Naqaab Posh Aashiq - Article No. 1691

Naqaab Posh Aashiq

نقاب پوش عاشق - تحریر نمبر 1691

ایک نقاب پوش بزرگ کسی خطہ عرب کے بادشاہ تھے پہلے بڑے شاعر اور عشق مجازی میں مبتلا تھے۔ حکومت اور ملک کے حریص، نازک طبع اور صاحب جمال تھے

جمعہ 27 اپریل 2018

ایک نقاب پوش بزرگ کسی خطہ عرب کے بادشاہ تھے پہلے بڑے شاعر اور عشق مجازی میں مبتلا تھے۔ حکومت اور ملک کے حریص، نازک طبع اور صاحب جمال تھے، عشق حقیقی کی طرف ان کی رغبت ہونے لگی اس کیف و مستی کا ان کے دل پر بڑا اثر ہوا ۔ حکومت و سلطنت تلخ محسوس ہونے لگی۔ بالاخر عشق حقیقی نے اس بادشاہ کو تخت و تاج سے بے نیاز کر کے آدھی رات کو جنگل کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا کوہ و دریا،دشت و من سے دیوانہ وار گزرتا ہوا وہ بادشاہ اپنی حدودِ سلطنت سے نکل کر سرحد تبوک میں داخل ہو گیا چہرہ پر نقاب ڈال لیا تا کہ جلالتِ شہانہ سے لوگ سمجھ نہ لیں کہ یہ گڈری پوش کسی ملک کا رئیس یا بادشاہ ہے، ملک تبوک میں اس بادشاہ پر جب کئی فاقے گزر گئے تو ضعف و نقاہت سے مجبور ہو کر مزدوروں کے ساتھ اینٹیں بنانے لگا۔

(جاری ہے)

اگرچہ وہ بادشاہ چہرہ پر نقاب کئے ہوئے تھا لیکن اس کے رنگ و ڈھنگ سے مزدوروں میں تزکرے ہونے لگے کہ یہ نقاب پوش کسی ملک کا سفیر یا بادشاہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ خبر شاہِ تبوک تک پہنچ گئی۔ شاہِ تبوک کو فکر لاحق ہوئی کہ یہ ماجرا کیا ہے۔۔۔؟ شاہِ تبوک نے فوراً سامانِ سفر باندھا اور اس مزدور بادشاہ کی جھونپڑی میں جا پہنچا اور دریافت کرنے لگا۔
”اے صاحب جمال! آپ اپنے صیح حال سے مجھے آگاہ کیجئے۔ آپ کا یہ روشن چہرہ شہادت دیتا ہے کہ آپ کسی ملک کے بادشاہ ہیں۔ یہ فکر و مسکنت کا سبب کیا ہے؟ آپ نے اپنی راحت اور سلطانیت کو فقر کی ذلت پر قربان کیا۔ اے عالی حوصلی آپ کی ہمت پر میری یہ سلطنت تبوک ہی نہیں بلکہ صدہا سلطنتیں قربان ہوں مجھے جلد اپنے راز سے آگاہ کیجئے۔ اگر آپ میرے پاس مہمان رہیں تو یہ میری خوش نصیبی ہو گی اور آپ کے قرب سے بوجہ خوشی میری ایک جان سو جان کے برابر ہو گی۔
“ اس طرح بہت سی ترکیبوں سے شاہِ تبوک اس لباس فقر میں ملبوس بادشاہ سے گفتگو کرتا رہا کہ شائد راز منکشف ہو جائے۔ اس نقاب پوش بادشاہ نے شاہِ تبوک کے کان میں درد و عشق کی نہ جانے کیا بات کہہ دی کہ شاہِ تبوک نے درد بھری چیخ ماری اور گریبان چاک کر دیا۔۔۔۔ شاہانہ جاہ و جلال کا ہوش نہ رہا۔۔۔ حسن لازوال کے عشق و محبت میں ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا۔
۔۔۔آدھی رات کا وقت ہوا۔۔۔
دونوں بادشاہ اس ملک سے نکل کر مالک الملک کی طرف کسی اور علاقے میں چل دئیے تا کہ خلقت پریشان نہ کرے اور فراغ قلب محبوب حقیقی کی یاد میں مشغولی نصیب ہو۔ اس نقاب پوش عاشق صادق کی بات میں نہ جانے کیا لذت تھی کہ شاہِ تبوک پر سلطنت کی تمام لذتیں حرام ہو گئیں اور دل عشق الٰہی کا ایک دریا موجزن ہو گیا۔مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں صرف ان دو بادشاہوں کو ہی نہیں اور بھی بے شمار بادشاہوں کو عشق نے ان کے ملک اور خاندان سے جدا کر دیا جب عشق خونی کمان پر چلہ چڑھا لیتا ہے تو لاکھوں سر اس وقت ایک پیسے کے مول بِک جاتے ہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles