Awaz - Article No. 1743

Awaz

آواز - تحریر نمبر 1743

’’ہمارے گورنر منصور بن زیاد کے پاس جاؤ اور کہہ ہمارے تجھ پر دو کروڑ درہم واجب ہیں۔ وہ ابھی ادا کر۔ اگر وہ مغرب تک نہ دے تو اس کا سر اتار لانا مگر دیکھ اس کے بارے میں مجھ سے کوئی گفت و شنیدنہ کرنا بس اس کا سر میرے پاس لے آنا۔“

جمعرات 9 اگست 2018

کہتے ہیں جس زمانے میں ہارون الرشید اپنے وزیروں کے خاندان برامک سے ناراض تھا اس نے اپنے لیے وزیر صالح کو بلایا اور کہا:
’’ہمارے گورنر منصور بن زیاد کے پاس جاؤ اور کہہ ہمارے تجھ پر دو کروڑ درہم واجب ہیں۔ وہ ابھی ادا کر۔ اگر وہ مغرب تک نہ دے تو اس کا سر اتار لانا مگر دیکھ اس کے بارے میں مجھ سے کوئی گفت و شنیدنہ کرنا بس اس کا سر میرے پاس لے آنا۔


ؤصالح ، منصور کے پاس گیا اور اسے ہارون الرشید کا پیغام پہنچایا۔ اس نے کہا: ”میں مارا گیا“۔
اور قسم کھائی: ”میرا تو سارا سامان بھی اتنے کا نہیں ہے۔ اتنا روپیہ کہاں سے لاؤں؟“
وہ بولا: ”اچھا مجھے اپنی بیوی بچوں سے رخصت ہونے دے کچھ وصیت کر لینے دے اور عزیزو اقارب سے مل لینے دے“۔

(جاری ہے)


منصور کے گھر والوں کو اطلاع ہوئی تو کہرام مچ گیا سب رونے پیٹنے لگے صالح نے کہا:
”شاید برامک کے ہاتھوں تیری خلاصی ہو جائے۔

وہ بڑے سخی اور شریف لوگ ہیں۔ مصیبت زدوں کی مدد کرتے ہیں چل وہاں چلیں۔“
وہ رونے لگا۔
صالح کہتا ہے:
”ہم یحییٰ بن خالد بکر مکی کے پاس گئے اور ساراقصہ بیان کیا تو وہ بڑا غمگین ہوا۔ سر جھکا لیا اور دیر تک خاموش رہا۔ پھر سر اٹھایا، خزانچی کو بلایا اور اس سے پوچھا:
”ہمارے خزانے میں کتنا روپیہ ہے؟“
اس نے کہا:”کوئی دس لاکھ درہم ہیں۔
“یحییٰ نے کہا: ”لے آؤ“۔
پھر اپنے لڑکے فضل کی طرف قاصد بھیجااور کہا:”اس سے کہنا کچھ زمینیں خریدنی ہیں جو کچھ روپیہ ہو بھیج دے ۔“اس نے بیس لاکھ بھیج دیئے۔ ایک اور قاصد اپنے بیٹے جعفر کی طرف بھیجا اور کہا:
ایک کام آن پڑا ہے۔ روپے کی ضرورت ہے“۔ تو جعفر نے بیس لاکھ درہم بھیجے۔
منصورنے کہا:”حضور میں نے آپ کا دامن تھاما ہے مجھے آپ کے سوا کوئی نہیں چھڑا سکتا۔
بقیہ قرضہ کیسے پورا ہوگا؟“
یحییٰ نے سرجھکا لیا اور رونے لگا پھر کہا: ”ارے غلام !امیرالمومینین ہارون الرشید نے ہماری باندی و نانیر کو ایک بڑا قیمتی گوہر عطا کیا تھا۔ اس کے پاس جا کر اور کہہ کہ وہ گوہر دے دے ۔
غلام گیا اور لے آیا۔ یحییٰ نے کہا:
”صالح !میں نے اسے امیر المومینین کے لیے دولاکھ دینار میں خریدا تھا۔
وہ اس کی قیمت جانتے ہیں۔ انہوں نے یہ گوہر میری باندی و نانیر کو انعام میں دیا تھا ۔ اب مال پورا ہو چکا۔ امیرالمومینین سے صرف عرض کرنا منصور کو ہمیں بخش دیجیے“۔
صالح کہتا ہے:
”یہ رقم اور گوہر لے کر میں خلیفہ کی طرف چلا ابھی راستے میں تھے کہ میں نے منصور کو ایک شعر پڑھتے سناجس کا مطلب تھا کہ یحییٰ نے سخاوت کی بنا پر یہ سب کچھ نہیں دیا بلکہ میری زبان کے ڈر سے دیا ہے“۔

میں نے عرض کیا: ”سر زمین پر ایک سے زیادہ کوئی شریف نہیں اور تجھ سے زیادہ کمینہ نہیں“۔
ہارون الرشید نے جو وہ گوہر دیکھا تو بڑا تعجب کیا اور کہا:”ہم دیا ہوا مال واپس نہیں لیتے ۔ یہ گوہر واپس لے جاؤ“۔
صالح کہتا ہے:
”میں نے وہ گوہر یحییٰ کو واپس کیا اور منصور کے کمینہ پن کا بیان کیا تو وہ کہنے لگا جب انسان پریشان ہوتا ہے تو وہ کچھ کہتا ہے ضمیر کی آواز نہیں ہوتی پھر وہ اس کی تعریف کرنے لگا تو میں رو دیا۔ میں نے کہا،”آسمان تجھ جیسا پیدا کر سکے گا“.

(حکایات امام غزالی)

Browse More Urdu Literature Articles