Dost Ka Tohfa - Article No. 1190

Dost Ka Tohfa

دوست کا تحفہ - تحریر نمبر 1190

ایک دفعہ حضرت یوسف علیہ السلام کا ایک پرانا دوست دور دراز کے کسی علاقے سے ان کی ملاقات کو آیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔ چونکہ دونوں گہرے دوست تھے اس لئے بے تکلفی اور محبت کے گاؤ تکیے پر ٹیک لگا کر بیٹھے ۔ دوست نے یوسف علیہ السلام سے ان کے بھائیوں کے ظلم اور حسد کا حال پوچھا تو آپ نے جواب دیا :

منگل 14 فروری 2017

حکایت رومی رحمتہ اللہ علیہ :
ایک دفعہ حضرت یوسف علیہ السلام کا ایک پرانا دوست دور دراز کے کسی علاقے سے ان کی ملاقات کو آیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔ چونکہ دونوں گہرے دوست تھے اس لئے بے تکلفی اور محبت کے گاؤ تکیے پر ٹیک لگا کر بیٹھے ۔ دوست نے یوسف علیہ السلام سے ان کے بھائیوں کے ظلم اور حسد کا حال پوچھا تو آپ نے جواب دیا :
وہ قصہ اصل میں زنجیر آہنی (آزمائش ) تھا اور میں شیرنر۔
ظاہر ہے کہ زنجیر آہنی میں جکڑے جانے کے باوجود شیر، شیر ہی رہتا ہے ، گیدڑ نہیں بن جاتا اور اس کی کوئی بے عزتی نہیں ہوتی اگر شیرنر کی گردن میں طوق آہنی پڑا ہوا ہوتب بھی وہ بادشاہ ہی ہوتا ہے ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی زبان سے یہ بات سن کر دوست نے آفرین کہی ، پھر پوچھا، اچھایہ بتاؤ کہ تم پر کنعان کے کنویں اور مصر کے قید خانے میں کیا گزری؟
حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا ” وہی گزری جو چاند گرہن اور زوال کی راتوں میں چاند پر گزرتی ہے ۔

(جاری ہے)

خیر یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی یہ بتا کہ تو میرے لئے کیا تحفہ لایا ! کیا تو نے سنا نہیں کہ دوستوں کے گھر خالی ہاتھ آناایسا ہی ہے جیسے پن چکی پر بے گیہوں کے چلے جانا“ حضرت یوسف علیہ السلام کی زبان سے یہ بات سنی تو دوست مذاق سے گردن جھکا کر کچھ سوچنے لگا اور کوئی جواب نہ دیا ، جب انہوں نے دوبارہ پوچھا تو وہ رونکھا سا ہو کر کہنے لگا ۔
ارے بھائی ، کیا کہوں بہت شرمندہ ہوں تمہارے لائق کوئی تحفہ نہ لاسکا بہت سوچا مگر کوئی چیز نظر میں ایسی نہ جچی جو تمہارے قابل ہو بھلا میری کیا مجال کہ گوہر کے ایک چھوٹے سے دانے کو جواہر کی اتنی بڑی کان میں لاتا ، یاایک حقیر قطرے کوبحربے کراں تک پہنچا اگر اپنا دل جگر بھی تیرے لئے بطور تحفہ لاتا تو اس حق سے عہدہ برآہ ہوسکتا تھا، تیرا حسن وہ حسن بے مثال ہے جس نے مجھ عاجز کردیا اس لئے یہی سوجھی کہ قلب نور کی مانند ایک آئینہ تیرے لئے لاؤں تاکہ تو اپنی پیاری صورت اس میں دیکھے اور پھر مجھے یاد کرے ۔

یہ کہہ کر اس نے آئینہ نکال کر حضرت علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا کیونکہ کہ کہتے ہیں کہ حسینوں کے آگے جب آئینہ آتا ہے تو پھر وہ اسی میں محو ہوجاتے ہیں اور اپنا تماشا آپ کرتے ہیں ۔

Browse More Urdu Literature Articles