Rohani Bemari - Article No. 1700
روحانی بیماری - تحریر نمبر 1700
حضرت شعیب علیہ السلام کے زمانے میں ایک آدمی اکثر یہ کہتا رہتا تھا کہ ’’مجھ سے بے شمار گناہ اور جرم سرزد ہوتے رہتے ہیں۔ اللہ کے کرم سے مجھے کچھ نہیں ہوتا‘‘۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے جب اس کی یہ باتیں سنیں تو فرمانے لگے
ہفتہ 12 مئی 2018
حضرت شعیب علیہ السلام کے زمانے میں ایک آدمی اکثر یہ کہتا رہتا تھا کہ ’’مجھ سے بے شمار گناہ اور جرم سرزد ہوتے رہتے ہیں۔ اللہ کے کرم سے مجھے کچھ نہیں ہوتا‘‘۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے جب اس کی یہ باتیں سنیں تو فرمانے لگے: ’’ارے بیوقوف تُو صراطِ مستقیم سے بھٹک گیا ہے۔ تیری مثال اُس سیاہ دیگ کی سی ہے جس پر اسی کا رنگ چڑھتا رہتا ہے۔ اسی طرح تیرے اعمالِ بد نے تیری روح کی پیشانی بے نور کردی ہے۔ تیرے قلب پر زنگ کی اتنی تہیں چڑھ گئی ہیں کہ تجھے خدا کے بھید دکھائی نہیں دیتے۔ جو بدنصیب گناہ میں آلودہ ہو اور اوپر سے اس پر اصرار کرے تو اس کی عقل پر خاک پڑ جاتی ہے۔ اسے کبھی توبہ کی توفیق نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ اسے گناہ کے کاموں میں لذت ملنے لگتی ہے۔
بارگاہِ خداوند سے ارشاد ہوا: میں ستار العیوب ہوں۔ البتہ اس کی گرفت کی ایک واضح علامت یہ ہے کہ یہ نماز، روزے کی پابندی کرتا ہے، زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہے، لمبی لمبی دعائیں بھی مانگتا ہے اور نیک عمل بھی دکھاوے کے لیے کرتا ہے، لیکن اس کی روح کو ان عبادتوں اور نیکیوں سے ذرہ برابر بھی لذت نہیں ملتی۔ ظاہر میں اس کی عبادت اور نیکیاں خشوع و خضوع سے لبریز ہیں لیکن باطن میں پاک نہیں۔ اس کو کسی عبادت میں بھی روحانی سکون حاصل نہیں ہوتا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے درخت میں اخروٹ تو ان گنت لگے ہوں، مگر ان میں مغز نہ ہو۔ عبادت اور نیکیوں کا پھل پانے کے لیے ذوق درکار ہے۔
جب اس شخص کو اپنے باطن کا پتا چلا اور اپنی روحانی بیماری معلوم ہوئی تو وہ بہت حیران و پریشان ہوا۔
درسِ حیات: انسان اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ اس کی بدعملی اور غلط کاری پر اس کی گرفت نہیں ہوتی۔ گرفت کا انداز مختلف قسم کا ہوتا ہے۔ (’’حکایاتِ رومی‘‘)
(جاری ہے)
وہ شخص گمراہ اور بے دین ہوجاتا ہے۔
اس میں حیا اور ندامت کا احساس ہی باقی نہیں رہتا‘‘۔حضرت شعیب علیہ السلام کی یہ باتیں سن کر اس شخص نے کہا ’’آپ علیہ السلام نے بجا فرمایا، لیکن یہ تو بتائیے کہ اگر اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کا مواخذہ کرتا ہے تو اس کی علامت کیا ہے؟‘‘بارگاہِ خداوند سے ارشاد ہوا: میں ستار العیوب ہوں۔ البتہ اس کی گرفت کی ایک واضح علامت یہ ہے کہ یہ نماز، روزے کی پابندی کرتا ہے، زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہے، لمبی لمبی دعائیں بھی مانگتا ہے اور نیک عمل بھی دکھاوے کے لیے کرتا ہے، لیکن اس کی روح کو ان عبادتوں اور نیکیوں سے ذرہ برابر بھی لذت نہیں ملتی۔ ظاہر میں اس کی عبادت اور نیکیاں خشوع و خضوع سے لبریز ہیں لیکن باطن میں پاک نہیں۔ اس کو کسی عبادت میں بھی روحانی سکون حاصل نہیں ہوتا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے درخت میں اخروٹ تو ان گنت لگے ہوں، مگر ان میں مغز نہ ہو۔ عبادت اور نیکیوں کا پھل پانے کے لیے ذوق درکار ہے۔
جب اس شخص کو اپنے باطن کا پتا چلا اور اپنی روحانی بیماری معلوم ہوئی تو وہ بہت حیران و پریشان ہوا۔
درسِ حیات: انسان اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ اس کی بدعملی اور غلط کاری پر اس کی گرفت نہیں ہوتی۔ گرفت کا انداز مختلف قسم کا ہوتا ہے۔ (’’حکایاتِ رومی‘‘)
Browse More Urdu Literature Articles
پانی کا تحفہ
Paani Ka Tohfa
بڑھیا کی بلی
Burhiya Ki Billi
ضمیر کی آواز
Zameer Ki Awaz
بیٹی کی شادی
Beti Ki Shaadi
Urdu AdabAdab Nobal PraizPakistan K Soufi ShaairOverseas PakistaniMushairyInternational Adab
Arabic AdabGreek AdabBangal AdabRussian AdabFrench AdabGerman AdabEnglish AdabTurkish AdabJapanes AdabAfrican AdabEgyptian AdabPersian AdabAmerican Adab
National Adab
ApbeetiAfsanaMazmoonInterviewsAdab NewsBooks CommentsNovelLiterary MagazinesComics WritersAik Kitab Aik Mazmoon100 Azeem AadmiHakayaatSafarnamaKahawatainAlif Laila Wa LailaTaqseem E Hind