Imtihan - Article No. 1211

Imtihan

امتحان - تحریر نمبر 1211

حضرت ابراہیم خواص رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حسب عادت گوشہ نشینی کے لیے صحرا کی طرف جارہا تھا کہ ایک کونے سے ایک شخص ظاہر ہوا اور میرے ساتھ جانے کی اجازت طلب کی ۔ جب میں نے اس کی طرف دیکھا تو مجھے

پیر 27 فروری 2017

حکایت حضرت سید علی بن عثمان الہجویری المعروف داتاگنج بخش رحمتہ اللہ علیہ :
حضرت ابراہیم خواص رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حسب عادت گوشہ نشینی کے لیے صحرا کی طرف جارہا تھا کہ ایک کونے سے ایک شخص ظاہر ہوا اور میرے ساتھ جانے کی اجازت طلب کی ۔ جب میں نے اس کی طرف دیکھا تو مجھے اس کی شکل وصورت سے نفرت ہوئی ۔
اس شخص نے میری کیفیت دیکھ کر کہا کہ اے ابراہیم رنجیدہ خاطر نہ ہو میں ایک عیسائی ہوں اور ملک روم سے آپ کی صحبت اختیار کرنے کے لیے آیا ہوں ۔ اب مجھے معلوم ہواکہ اس کی شکل دیکھ کر مجھے کیوں نفرت ہوئی ۔ میں نے اس سے کہا کہ اے راہب میرے پاس تو کھانے پینے کا سامان نہیں ہے مجھے ڈرہے کہ تم اس صحرا میں تکلیف اٹھاؤ گے ۔ اس نے جواب دیا کہ اے ابراہیم آپ کی ولایت کہ شہرت تو سارے جہان میں پھیل چکی ہے پھربھی آپ کھانے پینے کی فکر کر رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

اس کے اس اعتقاد سے مجھے حیرت ہوئی اور میں نے اس کو ساتھ چلنے کی اجازت دے دی تاکہ تجربہ ہو جائے کہ اپنے دعویٰ میں وہ کس قدر پکا ہے ۔ جب سات دن رات گزر گئے تو ہم پر پیاس کا غلبہ ہوا۔ اس نے اسی جگہ رک کر کہا اے ابراہیم آپ کی شہرت کا آواز تو سارے جہاں میں بلند ہے اب کوئی کرامت دکھائیے کیونکہ پیاس کی وجہ سے میرا آگے جانا محال ہے ۔ میں نے سر سجدہ میں رکھا اور بارگاہ حق تعالیٰ میں عرض کی ، یاالٰہی مجھے اس غیر مسلم کے سامنے رسوانہ کیجیے کیونکہ غیرمذہب ہونے کے باوجود اس کو مجھ سے اعتقاد ہے ۔
اگر تواس کافر کاحسن ظن پورا کردے تو تیرے خزانے میں کیا کمی ہوجائے گی ۔ جب میں نے سراٹھا یا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک تشری میں دو روٹی اور دو پیالے شربت کے سامنے پڑے ہیں ۔ چنانچہ ہم سیر ہو کر آگے بڑھے ۔ جب مزید سات دن گزر گئے تو میرے دل میں خیال آیا کہ اب اس راہب کا امتحان لینا چاہیے تاکہ اسے اپنی ذلت معلوم ہو۔ قبل اس کے کہ وہ مجھ سے کوئی مطالبہ کرے ۔
چنانچہ میں نے کہا کہ اے عیسائی راہب اب تمہاری باری ہے ۔ اپنی عبادت کاثمرہ دکھاؤ اور کچھ لاؤ تاکہ ہم کھائیں ۔ اس نے سرسجدہ میں رکھا اور کچھ دعا مانگی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک تشتری برآمد ہوئی جس میں چار روٹیاں اور چار شربت کے پیالے تھے ۔ یہ دیکھ کر مجھے سخت تعجب ہوا اور کچھ رنجیدہ خاطر بھی ہوا اور اپنی حالت پر پریشان بھی ہوا ۔ اس لیے دل میں ارادہ کرلیا کہ ایک کافر کی ہمت سے جو کچھ ملا ہے اس کو میں استعمال میں نہیں لاؤں گا ۔
اس نے کہا ابراہیم کھاؤ ۔ میں نے کہا ہرگز نہیں کھاؤں گا۔ اس نے کہا کیا وجہ ہے ؟ میں نے کہا تم اس کرامت کے اہل نہیں ہو ، کیونکہ کافر سے کرامت ناممکن ہے ۔ یہ سن کر اس نے کہا اے ابراہیم خوشی سے کھاؤ کیونکہ یہ آپ کی کرامت ہے ۔ میں آپ کو دو خوشخبریاں سناتاہوں ایک یہ کہ میں اسلام قبول کر چکا ہوں اور کلمہ الاالہ الاللہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہوں ۔
دوم یہ کہ حق تعالیٰ کے ہاں آپ کامرتبہ بہت بلند ہے میں نے کہا وہ کس طرح ۔ اس نے جواب دیا کہ ہم عیسائیوں کو ان کرامات کی کوئی خبر نہیں ۔ میں نے آپ سے شرمسار ہوکر سرزمین پر رکھا اور عرض کیا کہ یا الٰہی اگردین محمدی ﷺ سچا ہے اورتیرا پسندیدہ ہے تو مجھے دو روٹیاں اور شربت کے پیالے عطا کر اور اگرابراہیم خواں رحمتہ اللہ علیہ تیرا ولی ہے تو مجھے دو مزید روٹیاں اور دو پیالے عطا کر ۔ جب میں نے سراٹھایا تو یہ تشتری ظاہر ہوئی ۔ چنانچہ حضرت ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ نے سیر ہو کر کھانا کھایا اور وہ راہب مسلمان ہوگیا اور بعد میں ولایت کے مقام پر پہنچا۔

Browse More Urdu Literature Articles