Be Kaar Aansoo - Article No. 1210
بے کار آنسو - تحریر نمبر 1210
ایک کتانزع کے عالم میں تھا اور اس کا آقاپاس بیٹھا آنسو بہا رہاتھا فرط رنجم وغم سے اس کی ہچکی بندھی گئی تھی روتا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ ہائے ! مجھے پر تو آسمان ٹوٹ پڑا میں مارا گیا میں کیا کروں کدھر جاؤں کون سے جتن کروں کہ میرے عزیز ہزار جان کتے کی جان بچ جائے ۔ اس کے مرنے کے بعد میں کیوں کرجیوں گا ۔
ہفتہ 25 فروری 2017
حکایت رومی رحمتہ اللہ علیہ :
ایک کتانزع کے عالم میں تھا اور اس کا آقاپاس بیٹھا آنسو بہا رہاتھا فرط رنجم وغم سے اس کی ہچکی بندھی گئی تھی روتا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ ہائے ! مجھے پر تو آسمان ٹوٹ پڑا میں مارا گیا میں کیا کروں کدھر جاؤں کون سے جتن کروں کہ میرے عزیز ہزار جان کتے کی جان بچ جائے ۔ اس کے مرنے کے بعد میں کیوں کرجیوں گا ۔
غرض اس طرح اونچی آواز میں روتا اور بین کرتا رہا ایک مرد فقیر اُدھر سے گزرا کتے کے مالک کو یوں بے حال دیکھا تو پوچھا کہ بھائی خیر تو ہے یوں گلا پھاڑ کر کیوں روتا ہے ؟ کتے کے مالک نے جواب دیا ! ہائے کیا کہوں کون میری فریاد سننے والا ہے یہ کتا جو تم رستے میں پڑا دیکھ رہے ہو میرا ہے اور اس وقت اس پر نزع کا عالم طاری ہے ایسا کتا چراغ لے کر بھی ڈھونڈوں تو نہ ملے گا دن کو شکار کرکے لاتا اور رات بھر میرے مکان کی نگہبانی کرتا کیا مجال کہ پرندہ بھی پر مار جائے کتا کیا ، شیر کہو شیر بڑی بڑی روشن آنکھوں والا ، یہ ہیبت ناک جبڑا اونچا قد ، دوڑنے میں ہرن کو مات کرے اسے دیکھ کر چوروں اچکوں کی روح فنا ہوشکار کے تعاقب میں کمان سے نکلے ہوئے تیرکی طرح جاتا تھا ان حوبیوں کے ساتھ ساتھ بلا کا قانع مہابے غرض اور وفادار ۔
مرد فقیر نے بے حد متاثر ہو کر پوچھا تیرے کتے کو کیا بیماری لاحق ہے ؟ آقا نے جواب دیا بھوک سے اس کا دم لبوں پر ہے اور کوئی بیمار نہیں کئی دن ہوگئے اسے کھانے کو کچھ نہیں ملا۔ فقیر نے کہا اب صبر کر اس کے سوا اورچارہ ہی کیا ہے خدا کے ہاں کس چیز کی کمی ہے وہ تجھے اپنے فضل وکرم سے کوئی اور کتا دے دے گا۔
اتنے میں فقیر کی نظر رونے والے شخص کی پیٹھ پر پڑی جہاں کپڑے میں کوئی چیز وجان کی قوت برقرار رکھنے کے لیے ساتھ رکھتا ہوں یہ سن کر مرد فقیر کو سخت تعجب ہوا کہنے لگا کہ اے بندہ خداتف ہے تجھ پر تیرا اتنا پیارا کتا بھوک سے مررہا ہے لیکن تو اسے کھانے کو نہیں دیتا ۔
آقانے کہا ” بے شک مجھے کتا عزیز ہے لیکن اتنا عزیز بھی نہیں کہ روٹیاں کھلا دوں روٹیاں حاصل کرنے کے لئے مال خرچ کرنا پڑتا ہے البتہ میرے پاس آنسو ء بیکار ہیں اس لیے کتے کے غم میں آنسو بہادیتا ہوں ۔
فقیر نے کہا ” لعنت ہو تیری عقل اور محبت پر تیری مثال اس مشک کی سی ہے جس میں ہوا بھری ہوتی ہے تیرے نزدیک روٹی کا ٹکڑا آنسو سے زیادہ قیمتی ہے ارے نامراد آنسو تو وہ خون ہے جسے غم نے پانی بنا دیا ہے اور احمق ، یہ خون خاک کے برابر بھی نہیں رہا، حالانکہ اس کی قیمت کائنات میں کہیں نہیں ۔
ایک کتانزع کے عالم میں تھا اور اس کا آقاپاس بیٹھا آنسو بہا رہاتھا فرط رنجم وغم سے اس کی ہچکی بندھی گئی تھی روتا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ ہائے ! مجھے پر تو آسمان ٹوٹ پڑا میں مارا گیا میں کیا کروں کدھر جاؤں کون سے جتن کروں کہ میرے عزیز ہزار جان کتے کی جان بچ جائے ۔ اس کے مرنے کے بعد میں کیوں کرجیوں گا ۔
غرض اس طرح اونچی آواز میں روتا اور بین کرتا رہا ایک مرد فقیر اُدھر سے گزرا کتے کے مالک کو یوں بے حال دیکھا تو پوچھا کہ بھائی خیر تو ہے یوں گلا پھاڑ کر کیوں روتا ہے ؟ کتے کے مالک نے جواب دیا ! ہائے کیا کہوں کون میری فریاد سننے والا ہے یہ کتا جو تم رستے میں پڑا دیکھ رہے ہو میرا ہے اور اس وقت اس پر نزع کا عالم طاری ہے ایسا کتا چراغ لے کر بھی ڈھونڈوں تو نہ ملے گا دن کو شکار کرکے لاتا اور رات بھر میرے مکان کی نگہبانی کرتا کیا مجال کہ پرندہ بھی پر مار جائے کتا کیا ، شیر کہو شیر بڑی بڑی روشن آنکھوں والا ، یہ ہیبت ناک جبڑا اونچا قد ، دوڑنے میں ہرن کو مات کرے اسے دیکھ کر چوروں اچکوں کی روح فنا ہوشکار کے تعاقب میں کمان سے نکلے ہوئے تیرکی طرح جاتا تھا ان حوبیوں کے ساتھ ساتھ بلا کا قانع مہابے غرض اور وفادار ۔
(جاری ہے)
مرد فقیر نے بے حد متاثر ہو کر پوچھا تیرے کتے کو کیا بیماری لاحق ہے ؟ آقا نے جواب دیا بھوک سے اس کا دم لبوں پر ہے اور کوئی بیمار نہیں کئی دن ہوگئے اسے کھانے کو کچھ نہیں ملا۔ فقیر نے کہا اب صبر کر اس کے سوا اورچارہ ہی کیا ہے خدا کے ہاں کس چیز کی کمی ہے وہ تجھے اپنے فضل وکرم سے کوئی اور کتا دے دے گا۔
اتنے میں فقیر کی نظر رونے والے شخص کی پیٹھ پر پڑی جہاں کپڑے میں کوئی چیز وجان کی قوت برقرار رکھنے کے لیے ساتھ رکھتا ہوں یہ سن کر مرد فقیر کو سخت تعجب ہوا کہنے لگا کہ اے بندہ خداتف ہے تجھ پر تیرا اتنا پیارا کتا بھوک سے مررہا ہے لیکن تو اسے کھانے کو نہیں دیتا ۔
آقانے کہا ” بے شک مجھے کتا عزیز ہے لیکن اتنا عزیز بھی نہیں کہ روٹیاں کھلا دوں روٹیاں حاصل کرنے کے لئے مال خرچ کرنا پڑتا ہے البتہ میرے پاس آنسو ء بیکار ہیں اس لیے کتے کے غم میں آنسو بہادیتا ہوں ۔
فقیر نے کہا ” لعنت ہو تیری عقل اور محبت پر تیری مثال اس مشک کی سی ہے جس میں ہوا بھری ہوتی ہے تیرے نزدیک روٹی کا ٹکڑا آنسو سے زیادہ قیمتی ہے ارے نامراد آنسو تو وہ خون ہے جسے غم نے پانی بنا دیا ہے اور احمق ، یہ خون خاک کے برابر بھی نہیں رہا، حالانکہ اس کی قیمت کائنات میں کہیں نہیں ۔
Browse More Urdu Literature Articles
پانی کا تحفہ
Paani Ka Tohfa
بڑھیا کی بلی
Burhiya Ki Billi
ضمیر کی آواز
Zameer Ki Awaz
بیٹی کی شادی
Beti Ki Shaadi
Urdu AdabAdab Nobal PraizPakistan K Soufi ShaairOverseas PakistaniMushairyInternational Adab
Arabic AdabGreek AdabBangal AdabRussian AdabFrench AdabGerman AdabEnglish AdabTurkish AdabJapanes AdabAfrican AdabEgyptian AdabPersian AdabAmerican Adab
National Adab
ApbeetiAfsanaMazmoonInterviewsAdab NewsBooks CommentsNovelLiterary MagazinesComics WritersAik Kitab Aik Mazmoon100 Azeem AadmiHakayaatSafarnamaKahawatainAlif Laila Wa LailaTaqseem E Hind