Kanjoos Ameer - Article No. 1230

Kanjoos Ameer

کنجوس امیر - تحریر نمبر 1230

ایک شخص بہت امیر تھا لیکن تھا بہت کنجوس مکھی چو س ایسا کہ نہ اپنے اوپر خرش کرتا تھا نہ اپنے بال بچوں پر، گویا مال جمع کرنے کی ہوس نے اسے اپنا قیدی بنالیا تھا اور روپیہ پیسہ اس کی قید میں پھنس کر رہ گیا تھا جس کی رہائی کی کوئی صورت نہ تھی ۔

جمعہ 10 مارچ 2017

حکایت سعدی رحمتہ اللہ علیہ :
ایک شخص بہت امیر تھا لیکن تھا بہت کنجوس مکھی چو س ایسا کہ نہ اپنے اوپر خرش کرتا تھا نہ اپنے بال بچوں پر، گویا مال جمع کرنے کی ہوس نے اسے اپنا قیدی بنالیا تھا اور روپیہ پیسہ اس کی قید میں پھنس کر رہ گیا تھا جس کی رہائی کی کوئی صورت نہ تھی ۔
اس شخص کابیٹا ہمیشہ اس فکر میں رہتا تھا کہ کسی طرح اسے یہ معلوم ہوجائے کہ اس کاباپ دولت کس جگہ جمع کرتا ہے ، بالآخر ایک دن وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگیا ۔
اس نے کنجوس کے خزانے کاسراغ لگالیا اور جب وہ باہر گیا ہوا تھا تو سارا سونا اور چاندی نکال کر ان کی جگہ پتھر رکھ دیا ۔
باپ جس قدر کنجوس تھا ، بیٹا اس درجے کا بدعقل تھا۔ مال ہاتھ آیا تو اس نے راگ رنگ کی محفلیں آراستہ کیں اورمفت کا مال بہت بے رحمی سے خرچ کرنے لگا ۔

(جاری ہے)

کنجوس پر راز کھلا تو اس نے اپنا سر پیٹ لیا لیکن اب کیا ہوسکتا تھا ۔

اب تو صورت حال یہ تھی کہ باپ فکر اور غم کی وجہ سے ساری رات جاگتا رہتا تھا اور بیٹا رقص وسرود کی محفل میں بیدار رہتا تھا ۔
مال ضائع ہونے سے پہلے اگر وہ کنجوس یہ سمجھ لیتا تو اسے یقینا فائدہ پہنچ سکتا تھا کہ مال تو اس لیے ہوتا ہے کہ انسان اپنے بال بچوں کی جائز ضرورتوں اوربھلائی میں چرخ کرے ۔ کنجوس کی مثال خزانے کے سانپ کی سی ہوتی ہے کہ نہ وہ اس سے خود کسی طرح کا فائدہ اٹھا سکتا ہے اورنہ دوسروں کو فائدہ اٹھانے دیتا ہے ۔
وہ کوڑی کوڑی جوڑتا ہے اوربھراخزانہ دوسروں کے لیے چھوڑ جاتا ہے ۔
حضرت سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے اس حکایت میں بخیلی کی مذمت کی ہے اور ایسے لوگوں کو ان کے اس انجام کی طرف توجہ دلائی ہے جس سے وہ لازمی طور پر دو چار ہوتے ہیں ، ایک دن موت کا فرشتہ اچانک نمودار ہوتا ہے اور انہیں ان کے مال ومتاع سے جدا کرکے قبر سے گڑھے میں پھینک دیتا ہے ۔
حضرت سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ نیکی کا اجر عاقبت میں نہ ملے گا ہی لیکن انسان کو اس کا شیریں پھیل دنیا میں بھی ضرور ملتا ہے پھر اس سلسلے میں اللہ پاک کی رحمت یہاں تک ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ نیکی بھی قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles