Bicho Ka Dang - Article No. 2197

Bicho Ka Dang

بچھوکا ڈنگ - تحریر نمبر 2197

کچھ بھی نہیں میں تمہاری پیٹھ کا امتحان لے رہا ہوں کہ کونسی جگہ پر ڈنگ مار سکتا ہوں

جمعہ 22 نومبر 2019

سعدی رحمۃ اللہ علیہ
کسی زمانے کا ذکر ہے کہ ایک بچھو اور ایک کچھوا ایک دوسرے کے ہمسائے تھے اور اکٹھے زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان کی دوستی اتنی گہری تھی کہ شب وروز ایک دوسرے جدانہ ہوتے تھے وقت اسی طرح گزرتا رہا لیکن ایک ایسا اتفاق ہوا کہ ان کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ پس دونوں ایک دوسرے کے ہمراہ چل پڑے جب کچھ فاصلہ طے کیا تو ان کا گزر ایک دریا سے ہوا جو پہاڑسے نکل کر صحرا میں بہہ رہا تھا۔


بچھو نے جب پانی کو دیکھا تو اپنی جگہ پر رک گیا اور کچھوے سے کہا تو نے دیکھا ہے کہ ہم کیسی مصیبت میں گرفتار ہوگئے ہیں کچھوے نے کہا، کیا ہوا ہے، تمہیں کونسا غم ہے کہ اتنا پریشان ہوگئے ہو۔
بچھو نے کہا اس سے بڑھ کر کیا غم ہوگا کہ نہ تو میں اپنے وطن کی طرف لوٹ سکتا ہوں اور نہ ہی تجھ سے جدائی کی ہمت ہے اور نہ ہی پانی کو عبور کر سکتا ہوں اگر میں نے پانی میں قدم رکھاتو غرق ہوجاؤں گا۔

(جاری ہے)


کچھوے نے کہا ، غم نہ کرو کیونکہ ہم ایک دوسرے کے دوست ہیں چونکہ میں آسانی سے پانی میں تیر سکتا ہوں اس لیے اپنا سینہ تمہارے لیے ڈھال بنا دوں گا، میری پیٹھ کشتی کی مانند تمہارے اختیار میں ہوگی ، میں تجھے اپنی پیٹھ پر سوار کر لوں گا اور پانی سے گزاردوں گا کیونکہ پرانے لوگوں نے کہا ہے جو دوست مشکل سے ہاتھ آتا ہے اسے آسانی سے نہیں کھونا چاہیے۔
بچھونے جواب دیا، تم پر آفرین ہو، تم وفادار دوست ہو میں بھی دوستی کی قدر کرتا ہوں اس لیے جب بھی تمہیں میری ضرورت ہوخلوص دل سے پورا کروں گا۔
پس کچھوے نے بچھو کو پیٹھ پر سوار کرلیا اور اپنا سینہ پانی کی لہروں پر ڈال دیااورتیرناشروع کردیا․․․․جب انہوں نے کچھ فاصلہ طے کیا تو کچھوے نے تیز آوازیں سنیں اور محسوس کیا کہ اس کی پیٹھ پر خراشیں پڑرہی ہیں جیسے بچھو کوئی چیز تلاش کررہا ہے اس لیے بچھوسے پوچھا، تم کیا کررہے ہو اور یہ کیسی آواز ہے جو میں سن رہا ہوں۔

بچھونے جواب دیا، کچھ بھی نہیں میں تمہاری پیٹھ کا امتحان لے رہا ہوں کہ کونسی جگہ پر ڈنگ مار سکتا ہوں کچھوااس حرکت سے بے حد حیران ہوا اور غصہ سے کہا، اے بے انصاف، بے مروت ! میں نے اپنی جان خطرے میں ڈال رکھی ہے اور تجھے اپنی پیٹھ پراٹھا رکھا ہے اور توکشتی کی طرح دریا کا سفر کر رہا ہے بلکہ نہایت سلامتی سے بھنورسے بھی گزررہاہے․․․․․․ تمہیں چاہیے تھا کہ میرے احسان مند ہوتے اور پرانی دوستی کا حق ادا کرتے لیکن اس کے برعکس مجھے آزار پہنچانے اور ڈنگ مارنے سے تمہارا کیا مقصد ہے اگرچہ تمہارے ڈنگ کا میری پیٹھ پر کوئی اثر نہ ہوگا لیکن تو دوستی اورر فاقت کادم بھرنے کے باوجود ایسی بدخواہی اور خیانت کس لیے کررہے ہو؟
بچھونے جواب دیا، مجھے تم سے ان باتوں کی توقع نہ تھی، اصل معاملہ بدخواہی اور خیانت کانہیں ہے لیکن جس طرح آگ کا خاصہ یہ ہے کہ اس کے سامنے جو چیز آتی ہے اسے جلادیتی ہے، اسی طرح میں بھی بچھو ہوں اور میری طبیعت کاخاصہ بھی یہی ہے کہ ڈنگ ماروں ورنہ تجھ سے میری کوئی دشمنی نہیں ہے تاہم اس کے باوجود بھی تمہارا دوست ہوں۔

کچھوے نے کہا، توسچ کہہ رہا ہے، یہ تو میرا گناہ ہے کہ میں نے سب جانداروں سے کنارہ کشی کی اور تجھ سے دوستی قائم کرلی ، اگر تمہاری طبیعت کاخاصہ مردم آزادی ہے ، تو میں بھی چاہتا ہوں کہ میرے دوست نہ ہواور نہ ہی زندہ رہو، کیونکہ میرا تنہا رہنا بد جنس کی دوستی سے اچھا ہے۔
کچھوے نے اتنا ہی کہا اور ایک ہی حرکت سے بچھو کو پانی میں غرق کر دیا اور خود سلامتی سے دریا عبور کر لیا۔

Browse More Urdu Literature Articles