Duniya Aur Akhirat - Article No. 1752

Duniya Aur Akhirat

دنیا ااور آخرت - تحریر نمبر 1752

اندلس کے ایک بزرگ منذربن سعید جو اس وقت کے قاضی اور خطیب تھے نے ایک بار جامع مسجد میں بادشاہ کو سنانے کی غرض سے تقریر کی۔ جس میں دنیا کی بے ثباتی اور شہر و محلات کی آرائش پر بے جا اصراف پر کڑی تنقید کی۔

پیر 20 اگست 2018

امیرِ اندلس عبدالرحمٰن نے ہسپانیہ میں ایک خوبصورت شہر کی تعمیر کی۔ جس کا نام مدنیتہ الزہرہ رکھا۔ تقریباََ ۳۵ سال تک سالانہ ۳ لاکھ دینار کے حساب سے اس کی تعمیر پر اخراجات ہوتے رہے۔
اندلس کے ایک بزرگ منذربن سعید جو اس وقت کے قاضی اور خطیب تھے نے ایک بار جامع مسجد میں بادشاہ کو سنانے کی غرض سے تقریر کی۔ جس میں دنیا کی بے ثباتی اور شہر و محلات کی آرائش پر بے جا اصراف پر کڑی تنقید کی۔

بادشاہ بھی موجود تھا۔ اس پر تقریر کا بہت اثر ہوا۔ لیکن اس کا نفس اس تنقید کو برداشت نہ کر سکا اور اس نے قسم کھالی کہ قاضی منذر کے پیچھے وہ نماز جمعہ نہیں پڑھے گا۔
عبدالرحمان عجیب کش مکش میں مبتلا ہو گیا۔ اس کا ضمیر منذر (رحمتہ اللہ علیہ )کی باتوں سے مطمئن تھا۔ لیکن نفس سر کشی کر رہا تھا۔

(جاری ہے)

وہ ایک عظیم الشان شہر کا خواب دیکھ رہا تھا۔


دوسرے دن عبدالرحمٰن ناصر نے دربار لگایا اور عام منادی کروادی کہ آج مدینتہ الزہرہ کی قسمت کا فیصلہ ہوگا۔ منذر بن سعید(رحمتہ اللہ علیہ) کو بھی بلوا بھیجا۔
قاضی منذر(رحمتہ اللہ علیہ) معمولی کپڑے پہنے دربار میں پہنچے اور ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ بادشاہ نے ان کو اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا۔ لیکن انہوں نے اس پیش کش کو یہ کہہ کر رَد کر دیا کہ
”گردنیں پھاند کر آگے بڑھنا آدابِ مجلس کے خلاف ہے“اور وہ پھر خاموشی سے سرجھکا کر بیٹھ گئے۔

عبدالرحمٰن ناصر تقریر کے لیے کھڑا ہوا اور کہا۔
”۔۔۔۔۔اے معززین شہر یان اندلس۔ مجھے بتاؤ کیا مجھ سے پہلے بھی کسی نے مدینتہ الزہرہ جیسا عدیم المثال کارنامہ انجام دیا ہے۔“
سب نے یک زبان ہو کر جواب دیا”ہر گز نہیں امیر المومنین آپ اس کارنامہ میں بالکل منفرد ہیں۔“
عبدالرحمٰن یہ سن کربہت خوش ہوا اور فخر و غرور سے تن گیا۔
پھر اس نے منذر بن سعید (رحمتہ اللہ علیہ) کو مخاطب کر کے پوچھا کہیئے جناب آپ کو اس شہر، اس محل اور اس دربار کی سی شان و شوکت کہیں نظر آئی۔
منذر (رحمتہ اللہ علیہ)نے پہلی بار سر اُٹھا یا اور چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ کچھ دیر دیکھتے رہے۔ پھر اچانک رو پڑے اور آنسوؤں کی بارش شروع ہو گئی۔ پوری مجلس پر خاموشی طاری ہو گئی۔
منذر(رحمتہ اللہ علیہ)نے کہا”اے امیر المومنین میں آپ کا ہمشہ سے خیر خواہ رہا ہوں ۔
مجھے اس بات کا وہم و گمان نہ تھاکہ آپ اتنی جلدی کسی کے ہتھے چڑھ جائیں گے۔ آپ میں بہت سی خوبیاں ہیں لیکن افسوس کہ آپ اب کفر کے مقام کے قریب پہنچتے چلے جا رہے ہیں۔سنیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :
”اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک ہی جماعت ہو جائیں گے تو جو لوگ خدا کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔ ہم ان کے گھروں کی چھتیں سونے اور چاندی کی بنا دیتے اور سیڑھیاں بھی ، جن پر چڑھتے ہیں اور ان کے گھروں کے دروازے بھی اور وہ تخت بھی جن پر تکیہ لگاتے ہیں اور خوب زینت و آرائش کر دیتے اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے۔
اور آخرت تمہارے پر وردگار کے پاس پرہیز گاروں کے لیے ہے۔“(سورئہ زخرف رکوع ۳)
”اے امیر المومنین ۔ دنیا بہت ہی بے وفا اور غدار ہے اس لیے آپ اس زندگی سے دھوکانہ کھائیں۔ آپ کی گزشتہ تاریخ روشن کارناموں سے آراستہ ہے۔ اس لیے آپ ان ناروا کاموں سے اپنے رب کو ناراض نہ کیجیے اور اپنی گزشتہ تاریخ کو بے قیمت نہ بنایئے۔“
عبدالرحمٰن ناصر منذربن سعید(رحمتہ اللہ علیہ)کی اِن باتو ں سے بہت متاثر ہوا اس کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔
امام منذر(رحمتہ اللہ علیہ)گھر واپس آئے۔ لوگوں کو تعجب تھا کہ یہ صحیح سالم بچ کر کیسے آگئے۔
تھوڑی ہی دیر بعد ایک سپاہی تیزی سے دوڑتا ہوا آیا ۔ اسے دیکھ کر منذر (رحمتہ اللہ علیہ) نے کہا:
”معلوم ہوتا ہے عبدالرحمٰن پر شیطان کا جادو پھر چل گیا ۔ اور شاید تم میری گرفتاری کا حکم نامہ لے کر آئے ہو۔ میں تو کب سے اللہ کی راہ میں شہید ہونے کا منتظر ہوں۔ چلو میں ابھی چلتا ہوں۔“
اس آنے والے نے کہا”آپ نے غلط سمجھا۔ میں تو آپ کو خوشخبری دینے آیا ہوں کہ ناصر نے محل کی چھت کے گنبد تڑوا دیئے اور سونے چاندی کا سامان نکلوا کر معمولی سامان لگانے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی حکم جاری کیا ہے کہ محل کے تمام مجسمے گرادیئے جائیں۔“ (حکایات)

Browse More Urdu Literature Articles