Be Aib Zaat - Article No. 1314
بے عیب ذات - تحریر نمبر 1314
ایک روز ایک بزرگ کی محفل میں اس نوجوان کا ذکر ہوا تو میں نے اس نوجوان کی اس کمزوری کا ذکر کیا اور پھر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ میرے نزدیک اس کی گفتگو میں یہ نقص اس لئے ہے کہ اس کے سامنے کے دانت صحیح نہیں ہیں۔
ہفتہ 13 مئی 2017
حکایتِ سعدی:
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نوجوان بے حد حسین وجمیل تھا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ نیک اطوار کا بھی مالک تھا۔وہ نوجوان علم کی دولت سے بھی مالا مال تھا اور جس موضوع پر بھی گفتگو کرتالوگ اس کی جانب متوجہ ہوجاتے اور نہایت انہماک سے اسے سنتے تھے۔ اس کے فیصلوں کی قدر کی جاتی تھی۔اور وہ ایسا روشن چراغ تھا جس کے سامنے کسی دوسرے چراغ کی روشنی مانند تھی۔ان تمام خوبیوں کے باوصف اس میں ایک عیب تھا کہ وہ الفاظ کو ان کے صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کرنے کی قدرت نہ رکھتا تھا۔
ایک روز ایک بزرگ کی محفل میں اس نوجوان کا ذکر ہوا تو میں نے اس نوجوان کی اس کمزوری کا ذکر کیا اور پھر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ میرے نزدیک اس کی گفتگو میں یہ نقص اس لئے ہے کہ اس کے سامنے کے دانت صحیح نہیں ہیں۔
میری بات سننے کے بعد وہ بزرگ ناراض ہوئے بولے کہ مجھے حیرانگی ہوتی ہے کہ اتنی خوبیاں دیکھنے کے بعد بھی تم اس نوجوان کے ایک معمولی عیب پر نظر رکھے ہوئے ہو۔کیا یہ افسوس کا مقام نہیں کہ طاؤس کو دیکھنے والے کی نظر اس کے بدزیب پیروں پر ہی مرکوز ہے۔بہتر تو یہ ہے کہ انسان ہنر اور خوبیاں دوسروں کی ذات میں تلاش کرے اور عیب اپنی ذات کے دیکھے۔یاد رکھو کہ دنیا میں اچھائیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی۔جس طرح گلزار میں پھول بھی ہوتے ہیں اور کار بھی۔جس کا دل میلا ہو اسے ہر چیز میلی نظر آتی ہے۔جس کا دل روشن ہو اسے ہر چیز روشن نظر آتی ہے۔
مقصود بیان:
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ بے عیب ذات صرف اللہ عزوجل ہی کی ہے۔پس دوسروں کی ذات میں عیب تلاش کرنے سے بہتر ہے کہ اپنی ذات میں موجود عیبوں پر نگاہ دوڑائی جائے اور ان کو دور کرنے کی کوشش کی جائے اور دوسروں کے اندر موجود اچھی باتوں کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نوجوان بے حد حسین وجمیل تھا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ نیک اطوار کا بھی مالک تھا۔وہ نوجوان علم کی دولت سے بھی مالا مال تھا اور جس موضوع پر بھی گفتگو کرتالوگ اس کی جانب متوجہ ہوجاتے اور نہایت انہماک سے اسے سنتے تھے۔ اس کے فیصلوں کی قدر کی جاتی تھی۔اور وہ ایسا روشن چراغ تھا جس کے سامنے کسی دوسرے چراغ کی روشنی مانند تھی۔ان تمام خوبیوں کے باوصف اس میں ایک عیب تھا کہ وہ الفاظ کو ان کے صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کرنے کی قدرت نہ رکھتا تھا۔
ایک روز ایک بزرگ کی محفل میں اس نوجوان کا ذکر ہوا تو میں نے اس نوجوان کی اس کمزوری کا ذکر کیا اور پھر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ میرے نزدیک اس کی گفتگو میں یہ نقص اس لئے ہے کہ اس کے سامنے کے دانت صحیح نہیں ہیں۔
(جاری ہے)
میری بات سننے کے بعد وہ بزرگ ناراض ہوئے بولے کہ مجھے حیرانگی ہوتی ہے کہ اتنی خوبیاں دیکھنے کے بعد بھی تم اس نوجوان کے ایک معمولی عیب پر نظر رکھے ہوئے ہو۔کیا یہ افسوس کا مقام نہیں کہ طاؤس کو دیکھنے والے کی نظر اس کے بدزیب پیروں پر ہی مرکوز ہے۔بہتر تو یہ ہے کہ انسان ہنر اور خوبیاں دوسروں کی ذات میں تلاش کرے اور عیب اپنی ذات کے دیکھے۔یاد رکھو کہ دنیا میں اچھائیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی۔جس طرح گلزار میں پھول بھی ہوتے ہیں اور کار بھی۔جس کا دل میلا ہو اسے ہر چیز میلی نظر آتی ہے۔جس کا دل روشن ہو اسے ہر چیز روشن نظر آتی ہے۔
مقصود بیان:
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ بے عیب ذات صرف اللہ عزوجل ہی کی ہے۔پس دوسروں کی ذات میں عیب تلاش کرنے سے بہتر ہے کہ اپنی ذات میں موجود عیبوں پر نگاہ دوڑائی جائے اور ان کو دور کرنے کی کوشش کی جائے اور دوسروں کے اندر موجود اچھی باتوں کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
Browse More Urdu Literature Articles
پانی کا تحفہ
Paani Ka Tohfa
بڑھیا کی بلی
Burhiya Ki Billi
ضمیر کی آواز
Zameer Ki Awaz
بیٹی کی شادی
Beti Ki Shaadi
Urdu AdabAdab Nobal PraizPakistan K Soufi ShaairOverseas PakistaniMushairyInternational Adab
Arabic AdabGreek AdabBangal AdabRussian AdabFrench AdabGerman AdabEnglish AdabTurkish AdabJapanes AdabAfrican AdabEgyptian AdabPersian AdabAmerican Adab
National Adab
ApbeetiAfsanaMazmoonInterviewsAdab NewsBooks CommentsNovelLiterary MagazinesComics WritersAik Kitab Aik Mazmoon100 Azeem AadmiHakayaatSafarnamaKahawatainAlif Laila Wa LailaTaqseem E Hind