Naiki Ka Badla - Article No. 2160

Naiki Ka Badla

نیکی کا بدلہ - تحریر نمبر 2160

کسان نے ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ کون اسے مدد کے لیے پکاررہا ہے۔اس کی نظر ایک سانپ پر پڑی جو درخت کے پھٹے ہوئے تنے میں بری طرح پھنسا ہوا تھا۔

پیر 21 اکتوبر 2019

ڈنمارک

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک کسان جنگل میں لکڑیاں کاٹنے گیا۔اس نے کئی ایسے درخت دیکھے جو کچھ عرصے کے بعد بڑے تن آور نکل سکتے تھے اور ان سے بڑی بڑی شہتیریاں نکل سکتی تھیں۔ایسے درختوں کو وہ چھوڑتا ہواکافی دور نکل گیا۔آخر اس نے ایک ایسا درخت دیکھا جو اس کے کام کے لیے موزو موزوں تھا۔اس کی خشک شاخیں آپس میں جڑی ہوئی تھیں اور اس کا تنا کھوکھلا ہو چکا تھا۔

کسان نے اسے کاٹنا شروع کیا۔اتنے میں اسے آواز آئی۔
مدد۔مدد کر وبھلے آدمی!مجھے آزاد کراؤ۔
کسان نے ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ کون اسے مدد کے لیے پکاررہا ہے۔اس کی نظر ایک سانپ پر پڑی جو درخت کے پھٹے ہوئے تنے میں بری طرح پھنسا ہوا تھا۔نہیں ۔میں تمہاری مدد نہیں کروں گا کیونکہ تم مجھے ڈس لو گے۔

(جاری ہے)

کسان نے سانپ کو جواب دیا۔سانپ نے اسے یقین دلایا کہ اگر وہ اسے آزاد کرادے گا تووہ اسے ہر گز نہیں کاٹے گا۔


کسان کو یقین آگیا اور اس نے اپنی کلہاڑی تنے کی دراڑ میں پھنسائی ،دراڑ زیادہ کھل گئی اور سانپ آزاد ہو گیا․․․․آزاد ہوتے ہی کلہاڑی کے دستے سے ہوتا ہوا آناً فاناً کسان کی گردن کے گردلپٹ گیا اور اسے ڈسنے کیلئے اپنا پھن پھیلا لیا۔میں نہ کہتا تھا کہ تم ذلیل جانور ہو اور بھلائی کا بدلہ برائی سے دو گے۔ کسان نے کہا کہا اوہو!باتیں بنانا توبڑا آسان ہے۔
لیکن دنیا کا طریقہ یہی ہے ۔کہ نیکی کا بدلہ برائی ہوتاہے ۔سانپ نے جواب دیا۔
میں نہیں جانتا،نیکی خود انعام ہے ۔کسان نے کہا۔تم غلطی پر ہو۔سانپ نے جوا ب دیا۔میں تم سے بہتر جانتا ہوں کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔
چلو کسی تیسرے شخص سے فیصلہ کرالیتے ہیں۔کسان نے تجویز پیش کی۔بہت بہتر۔سانپ نے اس کے گلے میں اچھی طرح لپٹتے ہوئے جواب دیا۔
کسان کو مجبوراً جنگل میں آگے جانا پڑا۔راستے میں انہیں ایک بوڑھا اور تباہ حال گھوڑا ملا۔وہ خود گھاس پر منہ ماررہا تھا۔وہ ایک ٹانگ سے لنگڑا اور ایک آنکھ سے کانا تھا۔اس کی پشت پر کاٹھی سے گہرے زخم پڑے ہوئے تھے اورمشکل ہی سے اس کے منہ میں کوئی دانت ہوگا۔
اس حیوان سے انہوں نے سوال کیا کہ اس دنیا میں نیکی کا اجرا چھا ملتا ہے یا برا۔
بے شک نیکی کا انجام برا ہوتاہے۔گھوڑے نے جواب دیا۔میں نے اپنے مالک کی بیس سال خدمت کی۔اسے اپنی پشت پر اٹھائے پھرتا اور اس کی گاڑی کھینچتا رہا اور اس دوران میں ہمیشہ پھونک پھونک کر قدم اٹھاتا تھا کہ مباد امیر اپاؤں نہ پھسل جائے اورکہیں اسے چوٹ نہ لگے جائے۔جب تک میں جوان اور طاقتور رہا۔تو مجھ سے بڑا اچھا سلوک کیا جاتا اور اچھی خوراک ملتی۔
روزانہ غسل کرایا جاتا۔میری صفائی کاخاص خیال رکھا جاتا میرے لیے ایک آرام دہ اصطبل تھا۔میرے تھان پر ہمیشہ صاف بھوسے کا بستر لگا رہتا چونکہ اب میں بوڑھا اور کمزور ہو گیا ہوں اس لیے پن چکی میں جوت دیا گیا ہوں۔ اور اب مجھے ہرموسم میں دن رات یہاں چھوڑ دیا جاتاہے۔مجھے کھانے کو کچھ نہیں دیا جاتا سوائے اس کے جو کچھ یہاں پاتا ہوں․․․․نہیں․․․․نہیں نیکی کا انعام ہمیشہ برا ہوتاہے۔

کیا میں نہ کہتا تھا اور اب میں تمہیں ڈس لوں گا۔سانپ نے کہا ۔نہیں کسان نے التجا کی۔ایک لمحہ اور انتظار کر وہ دیکھو رینا رڈ لومڑ آرہا ہے اس کی رائے بھی پوچھنا چاہیے۔رینا رڈ بڑے مزے سے اسی طرح آرہا تھا۔وہ کچھ فاصلے پر رک گیا اور انہیں غور سے دیکھنے لگا۔وہ ایک لمحہ میں ہی بھانپ گیا کہ آدمی سخت مصیبت میں گرفتار ہے۔
سانپ نے رینارڈسے پوچھا۔
یہ سچ نہیں کہ نیکی کا انجام برا ہوتاہے۔یا جیسا کہ اس آدمی کا خیال ہے کہ بعض اوقات نیکی کا بدلہ بھی نیکی ہوتاہے۔اچھا ہی بولنا ،کسان نے سر گوشی میں کہا۔اور پھر میں تمہیں دو موٹی بطخیں دوں گا۔سانپ یہ سر گوشی سن نہ سکا۔لیکن لومڑنے سن لی اور پھر جواب دیا۔اچھے کاموں کا اچھا انعام ملتا ہے اور ساتھ ہی وہ سانپ پر لپکا اور اس کی گردن پر اس زور سے کاٹا کہ وہ زمین پر آرہا لیکن مرنے سے پہلے کہنے کی مہلت مل گئی۔
نہیں اچھے کام کا انجام برا ہوتا ہے۔اس کا ثبوت ابھی ملا ہے ۔میں نے آدمی کی جان بچائی اور خود اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھاہوں۔
سانپ مر چکا تھا اور کسان آزاد تھا۔اس نے لومڑ سے کہا۔میرے ساتھ گھر چلو اور بطخیں لے آؤ۔نہیں آپ کا شکریہ ۔رینارڈ نے جواب دیا۔میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔کیونکہ تم مجھ پر کتے چھوڑ دو گے۔بہتر تو پھر یہاں انتظار کرو۔
اور میں ابھی تمہیں بطخیں لا دیتاہوں۔کسان نے جواب دیا۔کسان دوڑتا ہوا گھر پہنچا اور بیوی سے کہا۔نیک بخت!جلدی سے دو موٹی بطخیں بوری میں بند کردو۔میں رینا رڈلومڑ کے لیے ناشتے کا وعدہ کرکے آیاہوں۔اس کی بیوی نے ایک بوری میں کچھ بند کرکے اس کے سپرد کردی۔کسان بوری کندھے پر لادے لومڑ کے پاس پہنچا۔لو اپنا انعام جس کا تم سے وعدہ کرکے گیا تھا۔

شکر یہ لومڑ نے کہا۔ آخر میں نے سچ ہی کہا تھا کہ نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہوتاہے۔لومڑ نے بوری اپنی پشت پر رکھی اور اپنے بھٹ کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔یہ بطخیں واقعی بہت بھاری ہیں۔لومڑ نے اپنے بھٹ میں بیٹھے ہوئے کہا۔اور بوری کی رسی کو اپنے تیز دانتوں سے کاٹنے لگا۔رسی کٹ چکی۔تو یک لخت بوری سے دو خونخوار کتے لپکے اور اسے گلے سے دبوچ لیا اور ایک منٹ کی جدوجہد کے بعد ٹھنڈا ہو گیا۔
سچ ہے کہ نیکی کا انجام بہت ہی برا ہوتاہے۔

Browse More Urdu Literature Articles