقیقی مراکز،تدریسی اداروں ،آڈی ٹوریموں وغیرہ کا ذکر کیا ہے جن کو کسی علمی وادبی،مذہبی یا سیاسی شخصیت کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
مصنف نے نہ صرف ان چیزوں کے اہمیت کے بارے میں لکھا ہے بلکہ جن کے نام سے یہ چیزیں قائم کی گئی ہے اُ ن کے بارے میں بھی دودوکلمات لکھنا اپنا فرض سمجھاہے۔ان شخصیات میں غنی کاشمیری ،لل عارفہ،حبہ خاتوں،قراة العین حیدر،ابن خلدون ،مہاتما گاندھی،مدن جیت سنگھ،علامہ اقبال،شیخ مخدوم صاحب،سرسید احمد خان،مولانا رومی،بڈشاہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
جامعہ کشمیر کے اکثر طلبا ان شخصیات کے بارے میں نہیں جانتے ہیں کہ ان کے کمالات یا خدمات کس قسم کے رہے ہیں۔زیر نظر کتاب کے پہلے چار ابواب ضمنی ابواب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ کتاب اصل میں باب پنجم ،ششم اور ہشتم کی وجہ سے لکھی گئی ہے۔ان ابواب میں مصنف نے جامعہ کشمیر کے اُن تین اداروں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے صحیح معنوں میں اردو زبان وادب کو ایک نئی سمت عطا کی ہے۔
باب پنجم میں مصنف نے شعبہ اردو کے حوالے سے ۳۵۰ صفحات تحریر کیے ہیں۔اس میں شعبہ اردو کے قیام کا ذکر کیا گیا ہے اور اس شعبہ سے تعلق رکھنے والے انیس مستقل پروفیسر صاحبان اوردووزیٹنگ پروفیسر صاحبان کی علمی وادبی خدمات کا ذکر کیا ہے۔ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تمام تحقیقی وتنقیدی مقالات کاذکر کیا گیا ہے۔نہ صرف ان مقالات کے ضمن میں مقالہ نگار،نگران ،تاریخ،موضوع اور ابواب کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ ان مقالات کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے اوریہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ شخصیات،اصناف،تصانیف،لسانیات،علاقائی ادب،تحریکات ورجحانات تقابل وغیرہ پر کتنے مقالات لکھے گئے ہیں۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ مصنف نے ہر مقالے کے موضوع کے حوالے سے لکھا کہ اس موضوع پر اس سے پہلے اور بعد میں کتنے مقالات یا کتابیں لکھی گئی ہیں۔اس ضخیم ترین باب میں شعبہ اردو کے ترجمان جریدہ ”بازیافت“ کے متعدد شماروں میں شائع ہونے والے مضامین کا اشاریہ بھی ترتیب دیا گیا ہے۔شاید مصنف کی رسائی”بازیافت“ کے چند شماروں تک نہیں پہنچ پائی ہے اور نیا شعور اور ادبیات کے کسی بھی شمارے کا ذکر نہیں ملتا ہے۔
البتہ مصنف نے صاف طور پر لکھا ہے کہ اگرکسی جگہ دستیاب ہوتو کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں شامل کیا جائے گا۔سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف اس باب میں شعبہ اردو کی طرف سے منعقد کیے گئے ۱۷ سمیناروں اور انیس توسیعی خطبا ت کا بھی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔مصنف نے سمیناروں میں پڑھے گئے مقالات کا ذکر اس نیت سے کیا ہے کہ نئے ریسرچ اسکالروں کو مدد مل سکے۔
منجملہ یہ باب شعبہ اردو کی علمی وادبی خدمات کے بارے میں ایک ادبی تاریخ کی حیثیت رکھتا ہے اور شاید ہی شعبہ اردو کے بارے میں اس سے پہلے اتنا جاندار اور شاندار تحقیقی وتنقیدی مضمون لکھا گیا ہو۔
زیر نظر کتاب کا باب ششم اقبال انسٹی ٹیوٹ کے اقبالیاتی خدمات کے بارے میں ہے۔اس میں بھی مصنف نے شعبہ اردو کے طرز پر اقبال انسٹی کے مستقل اور وزیٹنگ پروفیسر صاحبان کی علمی وادبی اور اقبالیاتی خدمات کا جائزہ پیش کیا ہے۔
شعبہ اردو کے مقابلے میں یہاں وزیٹنگ پروفیسر صاحبان کی تعداد زیادہ نظر آتی ہے۔اس تحقیقی مرکز کے تحقیقی وتنقیدی مقالات ہوں یا پھر ادبی جریدہ اقبالیات ہو،سمینار ہوں یا پھر توسیعی خطبات ہوں،انسٹی ٹیوٹ کی مطبوعات ہو ں یا پھرلائبریری میں پاکستان سے لائی گئی کتابیں ہوں ۔غرض مصنف نے ایک ایک چیز کا باریکی سے غور وخوص کیا ہے۔ساتواں باب نظامت فاصلاتی تعلیم کے شعبہ اردو کی اردو ادبی خدمات کے حوالے سے ہے۔
اس میں ڈسٹنس ایجوکیشن کے فوائد کے ساتھ مسائل کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔دستیاب شدہ اکتسابی مواد میں غلطیوں کے انبار کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ شعبہ اردو سے وابستہ پروفیسر شفیقہ پروین،پروفیسرسجان کور بالی،ڈاکٹرالطاف انجم اورڈاکٹر عرفان عالم کی علمی وادبی خدمات کو بھی موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔نظامتِ فاصلاتی تعلیم کی ایک قدیم روایت سمیناروں،توسیعی خطبات،شیخ العالم لیکچر،ورکشاپوں کے انعقاد میں ملتی ہے۔
مصنف نے ایسی سینکڑوں مجالس کا ذکر تفصیل سے کیا ہے ۔کتاب کا آخری باب جامعہ کشمیر کے دیگر اداروں کی اردو ادبی خدمات کے حوالے سے ہے۔اس میں ان شخصیات کی اردو ادبی خدمات کا ذکر کیا گیا ہے جن کا تعلق براہ راست اردو اداروں سے نہیں رہا ہے ،البتہ انہوں نے اردو کی دل وجان سے خدمت انجام دی ہے۔ان میں قاضی غلام احمد،اشرف عادل،شمس الدین شمیم،رحمان راہی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اتنا ہی نہیں مرکز نور سنٹر،ایشین اسٹیڈیز سنٹر،شاہ ہمدان مرکز،شعبہ عربی،شعبہ فارسی،شعبہ کشمیری،شعبہ لسانیات وغیرہ نے بھی اردو زبان وادب کے حوالے سے کچھ خدمات تحقیقی مقالات یا پھر سمیناروں کی بدولت انجام دی ہے ان کا بھی ذکر کتاب میں موجود ہے۔
جامعہ کشمیر کے بارے میں مصنف نے کتابیات کے باب میں ۱۴۹ کتابوں اور پچاس سے زائد رسائل وجرائد کا ذکر کیا ہے جن سے مقالے کی تکمیل ممکن ہوسکی ہے۔
ان حوالہ جاتی کتابوں کی مدد سے مصنف اپنے بات ثابت کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوئے ہیں ،لیکن اس سے اہم قدم یہ اٹھایا گیا ہے کہ جامعہ کشمیر کے طالب علموں ،ریسرچ اسکالروں اور جامعہ کشمیر سے الحاق شدہ کالجوں کے اساتذہ کے اقوال کو جگہ جگہ شامل کیا گیا ہے۔ان اقوال سے مصنف کے بیانات اور تاثرات میں ایک قسم کی تائید ہوتی ہے۔جن اہم لوگوں کے تاثرات جگہ جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں ان میں ڈاکٹر فریدہ کول(سا بق صدر شعبہ اردو زنانہ کالج مولانا آزاد روڑ سرینگر)،ڈاکٹرگلزار احمد صدیقی(محکمہ سکول ایجویشن،پلوامہ)،ڈاکٹر امتیاز احمد(صدر شعبہ اردو ڈگری کالج شوپیان)،ڈاکٹرمحمد حسین زرگر(صدر شعبہ اردو،ڈگری کالج کلگام)،ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی(ڈگری کالج کالا کوٹ)،ڈاکٹر شوکت احمد ڈار(ڈگری کالج بُدل)،ڈاکٹر آزاد ایوب بٹ(ڈگری کالج اخرال)،ڈاکٹر محمد حسین وانی(ڈگری کالج مہان پور)،شاد سجاد(ڈگری کالج چنانی)،ڈاکٹر مشتاق عبداللہ(ریسرچ اسکالر اندور یونیورسٹی)،ڈاکٹر خورشید احمد(ڈگری کالج کلم کلگام)،عبدالغنی کمار(صدر شعبہ اردو بائر کالج پلوامہ)وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

دوتین صفحات میں اتنی ضخیم کتاب کا احاطہ کرنا آسان کام نہیں ہے۔اتنی بڑی کتاب کا مطالعہ کرنا اکیسویں صدی میں داستان امیر حمزہ کا مطالعہ کرنے کے مترادف ہے کیونکہ آج کل کے طلبہ زیادہ وقت انٹرنیٹ پر ہی صرف کرتے ہیں اور پچھلے چھ ماہ سے انٹرنیٹ بند ہونے کے سبب اب لوگوں کو فرصت ملی ہے کہ لائبریوں میں جاکر کتابوں کا مطالعہ کریں۔اول تو اس کتاب کی اشاعت کے بارے میں بہت کم لوگوں نے سنا ہوگا۔
اس تبصرے کی مدد سے مزید کچھ لوگ اس ضخیم کتاب کے بارے میں جان جائیں گے اور دیکھنے والی بات ہوگی کہ کتنے صاحبِ ذوق اس کتاب کا مطالعہ کرکے مصّنف کی حوصلہ آفزائی کریں گے اور اپنی تنقیدی آرا سے نوازیں گے۔مستقل قارئین ہمیشہ اچھی کتابوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور نوجوان قلمکار ہمیشہ اچھے قارئین سے دادِ تحسین کے ساتھ ساتھ خامیوں کی نشاندہی کا طلبگار ہوتا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles