Kamine Ki Dosti - Article No. 2140

Kamine Ki Dosti

کمینے کی دوستی - تحریر نمبر 2140

شہری کہتا تھا کہ شاید قیامت کا وقت آگیا ہے کہ بھائی سے بھائی بھاگتا ہے۔ارے بھائی کیا تو برسوں میرا مہمان نہیں رہا۔آخر تیری خدمت میں میں نے کونسی کوتاہی کی تھی ۔لیکن بے حیاد یہاتی اس کو یہی جواب دیتا تھا کہ معلوم نہیں تو کیا بکتا ہے ۔

منگل 24 ستمبر 2019

منصور احمد بٹ
پرانے وقتوں کا ذکر ہے کہ ایک شہری کی کسی دیہاتی سے شنا سائی ہو گئی جب کبھی دیہاتی شہر میں آتا تو اسی شہری کے گھر ڈیرہ لگاتا اور دو دو تین تین مہینے اس کا مہمان رہتا۔اس دوران شہری خوشی خوشی اس کی تمام ضرورتیں پوری کرتا اور اس کی خدمت میں رات دن ایک کر دیتا۔ایک دن دیہاتی نے شہری سے کہا۔بھائی جان آپ کبھی ہمارے گاؤں میں تشریف نہیں لاتے۔

آج کل بہارکا موسم ہے ۔کیا خوب ہو اگر بال بچوں سمیت غریب خانہ پر قدم رنجہ فرمائیں ۔اگر اب فرصت نہ تو گرمیوں میں تشریف لائیے اس وقت پھلوں کا موسم ہوتاہے۔آپ کی خدمت کا خوب موقع مل سکے گا۔اپنے اہل وعیال اور دوست احباب کو بھی ساتھ لائیے اور تین چار ماہ دلجمعی سے ہمارے گاؤں میں قیام فرمائیے۔موسم بہار میں تو دیہات کی فضا بڑی خوشگوار ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

ہر طرف سبزہ لہلہاتا ہے اور پھول جھومتے ہیں ۔آپ دیکھیں گے تو خوش ہو جائیں گے۔
شہری اس کی باتیں سن کر کہہ دیتا کہ اچھا بھئی کبھی موقع ملا تو ضرور آئیں گے۔دیہاتی جب زور دیتا تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر اس کو ٹال دیتا۔کبھی کہتا کہ فلاں جگہ سے ایک مہمان آیا ہوا ہے۔کبھی کہتا اس سال بہت ضروری کاموں میں مصروف ہوں ۔اگلے سال فرصت ملی تو ضرور آؤں گا۔
ہوتے ہوتے انہی تقاضوں اور وعدوں میں آٹھ برس گزر گئے ۔دیہاتی ہر سال آتا اور بامروت شہری دل کھول کر اس کی خدمت کرتا۔ایک دفعہ وہ مسلسل تین مہینے شہری کے گھر میں براجمان رہا اور صبح وشام خوب خوب دعوتیں آرائیں ۔جاتے وقت شرماتے ہوئے کہنے لگا کہ صاحب ہمیں کب تک دھوکے میں رکھو گے ۔آپ کا انتظار کرتے کرتے اب تو ہماری آنکھیں بھی پتھر اگئیں ہیں۔

شہری نے کہا کہ بھائی تمہارے ہاں جانے کو میرا جی تو بہت چاہتا ہے لیکن ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔انسان تو ایک بادبانی کشتی کی مانند ہے ۔اس کشتی میں اسی وقت حرکت پیدا ہو سکتی ہے جب اللہ تعالیٰ ہوا چلائے گا۔
دیہاتی نے اب اس کو تعظیم دے کر کہا کہ اس سال بال بچوں کے ہمراہ ضرور تشریف لائیے۔پھر اس ہاتھ پکڑ کر تین بار وعدہ لیا ضرور آنا۔
شہری نے گاؤں جانے کی حامی تو بھرلی لیکن پھر ایسے کاموں میں مشغول ہوا کہ دو برس اور گزر گئے۔ایک دن اس کے بچوں نے کہا کہ ابا جان چاند بادل اور سایہ بھی سفر کرتے ہیں ۔آپ نے اپنے دیہاتی دوست کی مہمان داری اور خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور خود تکلیف اٹھا کر بھی اس کو آرام پہنچایا ہے۔اس بیچارے کو بھی اپنے احسانات کا حق اداکرنے کا ایک بار موقع دیجئے۔
وہ کئی بار اصرا ر اور خوشامد سے آپ کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دے چکا ہے ۔اگر آپ نہ جائیں گے تو اس کا دل ٹوٹ جائے گا۔
شہری نے کہا کہ تم سچ کہتے ہو لیکن داناؤں نے کہا ہے کہ جس سے تم نے بھلائی کی ہے اس کے شر سے بچو۔اس وقت تو اس نے بچوں کو ٹال دیا لیکن دیہاتی نے خوشامد کاکچھ ایسا جال بچھایا تھا کہ آخر شہری اس کی دلداری کے لئے گاؤں جانے پر آمادہ ہو ہی گیا۔
بچوں کو معلوم ہواتو وہ مارے خوشی کے پھولے نہ سماتے تھے۔جس دن شہری اپنے اہل وعیال سمیت گاؤں کی طرف روانہ ہوا وہ اس کے بچوں کے لئے گویا عید کا دن تھا۔ گو سفر بڑا طویل اور صبر آزما تھا لیکن گاؤں جانے کی خوشی میں وہ اس کو دوڑ بھاگ کر طے کررہے تھے ۔ان کے دلوں اور دماغوں میں گاؤں کی پر بہار فضا بسی ہوئی تھی اور اسی کے تصور میں ان کا راستہ ہنسی خوشی کٹ رہا تھا۔
جب وہ کسی پرندے کو گاؤں کی جانب پرواز کرتا دیکھتے تو ان کا جی چاہتا کہ اس کی طرح اڑ کر وہ بھی جلد از جلد گاؤں جا پہنچیں ۔جہاں ہر قسم کی آسائشیں ان کا انتظار کررہی ہیں اگر راستے میں کسی دیہاتی کو دیکھتے تو اس کو بے اختیار گلے لگا لیتے اور پوچھتے کہ بھائی تو نے ہمارے عزیز دوست کو بھی دیکھا ہے۔اس طرح یہ تھکاماندہ قافلہ ایک ماہ کے پر صعوبت سفر کے بعد گاؤں جا پہنچا۔
اب سنو کہ وہ دیہاتی نہایت مکار اور احسان فراموش تھا۔اس کو شہری کی آمد کا حال معلوم ہوا تو انجان بن کر کہیں ادھر ادھر ہو گیا۔دراصل یہ شخص بڑا کمینہ اور بد فطرت تھا اور شہری کی مہمانداری سے بچنا چاہتا تھا بے چارہ شہری لوگوں سے اس کے گھر کا پتہ پوچھ کر بڑی بے تکلفی سے وہاں پہنچا لیکن اس کمینے کے اہل خانہ نے اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیا۔
شہری کو غصہ تو بہت آیا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔مجبور ہو کر اپنے بال بچوں سمیت دروازے کے سامنے ہی ڈیرہ لگا لیا۔دن کو سورج کی گرمی میں تپتے تھے اور رات کو سردی میں ٹھٹھرتے رہتے تھے۔جوں ہی وہ دیہاتی نظر آتا شہری اس کو سلام کرتا اور اس کو یاد دلاتا کہ میں تمہارا فلاں دوست ہوں۔دیہاتی اس کو دور ہی سے جواب دیتا تھا کہ میں نہیں جانتا تو کون ہے۔
میں تو دن رات ذکر حق میں مشغول رہتا ہوں اور غیر اللہ کے سوا مجھ کو کسی کا ہوش نہیں۔
شہری کہتا تھا کہ شاید قیامت کا وقت آگیا ہے کہ بھائی سے بھائی بھاگتا ہے۔ارے بھائی کیا تو برسوں میرا مہمان نہیں رہا۔آخر تیری خدمت میں میں نے کونسی کوتاہی کی تھی ۔لیکن بے حیاد یہاتی اس کو یہی جواب دیتا تھا کہ معلوم نہیں تو کیا بکتا ہے ۔میں نے تو کبھی تیری شکل بھی نہیں دیکھی۔
اسی حالت میں بیچارے شہری کو پانچ دن گزر گئے۔پانچویں شب کو غضب کی بارش ہو گئی۔شہری اور اس کے بچے پانی میں شرابور ہو گئے۔بیچاروں کے پاس سر چھپانے تک کی جگہ نہ تھی۔جس طرح شریف لوگ بے بسی کے عالم میں کمینوں کے محتاج ہو جاتے ہیں اسی طرح شہری بھی مجبور ہو کر دیہاتی کے دروازے پر گیا اور بہت رویا دھویا وہ ظالم تیوری چڑھائے ہوئے دروازے پر آیا اورپوچھا کہ آخر تو کیا چاہتا ہے؟
شہری نے کہا بھائی میں نے اپنے سب حقوق چھوڑے ۔
جو کچھ میں سمجھا تھا بلاشبہ و ہ غلط تھا۔جلادینے والی دھوپ اور خون منجمد کر دینے والی سردی میں میں نے جو پانچ دن گزارے وہ پانچ برس کے برابر تھے لیکن اب بارش کی تکلیف اٹھانے سے میری اور میرے بچوں کی قوت برداشت جواب دے گئی ہے۔خدا کے لئے ہمیں اپنے مکان کے کسی گوشے میں پناہ لینے دے۔خدا آخرت میں تجھ کو اس کی جزا دے گا اگر تجھے یہ منظور نہیں پھرمجھے قتل کر ڈال ۔
میں اپنا خون تجھ پر حلال کر تا ہوں۔
دیہاتی نے کہا کہ میں نے اپنے مکان کا گوشتہ باغبان کو دے رکھا ہے۔ہم نے اس کو بھیڑ ئیے سے جانوروں کی حفاظت بھی سونپ رکھی ہے۔اس مقصد کے لئے ہم اس کو تیر وکمان دے دیتے ہیں تاکہ اگر بھیڑیا آئے تو اس کو مار دے اگر تو یہ کام کر سکتا ہے تو وہ جگہ ہم تجھے دے دیتے ہیں ورنہ کوئی اور جگہ ڈھونڈلے۔شہری نے کہا کہ اس وقت میں ایسی سوخدمتیں کرنے کے لئے تیار ہوں۔
تیروکمان میرے حوالے کیجئے اورپھر دیکھئے کہ آپ کے باغ اور مویشیوں کی کس مستعدی سے نگرانی کرتا ہوں ۔اگر بھیڑ ئیے کی بھنک بھی میرے کانوں میں پڑگئی تو آواز پر تیر چلا کر اس کو ہلاک کر دوں گا۔غرض اس وعدہ پر وہ اپنے اہل وعیال سمیت باغبان کی کو ٹھڑی میں آگیا۔وہ جگہ نہایت تنگ اور سیلی تھی اور اس پر کیڑے مکوڑے مستزاد ،بے چارے مصیبت میں پھنس گئے۔
ساری رات ان کی زبان سے یہی نکلتا تھا کہ یہ اہل اور کمینے سے دوستی کی سزا ہے۔بہر حال شہری تیروکمان ہاتھ میں لئے اپنا فرض بجا لارہا تھا رات کے پچھلے پہر بھیڑئیے کی قسم کے ایک جانور نے ٹیلے کی اونٹ سے سر نکالا۔
شہری نے تاک کر اس پر تیر چلایا تو وہ جانور زمین گر پڑا اور اس کی ہوا خارج ہو گئی۔دیہاتی نے یہ آواز سنی تو وہیں سے دہائی دینے لگاکہ ارے ظالم یہ تو نے کیا غضب کیا۔
یہ تو میرا خربچہ تھا تو نے اس کو ناحق مار ڈال۔شہری نے کہا ہر گز نہیں یہ تو بھیڑیا تھاتم اچھی طرح دیکھ کر تسلی کرلو۔دیہاتی نے کہا کہ میں اپنے خربچہ(گدھی کے بچے)کی آواز خوب پہچا نتا ہوں۔ارے میں تو جانوروں کے گوزوں سے اپنے جانور کے گوز کی آواز پہچا ن لیتا ہوں۔ شہری کا پیمانہ صبر اب لبریز ہو گیا۔اس نے لپک کر دیہاتی کا گریبان پکڑ لیا اورکہنے لگااے مکار کمینے!تو اس اندھیری رات میں اپنے خربچے کے گوز کی آواز پہنچان لیتا ہے لیکن نہیں پہچانتا تو اس شخص کو جس نے دس برس تک دل وجان سے تیری خدمت کی ہے ۔
تو دعویٰ کرتا تھا کہ غیر اللہ کے سوا تجھے کسی شے کا ہوش نہیں ہے اور تو ہر وقت عالم تحیر میں رہتا ہے لیکن اللہ کی غیرت جوش میں آئی تو بچے کی گوز کی آواز نے تجھے رسوا کر دیا۔حق تعالیٰ مکاروں اور کمینوں کو اسی طرح رسوا کرتا ہے۔تجھے عشق الٰہی کا دعویٰ ہے ،لیکن فی الحقیقت تو شیطان کا عاشق ہے ۔ارے بد بخت ان چالبازیوں کو چھوڑ اور عاشقان الٰہی کا دامن پکڑ کر سیدھا راستہ اختیار کر۔

Browse More Urdu Literature Articles