Radbeer Or Taqdeer - Article No. 2069

Radbeer Or Taqdeer

تدبیر اور تقدیر - تحریر نمبر 2069

کسی نے کاغذ سے پوچھا:”تیرامنہ تو بہت سفید تھا کالاسیاہ کیوں ہو گیا؟تو نے اپنا منہ کالاکیوں کرلیا؟“

منگل 11 جون 2019

کسی نے کاغذ سے پوچھا:”تیرامنہ تو بہت سفید تھا کالاسیاہ کیوں ہو گیا؟تو نے اپنا منہ کالاکیوں کرلیا؟“
کاغذ نے جواب دیا:”یہ کیا انصاف ہے کہ یہ بات مجھ سے پوچھتا ہے۔میں نے خود اپنا منہ کالا نہیں کیا۔روشنائی سے پوچھ کہ وہ دوات میں جہاں اس کا ٹھکانا اوروطن تھا۔آرام سے بیٹھی تھی کیوں نکلی؟اور میرا منہ کیوں کالا کرگئی؟“
اس نے کہا :”تو نے سچ کہا۔

وہ روشنائی کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کیا وجہ ہے کہ تونے زبردستی کاغذکا منہ سیاہ کردیا۔
اس نے کہا:”بھلایہ بھی مجھ سے پوچھنے کی کوئی بات ہے۔میں تو دوات میں چپ چاپ بیٹھی تھی۔میرا ارادہ یہاں سے باہر نکلنے کا نہ تھا مگر قلم نے مجھ پر زیادتی کی اور مجھے وطن سے بے وطن کردیا میری جمعیت کو تربتر کردیا اور سارے صفحے پر پھیلا دیا۔

(جاری ہے)

تو اس کی وجہ قلم سے پوچھنی چاہئے مجھ سے کیاواسطہ ؟
اس نے کہا تو درست کہتی ہے :
وہ قلم کے پاس گیا اور اس کے ظلم وزیادتی کی وجہ پوچھی اس نے کہا،
”یہ بات مجھ سے پوچھتے ہو میں تو نہروں کے کنارے ہرے بھرے درختوں میں کھڑا تھا۔ہاتھ چھری لے کر پہنچا۔مجھے جڑ سے اکھاڑ کر میری ساری کھل چھیل ڈالی۔میرے کپڑے اتار کر پھینک دئیے۔
میری پور یاں جدا کیں،پھر تراشا ،سر چیرا،قسط لگایا اور دوات میں ڈبودیا۔
وہ مجھ سے دن رات خدمت لیتا ہے اور مجھے سر کے بل چلاتا ہے ۔تو مجھ سے یہ بات پوچھ کہ کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتا ہے؟جادورہوجااور ہاتھ سے پوچھ جس نے مجھے دبارکھاہے۔“
اس نے کہا:”تیرا قول درست ہے۔“
اور ہاتھ سے پوچھا:”تو نے قلم پر کیوں ظلم ڈھار رکھا ہے ؟اس سے رات دن کیوں خدمت لیتا ہے ؟“
ہاتھ نے کہا :”میاں صاحب!میں تو گوشت ہڈی اور خون ہوں۔
تم نے کہیں دیکھا ہے کہ گوشت کسی پر ظلم کرتا ہے یا کوئی عضو خود حرکت کرتا ہے ؟میں تو ایک سواری ہوں۔گھماتا اور پھراتا ہوں دیکھو درخت اور پتھر کوئی بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلتا اور کوئی بھی حرکت نہیں کرتا کیونکہ یہ زبردست ان پر سوار نہیں ہے۔
مردوں کے ہاتھ میں اور مجھ میں کیا فرق ہے وہ کیوں قلم نہیں پکڑتے؟غرض میرا قلم سے کوئی واسطہ نہیں،تمہیں تو یہ سوال طاقت سے کرنا چاہئے،میرا کوئی قصور نہیں ،میں سواری ہوں سوار سے پوچھو؟سوارہی مجھے ہلاتا ہے:
اس نے کہا:”بجا ہے۔

وہ طاقت کے پاس گیا اور پوچھا:
”کیا وجہ ہے تو ہاتھ سے خدمت لیتی ہے اور اسے ادھر ادھر گھماتی پھراتی ہے؟“
اس نے کہا؛
”تم مجھے ملامت نہ کرو۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ملامت کرنے والا خود ملامت کا مستحق ہوتا ہے اور جسے ملامت کی جاتی ہے وہ بالکل بے قصور ہوتا ہے ۔تمہیں میر ا حال معلوم نہیں ۔تم نے کیسے جانا کہ میں نے ہاتھ پر سوار ہو کر اس پر زیادتی کی ہے؟میں ہلانے سے پہلے بھی اس پر سوار تھی ۔
مجھے اسے ہلانے سے کیا غرض میں تو چپ چاپ سوئی تھی اور اسے خراب خرگوش میں پڑی تھی کہ لوگوں کو پتہ تک نہ تھا۔خود ہلتی تھی نہ دوسروں کو ہلاتی تھی،یہاں تک کہ ایک جن آیا اور اس نے مجھے جگادیا۔مجھے ہلایا اور زبردستی مجھ سے کام لیا۔مجھ میں اس کی مخالفت کی طاقت نہ تھی۔اس جن کو ارادہ کہتے ہیں۔میں اس کے نام ہی سے واقف ہوں اور بس اتنا جانتی ہوں کہ ایک دن اس نے چڑھائی کرکے مجھے جگادیا اور زبردستی مجھ سے کام لیا۔
اگر میرا بس چلتا تو میں ذرا بھی حرکت نہ کرتی۔“
اس نے کہا درست ہے :پھر ارادے سے پوچھا:
”تجھے کیا ہوا تھا کہ طاقت پر جو چپ چاب پڑی اطمینان سے سورہی تھی ،جا پڑا اور اسے حرکت دینے میں لگا دیا۔اس پر اسی زبردستی کی کہ تاب مخالفت نہ لاسکی اور بغیر تیرا حکم مانے اسے کوئی چارہ کار نظر نہ آیا۔“
ارادے نے کہا:
”جلد بازی نہ کرو۔
شاید تمہارے عتاب کا عذر میرے پاس ہو۔میں اپنے آپ نہیں بلکہ ایک زبردست کے حکم نے مجھے اٹھا دیا ورنہ اس کے حکم سے پہلے ٹھہرا ہوا تھا۔بارگاہ دل سے علم کا قصد عقل کی زبانی میرے پاس آیا اور یہ پیام دیا کہ طاقت کو اٹھا دے۔میں نے مجبوراً طاقت کو حرکت دے دی۔اس لئے کہ میں بے چارہ علم کا تابع فرمان اور عقل کا قاصدہوں مجھے تو اتنا بھی نہیں معلوم کہ مجھے یہ حکم کیوں دیا گیا اور میں ان کی فرمانبرداری پر کیوں مجبور ہوں ۔

اتنا جانتا ہوں کہ جب تک یہ ایلچی نہیں آتا،میں چین سے رہتا ہوں ۔یہی میرا حاکم ہے خود عادل ہے یا ظالم،میں اس کے لئے ہر دم مستعد رہتا ہوں اور اس کی اطاعت کرنا مجھ پر واجب ہے بلکہ جب یہ حکم کر دیتا ہے تو مجھے تاب مخالفت نہیں رہتی۔اپنی جان کی قسم ،جب تک یہ اپنے حکم میں مترددرہتا ہے۔میں چپکا رہتا ہوں مگر چوکنا اور منتظر رہتا ہوں مگر جب یہ ایک قطعی حکم دے دیتا ہے تو اپنی فطرت سے مجبور ہو کر اطاعت پر آمادہ ہو جاتا ہوں اور طاقت کو جگا دیتا ہوں کہ تعمیل حکم کرے۔
تم اپنا سوال اور عتاب مجھے سے دور رکھ۔علم سے میرا حال پوچھو محکوم کو اطاعت کے علاوہ کیا چارہ کار ہے۔
سائل نے علم ،عقل اور دل سے جا کر پوچھا:
”تم نے ارادے کو طاقت کے جگانے پو کیوں مجبور کیا اور اس سے کیوں خدمت لی؟“عقل نے جواب دیا:
”میں ایک تختی ہوں خود نہیں پھیلی کسی نے پھیلا دیا ہے۔“
علم نے کہا:”میں ایک نقش ہوں جو دل کی تختی پر عقل کی چراغ روشن ہونے کے بعد منقوش ہوابہت دنوں یہ تختی بغیر نقش کے پڑی رہی جس نے اس پر نقش کیا اس سے پوچھو۔”
اس دلچسپ کہانی سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے حکم سے ہوتاہے۔

Browse More Urdu Literature Articles