Ayaz Ki Firasat - Article No. 1701

Ayaz Ki Firasat

ایاز کی فراست - تحریر نمبر 1701

کہتے ہیں ٗ آدمی کی خوبیاں ہی اکثر اوقات اس کی دشمن بن جاتی ہیں۔ ایاز کی ذہانت و عقلمندی،دیانت و امانت اور اپنے آقا کے ساتھ اس کی مکمل فرمانبرداری ایسی خوبیاں تھیں جنہوں نے تمام امیر وزیروں کو اس کا دشمن بنا دیا تھا۔

پیر 14 مئی 2018

کہتے ہیں ٗ آدمی کی خوبیاں ہی اکثر اوقات اس کی دشمن بن جاتی ہیں۔ ایاز کی ذہانت و عقلمندی،دیانت و امانت اور اپنے آقا کے ساتھ اس کی مکمل فرمانبرداری ایسی خوبیاں تھیں جنہوں نے تمام امیر وزیروں کو اس کا دشمن بنا دیا تھا۔ ایاز کے خلاف ان کے دلوں میں کدورت، بغض اور حسد کا مادہ روز بروز بڑھتا ہی جاتا تھا۔ اُدھر سلطان کا لطف و کرم اور انعام و کرام ایاز کے حق میں روز بروز بڑھتا جاتا۔
ایک دن حاسد امراء میں سے ایک نے جرأـت کر کے سلطان محمود سے کہا ’’جہاں پناہ! آپ نے ایک معمولی غلام کو تیس امیروں کے برابر اعزاز و مراتب عطا فرمائے ہیں۔ ہم غلاموں کی ناقص عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ اکیلے ایاز میں تیس آدمیوں کی عقل و بصیرت کیسے آگئی؟‘‘ سلطان نے اس وقت اس گلے کا کوئی جواب نہ دیا اور خاموش رہا۔

(جاری ہے)

چند روز بعد دربار کے تیس امیروں کو ہمراہ لے کر شکار کے ارادے سے جنگلوں کی طرف نکل پڑا۔

ایک پہاڑی کی چوٹی سے دیکھا کہ میلوں دور ایک قافلہ پڑائو ڈالے ہوئے ہے۔ کچھ دیر بعد سلطان نے ایک امیر کو حکم دیا کہ قافلے والوں سے پوچھو کہ کہاں سے آ رہے ہو؟ وہ امیر سلطان کے حکم کی تعمیل میں گیا اور کچھ دیر بعد واپس آ کر بتایا کہ قافلہ شہر رے سے آ رہا ہے۔ سلطان نے پوچھا ’’قافلے والوں کی منزلِ مقصود کیا ہے؟‘‘ اس کا جواب امیر نہ دے سکا ٗ کیونکہ یہ بات اس نے قافلے والوں سے پوچھی ہی نہ تھی۔
سلطان نے دوسرے امیر سے کہا ’’اب تم جائو اور پوچھو کہ کارواں کدھر جائے گا؟‘‘ دوسرا امیر جواب لایا کہ ان کا ارادہ یمن جانے کا ہے۔ سلطان نے پوچھا قافلے والوں کے پاس سامانِ سفر کیا کیا ہے؟‘‘ اس بات کا جواب وہ نہ دے سکا کیونکہ اس نے قافلے والوں سے پوچھا ہی نہ تھا کہ کس قدر سامان ان کے پاس ہے۔ سلطان نے تیسرے امیر کو بھیجا کہ جائو اور دیکھ کر آئو کہ کس قدرسامان قافلے والوں کے پاس ہے۔
وہ گیا اور واپس آ کر بتایا کہ ان کے پاس ضرورت کی ہر شے موجود ہے۔ سلطان نے دریافت کیا ’’یہ قافلہ شہر رے سے کب روانہ ہوا تھا؟‘‘ وہ امیراس سوال کا جواب دینے سے عاجز ہوا، کیونکہ یہ بات اس نے قافلے والوں سے معلوم ہی نہ کی تھی۔ سلطان نے چوتھے امیر سے کہا ’’جائو اور یہ بات معلوم کرکے آئو۔‘‘ اس نے واپس آ کر عرض کیا ’’قافلے والے اس ماہ کی ساتویں تاریخ کو رے سے نکلے تھے۔
سلطان نے پوچھا ’’شہر رے میںچیزوں کے دام کیا کیا ہیں؟‘‘ وہ امیر اس سوال پر دم بخود رہ گیا،کیونکہ یہ بات اس نے قافلے والوں سے پوچھی ہی نہ تھی۔ غرض سب امیر ناقص العقل اور پریشان ذہن ثابت ہوئے۔ ہرشخص ایک ہی سوال کا جواب لے کر آیا اور قافلے والوںکا پورا حال کسی نے جاننے کی زحمت گوارا نہ کی۔ اس مشاہدے کے بعد سلطان نے ان تیسوں امیروں سے کہا ’’تم لوگ ایاز پر اعتراض کرتے ہو کہ اسے تم سب کے برابر اعزاز اور مرتبہ کیوں عطا کیا گیا۔
اب اس کا جواب سن لو۔ ان قافلے والوں کے سفر کی تحقیق کے لیے میں نے سب سے پہلے، تم لوگوں کی لاعلمی میں ایاز کو روانہ کیا تھا جتنے سوالوںکے جواب تم تیس مرتبہ لے کر آئے ٗ ایاز ان تمام سوالوں کے جواب ایک ہی دفعہ لے آیا تھا؟‘‘ یہ سن کر سب امیروں کے چہرے شرم سے پانی پانی ہوگئے اور انہوں نے اپنی گستاخی کی معافی چاہتے ہوئے کہا ’’بے شک ایاز کی برابری ہم نہیں کرسکتے،اس کی ذہانت اور قابلیت خداداد ہے۔ یہ صفت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے ٗ کسبی نہیں۔ اللہ نے چاند کو حسین و جمیل چہرہ عطا کیا ہے اور مٹی کو سوندھی سوندھی خوشبو بخشی ہے۔‘‘

Browse More Urdu Literature Articles