Muhaddas Islam - Article No. 1828

Muhaddas Islam

محدث اسلام - تحریر نمبر 1828

قبول اسلام کے بعد ایک روز حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟“ اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

جمعرات 13 دسمبر 2018

قبول اسلام کے بعد ایک روز حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟“
اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ہم حق پر ہیں ۔“
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا:
”پھر یہ چھپ کر اسلام کی تبلیغ کیوں ؟قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے ہم ضرور کھل کر سامنے آئیں گے ۔


چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی دو صفوں میں باہر تشریف لائے ۔ایک صف میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسری صف میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔

(جاری ہے)

ان دونوں بہادروں کا جہاں پاؤں پڑتا تھا وہاں کی زمین ایسی ہوجاتی تھی گویا پسا ہوا آٹاہو۔
مسلمان خانہ کعبہ میں داخل ہو گئے اور قریش ان کا منہ ہی دیکھتے رہ گئے ۔

مگر ان میں سے کسی کو اتنی جرات نہ ہوئی کہ وہ ان صفوں کے قریب آنے کی جرات کرتا جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لے آنے کے بعد بے چین تھے کہ سب کو اپنے اسلام لانے کی خبر پہنچا دیں تا کہ جو لڑنا چاہے لڑے ۔آپ بے انتہا طاقتور تھے ۔جو ان تھے اور جرات رکھتے تھے ۔
کسی کا فر میں اتنی جرات نہیں تھی کہ ان پر غلبہ حاصل کر سکے ۔انہیں کوئی کا فرڈ را نہیں سکتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ آپ نے دوسرے مسلمانوں کی طرح چھپ کر کوئی کام نہ کیا بلکہ مسلمانوں کے ساتھ خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے کی قسم کھائی اور اس وقت یہ قسم کھائی جب مسلمان مکہ کے آس پاس کی پہاڑیوں میں چھپ کر نمازیں پڑھتے تھے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے :
”حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسلام لانا ہماری فتح ‘ان کی ہجرت ‘ہماری کامیابی اور ان کی امارت اللہ کی رحمت تھی ۔
جب تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام نہیں لائے تھے ہم کعبہ میں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے لیکن جب وہ مسلمان ہوئے تو قریش مجبور ہو گئے کہ مسلمان کو کعبہ میں نماز پڑھنے سے نہ روکیں ۔“
حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
”جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہوئے تو اسلام کھل کر سامنے آگیا اور اس کی اعلانیہ دعوت دی جانے لگی اور ہم کعبہ کے گرد حلقہ بنا کے بیٹھتے اور بیت اللہ کا طواف کرتے تھے ۔
زیادتی کرنے والے سے بدلہ لیتے اور سختی پیش آنے والے کو منہ توڑ جواب دیتے تھے ۔“
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بے حد محبت کرتے تھے ۔طبرانی نے کتاب اوسط میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :
”جس شخص نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بعض رکھا اور جس نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔
اللہ تعالیٰ نے اہل عرفہ پر عموماً اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر خصوصاً فخرو مباہات ہے ۔جتنے انبیاء علیہ السلام معبوث ہوئے ہیں ہر ایک کی امت میں ایک محدث ضرور ہوا ہے اور اگر میری امت کا کوئی محدث ہے تو وہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔“
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے یہ سن کر عرض کیا:
”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محدث کون ہوتا ہے ؟“
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
”جس کی زبان سے ملائکہ گفتگو کریں ۔“

Browse More Urdu Literature Articles