Marnay Ka Khauf - Article No. 1827

Marnay Ka Khauf

مرنے کا خوف - تحریر نمبر 1827

کہتے ہیں کہ ایک شخص کو موت سے بہت ڈر لگتا تھا۔ دن رات اسی خوف میں گھلتا رہتا تھا کہ وہ مر جائے گا۔ وہ نہ زندگی سے لطف اٹھا سکتا تھا اور نہ ہی

بدھ 12 دسمبر 2018

کہتے ہیں کہ ایک شخص کو موت سے بہت ڈر لگتا تھا۔ دن رات اسی خوف میں گھلتا رہتا تھا کہ وہ مر جائے گا۔ وہ نہ زندگی سے لطف اٹھا سکتا تھا اور نہ ہی سکون سے کھا پی سکتا تھا۔ نہ لوگوں سے ہنس بول سکتا تھا۔

اس کی حالت ایسی بری ہوئی تو اس کے یار دوست مل کر صلاح مشورہ کرنے لگے کہ اس کا کیا کیا جائے۔ ایک نے صلاح دی کہ یہ مینٹل ہو چکا ہے، اس لیے اسے پاگل خانے میں جمع کرا دیا جائے۔

سب نے یہ رائے مسترد کر دی کہ پاگل خانے والے ایسا پیس پا کر کہیں خود بھی پاگل نہ ہو جائیں۔

دوسرا دوست چرسی تھا جو اپنے سارے غم دھویں میں اڑانے کا قائل تھا۔ اس نے مشورہ دیا کہ اسے پکے سوٹے پر لگا دیا جائے تو وہ بھی چرسی کی طرح خوش باش ہو جائے گا۔

(جاری ہے)

جب بھی غم ستائے گا، ایک گہرا کش ہی غم کو اڑا دے گا۔ سب نے اس مشورے کو بھی اچھا نہ جانا کہ پھر وہ ہر ایک سے نشے کے لیے پیسے مانگتا پھرے گا اور تھانے میں اس کی ضمانتیں بھر بھر کر سب تنگ پڑ جائیں گے۔

تیسرے نے مشورہ دیا کہ اسے روحانیت کا راستہ دکھایا جائے کیونکہ یہ روحانی مرض ہے اور اس کا روحانی علاج ہی شفا دے گا۔ اس پر سب متفق ہوئے اور اسے لے کر ایک صوفی صاحب کے پاس پہنچے۔

صوفی صاحب نے پوچھا کہ “بچہ، بتا کہ تجھے کیا پریشانی ہے؟”

شخص: صوفی صاحب، مجھے موت سے بہت خوف آتا ہے۔

سوچتا ہوں کہ ابھی کھڑے کھڑے گروں گا اور مر جاؤں گا۔ یا بہت کامیاب زندگی بھی گزار لی تو سب کچھ یہیں پڑا رہ جائے گا اور میں قبر میں تنہا پڑا ہوں گا۔

صوفی: میرے بچے، ایک بات بتاؤ۔ اگر تم کسی سے چند روپے قرض لیتے ہو، تو کیا وہ قرض واپس کرنے سے ڈرتے ہو؟

شخص: بالکل بھی نہیں۔ قرض تو لیا ہی اس لیے جاتا ہے کہ واپس کیا جائے۔

لیکن اس بات کا موت سے کیا تعلق ہے؟

صوفی نے زمین سے مٹھی بھر خاک اٹھائی اور کہنے لگا کہ “تم اس خاک سے اٹھے ہو اور خاک کو یہ قرض ایک دن واپس ہونا ہی ہے۔ تمہارا ہر لقمہ، تمہارا ہر گھونٹ، خاک کے اس قرض میں اضافہ کر رہا ہے۔ یہ خوب جان لو کہ جس مٹی پر تم چلتے پھرتے ہو، تم اسی سے لیا ہوا ایک قرض ہو، اور اس مٹی پر رکھا ہوا تمہارا ہر قدم تمہیں اس بات کی یاد دلاتا ہے۔

یہ مٹی تمہیں اپنی طرف کھینچتی ہے۔ آخر کار یہی مٹی تمہیں نگل جائے گی اور تمہاری کوئی نشانی باقی نہیں رہے گی۔”

یہ کہہ کر صوفی صاحب نے مٹھی میں بھری ہوئی مٹی اونچی اچھال دی اور کہنے لگے کہ “اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تم زندگی میں کتنا اونچا اٹھ جاتے ہو۔ اس مٹھی بھر مٹی ہی کی مانند تم واپس زمین کی طرف پلٹو گے۔

موت کے اس خوف سے نجات پانا نہایت آسان ہے۔ اپنی زندگی کو تحفہ خداوندی سمجھو۔ اپنے جسم کو اپنی ملکیت سمجھنا چھوڑ دو۔ بس یہی سمجھو کہ یہ جسم تمہیں ادھار ملا ہے اور تمہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ کتنی مدت کے بعد تم نے اس ادھار کے جسم کو لوٹانا ہے۔ سو ادھار واپس کرنے پر کس چیز کا خوف ہے؟ خدا کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہیں اتنی خوبصورت چیز استعمال کے لیے دی ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کی ہے۔
سو خوف مت کرو، خدا کا شکر ادا کرو۔”

وہ شخص اس بارے میں جتنا سوچتا، اتنا ہی خدا کا شکرگزار ہوتا، اور اس طرح اس نے موت کے خوف سے نجات پا لی۔

جو لوگ زندگی کی نعمتوں پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور دوسروں کو ان نعمتوں میں شریک کرتے ہیں، ان کو خدا کی طرف واپس پلٹنے میں خوف نہیں آتا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles