Khauf E Khuda - Article No. 1036

Khauf E Khuda

خوف خدا - تحریر نمبر 1036

نوجوان دنیا کے تمام مادی رشتے توڑ کر جذبات کے عالم میں دریاکے کنارے پر یاد الٰہی میں مخمور ہوچکا۔ دنیا سے بے خبر مراقبے کی منزلیں طے کرتے کرتے جب جسم تھک گیا۔

پیر 4 اپریل 2016

عبدالجبار بٹ:
نوجوان دنیا کے تمام مادی رشتے توڑ کر جذبات کے عالم میں دریاکے کنارے پر یاد الٰہی میں مخمور ہوچکا۔ دنیا سے بے خبر مراقبے کی منزلیں طے کرتے کرتے جب جسم تھک گیا۔ تو نوجوان نے آنکھیں کھول کر چاروں طرف دیکھا ہر طرف ” ھو“ کا عالم تھا۔ اسے شدت سے بھوک محسوس ہوئی۔ دور دور تک آبادی کے آثار ناپید تھے۔
انہوں نے ایک لمحہ کے لیے سوچا” سرمستی عشق اسے کہاں لے آئی“ پھر انہوں نے ایک شکر گزار انسان کی طرح آسمان پر دیکھا‘ پھر اچانک انہی کی نظر دریامیں بہتے ہوئے سیب پر پڑی وہ تیزی سے جھکے سیب کو پانی سے نکال لیا۔ اور کھالیا۔ رزاق عالم کی رزاقی پر اسکایقین اور بھی پختہ ہوگیا۔
خدا کاشکر ادا کرتے ہوئے انہی کے دل میں خیال آیا۔

(جاری ہے)

کہ یہ سیب کسی کی ملکیت تو نہیں تھا۔

اس خیال کے آتے ہی ان کے چہر پر وحشت سی برسنے لگی۔ان کے ضمیر نے انہیں پکارا اور کہا کہ کیا تو نے سیب کے مالک کی اجازت سے سیب کھایا ہے۔اور وہ بے اختیار اس طرف روانہ ہوگئے۔ جدھر سے سیب بہہ کر آیا تھا۔ کافی طویل سفر کے بعد انہیں سیبوں کا باغ دکھائی دیا ۔جس کے کچھ درخت پانی پر جھکے ہوئے تھے۔ نوجوان سے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو۔نوجوان نے کہا میں اپاہج نہیں ہوں میں نے نادانستگی میں ایک جرم کیا ہے۔

اب اس سیب کی قیمت بازار کے مطابق نہیں ہوگی بلکہ آپ کی طے شدہ ہوگی۔ اور اس کے بعد خدا کے ہاں میرے ذمہ آپ کا کوئی حساب باقی نہ رہے گا باغ کے مالک نے جواب میں دو شرائط پیش کی۔ پہلی شرط یہ کہ تم میرے باغ کو مسلسل ایک ماہ تک پانی لگاؤ گے۔ اس کام کے پاہ تکمیل تک پہنچنے کے بعد میں اپنی دوسری شرط بیان کروں گا۔ اور اگر ان میں سے ایک بھی شرط پوری نہ ہوئی تو میدان حشرتک تم میرے قرض دار رہوگئے۔

حیرت زدہ نوجوان نے بلا تامل کہا” آپ مطمئن رہیں“ باغ کا مالک اس کے جواب پر پھر حیران ہوا۔ اور اسے اپنا کام شروع کرنے کا کہہ کراپنے مکان کی طرف چلاگیا۔شدد محنت کے بعد اس نوجوان نے اس شرط کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ دوسری ملاقات میں انہوں نے بے قراری سے باغ کے مالک سے دوسری شرط کے متعلق پوچھا۔
تاکہ انہیں اپنی ریاضیت میں ذہنی یکسوئی اور قبلی سکون حاصل ہو‘ جہاندید باغ کے مالک نے حیرت سے نوجوان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
تمہیں مری بیٹی سے شادی کرنی ہوگی۔نوجوان نے کہا کہ آپ میرے حسب نسب سے واقف نہیں پھر اتنا اہم فیصلہ ہے۔
باغ کے مالک نے کہا یہ تمہاری ذمہ داری نہیں۔ نوجوان نے کہا میں تیار ہوں۔ باغ کے مال نے کہا کہ ” مگر شادی سے پہلے میں تمہیں اپنی بیٹی کے عیب بتادینا چاہتا ہوں۔ وہ پیدائشی بدصورت ہے۔ اور اپاہج ہے۔ اور اندھی بھی ہے۔ نوجوان نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اے رب آزمائش کی اس گھڑی میں میرے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کی استقامت رضا مندی کا اظہار کردیا باح کے مالک نے شادی میں بہت اجلت کی۔
نکاح کے بعد باغ کامالک مطمئن تھا کہا س کی بیٹی کا مستقبل محفوظ ہوچکا ہے۔
اور نوجوان اس لیے مطمئن تھا کہ اس نے ایک گناہ کا کفارہ ادا کردیا ہے۔ نوجوان نے اپنی بیوی کو دیکھا تو گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا۔ لڑکی انتہائی خوبصورت تھی۔ وہ واپس اپنے سسر کے پاس گیا اور کہا کہ میری بیوی آپ کے بیان کردہ حلئے کے مطابق نہیں ہے۔ یہ کیسی آزمائش ہے۔
بوڑھے نے کہا اللہ ثابت قدم رہنے والوں اور صبر کرنے والوں کے ایسے ہی انعامات سے نوازتا ہے۔نوجوان نے کہاکہ مگر آپ نے غلط بیانی سے کام کیوں لیا۔ بوڑھے نے کہا کہ میں نے ہرگز جھوٹ نہیں بولا۔
کیونکہ میری بیٹی بدصورت ہے کیونک اس کی صورت یہ دنیاداری کاغازہ نہیں۔ اور اپاہج اس طرح ہے کہ وہ آج تک کفرو گناہ کی طرف نہیں گئی۔ باغ کے مالک مشہور بزرگ حضرت سید عبد اللہ صومعی تھے۔ ان کی بیٹی کاخاندانی نام فاطمہ تھا۔ کنیت” ام الخیر“ اور لقب” امت الجباریہ“ تھا۔ اور نوجوان اپنے عہدے کے ناموربزرگ حضرت سید ابو صالح موسیٰ تھے اور انہی عالی مرتبت ماں باپ کے روشن ترین بیٹے غوث اعظم سید ناشیخ عبدالقادر جیلانی تھے۔

Browse More Urdu Literature Articles